Wednesday, February 26, 2014

طویل زندگی کے تجربات آپ کی نظر



امریکہ کا 90سال بوڑھا،سٹیفن فلیمنگ گرم و سرد چشیدہ انسان ہے۔طویل زندگی میں اسے جو تجربات ملے،وہ ان کا خلاصہ کچھ یوں بیان کرتا ہے:
1۔زندگی انصاف پسند نہیں، پھر بھی ہنسی خوشی گزاری جا سکتی ہے۔ 2۔جب شک میں گرفتار ہوں، تو بس یہ کیجیے کہ اگلا قدم اٹھا لیجئے۔ 3۔جب بھی آپ بیمار ہوئے ،تو کام آپ کی تیمار داری نہیں کرے گا،اہل خانہ اوردوست دیکھ بھال کریں گے۔ 4۔ایسی اشیاء مت خریدیے جن کی ضرورت نہ ہو۔ 5۔آپ ہر بحث جیتنے کی کوشش نہ کیجیے،بس نیک نیت رہیے۔ 6۔رونا ہو،توکسی کے ساتھ مل کر رویئے۔تنہا رونے کی نسبت یوں زیادہ آرام ملتا ہے۔ 7۔بدلے وقت میں کام آنے کے لیے کچھ سرمایہ ضرور محفوظ رکھیے۔ 8۔جب پانی سر سے اونچا ہو جائے،تو پھر مزاحمت بے معنی ہے۔ 9۔اپنے ماضی سے دوستی رکھیے تاکہ وہ آپ کے حال کو تباہ نہ کر سکے۔ 10اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں سے نہ کیجیے، آپ نہیں جانتے کہ ان کی زندگیاں کیونکر گزررہی ہیں۔ 11۔ایسا کوئی رشتہ قائم نہ کیجیے جسے خفیہ رکھنا مقصود ہو۔ 12اگر بچے آپ کو روتا ہوا دیکھ لیں،تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ 13۔پلک جھپکنے میں سب کچھ بدل سکتا ہے…مگر پریشان مت ہوں،خدا تعالیٰ پلک نہیں جھپکتے۔ 14۔گہرا سانس لیجیے…یہ دماغ پُرسکون کرتا ہے۔ 15۔ہر بے مقصد شے سے نجات پائیے…بیکار کا بوجھ خود پر سوار نہ رکھیے۔ 16۔جو چیز نقصان دہ نہیں،وہ آپ کو مضبوط بناتی ہے۔ 17خوش رہنے میں کوئی دیر نہیں لگتی…مگر صرف اور صرف آپ ہی خوشی پا سکتے ہیں۔ 18۔صاف کپڑے پہنئیے ،گھر کی صفائی کیجیے،عمدہ کھانا پکائیے، یہ امور کسی خاص موقع کے لیے نہ چھوڑیے…آج کا دن ہی خاص ہے۔ 19اگر آپ تیاری نہیں کر سکے،تو خود کو بہائو کے رخ چھوڑ دیجیے۔ 20۔جب بھی کوئی آفت یا پریشانی حملہ کرے،تو ان الفاظ سے اس کا مقابلہ کیجیے…پانچ برس بعد تمھاری کیا حیثیت ہو گی؟ 21۔ہمیشہ زندگی کا انتخاب کیجیے۔ 22۔مادی قوت کے بجائے روحانیت پر بھروسہ رکھیں۔ 23۔لوگ آپ کے متعلق کیا سوچتے ہیں،اس کی بالکل پروا نہ کیجیے۔ 24۔وقت ہر زخم مندمل کر دیتا ہے… وقت کو وقت دیجیے ۔ 25۔حالات کتنے ہی اچھے یا برے ہوں،بدل جاتے ہیں۔ 26۔کرشموں پر ایمان رکھیے۔ 27۔زندگی کا حساب کتاب نہ رکھیے، بلکہ وہ جیسی بھی ہے،گزاریے۔ 28۔بڑھاپاجوانی میں موت آ جانے سے بہتر ہے۔ 29۔یاد رکھیے ،آپ کے بچوں کو صرف ایک بار ہی بچپن ملے گا۔ 30۔آخر میں صرف محبت ہی کام آتی ہے۔ 31۔روزانہ باہر کا چکر ضرور لگائیے… ہر سو کرشمے آپ کے منتظر ہیں۔ 32۔اگر دنیا کے سبھی انسان اپنے اپنے مسائل پاتال میں پھینک دیں اور آپ ان کا معائنہ کریں، تو اپنے اٹھانے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔ 33۔حسد کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔آپ کو جو حاصل ہے،اس پر قانع رہیے اوراپنی تمنائوں کو لگام دیجیے۔ 34۔ہمیشہ سوچئیے…بہترین وقت آنے والا ہے۔ 35۔آپ کا موڈ کیسا بھی ہو،اُٹھیے،تیار ہوئیے اور اپنا آپ دکھائیے۔ 36۔سرتسلیم خم کیجیے۔ 37۔زندگی تیر سے بندھی کمان ہے،پھر بھی اِسے عظیم تحفہ سمجھیے۔

Tuesday, February 25, 2014

ناشکرے انسان سے رب کا مکالمہ

ناشکرے انسان سے رب کا مکالمہ !

نحنُ خلقناکم فلو لا تصدقون ؟

ھم نے تمہیں بنایا اور تم ھی ھماری بات پر اعتبار نہیں کرتے،نہ ھماری بات کو سچ سمجھتے ھو اور نہ اس کی تصدیق کرتے ھو ! ویسے کمال کرتے ھو !
تم جیسا جھگڑالوُ تو پوری مخلوق میں نہیں ھے،، اور ناشکرا تو تــُــو کمال کا ھے ! ھم نے تمہیں صدیوں امانت کے طور پہ سنبھالے رکھا،جہاں بھی تمہیں شفٹ کیا وھیں تیرا خاص خیال رکھا جیسے ھمیں تیرے سوا کسی سے دلچسپی ھیں نہیں ! زیادہ دور نہ جا ،، ھاں صدیوں پیچھے نہ جا صرف تیرے پردادا سے تمہیں شروع کرتے ھیں،، ھم نے تیرے پردادا کو اس وقت تک مرنے نہیں دیا جب تک تمہیں اس سے نکال کر آگے منتقل نہیں کر دیا ! تیرے پردادا کو تو بیماری سے مار دیا مگر تمہیں اس بیماری سے بچا لیا ،پھر تیرے دادا کو ھم سنبھالے سنبھالے پھرتے تھے کہ اس میں میری ایک امانت ھے ،، اسےھر حادثے سے بچائے رھے تا آنکہ تجھے اس میں سے بچا نکالا اور آگے منتقل کر دیا ! اور تیرے باپ میں بھی ھم تجھ پر نظر رکھے رھے کہ کہیں تو کھو نہ جائے ،تجھے کچھ ھو نہ جائے !

تــــــُــو پیدا ھو گیا !

قتل الانسانُ مآ أکفــــــرہ ! من ای شئً خلقہ ؟ من نطفہ !

مارا جائے یہ انسان ،،'گولہ لگے اسے" یہ کتنا ناشکرا ھے !

کس چیز سے اسے بنا کھڑا کیا؟ نطفے سے !

چلـــــــو تمہیں اس کی یاد نہ ھو گی مگر جو تجھ سے نکلتا ھے اسے دیکھا ھے ؟

اَفَرایتم ما تمنون ؟ جو تم ٹپکاتے ھو ،اسے تم دیکھتے ھو ناں ؟
پھر اس میں سے جو ھم بنا کھڑا کرتے ھیں وہ بھی دیکھتے ھو ناں ؟
یہ کون بناتا ھے تم یا میں ؟؟ تم تو اسے ھاتھ لگانا پسند نہیں کرتے !
تم تو اس سے کراھت کرتے ھو ! اسے بے وقعت گندگی اور فضول چیز سمجھتے ھو ! اس بے وقعت کو قیمتی کون بناتا ھے ،،میں کہ توُ ؟ اس مکروہ کو پسندیدہ کون بناتا ھے،،میں یا تُو؟؟ جس سے تو نفرت کرتا تھا اس میں سے محبوب بنا کر کون کھڑا کرتا ھے ؟ جسے تو چھونا پسند نہیں کرتا تھا ،اس میں سے چومنے چاٹنے والا کون پیدا کرتا ھے،،؟؟
پھر بھی تو ھمارا اعتبار نہیں کرتا،،ھمارے وجود کی گواھی نہیں دیتا ،تو گلی گلی چوک چوک ھمارے تذکرے نہیں کرتا ،وہ گواھی جو تو نے عہدِ الست میں دی تھی وہ تیرے پاس ھماری امانت تھی اس امانت کی خاطر ھم نے تجھے بھی امانت سمجھ کر تجھے صدیوں سنبھال سنبھال کر رکھا اور جب گواھی دینے کا وقت آیا تو ،تو نے صاف کہہ دیا کہ ،، ان ھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا وما نحن بمبعوثین،،یہ دنیا کہ زندگی خود بخود ھے ھم خود ھی جیتے ھیں اور خود ھی مر جاتے ھیں اور ھمیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا !( المومنون 37 ) 
قتل الانسان مآ اکفرہ ! مارا جائے یہ انسان یہ کتنا ناشکرا ھے !
جو پانی تم پیتے ھو کبھی اسے سوچ کی نظر سے بھی دیکھا ھے ؟
اسے بادلوں سے ھم برساتے ھیں یا تم ؟ اگر ھم چاھئیں تو اسے کھارا بنا دیں ،پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے ؟ اب اسے کہاں سے اٹھاتے ھیں کیسے بہاتے ھیں باقی کو پہاڑوں پہ برسا کر محفوظ کرتے ھیں پھر اسے تیرے پیچھے پیچھے بھیجتے ھیں ، دریا پاس نہ ھو تو ھم اسے زمین کی رگوں میں دوڑا کر تیرے گھر کے پاس لاتے ھیں کہ تو اسے کنوئیں سے کھینچ لے !

جو تم مٹی میں دبا کر گھر لوٹ آتے ھو ،اسے کون اگاتا ھے اور تیرے پیچھے بوریاں بھر کر بھیجتا ھے ،، ؟ اگر ھم چاھتے تو اگنے سے پہلے اسے مار دیتے اور تو دُھائیاں دیتا پھرتا کہ میں برباد ھو گیا میری تو اصل بھی ضائع ھو گئ مجھے تو چَـٹی پڑ گئ !

تم اپنے آپ کو تو نہیں بھولے، اپنے خالق اور پالنے والے کو کیسے بھول گئے؟ ما غرک بربک الکریم ؟ اپنے رب کریم کو کیسے بھولے؟ کس نے بھلا دیا ؟ تجھے اپنی ذات یاد ھے پھر اس ذات کو بنانے والا کیونکر بھول گیا؟ تجھے عارضی پتہ یاد ھے تو مستقل پتہ کیسے بھول گیا؟ ھم نے تجھے تین اندھیروں میں سب سے چھپا کر بنایا اور صلاحیتوں سے اس طرح بھر دیا جس طرح شہد کا چھتہ شہد سے بھرا ھوتا ھے،، ھم ھی تیرا باعزت حوالہ ھیں،، تو دوسری نسبتوں سے اپنے کو باعزت ثابت کرنا چاھتا ھے ! ھم نے تجھے بھیجا، اپنے کام سے بھیجا کہ ھماری ھستی کی دھوم مچا دو دنیا میں اور پھر تمہیں ھمارے پاس آ کر جوابدھی کرنی ھے کہ ھمارے وجود کی گواھی دے کر آئے ھو یا تم بھی جا کر مخالف پارٹی سے مل گئے تھے اور ھمارے ھی خلاف گواھی دے آ ئے ھو ،،؟ !

دکھ اور سکھ کی حکمت


دکھ اور سکھ کی حکمت !

دکھ اور شکست دونوں کا کوئی وارث نہیں ھوتا ! 

جبکہ کائنات کے خالق نے دونوں میں بہت حکمت رکھی ھے !

جب آپ ایک دوا مسلسل لیتے رھتے ھیں تو پھر بدن اس کے خلاف مزاحمت کرنے پر قادر ھو جاتا ھے، اب وہ دوا اس کے لئے چاکلیٹ بن جاتی ھے، ڈاکٹر اسے فوراً تبدیل کر دیتا ھے !

جس لمحے آپ کو کوئی خوشی نصیب ھوتی ھے تو ٹھیک اگلے لمحے سے اس کا زوال شروع ھو جاتا ھے اور ھر آنے والا لمحہ ایک سوراخ کی مانند ھوتا ھے جس میں سے وہ خوشی قطرہ قطرہ ٹپک کر ختم ھو جاتی ھے،، نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اب آپ کو خوش ھونے کے لئے خوشی کی مزید ھائی پوٹینسی ڈوز چاھئے،، اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ھے یہانتک کہ جب بندے کے پاس دنیا کی ھر چیز موجود ھوتی ھے مگر خوشی نہیں ھوتی ! اب اسے صرف ایک ھی دوا نظر آتی ھے جو اسے تھرل دے سکتی ھے،کچھ نیا کر سکتی ھے اور وہ موت ھے ! یورپ میں خود کشی کا تناسب امیر گھرانوں میں زیادہ ھے !
غریب کی خوشی بھی چھوٹی سی ھوتی ھے،، وہ شروع میں ھی نس میں لگنے والے ٹیکے کی طرح خوشی کا انجیکشن نہیں لیتا ، بلکہ خوشیوں کی بہت ھلکی سی ڈوز لیتا ھے،، اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ھے اجر بھی لیتا ھے اور اگلی خوشی کا مزہ بھی !

دکھ پہلی خوشی کو نیوٹرلائز کر دیتا ھے، اس خوشی کے مضر اثرات کو زیرو کر کے انسان کو پھر نئ خوشی کے لئے تیار کر دیتا ھے،جس طرح کسان فصل لینے کے بعد اس زمین کے بخیئے ادھیڑ دیتا ھے، اس میں دو پھالی راجہ ھل چلا کر نیچے کا حصہ اوپر اور اوپر کا نیچے کر دیتا ھے،، اسے کھاد دیتا ھے اور سہاگہ چلاتا ھے،یوں اسے نئ فصل کے لئے تیار کر دیتا ھے،، اگر انسان امیری میں غریبوں کے درد کو اپنے اوپر وارد کرتا رھے ، اس درد کو محسوس کرتا رھے اور اس کا مداوہ کرتا رھے تو اب اسے اپنے دکھ کی ضرورت نہیں رھتی،، اور اللہ پاک اسے ذاتی دکھوں سے دوچار نہیں کرتا ! نیز غریبوں کی دعائیں اس کے مصائب کے خلاف ڈھال کا کام کرتی ھیں ! 

جب کسی مریض کو 500 روپے بھی دے دو تو جو جو اور جس قسم کی دعائیں وہ دیتا ھے سن کر انکھیں بھیگ جاتی ھیں ،،یہ 15 بیس درھم ھم یہاں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر جھٹ خرچ کر دیتے ھیں جبکہ کسی اور کے لئے یہی 20 درھم زندگی موت کا مسئلہ ھوتے ھیں ! کبھی اسپتال کے ڈینگی وارڈ کے باھر جا کر دیکھئے، کچھ لوگ سر پکڑے بیٹھے نظر آئیں گے ! پوچھیئے گا تو جواب ملے گا ، ڈاکٹر نے بولا ھے کہ خون کی فوری ضرورت ھے،، آپ اسے کہیئے کہ پھر بیٹھے تماشہ کیا دیکھ رھے ھو جا کر جلدی سے خون لاؤ !! وہ پلٹ کر کہے گا کیسے لاؤں کہاں سے لاؤں میرے پاس تو ٹیکسی کا کرایہ بھی نہیں ! یہ وہ جگہ ھے جہاں آپ کسی کی جان بچا کر اپنی گردن آخرت میں آزاد کر سکتے ھیں ! بات صرف 20 ھزار کی ھے،، 20 ھزار سے زیادہ خون نہیں لگتا مگر کچھ بچے اپنی ماں کی پرشفقت گود سے محروم ھونے سے بچ جاتے ھیں،، کچھ بچے یتیم ھونے سے بچ جاتے ھیں،، 

جو لوگ سود نہیں کھانا چاھتے مگر بینک میں پیسہ رکھنا بھی ان کی مجبوری ھے وہ پیسہ ان لوگوں کو جان بچانے کے لئے دے سکتے ھیں،، وہ ھمارے لیئے ناجائز ھے،، ان اضطرار والوں کے لئے جائز ھے ! لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کر کے اپنے حصے کا درد وھاں محسوس کر لیں گے تو اپنے دکھوں سے بچے رھیں گے ! کسی کے بچے کی ٹانگ ٹوٹنے پر اپ اپنے بچے والا درد محسوس کر لیں گے اور اس کے علاج کے لئے بھاگ دوڑ کریں گے تو آپ کے بچے کی ٹانگ توڑ کر آپ کو دکھ دینے کا پلان اللہ پاک منسوخ کر دیں گے کہ اس نے اپنے مقدر کا درد وصول کر لیا ھے ! یوں آپ کو اجر بھی ملے گا،، گھر سے مصیبت بھی دور رھے گی اور آپ کا بچہ بھی محفوظ رھے گا اور آپ کے قلب و نظر میں رقت و گداز بھی رھے گا اور آپ رب کے قریب بھی ھو جائیں گے

Sunday, February 9, 2014

ایسی تیسی میرے گناھوں کی



جب آپ رات تیسر پہــر نفل پڑھ رھے ھوں
 سر سجدے میں ھو تھوڑی دیر سکوت اختیار کیجئے اچھی طرح اپنی ھیئت کا جائزہ لیجئے کہ آپ کا سر ربِ قدوس کے قدموں میں دھرا ھے جس نے آپ کو بخشنے کے لئے نزول فرمایا ھے ! اس جائزے کے بعد آپ آٹو سے مینوئل پر منتقل ھو جائیں گے،اب آپ آرام کے ساتھ تسبیح پڑھئے ،اس طرح کی سبحان کے بعد ربـــــــــــــــــــــی کو لمبا کھینچیں،،اس ربی میں دو ھستیاں ھیں ایک آپ کا رب ھے اور دوسرے آپ ھیں اس ربـــــــــــــــــــــی کو کھینچ کر ان کا آپس میں رابطہ بحال کریں، اس وقت وہ ربنا نہیں ھے،،وہ صرف میرا رب ھے،میرے لئے نزول فرمایا ھے، سبحان ربــــــــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــی،یہ " ی " آپ ھیں ،، اپنے کو لمباڈالیں اس کے قدموں میں ، اب آپ تسلی کے ساتھ اپنے رب قدوس کو اپنی مادری زبان میں مخاطب کیجئے اور اپنے گناہ بیان کرنا شروع کیجئے ! میرے مولا ،میرے آقا ،میرے پالنے والے ،مجھے پیدا کرنے والے ،مجھے شکل و صورت عطا فرمانے والے ،مجھ پر نعمتوں کی بارش کرنے والے،میری ذرا ذرا ضرورتوں کا خیال رکھنے والے مجھے سنبھال سنبھال کر رکھنے والے ،اب میرے کارنامے سن ،میرے کرتوت سن ،میری ناشکریاں بھی سن،، بسم اللہ کر کے اپنی خالص مادری زبان میں گنوانا شروع کیجئے ابھی آپ تین یا چار ھی گنوا پائیں گے کہ گناہ اس تیزی سے  پاپ اَپ کرنا شروع کریں گے جیسے موسلا دھار بارش میں بلبلے اٹھتے ھیں،، یہ اللہ کی رحمت کی بارش میں اٹھنے والے بلبلے ھیں جو اٹھتا ھے پھٹتا ھے اور مٹتا جا رھا ھے،، لگتا ھے گناھوں میں مسابقت کی دوڑ لگ گئ ھے ،ھر گناہ چاھتا ھے کہ پہلے وہ شمار کیا جائے ! یہ وھی کیفیت ھے جو نبی کریم ﷺ کے اونٹوں کی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو حجۃ الوداع میں ذبح فرما رھے تھے تو ھر اونٹ دوسرے سے پہلے حضورﷺ کے پاس پہنچنا چاھتا تھا،، اسی طرح آج گناھوں کو پاک ھونے کی جلدی ھے،آپ کی زبان ان کی جلدی کا ساتھ نہیں دے سکے گی وہ گنگ ھو جائے گی،ھونٹ تھرتھراتے رہ جائیں جائیں گے، مگر آپ فکر مت کریں ، انہ علیمٓ بذات الصدور ،، وہ سینوں کے سارے بھید جانتا ھے،، آپ بس دھیان جمائے رکھئے گناھوں کے بلبلے پھٹنے دیجئے،، یہ گناہ آج ایکسچیج ھو رھے ھیں،، ُیبَدِۜلُ اللُہ سیئاتھم حسنات ! اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے تبدیل کر دے گا،، آج تبادلے ھونے ھیں،، بڑے بڑے کرنسی نوٹ پہلے گنتی کیئے جاتے ھیں،، ھر بڑا گناہ چاھتا ھے پہلے اسے پاک کیا جائے ،، اترنے والا خالی ھاتھ نہیں آیا ،، وہ رحمت کے خزانوں کے ساتھ آیا ھے،، وہ گناھوں کو نیکیوں سے تبدیل کرتا ھے، پھر نیکیوں کو دس سے ضرب دیتا ھے تو کچھ کو سات سو سے ضرب دیتا ھے،، اس کیفیت میں سجدے کو چلنے دیجئے،دس منٹ ، پندرہ منٹ، کوئی مسئلہ نہیں اسے چلنے دیں،،شاید کل ھی یہ توفیق نہ رھے،،ھمیں بیٹھ کر نماز پڑھنی پڑ جائے،،اشارے سے سجدہ کرنا پڑ جائے،، آج ماتھے کو اس کی لذت لینے دیجئے ،،، آپ اس کیفیت کے ساتھ صرف دو رکعت پڑھ لیجئے ، پھر آپ کو رب ھر جگہ اپنے ساتھ محسوس ھو گا ،، آپ لوگوں سے سوال نہیں کریں گے کہ رب کہاں ھے،، آپ ان کو بتائیں گے کہ میرا رب یہاں ھے،، کلا ان معی ربی،،میرا رب میرے ساتھ ھے،، ان اللہ معنا ،، بیشک اللہ ھمارے ساتھ ھے،،اللہ کی یہ" معـــیت " آپ کو اس کیفیت سے دو چار کر دے گی،جسے" لا خوفٓ علیھم ولا ھم یحزنون "کہتے ھیں! ایک طرف اپنی ذات کے اندر تکبر ،غرور،حسد، کینہ جیسی برائیاں آپ دیکھیں گے کہ گویا ڈس ایبل اور معطل ھو گئ ھیں تو دوسری طرف کسی کے کسی فعل کا کوئی رد عمل آپ میں پیدا نہیں ھو گا،، آپ کی شخصیت کو لیمینیٹ کر دیا جائے گا،جس طرح پلاسٹک کور کرنے کے بعد کاغذ جیسی کمزور چیز پر بھی پانی وانی کا اثر نہیں ھوتا،،اسی طرح آپ پر آفس والوں کی کسی سازش کا اب کوئی اثر نہیں ھو گا،، فلاں میرے باس کو بھڑکا دے گا،، میری ترقی رکوا دے گا، یہ ساری باتیں آپ کو اب ثانوی اور معمولی لگنا شروع ھو جائیں گی اور لگنی بھی چاھئیں کیونکہ تقدیروں کا لکھنے والا تو آپ کے ساتھ ھے،،عزت اور ذلت دینے والا آپ کے ساتھ ھے،امیر اور غریب کرنے والا،ارزاق کا بندوبست کرنے والا تو آپ کے ساتھ ھے ،اگر آپ بیوی ھیں تو شوھر کی کوئی بات آپ کو محسوس نہیں ھو گی،یوں لگے گا جیسے آپ کی ذات ھر رد عمل سے ڈس ایبل کر دی گئ ھے،، نہ کوئی خوف نہ کوئی غم،، ان اللہ معنا !!
 یہ صرف دو رکعت کی بات ھے !
 آزما کر دیکھئے اور پھر اپنا اگلا دن بھی آزما کر دیکھ لیجئے !! اللہ پاک آپ کے آنسوؤں کے صدقے میرے خشک سوتے بھی رواں کر دے !


دولتیں مل گئ ھیں آھــوں کی --- ایسی تیسی میرے گناھوں کی !

سماجی زندگی جہنم


ھم صدیوں سے ایسے ایسے تصورات پالے بیٹھے ھیں جنہوں نے آج بھی ھماری سماجی زندگی جہنم بنا رکھی ھے،، جو جتنا دیندار ھے وہ اسی قدر بے سکون ھے، وہ اس بے سکونی کا علاج ٹھیک اسی بیماری سے کرتا ھے جس کی وجہ سے بے سکون ھے،نتیجہ مزید بے سکونی، جسے وہ دوا سمجھ رھا ھے وہ اصل میں داء ھے،،، میں پہلے اس موضوع پر لکھ چکا ھوں -اس کے بارے میں مرد وزن کی کوئی تخصیص نہیں اگرچہ اس سے بربادی زیادہ تر خواتین کی ھوتی ھے،،اس میں پڑھے لکھے یا جاھل ان پڑھ کی بھی کوئی تخصیص نہیں،، میرے پاس اسپیشلسٹ مرد اور لیڈی ڈاکٹرز کے کیسز بھی آتے ھیں اور کثرت سے آتے ھیں،، امیر اور غریب کی تخصیص بھی نہیں، امریکن اور یورپین ممالک سے بھی کثرت سے ایسی مثالیں سامنے آتی ھیں،مثلا صرف پچھلے سال مجھے امریکن ڈاکٹرز جوڑے جس میں میاں بیوی دونوں ھی ڈاکٹرز ھوتے ھیں ان سے واسطہ پڑا،مگر بیماری یہی دیکھی کہ اگر بیوی مذھب کی طرف راغب ھوئی ھے تو گھر گرھستی کو عیب سمجھتی ھے،،شوھر کے حقوق سے لاپرواہ ھو گئ ھے،اپنی ذات کو بھی بھول گئ ھے، نہ میک اپ نہ کپڑوں کا خیال ،نہ ھنسی مذاق ،بس ھر وقت سوچوں میں ڈوبی کہ مرنا ھے، ھائے مرنا ھے،، کدھر جاؤں گی میرا کیا بنے گا؟؟؟،،پورا گھر موت کے سناٹے میں ڈوبا ھے یا وظائف کی سرگوشیاں ھر کمرے میں ایک مصلی بچھا ھے جس پر تسبیح اور اذکار کی کتاب رکھی ھے زیادہ سے زیادہ نوافل،وظائف ،منزلیں پڑھ پڑھ کے اپنی حقیقی منزل کھو بیٹھی ھے، اور پوچھنے پھر یہی آتی ھے کہ اگر کوئی کسر رہ گئ ھے تو وہ قاری حنیف کے وظیفے سے پوری کی جائے،، میرا مشورہ ان کو یہی ھوتا ھے کہ سارے وظیفے اور منزلیں چھوڑو،، صرف نماز اور فرض روزوں کا اھتمام کرو اور اپنے شوھر کے اردگرد رھا کرو یہ مٹی کا مادھو بڑی چیز ھے،تیری جنت اس کی خوشی میں ھے،، نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ھے،جو عورت عصمت کی حفاظت کرتی ھے ،فرائض کا اھتمام کرتی ھے اور اپنے شوھر کو خوش رکھتی ھے، وہ اگر اس حال میں مر جائے کہ اس کا شوھر اس سے خوش ھو تو اسے کہا جائے گا جنت کے جس دروازے سے چاھے جنت میں چلی جائے ! مگر میرا یہ کہنا کوئی خاص فرق اس لئے نہیں ڈالتا کہ اس کا تعلق عمل کے ساتھ ھے اور عمل کا تعلق اس سافٹ وئیر کے ساتھ ھے جو ھمارے دل و دماغ میں انسٹال ھے ! وہ خطرناک سافٹ ویئر نیک بندے یا ولی اللہ کا تصور ھے،، ھم جس مذھب سے بدل کر نئے مذھب میں آئے ھیں، افسوس یہ ھے کہ یہاں بھی ایک مذھبی اور خدا ترس شخص کے بارے میں تصور سو فیصد وھی ھے ،، کسی بھی ڈرامے یا فلم میں آپ دیکھ لیں ھندو سادھو اور ھمارے فلمی ولی اللہ میں ایک منکے کا بھی فرق نہیں ھو گا،، کٹے پھٹے کپڑے،،سر اور داڑھی کے بے ھنگم بڑھے ھوئے بال، ھاتھ مین کشکول ،گلے میں مالاؤں کی لمبی قطار ھاتھ رنگ برنگے پتھروں والی انگوٹھیوں سے مزین ،، الغرض جو ھمارے اجداد نے ھندو ازم میں نیک انسان کا روپ دیکھا تھا وھی اسلام میں بھی تخلیق کر لیا،، عورت جب نیک ھوئی یا اسے نیکی کا دورہ پڑا تو اسے اپنی ازدواجی زندگی پر پچھتاوہ آیا کہ وہ کس گــند میں پڑ گئ ھے،، ھر بار ازدواجی عمل سے گزرنا اس کے احساسِ جرم میں اضافہ کر دیتا ھے،جس کا مداوہ وہ نوافل کی زیادتی اور وظائف کی کثرت سے کرتی ھے،، جس کے نتیجے میں شوھر کے دل میں مذھب کے بارے میں ایک ری ایکشن پیدا ھونا شروع ھو جاتا ھے جو اس سے اس کی بیوی چھینے لئے جا رھا ھے وہ اسے دین نہیں بلکہ جن سمجھتا ھے جو اس کی بیوی کو چڑھ گیا ھے،، بیوی کا رویہ سرد مہری میں تبدیل ھوتا جاتا ھے،، وہ ھنستی نہیں کہ اس کی ھنسی کہیں شوھر کے جنسی جذبے کو ایکٹیویٹ نہ کر دے،، وہ شوھر کو دور رکھنے کے لئے نماز لمبی کر دیتی ھے کہ شوھر سو جائے،، وہ دن کو روزہ رکھتی ھے کہ شوھر مجبور نہ کر سکے،، اور شوھر پر یہ ستم کرنے کے بعد وہ یہ توقع بھی رکھتی ھے کہ شوھر اس کے پاؤن دھو کر بھی پیئے کیونکہ وہ رابعہ بصری بن گئی ھے،جبکہ شوھر اس سے اور اسکی دینداری سے نفرت کرتا ھے، بچے بھی گھر کے افسردہ ماحول سے متأثر ھوتے ھیں،، چند سال میں وہ گھرانہ بکھر کر رہ جاتا ھے،، طلاق ھو جاتی ھے یا شوھر دوسری شادی کر لیتا ھے،،کیونکہ اسے ھنسنے کھیلنے والی بیوی چاھئے مائی طوطی نہیں چاھئے،، ایسی ضرورت سے زیادہ نیک عورت کا شوھر کسی بھی عورت کی صرف ایک مسکراھٹ کی مار ھوتا ھے،،اسے خوبصورتی سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں ھوتا،،عموماخوبصورتی پہلی شادی میں اھم فیکٹر ھوتی ھے،،دوسری شادی میں دیگر عوامل کو اھمیت اور اولیت حاصل ھوتی ھے،،عام طور پر دوسری عورت پہلی عورت سے کم خوبصورت ھوتی ھے ،،اور ساری عورتیں تبصرے کرتی پھرتی ھیں،ھائے یہ کیا؟، اتنی خوبصورت بیوی کے ھوتے ھوئے یہ دوسری چڑیل کیوں لے آیا ھے،، جوتا جس کو چبھتا ھے اسی کو پتہ ھوتا ھے کہ خوبصورتی کہاں کاٹ رھی ھے،، پہلی بیوی بھی اب کہتی پھرتی ھے مجھ میں کیا کمی تھی،، نیک پاک خوبصورت اللہ سے ڈرنے والی چھوڑ کر دوسری کیوں لے آیا ھے،؟؟ انسان ایک وقت صرف ماں کے خون پر جیتا ھے،اس کا اپنا منہ بند ھوتا ھے،،پھر ماں کے دودھ پر،، پھر نرم غذا پر،، پھر ٹھوس غذا پر،،، اسی طرح جوں جوں انسان سماج میں بڑا ھوتا ھے،، ذمہ داریاں بھی نرم سے ٹھوس ھوتی جاتی ھیں،، عورت کا گھر گرھستی کرنا دین کا تقاضہ اور اللہ کی طرف سے ڈالی گئ ذمہ داری ھے،، کوئی بے دینی نہیں کہ جس پر پچھتایا جائے،، اور ڈیپریشن کا شکار ھوا جائے،، ازدواجی تعلق کوئی گناہ نہیں دینی فرائض میں سے اھم فریضہ ھے،، اس کا اجر نوافل سے بڑھ کر ھے،عورت نفل نماز اور نفلی روزہ شوھر کا موڈ پوچھ کر رکھ سکتی ھے،، اگر اس کا پروگرام کوئی اور ھے تو باقی سارے پروگرام منسوخ،، اس عورت پر اللہ اور اس کے رسول اور فرشتوں کی لعنت ھوتی ھے جو ضرورت کے وقت شوھر کو بلا شرعی عذر " انکار "کر  دے،،، جمعے کے دن اس بات کا خصوصی حکم دیا گیا ھے کہ جنسی طور پر دونوں میاں بیوی مطمئن ھوں،، من غسل واغتسل ،، کا اشارہ اسی طرف کیا گیا ھے،، بچوں اور شوھر کی ذمہ داریوں کی وجہ سے عورت کو جمعہ اور جماعت سے چھٹی دی گئ ھے،، اس کا تنور پر روٹیاں پکانا ،، اس کا جمعہ ھے، اپنی ظہر پڑھ لے،، بہت ساری صحابیات نے نبی کریم ﷺ کے خطبے کو تندور پر روٹیاں پکاتے سنا اور سورتیں یاد کیں،، اس لیئے میری اس بیٹی سے گزارش ھے جس نے سوال بھیجا ھے کہ وہ اپنے ڈیپریشن سے نکلے، گھریلو ذمہ داریوں کو خدا سے دوری نہ سمجھے اور اس کا حل وظیفوں میں نہ ڈھونڈے،، اس کا علاج اس کے اپنے بچوں میں ھے،، ان سے ترشی سے پیش نہ آئے ،، وہ اس کی ذمہ داری ھیں جن کے بارے میں اس سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا،، دل میں زنگ نہین لگا بلکہ شک کا مرض لگ گیا،، اللہ کا ذکر نماز کی صورت میں ظاھر میں موجود ھے،، اور دل میں وہ کام کاج کرتے ٹی وی چینل کے ٹِکر کی صورت وہ ھر وقت چلتا رھتا ھے،، جہاں کمی ھے اسے پورا کرو،،نوافل کی کثرت اس کمی کو پورا نہیں کر سکتی،،تمہارے یہ ھنسنے کھیلنے کے دن ھیں،،اس ھنسی سے اللہ خوش ھوتا ھے،ناراض نہیں ھوتا،،! اب آیئے مرد حضرات کی طرف،، یہ عموماً جب نیک ھوتے ھیں یا دورہ پڑتا ھے تو بستر لے کر گھر سے غائب ھو جاتے ھیں،، اس تصور سے کہ وہ دنیا مین پھنس گئے ھیں لہذا وہ گھر سے فرار کو دنیا سے فرار سمجھتے ھیں،، 3 دن اللہ کے لئے زکوۃ کے طور پر نکالتے ھیں،، باقی 27 دن احساسِ جرم مین گزارتے ھیں کہ وہ دنیا کے گند میں ملوث ھیں،،جو جتنا گھر والوں سے بھاگا رھتا ھے وہ اتنا بڑا بزرگ ھوتا ھے، اور اکابر مین گنا جاتا ھے،، ان کے گھر والے انتقاماً دین سے دور ھوتے چلے جاتے ھیں ،،اولاد برباد ھو جاتی ھے اور بیوی سرکش،، جس چیز کو ان کی ذمہ داری میں دیا گیا تھا وہ اس سے فرار اختیار کر کے نکل بھاگے ھیں،، بیوی ادھر کروٹیں بدل رھی ھے اور وہ پارا چنار کے کسی بوڑھے کے پہلو میں سوئے دین کی خدمت کر رھے ھوتے ھیں،، گھر میں بیوی شوگر کی مریض ھے،، بچہ پیدا ھونے والا ھے،، شوگر 400 سے اوپر ھے،، مگر وہ اسے چھوڑ کر چار ماہ لگانے گئے ھوئے ھیں کہ پیچھے فرشتے خیال رکھیں گے،، بچہ اٹھوایا تو انہوں نے تھا ،مگر اب ڈیلوری کے لئے فرشتے آئیں گے،، بیوی رات کو شوگر کی زیادتی کی وجہ سے کومے میں چلی گئ،، صبح بچوں کو پتہ چلا،، پڑوسیوں کو بلایا گیا،،غیروں نے حاملہ عورت کو گھسیٹ گھساٹ کے گاڑی میں ڈالا،، اسپتال پہنچایا،، بچہ ضائع ھو گیا عورت پورے دو ماہ کومے میں رھی،، اور خدا خدا کر کے ھوش آیا تو بھی بعض اعضاء سے معذور ھو گئ،،یہ میرے پڑوس کا واقعہ ھے،، اب اس کے نتیجے میں ان کی ساری اولاد قابو سے نکل گئ ھے،، اسی قسم کے ڈھیر سارے معاملات گنوائے جا سکتے ھیں،،یہاں سے نام لکھوایا ھے،،والدہ بیمار ھے گھر نہیں گئے کہ یہ وقت امانت ھے میں خیانت نہیں کر سکتا،، والدہ کو ایئر پورٹ ھی لایا گیا،،والدہ سے ملاقات کی ھے،سسکتی والدہ کی حالت بھی دیکھی ھے مگر اسے اسی حالت میں  چھوڑ آگے روانہ ھو گئے،، والدہ دوسرے دن فوت ھو گئ،، موبائل کا زمانہ نہیں تھا،، یہ صاحب اللہ کو راضی کرتے رھے !! حالانکہ رسول اللہ نے غزوہ تبوک جیسے نازک موقعے پر بھی جہاد کے لئے آنے والے جوان سے پوچھا تھا کہ کیا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ھے،اس نے کہا تھا کہ جی دونوں ھیں،،پھر پوچھا " ان کی رضامندی لی ھے؟ جواب دیا ان کو روتا ھوا چھوڑ آیا ھوں! آپﷺ نے فرمایا جا اب جا کر انہیں ھنسا جس طرح انہیں رلایا ھےیہ ھے حقیقی اسلام جو سب سے پہلے گھریلو ذمہ داریوں سے شروع ھوتا ھے،، مروجہ تبلیغ ایک مخصوص علاقے کے ماحول اور مسائل کو لے کر اجتہادی طور پر شروع کی گئ،،مگر یہی نبیوں کا طریقہ بن گئ حالانکہ یہ خود ھمارے نبیﷺ کا طریقہ بھی نہیں ھے،،  یہ ھے وہ مقام جہاں حقوق العباد کی خلاف ورزی خود گھر سے شروع ھوئی ھے،، یہ تصور ھی سرے سے غلط ھے کہ گھر داری کوئی گناہ اور دنیا داری ھے،،بلکہ یہ عین دینداری ھے ! جب تک ھم اپنے تصورات( کانسیپٹس) درست نہیں کریں گے یہ تباھی و بربادی چلتی رھے گی

عرقِ حیات کا راز اب آپ کے پاس


مرید نے مرشد کو اچھے موڈ میں دیکھا
تو با ادب ھو کر گویا ھوا ! میرے مرشد مجھے عرقِ حیات کے متعلق تو کچھ بتائیے ،کیا اسی کو آبِ حیات کہتے ھیں؟ اور اس پانی کا چشمہ پھوٹتا کہاں سے ھے ؟؟؟ مرشــد نے گہری نظر سے مرید کی طرف دیکھا اور سوچ میں ڈوب گیا،جب کافی دیر گزر گئ تو مرید کو یوں لگا جیسے اس نے اپنے مرشد کو ناراض کر دیا ھے،، وہ پھر ڈرتے ڈرتے بولا، حضرت جی اگر میرے سوال سے آپ کو کوفت ھوئی ھے تو میں معافی کا طلبگار ھوں ! ایک لمبی ' "ھـُـــــــوں" کے بعد مرشد نے نرمی سے بولا، نہیں میں ناراض تو نہیں ھوا مگر فکرمند ضرور ھوں ،،میں نے جب یہ سوال اپنے مرشد سے کیا تھا تو ھمارے درمیان 12 سال کی طویل جدائی پر گئ تھی ،،میں سوچ یہ رھا تھا کہ پتہ نہیں میں تمہاری یہ طویل جدائی برداشت کر سکوں گا بھی یا نہیں،، اس دوران اگر میری اجل آگئ تو کہیں تمہاری محنت ضائع نہ ھو جائے،، بیٹا یہ عرقِ حیات یا آبِ حیات ،، یہ الفاط میں نہیں سمجھایا جا سکتا،، سمجھاؤ تو سمجھ نہیں آتا ! اس لئے میرا مرشد تو آب حیات کے چشمے کےکنارے کھڑا کر کے ،اس میں انگلی ڈبو کر دکھایا کرتا تھا کہ یہ ھے عرقِ حیات !! میں نے یہ سوال اپنے مرشد سے ان کی جوانی میں پوچھ لیا تھا ،، تم نے بہت دیر کر دی ھے،، خیر اللہ بہتر کرے گا،، میں تمہیں ایک پودا دکھاتا ھوں ،، اس پودے کے پھول کا عرق تم نے ایک چھوٹی شیشی میں بھرنا ھے اور جب یہ شیشی بھر جائے تب میرے پاس واپس آنا ھے،، یہ عرق ھی ھماری آنکھوں میں عرقِ حیات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے گا !!یاد رکھنا ایک پھول سے صرف ایک قطرہ رس نکلتا ھے ، اور اگر شیشی فوراً بند نہ کرو تو فوراً اڑ بھی جاتا ھے،، اور یہ پودا جنگل میں کہیں کہیں ملتا ھے ! اس کے بعد مرشد نے ایک درمیانے سائز کی شیشی اپنے مرید کو پکڑائی اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کر دیا ! مرید بہت پرجوش تھا،، آبِ حیات کا معمہ بس حل ھونے کو تھا ، اور اسے آبِ حیات کو دیکھنے اور چھونے کا موقع ملے گا،، مگر ایک تو اس پودے کو ڈھونڈنا ایک جوکھم تھا تو ایک پودے کے ساتھ ایک پھول اور ایک پھول میں ایک قطرہ ،، الغرض اسے بارہ سال لگ گئے بوتل بھرنے میں ،، جس دن اس کی بوتل بھری وہ دن اس کے لئے ایک نئ زندگی کی نوید تھا،، ایک طرف وہ پھولے نہیں سما رھا تھا تو دوسری طرف اسے بار بار یہ خیال ستا رھا تھا کہ اگر اس دوران مرشد اللہ کو پیارے ھوگئے تو اس کی محنت ضائع چلی جائے گی کیونکہ آبِ حیات کو چشمہ تو صرف مرشد کو ھی پتہ تھا !! وہ خیالات میں غلطاں و پیچاں کبھی چلتا تو کبھی دوڑتا،، اپنے مرشد کے ٹھکانے کی طرف رواں دواں تھا،، مرشد کے ڈیرے پہ نظر پڑنا تھا کہ وہ بیتاب ھو کر دور سے ھی چلایا ،، میرے مرشد ،، اے میرے مرشد، دیکھ میں اپنی تپسیا میں کامیاب رھا،،میں بوتل بھر لایا ھوں ،، اس کی آواز پر مرشد اپنے کٹھیا سے بار نکلا ،، بارہ سالوں نے اس کی کمر دھری کر دی تھی مگر وہ بھی مرید کی کامیابی پر خوش نظر آتا تھا !! اپنے مرشد پر نظر پڑنا تھا کہ مرید بے اختیار دوڑ پڑا اور یہی بے احتیاطی اسے مہنگی پڑی، ٹیڑھے میڑھے رستے پر قدم کا سٹکنا تھا کہ مرید لڑکھڑایا اور عرق سے بھری شیشی اس کے ھاتھ سے چھوٹ کر ٹھاہ سے پتھر پر لگی اور چورا چورا ھو گئ،، عرق کے کچھ چھینٹے مرشد کے پاؤں پر پڑے باقی کو جھٹ زمین نگل گئ،، بے اختیار مرید کی چیخ نکل گئ ،،میرے مرشد میں لٹ گیا میں برباد ھو گیا میری محنت ضائع ھو گئ ،،میرے بارہ سال کی مشقت مٹی بن گئ،، میرے مرشد میں تباہ ھو گیا،، مرشد اپنے مرید کو چھوڑ کر اندر گیا اور ایک اور چھوٹی سی شیشی لایا جس میں اس نے روتے سسکتے مرید کے آنسو بھرنا شروع کر دیئے ،، اور وہ شیشی بھر لی !! اب مرید رو رھا تھا تو مرشد ھنس رھا تھا،، میرے مرشد میری زندگی برباد ھو گئ اور آپ مسکرا رھے ھیں ؟ مرید نے تعجب سے پوچھا !! مرشد اسے اندر لے گیا اور بکری کے دودھ کا پیالہ پینے کو دیا ،، پھر اس نے اس چھوٹی شیشی کو کھولا جس میں مرید کے آنسو بھرے ھوئے تھے، اور اپنی انگلی کو ان سے گیلا کر کے کہا کہ یہ ھے " عرقِِ حیات " یا " آبِ حیات " یا مقصدِ حیات !! اور پھر آنسوؤں میں ڈبڈباتی اس کی آنکھوں کو چھو کر کہا یہ ھیں آبِ حیات کے چشمے !! یاد رکھو ! اللہ نے انسان کو ان آنسوؤں کے لئے پیدا کیا ھے ،، ان میں ھی زندگی چھپی ھوئی ھے،، کچھ اس کی محبت میں زارو قطار روتے ھیں جیسے انبیاء ،، اور کچھ اپنے عملوں کے بھرے مٹکے جب اپنی ذرا سی غلطی سےگرتے اور ٹوتے اور اپنی محنتیں ضائع ھوتے دیکھتے ھیں تو تیری طرح بلبلاتے ھیں ،، جس طرح پانی نکلنے اور نکالنے کے مختلف طریقے ھیں اسی طرح انسانوں میں بھی ان کی طبائع کے تحت ان آنسوؤں کا سامان کیا گیا ھے،، یاد رکھو آسمان پر بھرنے والے بہت سارے ھیں مگر شیشی کسی کی نہیں ٹوتتی ،، آسمان والوں کے مٹکے ھر دم بھرے رھتے ھیں،،وھاں مٹکے ٹوٹنے کے اسباب نہیں رکھے گئے ، ان کے رونے میں تسبیح ھے،، پچھتاوہ نہیں ھے ! ھمیں اسی مقصد سے بنایا گیا ھے،پھر اس دنیا کے ٹیڑھے میڑھے رستوں پر ھاتھ میں تقوے کی بوتل دے کر دوڑایا جاتا ھے ،، اور جب ذرا سی بے احتیاطی سے تقوے کی وہ سالوں کی محنت کسی گناہ میں ڈوب جاتی ھے اور ھم پچھتاتے ھیں اور زار و قطار روتے ھیں تو اللہ فرشتوں کو اسی طرح ھمارے آنسو سمیٹنے پر لگا دیتا ھے جس طرح آج میں نے تیرے آنسو شیشی میں جمع کئے ھیں !! یہ وہ پانی ھے جس سے جہنم کی آگ بھی ڈرتی ھے،، اللہ کے رسول ﷺ نے حشر کا نقشہ کھینچا ھے کہ جہنم کی آگ فرشتوں کے قابو میں نہیں آ رھی ھوگی،، اور میدانِ حشر میں باغیوں کی طرف پھنکاریں مارتی ھوئی لپکے گی،، فرشتے اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے تو اللہ پاک جبرائیل سے فرمائیں گے کہ وہ پانی لاؤ ،، اور پھر جبرائیل اس پانی کے چھنٹے مارتے جائیں گے اور آگ پیچھے سمٹتی جائے گی یہاں تک کہ اپنی حد میں چلی جائے گی،، صحابہ نے پوچھا کہ ائے اللہ کے رسولﷺ وہ کونسا پانی ھو گا؟ آپ نے فرمایا اللہ کے شوق میں اللہ کے خوف سے رونے والوں کے آنسو ھوں گے جو اللہ نے آگ پر حرام کر رکھے ھیں!! یہی وہ رونا ھے جو امیر خسرو روتے ھیں کہ
!!
بہــــت ھـــــــی کٹھــــــن ڈگـــــــر پنگھـٹ کی !
کیسے بھــــر لاؤں میـں جھـــٹ پٹ مٹــــــــکی ؟

یہی وہ آبِ حیات ھے جس کی بشارت انسان کو دی گئ ھے کہ اس کے چشمے اس کی اپنی ذات کے اندر ھیں !! تن تیـرا رب سَچے دا حـجـــــرہ ، پا اندر ول جھــاتی !! نہ کــــــر مِنـت خـــواج خضــر، تیرے اندر آبِ حیـاتی ! اسی کی طرف میاں محمد بخش صاحب اشارہ کرتے ھیں
!
سب سیاں رَل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مُڑسی بھر کے !
جنہاں بھـریا ، بھــر سِر تے دھــریا، قدم رکھن جَـر جَـر کے !

یعنی تمام روحیں اصل میں ان سہیلیوں کی طرح ھیں جو کنوئیں سے پانی بھرنے جاتی ھیں،،مگر ان میں سے کوئی کوئی بھر کر واپس آئے گی بہت ساریوں کے گھڑے رستے میں ٹوٹ جاتے ھیں،، لیکن جو بھر کر سر پر رکھ لیتی ھیں ان کے قدم رکھنے کا انداز بتاتا ھے کہ ان کا گھڑا بھرا ھوا ھے ! وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتی ھیں ! یہ مضمون اللہ پاک نے سورہ الفرقان میں اپنے بندوں کی تعریف کرتے ھوئے بیان کیا ھے،، و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارضِ ھوناً ،،،، رحمان کے بعد بندے زمین پر بہت تھم تھم کرقدم رکھتے ھیں یعنی پروقار چال چلتے ھیں،، ان کی چال بتاتی ھے کہ گھڑا بھرا ھوا ھے ! میاں صاحب دوسری جگہ فرماتے ھیں ! لوئے لوئے بھر لے کُڑیئے جے تدھ بھانڈا بھرنا ! شام پئــی بِن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا !! یہ بھرے گھڑے تڑوانے والوں کا ذکر اللہ پاک نے قرآن حکیم بھی بار بار کیا ھے،، ائے ایمان والوں تمہارے ازواج اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ھیں،،ان سے خبردار رھو !( التغابن )
 میاں صاحب فرماتے ھیں
!
اکھیوں انَۜا تے تِلکَن رستہ کیوں کر رھے سنبھالا ؟
دھـــکے دیــون والے بُہــتے تُـــو ھتھ پکــڑن والا !
اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھا ھوں،ان مادی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا، اور رستہ بھی پھسلن والا ھے،، دوسری جانب ھر بندہ اس پھسلن رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والا ھے ،،جب کہ صرف تیری ذات ھاتھ پکڑنے والی ھے !!

ھم کو بھی وضو کر لینے دو،ھم نے بھی زیارت کرنی ھے !
کچھ لـوگ ان بہتـی آنکھـوں کو ولیـوں کا ٹھکانہ کہتے ھیں !

دینی اور دنیاوی دونوں مقاصد کی تکمیل کا راز


علم تو علم ھے،، اس کا استعمال دینی اور دنیاوی دونوں مقاصد کے لئے کیا جا سکتا ھے،،جو دنیاوی علم کے نام سے ڈاکٹر بنتے ھیں چاھیں تو اس علم کو روٹی کمانے کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کر سکتے ھیں،، اور جو اس کو دین کے نام پر آٹھ دس سال لگا کر حاصل کرتے ھیں وہ بھی آخر روٹی ھی کماتے ھیں،، اگرچہ اسے دینی ضرورتوں کے لئے بھی استعمال کرتے ھیں،، سارے حافظ بن کر مسجدوں میں بھی نہیں بیٹھ سکتے،،پھر نہ صرف معاشرے کی دیگر ضرورتیں پوری نہیں ھونگی بلکہ حافظوں کو تنخواہ دینے والے اور مساجد تعمیر کرنے والے بھی نہیں ملیں گے،،یہ بڑی بڑی درسگاھیں اور جامعات دنیا داروں کے سر پر چل رھی ھیں،، شیخ الحدیثوں کے سر پر نہیں،، اس لئے علم کی دینی اور دنیاوی تقسیم کر کے ایک طبقے کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا اور دوسرے کو ھِز ھولی نیس بنا دینا درست نہیں،، دونوں اللہ کی رضا و مشیئت کو پورا کرتے ھیں،، اب آپ اپنے بچے کی صلاحیت دیکھیں اور اس کے مطابق استعمال کریں،، آج کی دنیاوی تعلیم پرانے زمانے کی طرح نہیں ھے۔۔بلکہ بہت جان مار اور ھمہ جہتی اور ھمہ وقتی کام ھے،، بچہ اسکول پڑھے گا تو بہت مشکل سے اسکول کو ھی کور کر سکے گا،، آدھا یہ آدھا وہ کرنے کا زمانہ گزر گیا،، آج کل ایف اے بی اے کل کے مڈل اور میٹرک کے برابر ھے،، قرآن حفظ کرنا فرض نہیں البتہ اس پر عمل کرنا فرض ھے،، تعلیم گھر سے شروع ھوتی ھے اور پیدا ھوتے ھی بچہ سیکھنا شروع کر دیتا ھے،، یاد رکھئے سچ کتابوں میں پڑھا کر نہیں سکھایا جا سکتا،، سچ بول کر سکھانے کی چیز ھے،، بچہ پیدا ھوتے ھی والدین کو سمارٹ ھو جانا چاھئے اور اپنی بری عادات ختم کر دینی چاھئیں،، اگر اپ چاھتے ھیں کہ بچہ سگریٹ نہ پیئے تو آپ خود مت پیجئے پچہ بھی نہیں پیئے گا،، جھوٹ مت بولیئے،، ایک دوسرے کو گالیاں مت دیجئے،، صلہ رحمی کیجئے،،سسرال کی عزت کیجئے،، والدین کی باتوں کو برداشت کیجئے اور اپنی اولاد کے سامنے انہیں برا مت کہیئے،، بچہ گریجوئیٹ ھو جائے تو کسی بھی ادارے سے قران کا تین ماہ کا کورس کر لے تو جمعہ جماعت کرانے کے قابل ھو جائے گا اور یوں جاب کے ساتھ ساتھ اس طرف کی صلاحیت بھی بڑھاتا رھے گا،، اپنی روٹی خود کما کر بغیر تنخواہ لیئے جو بھی جمعہ پڑھانے گا، بےخوف ھو کر حق بیان کرے گا ،، ورنہ روٹی کی مجبوری اسے حق سے روکے رکھے گی اور وہ صرف دنیا کا بن کر رہ جائے گا،، فمثلہ کمثل الکلب، ان تحمل علیہ یلہث او تترکہ یلہث ،، غیروں کی روٹی پہ حق کا تبیان کتنا مشکل کام ھے یہ وھی جانتے ھیں جو ایک سال میں دس مسجدیں بدلتے ھیں یوں ان کے بچے تعلیم سے بھی محروم رھتے ھیں! دوسرا طریقہ یہ ھے کہ بچے کو میٹرک کے بعد کسی اچھی سی جامعہ میں ڈال دیں،،اور اسے عالم بننے دیں،مگر پھر بھول جائیں کہ اس سے دنیا کی کمائی کرانی ھے،اس کو کوئی بزنس وغیرہ کرا دینا جہاں سے اس کی روٹی چلتی رھے،، میرا ذاتی خیال یہ ھے کہ جامعات کو خام مال جہاں سے ملتا ھے وہ ایک ندی کی طرح خود بخود انکی طرف رواں دواں ھے اور یونیورسٹیوں کو جہاں سے خام مال ملتا ھے ان کی ندی بھی ان کی طرف رواں دواں ھے،، دینی مدارس والے بچے آتے ھی ان گھرانوں سے ھیں جہاں پیاز اور لسی چٹنی کے ساتھ بھی روٹی بخوشی کھا لی جاتی ھے،اور یہی کچھ آج کل مدارس سے نکلنے والوں کو ملتا ھے 99 فیصد،،! اب کل ایک بھائی کے بچے پراڈو میں پھریں اور دوسرے کے سائیکل چلائیں تو بھائی ھوتے ھوئے بھی آپس میں رشتے ناتے کرنا مشکل ھو جاتا ھے،یوں خاندان بھی بکھر جاتا ھے،، یہ کوئی ایک بچے کا مسئلہ نہیں،، بہتر یہ ھے کہ اگر آپ اسے ڈاکٹر یا انجینئر بنا سکتے ھیں تو بنا دیں،، دین کورسز کی صورت سیکھا جا سکتا ھے ! عام طور پر علماء کی جانب سے طنز کیا جاتا ھے کہ پھر جنازہ اور نکاح بھی اسی مولوی سے پڑھاتے ھو،، یا نکاح اور جنازہ بھی بش سے یا ٹونی بلیئر سے پڑھوا لینا ! تو جناب نکاح اور جنازہ دونوں مولوی کے بغیر پڑھائے جا سکتے ھیں،، کورٹ میں نکاح ھو سکتا ھے چاھے جج یا میجیسٹریٹ عیسائی ھی کیوں نہ ھو،، خطبہ نکاح کے فرائض میں سے نہیں اور خطبہ نکاح کا مقصد دونوں میاں بیوی کو ان کے حقوق و فرائض بتانا ھوتا ھے جو کہ لوگ بتاتے ھی نہیں اور عربی پڑھ کر چل دیتے ھیں،، جنازہ وارث کو پڑھانا چاھئے یعنی بیٹے یا پھر بھائی یا باپ کو ،، عربی میں دعا نہیں آتی تو اللہ کی تعریف اپنی زبان میں بھی کر سکتا ھے،درود نماز والا پڑھ سکتا ھے اور دعا بھی اپنی زبان میں کر سکتا ھے ! مگر پلٹ کر کوئی یہ کہہ دے کہ سرکار پھر آپ بھی مدرسے مفتی فلاں صاحب اور فلاں شیخ الحدیث سے بنوا لینا،، ایک ایک کروڑ کی چھت بھی یہی دنیا دار اور بزنس مین ھی ڈلوا کر دیتے ھیں جن کی دنیا داری کو آپ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں،، کہتے ھیں منہ کھائے اور آنکھیں شرمائیں،، مگر ھمارے ساتھیوں کی آنکھیں بھی نہیں شرماتیں،، کہ ان ھی کے آگے تنخواہ بڑھانے کی درخواست بھی پیش کرتے ھیں اور اپنی مجبوریاں بھی گڑگڑا کر بیان کرتے ھیں،، مگر اگلے جمعے ان کے پیچھے بھی لگے ھوتے ھیں،، اوپر والا ھاتھ نیچے والے ھاتھ سے بہتر ھے،، دین کا علم اور دنیا کا علم بجلی کے نیگیٹیو پازیٹیو تاروں کی طرح ھیں،، دونوں سے دین اور دنیا چل رھے ھیں،،اور کوئی ان میں برا نہیں،، جس کی صلاحیت بچے میں ھو وہ اس کی پسند اور خواھش پر چھوڑ دیں ! اس ساری کہانی کے پیچھے ایک غلط فہمی ھے کہ دنیا کمانے کا ھنر سیکھنا ایک گھٹیا کام ھے اور دنیا داری ایک بری بات ھے اور دنیا ایک آلائش ھے،، جبکہ یہ قرآن کے خلاف سوچ ھے،، قرآن تو مال کو خیر اور اللہ کے فضل سے یاد کرتا ھے،ان ترک خیراً اگر اس نے خیر چھوڑی ھے یعنی مال چھوڑا ھے،، اور جمعے کے بعد جاؤ اللہ کا فضل ڈھونڈو،، مال اپنی ذات میں خیر ھی خیر ھے البتہ اس کا استعمال اچھا بھی ھے برا بھی ھے،، میں جب کہتا ھوں کہ ھمارے مولوی حضرات جب دنیا کی مذمت کچھ زیادہ ھی شد و مد اور بغیر کسی استثناء کے کرتے ھیں وہ اصلاً ایک جزبہ رقابت کے تابع کرتے ھیں ،،کہ چونکہ ھمیں نہیں ملی اس لئے بری ھے، ورنہ نبی پاک ﷺ کا غزوہ تبوک پر بار بار یہ اعلان کہ کون ھے جو سو اونٹ تیار کر کے دے اور جنت لے لے اور چھ بار حضرتِ عثمان کا اٹھ کر اعلان کرنا کہ میں سو اونٹ دیتا ھوں یوں چھ سو اونٹ انہوں نے اللہ کی راہ میں دیئے یہانتک کہ خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ بس کر عثمان جنت تیری ھی ھے ! اسی طرح بینکنگ کے معاملات میں بھی ھم حقائق سے نظریں چرا کر فتوی لگاتے ھیں کہ جو شخص بینک میں کام کرتا ھے اس کی دعوت کھانا حرام ھے،، سوال یہ ھے کہ جس بزنس مین نے تقی صاحب کی جامعہ کے وضو خانے جو ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ھوئے تھے،،مفتی رفیع صاحب کی ناگواری کی وجہ سے کیونکہ انہیں وہ پسند نہیں ائے تھے،،دوبارہ خرچہ کر کے تڑوا کر پھر ایک کروڑ کے خرچے سے بنا کر دیئے،، کیا وہ بزنس بینک کے ذریعے نہیں کرتا ھو گا ؟ آج کل کونسا ایسا بزنس ھے جس میں ایک بندہ اربوں کما رھا ھے اور بینک کو استعمال نہیں کرتا ھو گا ،، دعوت چونکہ چھوٹے درجے کا گناہ ھے اس لئے ناجائز ھے، البتہ جامعہ پہ کروڑوں لگا دے تو پھر بینکنگ حلال ھے ! ڈاکٹر اور انجینئر بن کر لاکھوں کما کر مساجد اور مدارس بنا کر بھی صدقہ جاریہ بنایا جا سکتا ھے،، صرف حفظ نہیں بلکہ حفظ کے انتظامات کر کے بھی سارے حافظوں جتنا اجر کمایا جا سکتا ھے،، یتیموں کی کفالت جس کی بشارت نبیﷺ نے دی ھے کہ اس کی جنت میری جنت سے یوں جڑی ھو گی جس طرح شہادت کی انگلی درمیان کی انگلی سے جڑی ھے ،وہ بھی اپنی کمائی کرنے والا ھی کر سکتا ھے،، مولوی صاحب نہیں،، پھر کفالت بھی اس طرح کہ اسے جیب کترا نہیں بنانا بلکہ تعلیم دلا کر ایک مفید انسان بنانا ھے،، یہ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت بھی یہی دنیا دار ھی کر سکتے ھیں،، اپنے بچے کو کھلانے والا شہباز بنائیں،،

آئیے اپنے رب سے اپنی زبان میں بات کریں


احباب نماز کا طریقہ نوٹ فرما لیں اور صرف دو رکعت پڑھ کر ھی اسے آزما لیں !
 فرض نمازوں میں ھم عموماً امام کے پیچھے ھوتے ھیں ،جس میں ھماری کیفیت،جہاز میں یا گاڑی میں سوار سوئے ھوئے مسافروں کی سی ھوتی ھے ! یہ طریقہ نفل نماز کے لئے ھے خصوصاً فجر کی اذان سے ایک گھنٹہ یا چالیس منٹ پہلے اٹھ کر اچھی طرح تسلی کے ساتھ وضو کر لیں ! نماز نفل لی نیت کر لیں اور ثناء نیز فاتحہ کے ترجمے کو ذھن میں رکھ کر پڑھیں،، کہ آپ کس کے سامنے کھڑے ھیں اور کیا طلب کر رھے ھیں،، رکوع میں جا کر فوری تسبیح مت پڑھیں،، یاد رکھیں رکوع فرض ھے،، تسبیح فرض نہیں ھے،بلکہ سنت ھے،، جب اب بغیر پڑھے ایک منٹ رکوع میں رھیں گے تو آپ آٹو موڈ سے نکل آئیں گے اور مینوئل موڈ پر آ جائیں گے،، اب آپ جو کہیں گے وہ شعوری طور پر کہیں گے،، تسبیح میں سبحان ربــــــــــــــــــــــــــــــی کو ذرا لمبا کریں اور اَلعظیم کو الگ کر کے پڑھیں،، العظیم ،، میں کائنات اور پھر اس کی تخیلق اور قبضے کو اللہ کے دستِ قدرت میں سمجھتے ھوئے ،اس کی عظمت سے دل کو بھر کر کہیں،، اور تعداد تین سے بڑھا دیں،یعنی پانچ یا سات دفعہ کہیں،، درمیان میں پھر رک کر سوچ سکتے ھیں،، پھر شروع کر سکتے ھیں،، سجدے میں جا کر سر سجدے میں رکھ کر ٹھہر جایئے تقریباً ایک یا دو منٹ کچھ مت پڑھئے،، مینوئیل موڈ پر آیئے اور اللہ کے حضور اپنی حاضری کو ممکن بنایئے،، اپنے قلب و شعور کی موجودگی کو یقینی بنایئے ,,, آپ جب اپنی ھیئت پر غور فرمائیں گے،کہ کس طرح آپ کا سر زمین پر رکھا ھے،کس کے سامنے رکھا ھے،اپنی مجبوریاں ،کمزوریاں اور اس کی بے نیازیاں ،، اس دوران آپ کی زبان ساکت رھے،آپ کا سجدہ جاری ھے،، سجدہ فرض ھے،، تسبیح سنت ھے،، آپ پہلے فرض کے فرائض ادا کیجئے،،سجدے کو رب کے سامنے ممکن بنایئے ،، کیفیت پیدا کیجئے،، سجدہ جاری ھے، زبان خاموش ھے،، اس کی عظمتوں اور بلندیوں کو سوچئے ،، آسمان کے تاروں ،ریت کے ذرات اور درختوں کے پتوں سمیت سب کچھ اس کی تسبیح کر رھا ھے،، بڑے بڑے نیک لوگ حرم اور ریاض الجنہ میں سجدہ ریز ھیں ،،وہ آپ کی طرف دھیان کیوں دے ؟ اسکی یہ بے نیازی اور پھر اس تک اپنی رسائی ممکن بنانے کے لئے ( نہ کہ ثواب کمانے کے لئے) دل کی گہرائی سے کہئے ،سبحان ربی الاعلی،،یہاں بھی " الاعلی" کو الگ کر لیں،، اس طرح وقفہ دے دے کر جب دل بھر جائے پیار سے اوور فلو کرے تو کہہ دیجئے سبحان ربی الاعلی ،،،، بس دو رکعت ایسی نماز پڑھ کر اپنے دل کی کیفیت کا اندازہ لگا لیجئے گا،،یہ کسٹمرز کاپی ھے،،باقی ان شاء اللہ حشر میں دیکھ لیجئے گا ! نفل نماز رب سے آپ کی ھم کلامی کے لئے اللہ پاک کا خاص تحفہ ھے،، اپنی زبان میں کیوں نہیں کہہ لیتے،، میرے مولا ،، میرے آقا،، میرے خالق ،میرے مالک،، تو بہت کریم ھے،تو بہت ھی عظیم ھے،، تو بہت ھی بلند ھے،، گنتی کی کیا ضرورت ھے؟ جب اپنی زبان میں یا اللہ ھی کہو تو گگھی بند جاتی ھے،الفاظ گلے میں اٹک جاتے ھیں،،ھونٹ تتلی کے پروں کی طرح کانپتے ھیں،، جو کہنا ھوتا ھے دل کہہ رھا ھوتا ،، اپنے گناھوں کا فولڈر سامنے دھر کر اس کے بالمقابل اس کے کرم کا فولڈر رکھ کر ،، بندہ جب شرمندگی سے کہتا ھے،، اللہ جی تو کتنا چنگا ایں ،، تو سجدے والا نہیں سامنے والا مسجود بھی وجد میں آ جاتا ھے،، کبھی اللہ سے اپنی زبان میں بات کر کے دیکھیں ناں ، اسے ساری زبانیں آتی ھیں،، اپنی زبان میں جو اپنائیت پیدا ھوتی ھے، وہ مفادات سے الگ ایک تقرب ھے،، اللہ اپنا اپنا لگتا ،،بالکل اپنا گرائیں ،، پھر وہ بھولتا ھی نہیں انسان ترستا ھے پھر اس سے بات کرنے کو، پھر اس کا حال وہ ھوتا ھے جو مچھلی کا پانی سے نکل کر ھوتا ھے،، وہ فجر پڑھ کر انتظار کرتا ھے کہ کب سورج طلوع ھو اور وہ اپنے اللہ سے دل کی بھڑاس نکالے ! نبی کریمﷺ نے ایک نوجوان کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ سالم مرے گا،، تو صحابہ نے تعجب سے کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ سالم مرنا کیا ھوتا ھے؟ فرمایا تھا انسان مختلف ٹکڑوں میں بٹتا جاتا ھے،یعنی اپنی ھستی میں مختلف ونڈوز اور Tabs کھول لیتا ھے ،، وہ ونڈوز پھر موت کے فرشتے کو ھی آ کر کلوز کرنے ھوتے ھیں اور اس دوران بند بھندے میں اٹکا رھتا ھے،، جبکہ ایک شخص وہ ھوتا ھے جو اپنی ھستی کو سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ھے،ادھر موت کا فرشتہ آتا ھے یہ اس کے ساتھ چل پڑتا ھے،، نماز ھستی کو سمیٹنے اور ونڈوز اور ٹیبز بند کر کے اپنی مکمل ھستی رب کے سامنے رکھنا ھوتا ھے،، آپ سجدے میں جا کر چپ کر کے سجدہ کریں،، آپ کا فرض ادا ھو رھا ھے اور آپ کی ھستی کی واپس ڈاؤن لؤڈنگ ھو رھی ھے ، جلدی کی ضرورت نہیں ڈاؤن لؤڈ مکمل ھونے دیجئے،، اور دیگر غیر ضروری ونڈوز بند ھونے دیجئے،، آپ خود محسوس کریں گے کہ ھاں ،، اب میں پورا ھو گیا ھوں ،میرا قلب و شعور اپنے صانع اور خالق کے سامنے حاضر ھے،، اب اپنی مادری زبان میں اسے مخاطب کیجئے،ڈرتے ڈرتے،، اللہ ،، میرے اللہ ،، اللہ جی،، اللہ پاک،، میں بہت گنہگار ھوں،، میں تو اس سجدے کے قابل بھی نہیں تھا، پھر جو جی میں آئے اپنے دکھ درد اس کے سامنے رکھئے ،،یاد رکھئے جو بھی مسئلہ ھے اس کے سامنے اسی طرح رکھیئے جس طرح ڈاکٹر کو اپنی بیماری بتاتے ھیں،، عربی کی کوئی ضرورت نہیں نفلی نماز میں آپ سجدے میں جو چاھئیں اپنی مادری زبان میں بات کریں،، ! یہ سکون ،،یہ یکسوئی آپ کو فرض نمازوں میں بھی بہت کام آئے گی،، ورنہ ھم امام کے پیچھے ایک tab پر الحمد تو دوسرے پر میچ کھول کے کھڑے ھوتے ھیں،، اسی لئے نمازوں سے کردار کو تبدیل کرنے کی صلاحیت اور ذوقِ تقرب ختم ھو گیا ھے،، صحابہ کو یہ ایڈوانٹیج حاصل تھا کہ وہ فرض میں بھی اللہ سے اپنی مادری زبان میں باتیں کرتے تھے اسی لئے اعتبار بھی کرتے تھے اور بڑے بڑے باغ کھڑے کھڑے اللہ کو سونپ دیتے تھے،،ھم کم از کم نفل میں تو اللہ سے اپنی زبان میں بات کریں،،اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں !! میرا سوھنا اللہ سب کو توفیق عطا فرمائے ! آمین 


Take note of Prayer friends and just take two Rakat and try it again! 
 We are usually obligatory prayers behind the imam, in which our state, the plane or the passengers of a car online is the amount of sleep! This method is for voluntary prayer call just an hour or forty minutes before dawn up and make ablution well satisfied with! 
 The intention was to make voluntary prayers and recite Sana Translate keeping in mind, read, and ask how you are doing in front of, not to glorify bowing out quick read, remember the bow is assumed ,, glorify do not assume, but are Sunni, while still kneeling unread stay a minute, you will come out of auto mode and manual mode will come on, now, would you say they consciously ,, to glorify Subhan rabbi read a long and separated Azeem,, well,, and then create the universe and God's hand in nature as occupation online, Her Majesty anywhere around the heart, , and the number increased to three, five or seven times that much, then stop in the middle can imagine, then you can start, heads bowed in prostration to stay put in one or two minutes to go around some Do not read, let Manuel mode And Allah bnayyy their attendance possible , ensure the presence of the heart and consciousness bnayyy , when you consider the consequences will say , how your head is on the ground , what is in front of me , my constraints , weaknesses and nyazyan Bay , meanwhile Looking lingua still , if you continue to prostrate , prostration is obligatory , is to glorify Sunni , you see obligatory duties , prostrate before the Lord possible bnayyy , please state created , the prostration is , language is silent , consider it mightiness and heights , sky, stars , trees, leaves, sand particles and to glorify Him and everything is growing , large the righteous are prostrate in the sanctuary and Riyadh would return , they give you care ? Independent and then access it until it is possible to make ( not earn the reward ) from the bottom of my heart and ask , disputing Subhan rabbi , too, " refer to " get separated , and thus give a break If the heart be filled with love overflow refer say Subhan rabbi , , , , just a two rak'ah prayer take my heart condition would guess , it is copied to customers , remaining only in sha Allah Judgment will take ! Voluntary prayer to the Lord God for your Holy Word , we have a special gift , why not take my word , my master , my master , my creator , my master , if it is so bountiful , so very sad great job , is very high functioning , is the need to compute ? When you are in or close gghy is Allah say , words can become stuck in the throat , like the wings of butterflies trembling of stubble , which is to say that the heart does note , put it in the folder of your sins Please keep this folder of oPP , the embarrassed man says , God how I healed so dominant , if not prostrate in front msjud is also ecstatic , sometimes talking to God in your own language View our name , it comes all the languages ​​are , in their own language , which is caused dunno , they benefit from a Are approximations , and their looks , just a drop , then do not forget that the same person is wanting to talk to him , then his case is that he is a fish out of water , he breaks is waiting to be read when the sun rises and give vent to his heart to God ! Prophet said that it was about a young Salem will die , They told the surprised O Messenger of Allah , what is it to die preserved ? Btta is being said in various pieces , ie the entity is set up in Windows and Tabs , they feel the angel of death came and windows are to be closed and keeps it stuck in the closed bhndy . He is a man who keeps his entity is winding winding, the angel of death comes to what is going on with it, leaving the entity and its full entity with closed windows and tabs are placed before the Lord If you go up prostrate and worship, you might have to pay duty and return your entity is lwdng download thinking, fast becoming a Comment lwd not need to download, and other unnecessary Windows Comment must close, you'll notice that yes, I have met have been, manufacturer and creator of my heart and my conscience is present,Please address it in their mother tongue, afraid, afraid, God, my God, Allah, Yes, God Almighty, I'm a sinner, I was not able to fire it, then whatever comes into your Keep him pain, remember, that is the problem so let him tell the doctor of his illness, no need Arabic voluntary prayer prostrations that you should speak in their mother tongue, ,!Praise God in your own language, so to speak, take advantage of this feature! My suhna Allah grant us all strength! Amen...

اللہ کو ساتھ دکان پر بٹھا کر



 اگر ھماری عمر اپنی نبی پاک صلوعلیہ وسلم جتنی ھو تو !
 8 گھنٹے ڈیوٹی کے = 21
 سال-8 گھنٹے سونے کے=21 سال
باقی بچ گئے 21 سال !
 اس میں سے 15 سال بلوغت کےنکال دیجئے !
 باقی بچے صرف 6 سال-
 ان چھ سالوں میں کتنے خیبر ھم فتح کر لیتے ھیں ؟ جو اللہ پر احسان چڑھائے پھرتے ھیں اپنی عبادات کا ؟؟ایک گھنٹہ فی دن اللہ کی عبادت کا نکال لیں،کیونکہ ایک گھنٹے میں ساری نمازیں پڑھ لی جاتی ھیں ! اس طرح 2 سال 6 ماہ اور 25 دن عبادت کی ھے ! بشرطیکہ آپکی عمر 63 سال ھو ! یہ دو سال 6 ماہ اور 25 دن بھی مقدار ھے معیار نہیں ھے،، اس میں قبول کیئے جانے کے قابل کتنی ھوں گی وہ اللہ ھی جانتا ھے ! اور اور کتنی پرانے کپڑے کی مانند لپیٹ کر منہ پر مار دی جائیں گی اور اللہ  کی توھین قرار پائیں  گی وہ اللہ ھی جانتا ھے ! یہ حساب نکال کے آپ کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور ھم اپنی عبادت سے خود شرما جائیں گے،، پھر نعمتوں کے ڈھیر دکھائے جائیں گے،، اور پھر کہا جائے گا اپنی عبادت کو میری نعمتوں پر پیش کرو،، جو بچ جائے گی وہ تول لی جائے گی ! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے کمزور نعمت سے کہا جائے گا آگے بڑھو اور اپنا حق وصول کرو،، وہ نعمت ایک لقمے میں اس عبادت کو ھڑپ کر جائے گی اور شکوہ کرے گی پروردگار میرا حق ادا نہیں ھوا !! اس وقت انسان کو اپنی عبادت کی حقارت اور بے وقعتی کا احساس ھو گا،، سوائے اس کے کہ اللہ یا تو اپنی نعمتیں معاف کر دے اور ان کو ھدیہ بنا دے،، یا ان نعمتوں کا حق اپنے فضل سے ادا کر دے ،، اور کوئی راہ جنت جانے کی نہیں ھے ! یہ ھے وہ بات جو اللہ کے رسولﷺ نے فرمائی ھے کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عملوں سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کے فضل سے جائے گا،، سو عبادت کا مطمع نظر رب کی رضا رکھو،، جنت نہ رکھو!! رب کی رضا کا سرٹیفیکیٹ ھاتھ میں ھوا تو بس وارے نیارے،، اسی سے صحابہ کی فضیلت کا اندازہ کریں کہ جن کو یہ رضا کا سرٹیفیکیٹ کر کے قرآن میں ثبت کردیا گیا،، رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ،، اب اس کا فوری علاج تو یہ ھے کہ نیند والے 21 سال بھی عبادت بنا لیئے جائیں ! اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص عشاء جماعت کے ساتھ پڑھ کر سوتا ھے اس کی آدھی رات کا قیام لکھا جاتا ھے اور جو فجر بھی جماعت کے ساتھ پڑھتا ھے اس کی ساری رات کا قیام لکھا جاتا ھے ! ڈیوٹی کے 21 سال بھی عبادت بنا لو ،، دیانت کے ساتھ جتنے گھنٹے کا کنٹریکٹ ھے اتنے گھنٹے کام کرو اور اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کرو،،جتنا وقت ڈیوٹی کے دوران نماز پہ صرف کرتے ھو ،،وہ واپس پلٹا کر دیا کرو یعنی اتنا وقت ایکسٹرا کام کیا کرو ! ایک صاحب پوچھتے ھیں کہ ھم نماز کس طرح پڑھیں کہ وہ قبول ھو جائیں اور رب کی توھین قرار نہ پائیں ! تو گزارش کی کہ !! کہ سب سے پہلے اپنی پوری جان پورے دل کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ھو جاؤ،، اس کی عظمت اور اپنی بے وقعتی کا خیال رکھتے ھوئے، دل کی گہرائیوں سے اس کی تعریف و توصیف کرو،، وہ دل پہ نظر رکھے ھوئے ھے،تجوید میں کوئی کمی بیشی ھوئی بھی تو وہ درگزر کر دے گا ،خلوص میں کمی قبول نہیں کرے گا،، اس کی رحمت کے گُن گاتے ھوئے اپنے گناھوں کی گٹھڑی اس کے قدموں میں رکھ دیں ،، نظر نیچی رکھو،، اپنی اچھائی کو بھی اسی کی طرف منسوب کرو،،اللہ میں کب کر سکتا تھا،،یہ تیرا کرم ھے کہ تو نے نیکی کرا لی،،مصطفیﷺ جیسی ھستی فرماتی ھے،، اللھم لا یأتی بالحسناتِ الا انت،، ائے اللہ ھم نیکی کرتے نہیں تو کر لیتا ھے،تو نیکیوں کو گھیر گھیر کے لاتا ھے ،، ولا یدفع السیئاتِ الا انت،، اور ھم برائیوں سے بچتے نہیں بلکہ تو ھمیں بچاتا ھے،، ! رب کو سامنے بٹھا کے اس کے قدموں پہ سر رکھ دو،،کچھ ھونٹوں اور زبان سے کہو،، کچھ آنسوؤں سے کہو اور کچھ دل سے کہو،، سسکیوں کو الفاظ کا روپ اسی کو دینے دو ،، دیکھو وہ فرشتوں کو ان کا ترجمہ کیا لکھواتا ھے،، آخر گونگوں کی آھوں کو بھی تو نوٹ کرواتا ھو گا،، کوئی الفاظ دیتا ھو گا ؟ اس طرح اسے راضی کر لو ،، ساتھ چلنے پہ راضی کر لو،، اس سے مل ملا کے سارے چلے جاتے ھیں کوئی اسے ساتھ لے جانے کو تیار نہیں ھے کیونکہ اس طرح ان کے کاروبار اور گھر بار نہیں چلتے،، اللہ کو ساتھ دکان پر بٹھا کر جھوٹی قسمیں نہیں کھائی جا سکتیں،، اسے پاس بٹھا کر بلیو پرنٹ نہیں دیکھے جا سکتے،،بیوی بچوں کو گالیاں نہیں دی جا سکتیں،، اس لئے لوگ اس سے مسجد میں ھی مل کر فاورغ ھو جاتے ھیں ،جس طرح لوگ اپنے ماں باپ سے اولڈ ھاوسز میں ھی جھٹ گھڑی مل ملا کر واپس آ جاتے ھیں ،،جبکہ وہ ترستے رھتے ھیں کہ کوئی انہیں گھر بھی لے جائے ! یار ھندوؤں کو نہیں دیکھتے کہ ان کا مٹی کا سہی مگر ان کی دکان اور گھر میں ان کے سامنے رکھا ھوتا ھے،،پھر تو اسے دکان اور گھر میں لانے سے کیوں ڈرتا ھے ! اسے سامنے بٹھا کر تجارت کر تا کہ تیری تجارت بھی عبادت بن جائے،، تیرا گھر مسجد کی طرح پاک ھو جائے،بادشاہ جہاں ڈیرہ لگاتے ھیں،، وہ جگہ تخت بن جاتی ھے،، رب دل میں ھو تو دل کعبہ بن جاتا ھے،،گھر میں ھو تو مسجد بن جاتا ھے ، حسن بصری کو نہیں دیکھتے وہ بلک بلک کر کہتے ھیں مالک صرف ایک سجدے کایقین آ جائے کہ تو نے قبول کر لیا ھے تو مجھے یقین ھو جائے کہ جن اعضاء کا سجدہ تو نے قبول کر لیا ھے،انہیں تو کبھی آگ میں نہیں پھینکے گا !

If the Prophet Mohammed as if our age!

8 hours duty = 21 years -
8 hours sleep = 21 years -

The rest survived 21 years!

It grows up to 15 years kynkal Comment!

The remaining 6 years -

His victory in six years, how many do we have KP? Mounted on the kindness of God our worship?

Take one hour per day of worship, because an hour is all the prayers are read! 2 years, 6 months and 25 days, such is worship! If you are 63 years old! This two-year, 6 months and 25 days is the quantity is not quality, so it must be able to accept the risk that they know Allah! And how old cloth wrapped like a shot to the face and called him Will Humiliate he recognizes Allah!They will be weighed!!There is no other way to heaven! This is the thing that the Messenger of Allah (PBUH) sent is that none of your deeds in heaven will go, but God's grace will, so worship perspective CW Keep, heaven do not! At the pleasure of the Lord's hand was just the era separation certificate, so that the idea of ​​the superiority of the Companions Volunteer certificate which was inscribed in the Koran, Allah and rzua Taymiyah said, it immediately Treatment of sleep it is because the church for 21 years now! Make 21 year duty service, with integrity is contracted hours of work and many hours with my ability to do, is spend as much time on duty during the prayer, he came back to give the Do extra work for so long! One can ask if they accept that we read about how prayer and the Lord be not as an insult! If the request! First my whole life serving the Lord with all your heart may go, His majesty and care about their worthless online, do deeply appreciate it and praise, the heart monitor online has also been shortcomings in Tajweed he will forgive, will not accept a reduction in sincerity, mercy admiring online for your sins interconnected place at His feet, look down, keep your good is also attributed to him do, and when I could, it's your karma is so that the goodness got, Mustafa Muhammad as the entity says, Laa Laa government balhsnat illa anta,, O God, we do good What else does, brings a good surround is surrounded, Villa ydfa alsyyat illa anta, and protects us if we can not refrain from evils,,! Lord, sit in front of the head to keep his feet, lips and tongue Say something, say something from the heart and say with tears, sobbed into words let alone, look, that their angels is translated to writing, even if ahun note of the dumb would have done, no words can do it?People like to watch your parents get old quickly found hausz back in the same places, while they will also take home a miss live! Man hnduwn soil, even if they do not see his shop and house is placed in front of them, then why bring it into the shop and the house is scared! Trade him to sit in front of the church so that your business becomes, your home will be as pure as the king of the camp shouting, he has become king, the Lord of the Kaaba at the heart if the heart isis taken, and sometimes they will throw into the fire!