Wednesday, March 5, 2014

اسلامی نظام کے قیام کا آسان اور کم خرچ


اسلامی نظام کے قیام کا آسان اور کم خرچ مگر قابلِ عمل نسخہ ! بھائیو جو بات میں کہنے لگا ھوں، اجمالاً ایک جملے میں بیان کی جا سکتی ھے،، مگر تفصیلاً پوری کتاب یا تھیسس لکھا جا سکتا ھے ! وہ اجمالی جملہ یہ ھے کہ " جتنا زور ھم نے علماء کو کُرسی تک پہنچانے پر صرف کیا ھے،، اس کا صرف 05۔0 ٪ بھی کرسی والے کو فیصل مسجد کے مبنر پر لانے میں خرچ کرتے تو آج پاکستان میں اسلام کا بول بالا ھوتا "،،صرف ایک گھنٹے کی میٹنگ میں نواز شریف کو فیصل مسجد میں خطبہ دینے پر قائل کیا جا سکتا ھے ! اگلے دو ھفتے میں آئینی ترمیم کے ساتھ انہیں امیر المومنین قرار دیا جا سکتا ھے ! لو جی خلافت قائم ھو گئ ! اللہ پاک نے سورہ الحج کی آیت 41 میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صاحب اقتدار پر فرض کیا ھے اور یہ" منبر و محراب" اصلاً خلیفہ کا فرضِ منصبی ھے ! مساجد اس فریضے کی ادائیگی کے ٹولز ھیں ! اور ھمیشہ اسی طرح رھا ھے کہ دارالخلافے میں خلیفہ اور صوبوں میں گورنر خطبہ دیا کرتے تھے جہاں وہ نئے احکامات کا اعلان کیا کرتے تھے،، جن کو تبدیل کرنا ھوتا تھا وہ بھی جمعے میں بیان ھوتے تھے اور جن باتوں سے روکنا مقصود ھوتا تھا اس کی انفارمیشن میں خطابِ جمعہ میں دی جاتی تھی ! یوں اسلام کتابوں میں اور فتوؤں میں نہیں ملتا تھا،، احکامات کی صورت سوسائٹی کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا تھا ! یہی وجہ ھے کہ خلفاء سے احادیث کی روایت بہت کم ھے کیونکہ روایت وہ بیان کرتا ھے جو صرف پریس کانفرنس کر کے مطالبہ کر سکتا ھے،جس کے ھاتھ میں طاقت ھوتی ھے وہ روایت بیان نہیں کرتا روایت پر عمل کرتا ھے کیونکہ یہ اس کا فرض منصبی ھوتا تھا، اسی وجہ سے خلفاء کے آثار فقہاء کے نزدیک سنت کا درجہ رکھتے ھیں ! مساجد یونین کونسل ،تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کی طرح کا سرکاری ادارہ ھے،جسے سرکار ھی قائم کرتی،اور چلاتی تھی،، 100 سال تک کسی پرائیویٹ مسجد کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،،کہ جس کے پاس پیسہ ھوا ایک محلے میں تین تین مساجد بنا کر بیٹھ گئے ! آپ کبھی نہیں سنیں گے ،کہیں نہیں پڑھیں گے کہ امام ابوحنیفہؒ نے فلاں مسجد میں جمعے کا خطبہ دیا،،، البتہ یہ ضرور پڑھیں گے کہ حجاج بن یوسف نے جمعے کا خطبہ دیا ،،زیاد اور ابن زیاد نے جمعے کا خطبہ دیا اور لوگوں نے کنکریاں ماریں،، ابو موسی الاشعریؓ نے بحیثیت گورنر جمعے کا خطبہ دیا،،یہاں تک کہ عبداللہ ابن مسعودؓ جلیل القدر فقیہہ صحابی چونکہ گورنر نہیں بلکہ معلم اور مدرس بنا کر بھیجے گئے تھے ،انہوں نے کبھی جمعے کا خطبہ مرکزی مسجد میں نہیں دیا،،خطیب گورنر کی طرف سے مقرر ھوتے تھے اور اسی کے حکم سے معزول کیئے جاتے تھے،،نبی کریمﷺ کے زمانے سے لوگ خطیب نہیں چنا کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ سرکاری حیثیت سے ان کا تعین فرمایا کرتے تھے،ان کا ٹیسٹ لیا جاتا تھا،،ایک دفعہ آپ ﷺ نے خطباء کے تعـین کے لئے کچھ لوگوں کو بلایا اور ان کا امتحان لینا شروع کیا،، ایک خطیب نے کہا ،، من یطع اللہ ورسولہ فقد ھدی و من یعصِھما فقد غوی ،، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ھی ضمیر میں اللہ اور رسول کو جمع کرنے پر اس سے سخت ناراض ھوئے اور اسے فرمایا بئس الخطیب انت ! تو برا خطیب ھے،بیٹھ جا ! اسی سنت کو خلفاء نے زندہ رکھا !علماء کا کردار ھمیشہ سے مشاورتی رھا ھے ! چاروں ائمہ اور ان کے شاگردوں نے کبھی نہ حکومت طلب کی، نہ لوگوں نے انہیں حاکم اور خلیفہ بنانے کی کوئی تحریک شروع کی ! ائمہ نے بھی اپنے مشاورتی کرادر پر ھی توجہ دی اور اسے دیانت کے ساتھ نبھایا،حالانکہ وہ کوئی آئیڈیل حکمران نہیں تھے،، کہ جن پر کوئی اعتراض وارد نہ کیا جا سکتا ھو، وہ قتل سمیت ھر جرم میں ماخوذ کیئے جا سکتے تھے، اس کے باوجود لوگوں نے ان کو ھٹا کر کبھی بھی ،،امام مالک ،امام ابوحںیفہ ،امام شافعی اور امام احمد کو حکمران بنانے کی کوئی تحریک یا مہم نہیں چلائی ! جب سے ھمارے علماء نے اپنی نگاھیں اقتدار پر جمائی ھیں اس دن سے مشاورتی کردار کو بھی متنازعہ اور مشکوک بنا لیا ھے،، خدا ھی ملا نہ وصالِ صنم ،،والی مثال اگر سو فیصد کسی پر لاگو ھوتی ھے تو وہ ھمارے مذھبی طبقے پر لاگو ھوتی ھے جونہی حکمرانوں نے مساجد کو ایزی لیا انہیں انڑ اسٹیمیٹ کیا اور ان کی اھمیت کا ادراک نہ کیا ،اسے دوسروں کو سونپ دیا اور خود الگ ھو کر بیٹھ گئے اسی دن سے اسلام اقتدار سے محروم ھو کر دین نہ رھا بلکہ مذاھب میں تبدیل ھو گیا !صرف فتوؤں کا مذھب رہ گیا اور فتوی چونکہ نافذ نہیں ھوتا،، نافذ کرنے والوں نے اسے علماء کو گفٹ کر دیا،، بس تب سے دین فتوؤں میں ملتا ھے اور دال جوتیوں مین بٹتی ھے ! مساجد کی بھرمار ھے اور مساجد ایک بیمار کے بدن میں پیدا ھونے والی گلٹیوں کی شکل اختیار کر گئ ھیں جو دین کی وحدت کی نہیں بلکہ مذاھب اور مسالک کے مورچے بن گئے جہاں اپنے اپنے مسالک کے سپاھی پیدا کیئے جاتے ھیں ! حاکم تو ایک ھے،دین بھی ایک ھے، وہ ایک ھی بات کرے گا جو کہے گا اس پر عمل کا اختیار بھی رکھتا ھے یوں دین اپنے اصل منبعے کی طرف پلٹے گا! الذین ان مکناھم فی الارض،، وہ جن کو ھم زمین پر تمکن عطا فرمائیں تو ظاھر ھے یہ تمکن نواز شریف کو بخشا گیا ھے،، اقامو الصلوۃ ، وہ نماز قائم کریں،، مرکزی مسجد کا امام نواز شریف ھے،، و اٰتوالزکوۃ ،، زکوۃ کی وصولی اور عوام تک اسے پہنچانے کا ذمہ دار بھی وھی ھے ،، و امروا بالمعروف،، منبر سے معروف کی تلقین اور اس کے لئے ضروری عملی اقدامات کا ذمہ دار وھی ھے، و نہوا عن المنکر ،، اور برائی سے خبردار کر کے اس کی راہ روکنے کے عملی اقدامات اٹھانا بھی اس کا مذھبی فریضہ ھے،، کیوںکہ تمکن اس کو ملا ھے،، مفتی حضرات صرف تقریر کر سکتے ھیں اور کرتے چلے آ رھے ھیں ! کیونکہ سورہ یوسف میں جو بار بار حضرت یوسف کو تمکن فی الارض کا احسان جتایا جا رھا ھے تو ساتھ یہ بھی بتایا جا رھا ھے کہ تمکن کا حقیقی مفہوم صاحب اختیار ھونا اور اس اختیار کو پھر خیر کے لئے استعمال کرنا ھے،،یوں امر بالمعروف حاکم کا فریضہ ھے،عوام بطور آلہ استعمال ھوتے ھیں،، ان پر اپنے اپنے دائرہ کار میں یہ کام فرضِ کفایہ ھے،، اصل ذمہ داری حاکم کی ھے،، جب اسے معلوم ھو گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نمائندگی کر رھا ھے تو یقیناً اسے اس عہدے کے ساتھ ایک تقدس کا تعلق اور رشتہ محسوس ھو گا، وہ اس کی اھمیت کو سمجھے گا ،، نتیجے میں اس کے ذاتی کردار میں بھی بلندی پیدا ھو گی اور وہ ایک سیاست دان کے بازاری مقام سے اٹھ کر خلافت کے مقدس مقام پر فائز ھو جائے گا،، یوں ھِــز ھائی نیس اور ھــز ھولی نیس کا ایک ھی ھستی اور ایک ھی عہدے میں ادغام ھو جائے گی،، اور جس پرزے کی خرابی سے اسلام کی شکست وریخت  شروع ھوئی تھی وہ پرزہ ٹھیک کام کرنا شروع کر دے گا ،، اور اسلام دوبارہ وحدت کی طرف گامزن ھو گا،، خلفاء کی مساجد اور منابر سے گرفت کمزور ھونے کے زمانے سے ھی مختلف مذاھب کی مارا ماری شروع ھوئی ھے ! اب علماء کو چاھئے کہ وہ اپنی یہ ضد چھوڑ دیں کہ اسلام وھی ھو گا جو ان کے دستِ مبارک سے نافذ ھو گا،، بلکہ جسے اللہ نے اقتدار بخشا ھے اسے تسلیم کریں اور منبر جس کی امانت ھے اسے واپس کریں اور نیچے بیٹھ کر اس کا خطاب سنیں ،،

بدنام اللہ کو کر دیا کہ اللہ سے ڈر لگتا ھے


میں اللہ سے کیوں ڈروں ؟

1- کیا وہ ظالم ھے ؟ 

2- کیا وہ میری نیکیاں کسی اور کو دے دے گا ؟

3- کیا وہ کسی کے گناہ مجھ پر لاد دے گا ؟

4- کیا وہ کسی ایسے آدمی کی وجہ سے جو میری نسبت نفل زیادہ پڑھتا ھے اور میرے ساتھ اس کی ان بن ھو گئ ھے تو اللہ اس ادمی کی حمایت میں میری فائلوں میں وہ گناہ ڈال دے گا جو نہیں کیئے یا ان گناھوں کا ریٹ اور ویٹ بڑھا دے گا ؟

5- کیا وہ جج کی طرح کسی کے نفلوں کے آگے بِک جائے گا ؟ 

6- کیا وہ کسی کرپٹ وکیل کی طرح مخالف پارٹی سے مل جائے گا؟

7- کیا وہ پولیس کی طرح چرس کی پڑیا میرے نامہ اعمال میں گھسا کر حدود کا پرچہ بنا دے گا ؟

8- کیا وہ پٹواری کی طرح میری جنت کسی اور کے نام کر دے گا ؟

9- جس طرح ماں اپنی بیٹیوں کی خاطر بیٹوں سے اور بیٹوں کی خاطر بیٹیوں سے ناجائز ناراض ھو جاتی ھے ، اللہ بھی کسی سے ناجائز ناراض ھو جاتا ھے ؟

10- جس طرح ایک چاپلوس اور نکمہ بیٹا والدین کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے رام کر کے اور مسکہ پالش کر کے ایک مخلص اور خدمتگار بیٹے کے بارے میں بدظن کر نے میں کامیاب ھو جاتا ھے، اسی طرح کوئی میرے بارے میں میرے رب کو بھی ورغلا دے گا ؟؟

تلک عشرۃٓ کاملہ !! مجھے کوئی ایک وجہ بتائی جائے کہ میں کیوں اپنے اللہ سے ڈروں ؟

یہ سارا کیا دھرا ھماری زبان کا ھے !

اتقوا اللہ کا ترجمہ اللہ سے ڈرو،،کر دیا ھے،، حالانکہ اس کا مطلب ھے اللہ کا خیال رکھو ! جو بات کرو جو کام کرو، بس اللہ کی پسند ناپسند اور رضا کا خیال رکھو،، جہاں جس ماحول میں ھو اللہ کا خیال رکھو ،، بے خدا ھو کے مت جیو،کوئی لمحہ بے خدا مت گزارو ،، روزے اس لئے فرض کیئے کہ تم کو اللہ کا خیال رکھنا آ جائے !

جو دم غافل ، سو دم کافر ،مرشد اے فرمایا ھُــو !

ڈر اپنے کرتوتوں کا ھوتا ھے،، بدنام اللہ کو کر دیا کہ اللہ سے ڈر لگتا ھے !

آپ سڑک پر جا رھے ھیں ! ٹریفک پولیس کی گاڑیاں آپ کے دائیں بائیں سے گزر رھی ھیں ،آپ کو پولیس سے ذرا ڈر نہیں لگ رھا بلکہ آپ پولیس گاڑیوں کو اور ٹیک بھی کر رھے ھیں !!

اچانک آپ نو انٹری میں داخل ھو گئے یا سرخ اشارہ جمپ کر دیا ،، اب آپ کی نظریں بیک مرر پر جم گئیں،، پولیس کی گاڑی دیکھ کر آپ کی ٹانگیں کانپنا شروع ھو گئیں،، رنگ پیلا پڑ گیا، بلڈ پریشر لو ھو گیا،، آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا ،،پسینے کی تریلیاں آنے لگیں ،، اور آپ کہہ رھے ھیں کہ یہ سب کچھ پولیس کے ڈر سے ھوا؟ کیوں اشارہ جمپ کرنے کے بعد پولیس کی گاڑی کے سینگ نکل آئے تھے،، آپ اپنے کارنامے کے نتائج سے خوفزدہ تھے نہ کہ پولیس سے،،یہی معاملہ ھم اللہ کے ساتھ کرتے ھیں !

اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا



بھائی لوگو !

معاف کـــــرنا ! 

میں نے تو اپنی مقدور بھر کوشش کر دیکھی ھے،، پوری کوشش کی ھے، ھر طریقہ آزما دیکھا ھے !

مگر اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا !

مجھے اللہ سے ڈرا نہیں جاتا ! اللہ کی محبت نے سیلاب کے پانی کی طرح اندر سب کچھ جل تھل کر کے رکھ دیا ھے ھر جگہ پیار کا پانی بھرا پڑا ھے،خوف اور ڈر اندر گھستے ھوئے ڈرتے ھیں،، 

میں نے بہت چاھا کہ اس میں ڈراوے اور خوف کا کوئی عنصر تلاش کر لوں ! مگر ناکام رھا،، میں خوف اور ڈر نام کی کوئی چیز اپنے اندر نہیں پاتا ،میں نے اسے سراپا رحمت ھی رحمت، پیار ھی پیار پایا ھے ! معاف کرنے والا ،در گزر کرنے والا ،نہ صرف عذر قبول کرنے والا بلکہ خود عذر دماغ میں سجھانے والا،، اسی نے آدم علیہ السلام کو توبہ کا صیغہ اور طریقہ سجھایا تھا !

آپ جب کسی سے کوئی لوکیشن پوچھتے ھیں تو وہ خود جس رستے سے اس منزل تک گیا ھوتا ھے ،بالکل اسی رستے سے آپ کو سمجھاتا ھے،،وھی چوک ، وھی سگنل، وھی رائٹ سے لیفٹ اور لیفٹ کے بعد دوسرا کٹ !

اللہ کا رستہ سجھانے والے بھی قسم قسم کے لوگ ھیں،،مگر میں نے تو اسے پیار میں ھی پایا ھے،، پیار کے رستے سے ھی لوکیشن سمجھاتا ھوں ،اس میں کوئی رائٹ اور لیفٹ ھے ھی نہیں،، آپ سے اللہ تک درمیان میں کوئی ھے بھی نہیں !

میں جب بھی مصنوعی خوف طاری کرنے کی کوشش کرتا ھوں تو لگتا ھے جیسے وہ اللہ طنزیہ انداز میں دیکھتا ھے اور ایک لمبــــــــــــــــــی ھـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــوں کر کے فرماتا ھے '' تیری ساری زندگی تیرے چونچلے برداشت کرتے،، تجھے سنبھالتے، سنوارتے ،اٹھاتے بناتے گزر گئی،، اب جب ھم سے ملاقات کا وقت آیا تو جناب کو ھم سے ڈر لگنا شروع ھو گیا ؟ ذرا ھمیں بھی دکھاؤ جی وہ ڈر کدھر ھے ؟ تا کہ ھم اس کا علاج کریں ! تمہارے اندر تو کوئی نہیں ، ڈر بھی کوئی نہیں اور ڈر کی جگہ بھی کوئی نہیں ،ھمیں تو سارے سٹور پیار سے ھی بھرے ملے ھیں !

"لا خوفٓ علیھم ولا ھم یحزنون " سے ھی تو ھماری دوستی شروع ھوتی ھے ! اب یہ دوستی کی انتہا میں خوف کہاں سے آ گیا ؟ جب لوگ دوسروں سے ڈرتے ھیں تو اللہ انہیں فرماتا ھے کہ ' اگر ڈرنا ھے تو پھر میں زیادہ حقدار ھوں کہ مجھ سے ڈرو ،کیونکہ تمہارا نفع نقصان تو میں کر سکتا ھوں،،فلا تخافوھم و خافونِ " چنانچہ تم ان سے مت ڈرو ،مجھ سے ڈرو،، فلا تخشوھم واخشونِ'' ان سے سہمے سہمے مت رھا کرو ھم سے سہمے رھا کرو ! یہ تو خوف کے مریض کو دوا دی جا رھی ! خوف مرض ھے اور پیار صفت ھے،، محبت مطلوب ھے ! 

البتہ میں اس سے محبت کرتا ھوں ،دنیا کی ھر چیز مجھ سے محبت کرتی ھے کیونکہ وہ اللہ سے بھی محبت کرتی ھے اور اللہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرتی ھے،اللہ کی ساری کائنات مجھے اپنی اپنی لگتی ھے اور اللہ جب میرے ساتھ ھوتا ھے تو وہ سیلوٹ کرتی نظر آتی ھے، وہ مجھے رشک کی نگاہ سے دیکھتی ھے ،، جان دار اور بے جان کی کوئی تخصیص نہیں ھے! مجھے یہ احساس کہ اللہ میرے ساتھ ھے،، کسی سے ڈرنے نہیں دیتا،کسی سے دبنے نہیں دیتا ،، کسی سے مرعوب نہیں ھونے دیتا،، دشمنوں سے خوفزدہ نہیں ھونے دیتا،، میرے پیارے نبی ﷺ کی دعا ھے، اللھم بک ادرأ فی نحور الاعداءِ والجبابرہ ،، ائے اللہ میں تیرے بھروسے پر دشمنوں کی گردنوں پر ھاتھ ڈال دیتا ھوں اور جابروں سے ٹکــرا جاتا ھوں ! مجھ سے جب کوئی ایسی غلطی سر زد ھو جاتی ھے جس سے مجھے احساس ھوتا ھے کہ میرا اللہ مجھ سے ناراض ھو گیا ھو گا تو میں سہم جاتا ھوں اس شوخے بچے کی طرح جو باپ کی موجودگی تو بڑی ڈھینگیں مارتا ھے ،مگر جونہی ان سے بچھڑتا ھے تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ھے اور چہرے پر ھوائیاں اڑنے لگتی ھیں ! میرا بھی یہی حال ھوتا ھے،،مجھے اپنی پشت خالی لگتی ھے،میں اپنے کو لاوارث سمجھتا ھوں، اپنی گاڑی سے بھی ڈر لگتا ھے،، گاڑی کے ٹائر سے بھی ڈر لگتا ھے کہ یہ اچانک پھٹ سکتا ھے،، ھر چیز مجھے ڈراتی ھے جیسے انہیں پتہ چل جاتا ھے کہ میں لاوارث ھو گیا ھوں ! میں اللہ سے بچھڑ کر ھر چیز سے ڈرتا ھوں ،، میں رو رو کر اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتا ھوں،، جنت کے لئے نہیں ! اور نہ آگ کے ڈر کی وجہ سے ! بس مجھے اللہ کی ناراضی میں دنیا ھی جہنم لگنے لگتی ھے،، وہ جو رو رو کر چاھتے تھے کہ ان کو سنگسار کیا جائے وہ رب کو ناراض کر بیٹھے ھیں ،، ان سے پوچھئے انہیں کیا ھو جاتا ھے انہیں یہ زندگی عزیز کیوں نہیں رھتی ؟؟ نہ وہ جنت جانے کے لئے سنگسار ھونے آئے تھے اور نہ جہنم سے بچنے کے لئے !! محب کے لئے محبوب کی ناراضی سب سے بڑی سزا ھے ! اور محبوب کی خوشی سب سے بڑا انعام ھے،، اس لئے جنت کی ساری نعمتوں کا ذکر فرما کر آخر میں فرمایا کہ،، و رضوان من اللہ اکبر ! اللہ کی رضا سب سے بڑی نعمت ھے ! نبیﷺ نے ان کو سزا نہین دی تھی،، سزا سے نجات دی تھی،، ان پر مہربانی کی تھی ! اللہ سے ان کا راضی نامہ کرا دیا تھا،، نبی پاکﷺ کی یہ سنت رھی ھے کہ جس نے اپنے لئے جو سزا تجویز کر لی پھر آپﷺ نے اسے اس کے پیار کے حوالے کر دیا،، جس نے اپنے کو ستون سے باندھ لیا ،،فرمایا اب اسے رب ھی کھولے گا کیونکہ یہ محب اور محبوب کی بات آگئ ھے،، اسی طرح ان سگنسار والوں نے بار بار کے منع کرنے اور موقع دیئے جانے کے باوجود اپنے محبوب کو راضی کرنے کا ایک طریقہ پسند کر لیا تو نبیﷺ نے حسبِ دستور پھر مداخلت نہیں کی !
بات کا رخ تبدیل ھو گیا ھے،،تو عرض یہ ھے کہ مجھے میرے گناہ ڈراتے ھیں،، اور ڈر اللہ کی ناراضی کا ھوتا ھے کہ میرا خالق ،میرا مالک، میرا مصور،، میرا محسن،میرے دکھوں کا ساتھی ،میرے سکھوں اور خوشیوں کا منبع میرا پیارا رب ناراض نہ ھو جائے،، اس ڈر کے سوا مجھے کبھی اور کوئی ڈر نہیں لگا،،

یقین کریں میں اپنے آپ کو اپنے اللہ سے ڈرا نہیں پایا !! اس کا پیار مجھے ڈرنے نہیں دیتا،،اس نے میرے ساتھ ڈرنے ڈرانے والا کوئی معاملہ کیا ھی نہیں ! پھر جھوٹا ڈر بھی تو ایک قسم کا جھوٹ ھی ھوتا ھے اور مجھ سے یہ جھوٹ بولا نہیں جاتا !! اب لگا لیجئے جو فتوے لگانے ھیں !!