Friday, March 22, 2013

گلاب کی طرح


       کسی شخص کو گلاب کے پھول کی طرح بننا ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے!     
 پہلے تو وہ یہ سوچے کہ گلاب کا پھول پھولوں کا بادشاہ کیوں تصور کیا جاتا ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ خوش نظر‘ خوش رنگ اور خوشبودار ہوتا ہے! گلاب کے پھول نے دوسرے پھولوں پر اپنی شہنشاہیت کا سکہ کس طرح بٹھایا۔ خوش رنگ بن کر‘ خوش منظر بن کر اور خوشبودار بن کر یا یہ اعلان کرکے کہ میں خوش نظر ہوں‘خوشبودار ہوں‘ خوش رنگ ہوں!

گلاب کا پھول اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاتا نہیں کہ میں خوش رنگ ہوں پھر بھی ہم اسے خوش رنگ کہنے پر مجبور ہیں۔ یہی حال اس کی خوشبو کا ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ اسے خوش نظر اور خوشبودار کہیں۔

وہ خاموش ہے اور ہم گویا! کوئی اسے دیکھے یا نہ دیکھے وہ خوش منظر ہی رہتا ہے۔ کوئی اسے پہچانے یا نہ پہچانے وہ خوش رنگ ہی نظر آتا ہے۔ کوئی اسے سونگھے یا نہ سونگھے وہ خوشبودار ہی کہلاتا ہے‘ لیکن اس خاموش اور بے نیازی کے باوجود دنیا اس کی ثنا خوانی پر مجبور ہے۔ منظر ہو تو ایسا‘ رنگ ہو تو ایسا اور خوشبو ہو تو ایسی! بے نیاز‘ خاموش‘ مگر سب پر غالب۔ گلاب کا پھول تمام پھولوں پر غالب ہے۔ اسے خوش نظر کہنے‘ اسے خوش رنگ تسلیم کرنے اور خوشبو دار ماننے پر زمانہ مجبور ہے۔

جو شخص مجھے مجبور کردے کہ میں اس کی تعریف کروں وہ گلاب کے پھول کی طرح ہوگا۔ بے نیاز‘ خاموش اور غالب۔

گلاب کا پھول بے نیاز اس لیے ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اچھا ہے۔ اسے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے‘اس لیے وہ خاموش ہے اور اپنی خوبیوں کی وجہ سے خودبخود قہار (غالب) ہوگیا ہے۔ اس نے دنیا بھر کے مصوروں کو مجبور کر رکھا ہے کہ کاغذ پر اس کا منظر پیش کریں۔ جرمنی کی کمپنیاں رنگین طباعت کی مشینوں کا پرچار گلاب کا پھول چھاپ کر کرتی ہیں۔ قنوج‘ شام اور پیرس کا عطر ساز اس کا عطر کشید کرنے پر اس لئے مجبور ہیں کہ پبلک روحِ گلاب پر شیدا ہے۔

گلاب کا پھول قہار ہے‘ اسے دیکھیئے تو دل خوش ہوجائے۔ اسے سونگھیئے تو روح وجد میں آجائے۔ اس کا تصور کیجئے تو دماغ باغ باغ ہوجائے۔

گلاب کا پھول قابل فخر ہے جو شخص اس جیسا بن جائے وہ قابل فخر ہوگا لیکن قابل فخر بننے کے بعد اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ میں اچھا ہوں‘ میں قہار ہوں۔

دیکھیے گلاب کا پھول کچھ نہیں کہتا۔ وہ سراپا عمل رہتا ہے۔ دنیا اسے خوش نما سمجھتی ہے اور خوشبودار کہتی ہے اور میں اسے قہار کہتا ہوں‘ لیکن وہ نہ اتراتا ہے نہ گھمنڈ اس کے پاس پھٹکتا ہے‘ نہ فخر کا خیال اس کے دل میں آتا ہے۔ وہ تو سبک سیر رہتا ہے۔ وہ اپنے کام میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ اس کی بلا سے دنیا اسے کیا کہتی ہے‘ کیا سمجھتی ہے۔ نہ اسے پروپیگنڈے کی ضرورت نہ تعریف کی حاجت۔ ٹی وی اور ریڈیووالوں پر وہ خندہ زن رہتا ہے۔

گلاب کے پھول کو یہ دولت قدرت نے عطا کی ہے۔ اسے خود کچھ حاصل نہیں کرنا پڑتا۔ وہ ”کن فیکون“ کا مرہون منت ہے۔ قدرت نے چاہا کہ وہ ایسا بنے تو وہ ایسا بن گیا۔

خدا اگر چاہتا تو انسان کو بھی کسی ایک رخ پر چلنے والا بنا سکتا تھا۔ کیا خدا نے گدھے نہیں پیدا کیے! سانپ اور بچھو نہیں بنائے! اور فرشتوں کی تخلیق نہیں کی؟ اگر خدا نے ہمیں گدھا پیدا کیا ہوتا تو ہم گلاب کے پھول پر اش اش نہ کرپاتے اور اللہ ہمیں سانپ اور بچھو کی صفت والا بناتا تو ہم ہمیشہ ڈسا ہی کرتے۔

گلاب کا پھول مجبور ہے کہ گلاب کا پھول بنا رہے۔ گلاب کے پھول میں صرف یہی استعداد رکھی گئی ہے کہ وہ گلاب کا پھول بنے۔ وہ چاہے کہ چنبیلی بنے تو نا ممکن ہے‘ موگرا بننا چاہے تو وہ بھی ناممکن‘ گدھا یا شیر بننا چاہے تو وہ بھی ناممکن۔ الوّ خیر سے الوّ ہی رہے گا‘ فرشتہ‘ فرشتہ اور شیطان‘ شیطان ہی رہے گا۔

صرف ایک انسان ہی کو ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ وہ جیسا چاہے بنے۔ کھانے پینے اور مرنے پر وہ مجبور ہے۔ ان دو باتوں کے علاوہ اسے مکمل آزادی ہے۔ اس کا دل چاہے تو فرشتہ صفت بن جائے اور دل چاہے تو شیطان صفت ہوجائے۔

اسے ذلیل و خوار رہنے کی بھی مکمل آزادی ہے اور معزز اور مکرم بننے کی بھی۔ ذلت سے وہ نکلنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ ذلت پر فخر کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت اسے حاصل ہے۔ اسے یہ پروانہ اور اختیار نہ ملا ہوتا تو مسلمانوں کی طرح ہر حالت پر فخر کرنے والی قومیں دیکھنے کے لیے آپ ترس جاتے۔

انسان کو آزاد رکھنے کے لیے قدرت کے لیے ضروری ہوا کہ وہ اسے جاہل پیدا کرے۔ دنیا کی کروڑوں مرغیاں انڈوں پر بیٹھنا اور بچے نکال کر جاں فشانی سے ان کی پرورش کرنا قدرت کی طرف سے سیکھ کر آتی ہیں۔ مرغی امریکن ہو یا انڈین‘ ماں بننے کی ایک ہی قسم کی صلاحیت اس میں موجود رہتی ہے۔ اس کے برخلاف عورت کو ماں بننے کے طریقے سیکھنا پڑتے ہیں۔

کروڑوں امریکن مائیں کروڑوں طریقوں پر اپنے بچوں کی پرورش ایشیائی مائوں سے مختلف طور پر کرتی ہیں۔ ان کے مزاج مختلف‘ ان کا ماحول الگ اور ان کا اندازِ تربیت جدا ہے۔

تربیت اور پرورش کا یہ تنوع اس لیے پیدا ہوا کہ قدرت چاہتی تھی کہ اس ایک مخلوق کو آزاد پیدا کرے۔ وہ اپنے طریقے خود سیکھے۔ طریقے سیکھنے کی صلاحیت عطا کرنے کے لیے اسے جاہل پیدا کرنا پڑا۔ جہالت اور لاعلمی نہ ہو تو آزادی میں فرق آجاتا ہے۔

اس جہالت اور آزادی کے ساتھ ساتھ انسان کو ایک اخذ کرنے والا اور بھلے برے کی تمیز کرنے والا دماغ دے دیا گیا ہے۔ وہ دماغ غور وفکر بھی کرسکتا ہے۔ اچھی اور بری باتوں کو دماغ میں محفوظ بھی رکھ سکتا ہے۔ جانور کے دماغ کو علم و حافظہ کی محدود صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ انسان کے دماغ کو جاہل لیکن لامحدود علم حاصل کرنے والا بنایا گیا ہے۔

انسان ہرے بھرے درخت سے آگ نکالنا سیکھ گیا لیکن اسے تشفی نہیں ہوئی۔ اس کے دماغ کی جستجو جاری رہی۔ اس نے زمین سے کوئلہ نکال کر جلانا سیکھا پھر بھی جستجو باقی رہی۔ یہ سب جہالت کی وجہ سے ہوا۔ اگر انسان ماں کے پیٹ سے لکڑی جلانا سیکھ کر آتا اور اس میں مزید سیکھنے کی صلاحیت جانوروں کی طرح محدود ہوتی تووہ ایٹم کی طاقت دریافت نہ کرسکتا۔ قرآن نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:

وَاللّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [16:78]

”اللہ نے تم لوگوں کو تمہاری مائوں کے پیٹ سے اس طرح نکالا کہ تم کچھ جانتے نہ تھے۔ البتہ یہ کیا کہ تم کو سماعت دی‘بصارت دی اور دل دیئے“

ایک طرف انسان کو جاہل پیدا کیا اور دوسری طرف پوری کائنات کو ایک پلیٹ میں اس کے سامنے رکھ دیا کہ جتنا چاہو سیکھو۔ دماغ کی کبھی نہ ختم ہونے والی جستجو کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والا علم عطا کردیا گیا ہے۔

غور و فکر سے نئی نئی باتوں کا پتا چلتا ہے۔ نئی نئی دریافتیں ہوتی ہیں‘ نئی نئی ایجادات وجود میں آتی ہیں‘ کھوج دماغ کی غذا ہے اور ہر نئی دریافت سے دل کو جو خوشی ہوتی ہے وہ قابل رشک ہوتی ہے۔

یہی دماغ اس قابل بھی ہے کہ اپنے آپ کو جس سانچے میں پائے اسی میں پڑا رہنے دے یا جس نئے سانچے میں ڈھالنا چاہے ڈھال لے۔

اگر کوئی شخص گلاب کے پھول کی طرح دلکش اور اسی کی طرح غالب و پرکشش بننا چاہے تو کیا کرے؟ ایک ترکیب اس کی یہ ہے ڈینگیں مارے اور تیس مار خانیت کا اعلان ہر پلیٹ فارم سے کرے۔ اس ترکیب پر ہم مسلمان صدیوں سے عمل پیرا ہیں۔ اب تک تو مجھے کوئی دل کشی ان میں نظر نہ آئی۔ وہ قہار (غالب و اثر آفریں) تو نہ بن پائے ہاں مقہور سب طرف سے ہیں۔ یہ نسخہ بہت استعمال ہوچکا ہے۔ اس سے مریض کو کیف تو ضرور آتا ہے‘ لیکن مرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ یہ نہ سمجھئے کہ ہم نے ڈینگ مارنے میں کوئی کسر باقی رکھی ہے۔ ہم ایک طرف یہ اعلان کرتے ہیں۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

اور دوسری طرف منہ کرکے کہتے ہیں:

چین و عرب ہمارا‘ ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا

دوسری ترکیب گلاب کے پھول کی طرح بننے کی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم گلابی کپڑے پہنیں اور پسینے کی بدبو دبانے کے لیے ہمیشہ گلاب کا عطر لگایا کریں اور ہمیشہ پیلے پیلے اور لال لال دانت نکال کر ہنسا کریں۔ کوئی ہم سے پوچھے کہ یہ کیا ہورہا ہے تو ہم کہیں کہ مرنجاں مرنج کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ ہم صوفی ہیں۔

گلاب کے پھول کی طرح بننے کے لیے ڈینگ بھی بیکار ہے اور نقالی بھی۔ کسی شخص کو اس جیسا بننا ہو تو میں بتائوں اسے کیا کرنا چاہیئے۔
١
۔ صحت عمدہ رکھی جائے۔
اس کے لیے خود پر بھروسا زیادہ اور ڈاکٹر پر بھروسا کم رکھنا چاہئے۔ جہاں کھانسی ہوئی اور چلے ڈاکٹر کے پاس‘ ذراسا قبض ہو اور کھالی حکیم صاحب کی گولی۔ یہ سسٹم معقول نہیں ہے۔ مسٹر کے جسم میں ایک ڈاکٹر‘ مولوی کے جسم میں ایک حکیم اور پنڈت کے جسم میں ایک وید اللہ نے پہلے ہی رکھ دیا ہے۔ وہ جسم کو ٹھیک رکھنے اور بیمار ہوجائے تو اچھا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کی خدمات کو ہمارا کوئی ڈاکٹر‘ کوئی حکیم اور کوئی وید نہیں پہنچ سکتا۔

اندرونی طبیب کا کہنا ہے کہ جسم کو بیماریوں سے بچائے رکھنے کے لیے کھانا کھانے میں بصیرت اور اعتدال ضروری ہے۔ کس طرح کھانا چاہیے اور کتنا کھانا ضروری ہے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے۔ جسم کو ہمیشہ مقفل بھی رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کا دروازہ بیماریوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے کہ جب چاہے مرض تشریف لے آئے۔ جسم کا قفل ہے پاکیزگی اور صحت و صفائی کے اصولوں پر عمل کرنا۔ صاف پانی استعمال کرنا‘ گلے سڑے پھلوں‘ ٹھیلے کی چیزوں سے اجتناب‘ ہاتھ دھونے کی عادت‘ غیر ضروری دوائوں سے پرہیز اور طیبات کا استعمال۔

”طیبات“ کھانوں کی وہ قسم کی ہے جو زود ہضم ہو۔ مثلاً ترکاریاں‘ پھل‘ میوے‘ دالیں‘ دودھ‘ جو‘ گیہوں ان کو اعتدال سے اورخوبصورتی سے کھانا صحت کے لیے مفید ہے۔

گوشت بھی کھا سکتے ہیںلیکن وہ سیکنڈ ہینڈ غذا ہے۔وہ جانور جن کا گوشت ہم کھاتے ہیں ”طیبات“ کھایا کرتے ہیں اور یہ طیبات دوسرے جسم کے استعمال کے بعد ہم تک پہنچتے ہیں یعنی سیکنڈ ہینڈ۔ اصل چیز بہرحال اصل ہوتی ہے۔ مستعمل چیز نفاست پسند لوگ پسند نہیں کیا کرتے۔ طیبات صحت کے لیے مفید ہیں۔

صحت بخش ورزش وہ ہے جو رگوں میں آکسیجن بھرا خون دوڑائے اور ہاضمہ درست رکھنے کے اوزار صحیح حالت میں رکھے۔

ایک انسان کے جسم میں جو موٹی اور بال سے زیادہ باریک رگیں ہیں‘ اگر ان سب کو ایک لائن میں رکھا جائے تو باسٹھ ہزار میل تک چلی جائیں گی۔ ان میں خون دوڑانے والی ورزش صحت بخش ورزش ہوگی۔

ہاضمے بڑے بڑے اوزار یہ ہیں:
جگر‘ پتہ‘ پھیپھڑا‘ مثانہ‘ معدہ‘آنتیں‘ کھال‘ان سب کی ورزش ہوجانی چاہئے۔ اس قسم کی ایک ورزش‘ جو خون کو دوڑانے اور ٹھیک رکھنے میں مددگار ہوتی ہے۔

اگر بے اعتدالی کی وجہ سے یا جہالت کی وجہ سے جسم میں کوئی خرابی آجائے تو اندر کا طبیب جسم کے مالک کو اس کی اطلاع دے دیتا ہے۔ سر کا درد‘ پیٹ کا درد‘ جگر کا ورم‘ بخار‘ کھانسی‘ زکام‘ بلڈ پریشر سب اطلاعات ہوتی ہیں تاکہ آدمی احتیاط کرے اور اندر کے طبیب کو جسم کی درستی کا موقع دے۔

٢۔ صفائی رکھی جائے:
طالب گلاب کو صاف ستھرا رہنا چاہئے۔ جسم اور جسم کے اندر کی صفائی کے ساتھ باہر کی صفائی بھی ضروری ہے۔ کپڑے صاف ہوں‘ کمرا صاف ہو‘ ماحول صاف ہو‘ منہ صاف ہو‘ دانت صاف ہوں۔ منہ خاص طور پر قابل توجہ ہے اس کے ذریعے جو غذا اندر جائے وہ ستھری ہو اور اس سے جو بات باہر نکلے وہ بھی صاف ستھری ہو۔ نکتہ چینی اور گھمنڈ کی باتوں سے اچھا خاصہ منہ قابل نفرت ہوجاتا ہے۔

٣۔ دماغ استعمال کیا جائے:
گلاب کا پھول بننے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ دماغ استعمال کرکے ایٹم بم ہی بنائیں بلکہ روزمرہ کی باتوں میں اسے استعمال کریں۔ دیکھیے‘ پھول گندے ماحول میں بھی پھول ہی رہتا ہے۔ اردگرد کاماحول ماں بہن کی گالی کے سوا بات نہ کرتا ہو‘ لیکن آپ گالی نہ دیں۔ ماحول ضرر رساں ہو‘آپ ضرر نہ پہنچائیں۔ آپ کو کھرا آدمی پسند آتا ہے آپ بھی کھرے بنئے۔

آپ ایماندار آدمی ڈھونڈا کرتے ہیں لیکن خود بھی ایماندار بنئے۔
آپ محنتی آدمی کو چھوڑنا نہیں چاہتے پھر آپ محنتی کیوں نہ بنیں! باتیں بنانے والا لفّاظ آدمی آپ کو پسند نہیں آتا۔
آپ صاف گو اور کم گو بنئیے۔ آپ کو یہ بات پسند نہیں آتی کہ آپ سے کوئی نفرت کرے لہٰذا آپ بھی نفرت نہ کریں۔
آپ بیمار ہوں تو دل چاہتا ہے کہ آپ کی کوئی تیمارداری کرے پھر آپ عمدہ تیماردار کیوں نہ بنیں!
آپ تنگ دست ہوںتو دل چاہتا ہے کہ کوئی اس تنگی کو دور کرنے والا آپ کو ملے‘ لہٰذا آپ تنگ دست کی تنگدستی دور کرنے کا سبب بنئے۔
گائے کو دیکھئے وہ اپنے بچے کو کس تڑپ اور کس محبت سے دودھ پلاتی ہے لیکن دوسری گائے کا بچہ اگر اس کا دودھ پینے آجائے تو اسے بے رحمی اور زور سے دھکا دے کر ہٹا دیتی ہے یہ طریقہ جانوروں کا ہے۔
خدانخواستہ آپ محتاج ہوجائیں تو کیا آپ پسند کریں گے کہ لوگ آپ کے ساتھ گائے والا برتائو کریں اور آپ کا بچہ یتیم ہوجائے تو آپ کا دل کیاچاہے گا۔ آپ کا دل یہی چاہے گا کہ کوئی آپ کے بچے کی نازبرداری کرے۔ کوئی اس کی خبر گیری کرنے والا ہو۔ وہ کسی کا محتاج نہ رہے۔ تو پھر کیوں نہ آپ انسانیت کے اس جذبے کو کام میں لائیں اور یتیم کے ساتھ برادرانہ مشفقانہ برتائو کریں۔ دماغ کو کام میں لاکر ہر وہ بات جو آپ چاہتے ہوں کہ دوسرے لوگ آپ کے اور آپ کے بعد آپ کے بچوںکے ساتھ کریں‘ وہی آپ دوسروں کے ساتھ اور دوسروںکے بچوں کے ساتھ کریں۔

لیجئے آپ نے اوپر کی باتوں پر عمل کیا اور آپ گلاب کا پھول بن گئے۔ آپ بھروسے کے لائق بن گئے۔ اب آپ کی تلاش کی جائے گی۔ آپ کی نقل کی جائے گی۔ سوسائٹی آپ کو شیروانی میں ٹانکنا چاہے گی۔ آپ بھی خوش رہیں گے اور دوسرے بھی آپ سے خوش رہیں گے۔

مذہب کے لیے ایسے آدمیوں کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے آدمی سونا ہوتے ہیں۔ مذہب ان پر سہاگے کا کام کرے گا۔ اپنا کمال دکھائے گا۔ گلاب کے پھول جیسا انسان انسانیت سے لبریز ہوتا ہے۔ اس کے باوجود لامذہب اور دہریہ رہ سکتا ہے‘ لیکن اگر اس میں مذہب کا اضافہ ہوجائے تو اس کی شان نرالی اور اس کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔

Like Rose
Someone like roses , so it should be !
 So they think , why rose is considered the king of flowers . Because it does not look that happy , happy color and is fragrant ! Roses and other flowers, how to coin its monarchy restored . Lucky color to be 'happy and sweet as landscapes or am happy to announce that the ' fragrant 'I 'm happy color !

Rose in his throat torn torn operates the lucky color then we are forced to ask her lucky color . , This is her perfume . , We are forced to say that she look happy and fragrant .

And if he is silent ! Seen or not seen anyone that happy scene remains the same. Anyone familiar or not familiar color that looks good . Someone who inhales the smell or fragrance is called ' the silent and the world of independent Sana is forced to read . then this scene , color and fragrance are so similar ! Rich ' silent but overwhelming all . Has prevailed on all floral rose . Pleased to say it , to believe it is time lucky color and fragrance is forced to admit .

I appreciate that I may make a person do they have like roses . Indifferent , silent and vast .

Rich rose the letter and spirit so that 's good . , It does not need proof , it automatically idea why he is silent and furious ( dominant ) has . Artists around the world to this view has led to the present paper . promotes German companies rose color printing machines are printed . Kannauj , Syria and the perfume Paris perfume makers are forced to underscore its public Shaida on Rose 's soul 
Rose is furious ' Watch her ​​heart is happy . Sunghyyy soul when it comes to ecstatic . Would rejoice his Imagine the brain .



View rose says anything . They remains altogether . Rwanda and fragrant says it considers fair and I am furious , but they find out he is descended not boast , not proud of this idea comes to mind . Feather tour that lasts . they proceeded in their work lives so that what the world says no , you might think . nor praise it needs not to be propagated . rydyuualun on TV he is gracious woman .

Roses, nature has given this money . Himself does not achieve anything . They " Qin giving " owes . Fate decreed that they were do they become so .

If God wanted a man who could make a run on one side . Did not God create the donkey ! There were snakes and scorpions ! And the angels did not create ? If God created the donkey us if we are not able to Auschwitz Auschwitz on roses and Allah makes us one of the attributes of snakes and scorpions do we always bitten .

That force rose rose making . Capacity roses I just assumed that they were rose . Cnbyly becomes whether that is impossible , even if they are impossible to be sambac ' donkey or lion she wants to be impossible . Potatoes Potatoes will remain in good 'angel ' angel and the devil , the devil will be .
Only one man has been created so that it became such . Eating, drinking and she is forced to die . Those two things, plus it has complete freedom . Angelic as if his heart and mind if satans be .

Humiliates him complete freedom to live and to be honorable and graceful . Humiliation can stop him if he wants to leave . Humiliation to glory , even if allowed to get it . Permission to him to become If I did that I'm proud of every situation like Muslim nations are longing to see you .

The person must be able to maintain independence unaware that he creates . Millions of the world to sit on eggs and baby chickens take care of their diligence to learn the power comes from . Poultry or American Indian " a mother is the kind of potential . Conversely, women have to learn how to be a mother .

Tens of millions of American mothers on how to raise their children , Asian moms are different . They differ , their environment and their own style of training is separated .

Born and brought up training for the diversity that nature wanted to create a creature free . Their own learning process . Granted the ability to learn how ignorant it was created . Ignorance and ignorance is not freedom the difference comes .

A person with this ignorance and freedom , and to derive the brain to distinguish between good and evil has been given . They can also study the brain . Good and bad things in mind can save . Creature 's brain granted the knowledge and memory capacity is limited . ignorant human brain is built to the infinite knowledge .

Learn to draw fire from the green tree , but it was not appeasement . Was ahead of his brain . Learned to burn out the coal from the earth still remained quest . These things happened because of ignorance . , If a mother learning comes from the belly wood burning and more like animals are limited in their ability to learn , they can not discover the power of the atom . Qur'an it is stated thus :

أkrjكm mind of Allah . Allah btun أmهatكm La talmun syya ujal alsma ualأbsar ualأfydة charitable tsكrun [ 16:78 ]

"God you people out of your moms stomach such that you did not know . , But it gave you hearing , sight and the heart ."



Reflect new shows new things . Discoveries are new , new inventions come into existence , and each new discovery Detection brain food happiness that is the heart that is enviable .

The brain is able to find yourself in the template remain the same , or even adjust the new mold .

Someone like roses, charming and attractive to be like and then what should prevail ? This is an idea conquered death and killed thirty of each platform to announce kanyt . Centuries Muslims adhere to this idea . Shops so far I have not seen them . They Overpowering ( dominant and effect disorder ) was not found , then yes by all mqhur . This recipe has been used a lot . surely comes from Kiev patient , but the disease is increasing . bragging that we do not consider it spared no effort in 's . announce that we are one .

God is gracious to disbelieve women 's movement
Tying the candle will not

And facing the other side says:

China and the Arabian our ' relationship
We are Muslim , the entire country where our

What happens if we say that the policy is mrnjan mrnj . , we are Sufis .

Deng also like roses to be useless and even emulated . Become someone like him , then do it in the plain .
1
. Maintain good health .
For that rely more on themselves and less trust in doctors must take . , Where cough and went to the doctor , and fur Hakeem Sahib down zrasa be taken . , The system is not reasonable . Mr. 's body, a doctor , cleric body a wise and sage Veda in the body of an already placed . they become sick body well and are ready to do so . their services no doctor , no doctor and no Vedas can not 
Internal doctor said to protect the body from diseases and moderation is important insights into food . Should eat and how much food is necessary , it should be understood . Bodies should also always locked . Lest this left the door open to diseases that came whenever the disease . lock body is to follow the principles of purity and cleanliness . clear water to use , rotten fruit , avoid things stand , hand washing habit , and mentioned in avoid unnecessary use of drugs .

" Mentioned in " the kind of meals that are easy to digest . , Such as salad , fruit , nuts , pulses , milk 'that ' wheat aurkubsurty eat them in moderation is beneficial to health .

Second hand food they can eat meat soon . Those animals whose meat we eat " mentioned in " and it had mentioned in another body after we reach the second-hand use . Actually is the real thing , however . Prevailing people do not like things like sharpness . mentioned in are useful for health .

That's a healthy exercise oxygen filled blood in the veins keep tract harsh stares and tools kept in good condition .

A man's body hair than thick and thin veins which are placed in a line if all these sixty-two thousand miles would go . Their blood in healthy exercise , how to exercise .

Digest large tools are:
Liver ' address' lungs , bladder , stomach , intestines , skin , should be identified in this exercise . Such an exercise that helps keep the blood ran and right .

A disorder caused by a defect in the body or due to ignorance of the doctor comes in. This report gives the owner of the body . Headache , abdominal pain , liver swelling , fever , cough , cold , blood there are reports that the man carefully and pressure inside the body of the doctor giving fitness .

2 . Treatment to be given :
Students should be clean and roses . Bodies and body cleaning out with cleaning is essential . Dresses clean ' clean room ' environment clean , clean mouth , clean teeth . Mouth especially noteworthy through the good and the food inside , they found out what they 're clean . faces criticism and arrogance odious character from what is good .

3 . Brain to be used :
It is not necessary to be a rose using your brain to make atomic bombs but only use it in everyday things . Showing ' flowers flowers in dirty environment remains the same. Around kamahul mom sister abused but does not speak be , but you do not abuse it . environment are harmful , 'You must not be harmed . guy you like is also true bnyy authenticity .

You find honest man , but also honest bnyy .
Your hard-working , hard-working man , then you do not want to give up ! The verbose guy you do not like making things .
Do you assertive and less though . , You do not like the fact that you hate so you do not have any hate .
If you are sick , you have a heart that wants to asks why you do not become a good caregiver !
Decide your poor heart that wants to get you to remove this difficulty , so you Quickly remove the cause of poor bnyy .
See how your child dying cow and how they love to breastfeed her child , but the cow milk comes hard pushed him brutally and gives way animals are removed .
God forbid if you are in need that you would like to sing with people who treat you and your child is orphaned , your heart will kyacahy . , Your heart that no matter what your child is nazbrdary . Someone 's going to be a guardian . they do not need anyone . then why do not you bring this spirit of humanity and brotherly with compassionate treat orphans . locker in mind every thing that you want other people after you and you with your bcunky ' what you and others with others with children .

Take action on the things above you and you rose to become . Become worthy of your trust . Longer your search will be . Copies will be made. Society sherwani you would like Stitch . You will be happy and you 'll be happy with .

To view these men desperately need . These men are gold . Religion on their honeymoon will work . Their amazing show . Humanity is full of roses , as human beings . Yet secular and atheist could 'But if the rise of religion in all its glory is wonderful and enhance its beauty .

یہ جادوئی لفظ دنیا فتح کرچکے


         آپ کا احسان ہے         
شکریہ!…!…آپ کی عنایت‘ محبت کرم گستری ہے!… آپ نے میرا خیال رکھا بہت شکریہ! آپ نے میرا مان بڑھا دیا!… مجھے آپ پر ناز ہے!… ہمارے بیچ شکریہ کا رشتہ تو نہیں مگر… محبت کا کوئی مول نہیں۔ مجھے آپ سے محبت ہے…!
یہ درج بالا کتنے جادوئی سے لفظ ہیں آپ کی سپاٹ سی زندگی میں حیرت ناک حرارت اور خوشبو بھر دینے والے لفظ یہ تمام کے تمام آپ کسی کے لیے اور کوئی آپ جیسی مہربان شخصیت کے لیے ادا کرتا ہے تو یقیناً آپ خوش ہوتے ہیں۔
ایک صحت مندانہ طرز فکر اور طرز عمل پر مبنی یہ رشتہ خواہ احسان مندی تسلیم کرنے والا ہو یا ممنونیت کا اظہار ہو انسان کے لیے نعمت مترقبہ ہوتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ روزانہ کی تھکا دینے والی مصروفیات میں ہم اپنے ساتھیوں اور رفقا کے لیے وقت نکال نہیں پاتے‘ مصروفیت کا بہانہ کرتے ہیں بعض اوقات جھوٹ نہیں کہتے سچ مچ میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ منصوبوں کی تکمیل میں یا کچھ ارادوں کو پورا کرنے کے لیے دوڑ رہے ہوتے ہیں اور وقت ریت کی مانند مٹھی سے نکلتا جاتا ہے۔ کوئی فون آجائے‘ کوئی پرانی رفاقت کا حوالہ دے‘ کوئی پرانے تعلق کو برقرار رکھنے کی اخلاقی کوشش کرے تو کچھ مضائقہ نہیں ہوتا۔ آپ چند لمحے اپنے لیے جی کر دیکھئے ایک چائے یا کافی کی پیالی پر خیروعافیت پوچھئے‘ کیریئر اور خانگی مصروفیات کا تذکرہ کیجئے باتیں تو کبھی ختم نہیں ہوا کرتیں لیکن اس سے زندگی کی بے رونقی جاتی رہتی ہے۔ آپ بہت کامیاب انسان سہی مگر آپ کو بھی کچھ ٹانک تو چاہیے۔
میاں بیوی کے تعلقات میں سردمہری اور روکھاپن دونوں سے برداشت نہیں ہوا کرتا۔ رشتوں پر کہر نہ جمنے دیجئے۔ آپ دونوں انفرادی سطح پر اپنے تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں۔ ایک دوسرے کو بتائیں کہ ایک دوسرے کے لیے ہم کتنے ضروری ہیں آپ کی بہت اہمیت ہے‘ آپ میرے لیے بہت اہم ہیں یہ بات کہنے کی بھی ہے اور عملاً ثبوت دینے کے لیے بھی آپ کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑیگا۔ مثلاً بیویاں شوہروں کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھنا سیکھ لیں تو کمال کی ذہنی و جذباتی ہم آہنگی ہوسکتی ہے۔
کیا آج آپ نے اپنے شوہر کا واڈروب چیک کیا ہے؟ آج وہ دفتر کیا پہن کر جارہے ہیں؟ اگر وہ اپنے لباس خود منتخب کرتے ہیں تو کیا وہ دھلے ہوئے یا پریس کیے ہوئے ہیں؟ جن کے سیاں پان کے شوقین ہیں وہ خواتین ایسے نشانوں کو دھو دھلا لیں‘ ورنہ قمیص پر جمنے والے پان کے داغ دراصل بیویوں کے سگھڑپنے کی کہانیاں سناتے رہ جاتے ہیں۔ نفاست‘ صفائی اور سگھڑپن یہ تین اوصاف بے ترتیب‘ لاابالی اور مصروف ترین شوہروں کو بیویوں سے قریب لانے کیلئے کافی ہوا کرتے ہیں کیا آپ میں یہ اوصاف موجود ہیں؟
بہترین ذہنی ہم آہنگی کیلئے ضروری ہے کہ آپ اور آپ کے شوہر کے خیالات میل کھاتے ہوں۔ آپ کی کیمسٹری ایک دوسرے سے ملتی ہو۔ یہ مشکل مگر دلوں کو فتح کرنے کی صلاحیت آپ میں بھی موجود ہوسکتی ہے بس ذرا توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
شاعر نے توقع کی تھی کہ جو اور جیسا وہ سوچتا ہے اس کی محبوبہ تک وہ بات اڑ کر پہنچ جائے لیکن اگر آپ اس سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی اتنا ضرور کرلیں کہ پسند ناپسند ترجیحات‘ رویوں اور عادتوں سے ایک دوسرے کو جان لیں سمجھ لیں۔ کس وقت کیا بات کرنی چاہیے‘ اپنے خیالات کو کیسے ظاہر اور کتنا چھپانا ضروری ہے۔ بات کرنے کا انداز شائستہ اور مہذبانہ کیوں ہونا چاہیے اور کونسی بات یا رویہ طبیعت میں اشتعال پیدا کرسکتا ہے۔۔۔ وہ ٹوک بات کرنا کہاں ضروری ہے اور کہاں ایک دوسرے کو سوچنے کاوقت دیتا ہے۔ سانس لیتی ہوئی آنکھوں کو ذرا سونے بھی تو دیجئے یہ نور کے تڑکے کی جاگی ہوئی ہیں۔ کیا آپ ایک دوسرے کی تھکن آلود زندگی سے‘ معاملات سے اور مصروفیات سے واقف ہیں؟
تعلقات میں ایثار کی اہمیت کیوں ضروری ہوتی ہے؟
سوال اگر سمجھ سے بالاتر نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی سوچ اور طرزعمل مثبت اور صحت مندی پر مبنی ہیں۔ ایثار کیلئے ضروری ہے کہ فرمائش اور اصرار ضد اور تکرار ہر وقت جاری نہ رکھا کریں۔ گھر پر کوئی نیا محاذ کھول کر نہ بیٹھا کریں‘ صرف ٹریفک کے اژدھام اور بروقت کسی جگہ نہ پہنچنے کی کوفت اور الجھن ہی کو مدنظر رکھ لیا کریں۔ گھر ہی تو ایسی محفوظ پناہ گاہ ہے کہ جہاں دن بھر کا مضمحل‘ تھکا ماندہ شخص چین سے رہنے کیلئے آتا ہے۔ گھر پر ایسی طمانیت‘ سکون اور محبت بھری فضا قائم رکھنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔
آپ کے ذہن میں شوہر کے بدلے ہوئے کسی روئیے سے متعلق ڈھیروں سوالات ہوسکتے ہیں مگر ٹھہرئیے ہر بات ہر وقت پوچھنا ایسا کیا ضروری ہے۔۔۔؟ اپنے غصہ پر قابو پائیے‘ اگر وہ گھر دیر سے آئے ہوں تو انتظار کیجئے وہ خود بتائیں گے کہ دیری کا سبب کیا ہوا؟ آپ کیوں پولیس والے کی طرح جرح کرنے لگی ہیں کیا اس طرح وہ سیدھا جواب دیں گے۔ ممکن ہے اشتعال میں آکے کچھ غلط کہہ دیں ایسا کچھ جسے برداشت کرنے کی آپ میں بھی ہمت نہ ہو اس لیے اس وقت خاموش رہیں۔۔۔ پھر وقت آئے گا جب پوچھ لیجئے گا۔
مرد جن باتوں سے مشتعل ہوسکتے ہیں ان میں بے جا روک ٹوک اور کریدنے کی عادتیں شامل ہیں‘ مرد ایسی بیویوں کو شکی مزاج قرار دیتے ہیں تو ایسا غلط تو نہیں کرتے۔ آپ میرا فون کیوں نہیں اٹینڈ کررہے تھے؟ اب یہ ایسا سوال ہے جو خواہ مخواہ مضطرب کرسکتا ہے۔ دفتر میں کام کی مصروفیت اور افراتفری کو نظر میں رکھ کر دیکھیں تو شوہر ظالم نہیں ہوسکتا‘ جن دفاتر میں کام کا دباؤ ہو اور اوقات کار میں نرمی بھی نہ ہو وہاں کبھی کبھار فون اٹینڈ نہیں کیے جاسکتے‘ اگر آپ شوہر کے کام کی نوعیت جان لیں تو کبھی یہ سوال دوبارہ نہ کریں۔
کچھ پوچھنا ہو‘ کوئی فرمائش ہو‘ مسئلہ ہو معاونت درکار ہو یا اخراجات کیلئے روپیہ چاہیے ہو رات گئے کہہ سن لیں‘ وہ سکون سے ہر بات کا جواب دیں گے لیکن انداز گفتگو میں مٹھاس کا رس گھولیے‘ نرمی سے بات کیجئے وہ پیار کا مطلب جانتے ہیں آپ کا خیرمقدم کریں گے۔
حساس کون نہیں ہوتا‘ ہر جاندار شخصیت حساس ہوسکتی ہے آپ اور آپ کے شوہر تو ایک ساتھ رہتے ہیں ایک دوسرے کیلئے حساس ہونا کٹھن فن ہے مگرکوشش کرکے کامیابی کے ٹارگٹ تک پہنچئے۔
اس دنیا میں ایسا کون ہے جو توجہ کا طالب نہیں حتیٰ کہ وہ پالتو بلی بھی آپ کی توجہ چاہتی ہے جو منہ سے کچھ کہہ نہیں سکتی لیکن اس کی حرکتیں اور لبھانے کا انداز بتا دیتا ہے کہ وہ آپ کا لمس چاہتی ہے یا اسے کس وقت بھوک لگی ہے پھر آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اسے فیڈ کراتے ہیں ناں…! آپ اسے جھڑکتی تو نہیں ہیں۔ شوہر کو بھی نہ نہ کہنے والی بیویاں بری لگتی ہیں لہٰذا سہنے کی عادات اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ رکئے… ٹھہرئیے… ان کا خیال رکھئے اور انہیں جانئے کہ کس وقت وہ کیا چاہتے ہیں؟
  This magic word has conquered the world  

Thank you ... your kindness ... Your grace, love is gstry please ... thank you very much took care of me! My mother raised me ... I'm proud of you! ... Thanks selling our relationship did not ask, but ... no love., I love you! 

کامیابی کا راز صرف خاموشی


دوسری طرف میری ایک اور جاننے والی تھی۔ ثمینہ نام تھا اس کا۔ اس نے بھی عجیب لاپرواہ زندگی گزاری تھی۔ وہ خوبصورتی اور سمارٹنس میں حرم کی طرح نہیں تھی۔ اپنی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اچھی خاصی کاہل واقع ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے کہا کرتی۔ ’’یار میں نے اپنی زندگی کا ایک اصول بنارکھا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ کم سے کم کام کرو اور زیادہ سے زیادہ سوئے رہو۔‘‘ اب ایسی عورت کو تو اس کا شوہر بہت پہلے چھوڑ بھاگتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دونوں بہت مطمئن اور پرسکون زندگی گزارتے رہے۔میں نے جب اس سے اس کامیاب ازدواجی زندگی کا راز دریافت کیا تو وہ ہنس پڑی ’’مت پوچھو‘ مجھے کیا کیا حکمت عملی اختیار کرنی پڑی ہے‘‘
اس نے کہا ’’لیکن میں نے شادی کے پہلے ہی دن اپنے شوہر کو اپنی مرضی کا تابع کرلیا تھا‘‘ ’’آخر کس طرح… وہی تو پوچھ رہی ہوں‘‘ ’’اپنی خاموشی کے ذریعے…‘‘
اب دونوں کے حالات پرغور کریں۔ ایک طرف حرم ہے اور دوسری طرف ثمینہ… حرم خوبصورت اور ذہین ہے‘ سمارٹ ہے‘ لیکن وہ اپنے ارادے کی قوت کے باوجود اپنے شوہر کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی‘ جب کہ ثمینہ نے اس سے کم صورت اور کاہل ہونے کے باوجود یہ مرحلہ سر کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس کامطلب یہ ہوا کہ لڑکیوں کو سسرال میں تبدیلی کی خواہش نہیں کرنی چاہیے یعنی جیسا ہے بس ویسا ہی ہے۔ سسرال والے اگر دقیانوسی اور جاہل ہیں تو ان کو اسی طرح رہنے دیا جائے یا پھر ساس اگر ناانصافی کرتی ہے تو اس کو چپ چاپ برداشت کرتے رہا جائے۔
اس سوال کا جواب اس بات میں پوشیدہ ہے کہ آخر وہ دونوں ایک دوسرے کو تبدیل کیوں کرنا چاہتی ہیں۔ شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو بدلنا کیوں چاہتی ہے۔
ہاں اگر شوہر بیوی میں مثبت تبدیلیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور بیوی کی بھی یہی خواہش ہے اور دونوں آہستہ آہستہ اور نرم روی کے ساتھ اس مقصد کی طرف بڑھ رہے ہیں تو یہ دوسری بات ہے بلکہ اسے ہم ایک مثبت رویہ کہہ سکتے ہیں۔کامیاب شادی شدہ لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنی شریک حیات کی پوشیدہ خوبیوں کا سراغ لگا کر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان خوبیوں کو نشوونما دیتے ہیں انہیں پروان چڑھاتے ہیں
The secret to success, only silence

مجھے خود پر اعتماد ہے



ہم لوگوں نے جب خبر سنی کہ حرم کی شادی ایک چھوٹے سے شہر میں رہنے والے ایک لڑکے سے ہورہی ہے تو ہم سب حیران رہ گئے تھے بلکہ ہمیں پریشانی بھی لاحق ہوگئی اس سے پتہ چل گیا تھا کہ حرم کی شادی اس کی مرضی سے نہیں ہورہی ہے اور دوسری سچائی یہ تھی کہ اس چھوٹے سے شہر میں مقیم وہ خاندان اور ان کا رسم و رواج بالکل الگ ہوگا کیا حرم ان کے ساتھ نباہ کرسکتی تھی۔ہم سب دوستوں نے حرم کے گھر دھاوا بول دیا۔ وہاں پتہ چلا کہ یہ رشتہ حرم کی دادی نے لگایا تھا۔ میں نے حرم سے کہا: حرم! گھر والوں کی مرضی سے شادی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس نے ایک چھوٹے سے شہر میں پرورش پائی ہے جبکہ تم کراچی کی ہو۔ اس کاگھرانہ کے خیالات و رسم ورواج اور ہیں جبکہ تم بالکل ماڈرن ہو تو پھر کام کیسے چلے گا؟؟؟’’بالکل چل جائے گا‘‘ وہ مسکرادی‘ مجھے اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ میں اسے اپنے سانچے میں ڈھال کر اسے بھی ماڈرن بنادوں گی‘‘میں اس کی خوداعتمادی پر مسکرا دی۔

ساری خود اعتمادی ہوا ہوگئی

اس میں کوئی شک نہیں کہ حرم اچھی خاصی خوبصورت‘ سمارٹ اور خوش لباس لڑکی ہے اسے باتیں کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ بہت آسانی سے دوسروںکو اپنا ہم خیال بنالیا کرتی تھی کیونکہ اس میں کشش بھی بلا کی تھی۔ میں نے تو گھاگ قسم کے دکانداروں کو بھی اس کے آگے بے بس ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک بار میں نے کسی دکان سے کوئی چیز خریدی تھی۔ وہ اچھی نہیں نکلی‘ حرم نے مجھ سے وہ پیکٹ لیا اور اس وقت بڑے دھڑلے سے ایک دکان میں پہنچ کر اس نے وہی پیکٹ اُس دکاندار کے حوالے کردیا کہ اس نے وہیں سے خریدا تھا۔ دکاندار بے چارہ بھی اس کی بات کو رد نہیں کرسکا تھا۔ اس لیے اس کا اعتماد بجا تھا کہ وہ اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں کو بھی اپنی راہ پرلے آئے گی۔لیکن…! ایسا نہیں ہوسکا۔ حرم کی شادی ہوئی اور شادی کے چند ہی دنوں بعد دونوں میں اختلافات نے جنم لینا شروع کردیا اور جب شادی کو چھ سال ہوگئے تو دونوں کے درمیان علیحدگی ہوگئی اس وقت ان کا ایک چار سال کا بیٹا بھی تھا۔

ہم نے جب حرم سے معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس نے آنسوؤں کے درمیان بتایا ’’وہ تو انتہائی ضدی اور جاہل نکلا‘ بلادرجے کا دقیانوسی۔ میں نے اپنی سی پوری کوشش کرکے دیکھ لی۔ لیکن وہ کسی طرح بدلنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔‘‘
اور دوسری طرف اس کے شوہر کا مؤقف تھا۔ ’’اس نے تو ہماری زندگی عذاب کردی تھی ہر وقت ہمیں برا بھلا کہتی رہتی۔ ہمارے پورے خاندان پر تنقید کرتی رہتی۔ اس کا ایسا رویہ تھا جیسے پوری دنیا میں ایک بس وہی عقلمند ہے۔ باقی ہم سب بے وقوف ہیں۔‘‘اختلافات کی جب مزید وجوہات معلوم ہوتی رہیں تو پتہ چلا کہ جہاں دوسرے عوامل تھے وہاں حرم کی یہ کوشش بھی تھی کہ وہ اپنے شوہر کو بدل کر رکھ دے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور اس کا سارا اعتماد اور ساری خوداعتمادی ہوا ہوگئی۔

نرم مزاجی سے دل جیت لیجئے




 برسوں اور صدیوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ 
 رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ 
یہ بالکل درست ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں چونکہ آگے کے حالات نہیں معلوم ہوتے اسی لیے ہم دھوکہ کھاجاتے ہیں۔
  شوہر اور بیوی کے درمیان ہونے والے اختلافات اس دھوکے کی کہانی ہے۔  
ذہنی ہم آہنگی‘ ماحول اور مزاج کا ایک ہونا کامیاب شادی شدہ زندگی کیلئے بہت ضروری ہے۔
 مثال کے طور پر میں حرم کو اچھی طرح جانتی تھی وہ ایک شہری لڑکی تھی‘ ہر لحاظ سے شہری‘ جدید خیالات‘ جدید لباس اور جدید طرز زندگی گزارنے والی… اس کا لائف سٹائل بہت ماڈرن تھا۔

A positive attitude can say 


الجھنے کا انجام ناکامی


             نادان آدمی ناموافق باتوں سے الجھتا ہے۔        
  دانش مند آدمی 
  ناموافق باتوں سے دامن بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔  


گلاب کے پھولوںکا ایک باغ ہے۔ آپ اس میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کی خوبصورت پتیاں اور اس کے خوشبودار پھول آپ کو متاثر کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایسا ہوتاہے کہ اس کے کانٹے آپ کو لگ جاتے ہیں۔ آپ کا ہاتھ زخمی ہوجاتا ہے یا آپ کے کپڑے کانٹوں میں پھنس جاتے ہیں۔
اب ایک صورت یہ ہے کہ گلاب کے باغ میں کانٹوں کی موجودگی کو آپ باغبان کا فعل قرار دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ یہ جانیں کہ یہ کانٹے قدرت کے قانون کا نتیجہ ہیں۔ اگر آپ کانٹوں کی موجودگی کا سبب باغبان کو سمجھیں تو آپ کے اندر نفرت اور شکایت کا ذہن ابھرے گا اور اگر آپ اس کو قانون قدرت کا نتیجہ سمجھیں تو آپ کانٹوں کی موجودگی کو بطور حقیقت تسلیم کرتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ اس سے اعراض کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کریں۔ ایک تشخیص سے احتجاج کا ذہن ابھرے گا اور دوسری تشخیص سے تدبیر تلاش کرنےکا۔
ہندوستان میں اکثریتی فرقہ کی طرف سے جو قابل شکایت باتیں پیش آتی ہیں ان کو مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ احتجاج کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سراسر عبث ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گلاب کے کانٹوں کے خلاف شوروغل کیا جائے۔ گلاب کے درخت میں کانٹے بہرحال رہیں گے اسی طرح انسانی سماج میں ایک دوسرے کو تلخ باتیں بھی ضرور پیش آئیں گی۔ان تلخ اور قابل شکایت باتوں کا حل صرف ایک ہے۔ ان سے اعراض کرنا‘ ان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سفرحیات پر رواں دواں رہنا۔ اس قسم کے سماجی مسائل خود اللہ کے تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہیں اس لیے وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ البتہ ان کی موجودگی کو گوارا کرکے ہم اپنی زندگی کے سفر کو ضرور جاری رکھ سکتے ہیں۔
نادان آدمی ناموافق باتوں سے الجھتا ہے۔ دانش مند آدمی ناموافق باتوں سے دامن بچاتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ یہی ایک لفظ میں‘ اس دنیا میں ناکامی اور کامیابی کا راز ہے۔ یہاں الجھنے کا انجام ناکامی ہے اور نظرانداز کرنے کا انجام کامیابی ہے۔

The end embroiled failure
Immature man is entangled side of things . Wise man side of things while protecting the foot passes .

Phulunka a garden of roses . Enter it . , Its pretty leaves and fragrant flowers can affect you . Similar is the case with the scales that you take . , Your hand is injured or your clothes get caught in the thorns . longer a case of the presence of thorns in the rose garden , consider your actions gardener . otherwise is that you learn the laws of nature are the result of these scales . a the presence of thorns , if your gardener and my mind will emerge within you hate it, if you understand the law of nature, the presence of thorns as a fact acknowledged that it will try and turn away from to achieve the same goal . protest an assessment and evaluation of the mind will emerge to find a solution .

By the majority community in India would be able to complain about their writing and speaking Muslims all think of man -made problem . Because they are protesting the policy adopted . , But it is totally useless . Itto turn away , ignore them and keep moving on your sfrhyat . Such social problems are part of God's creative plan, he may never end . presence of their own life journey , we must care can continue .

Immature man is entangled side of things . Wise man side of things while protecting the foot passes . 's In a word , is the secret of failure and success in this world . Embroiled here to ignore the consequences of failure and success