Sunday, March 23, 2014

شیطان سے بات چیت

شیطان سے مکالمہ !

جناب میں ایک صحافی ھوں ! صحافی اور اداکار کا اپنا کوئی نام نہیں ھوتا !
جو نام ایڈیٹر یا ھدایت کار کو کلک کر جائے وہ رکھ لیا جاتا ھے اور پھر دنیا نہیں جانتی کہ نورجہان کا نام اللہ وسائی تھا،، اور دلیپ کمار کا یوسف خان ! مجھے عموماً مدارس کے علماء سے انٹرویو کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی جو کہ ھم بخوبی سر انجام دیتے رھے- اس کام کے لئے نام کی بڑی اھمیت ھوتی ھے لہذا ھمارا نام بھی مذھبی طور پر بھاری بھر کم رکھا گیا جابر بن احمد الباقر- نام سنتے ھیں علماء کو یقین ھو جاتا کہ صحافی کوئی دھریہ نہیں ھے بلکہ مذھبی بیک گراؤنڈ رکھتا ھے ،، علماء کو پہلے بریفنگ دی جاتی ھے کہ ان سے ھمیں کس قسم کے مضمون کی ضرورت ھے، اسی کی نسبت سے ان کے مشورے کے ساتھ سوالات طے کیئے جاتے ھیں ! اور تقریباً طے شدہ جوابات دیئے جاتے ھیں ! اگر ایڈیٹر کو کوئی جواب پسند نہ آئے تو مولانا کے مشورے سے اسے مناسب بنا لیا جاتا ھے !
پاگل صرف پاگل خانوں میں نہیں ھوتے ھمارے دائیں بائیں پاگلوں کی بھر مار ھے ! ان میں ریڑھی بان سے لے کر بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ھوئے پاگل تک سب شامل ھیں ! جن میں سے ایک ھمارے اخبار کے چیف ایڈیٹر صاحب بھی ھیں،، ایک دن ھمیں دفتر میں بلایا گیا اور چائے بسکٹ کے بعد حکم دیا گیا کہ آپ نے اتنے بڑے بڑے علماء حضرات کو انٹرویو کیا ھے ! مگر یہ ساری اسٹوری ون وے ھے ،، اگر آپ شیطان کا انٹرویو کر سکیں تو اس کا ورژن بھی سامنے آ جائے کہ وہ اپنے بارے میں اور انسان کے بارے میں کیا کہنا چاھتا ھے ؟ مثبت اور متوازن صحافت اسی کا نام ھے !
ایڈیٹر صاحب کا حکم سننے کے دوران ھمارا پارہ چڑھنا شروع ھو چکا تھا اور غالباً یہ بھی شیطان کا ھی کارنامہ تھا ! جونہی ایڈیٹر صاحب خاموش ھوئے میں نے عرض کیا کہ جناب جس کسی نے بھی آپ کو یہ اطلاع دی ھے کہ شیطان میرا سالا ھے بالکل غلط کہا ھے،میری تو اس سے سلام دعا تک نہیں ھے اور نہ کبھی وہ مجھے ملا ھے ! اس لیئے کسی ایسی ھستی سے انٹرویو کرنا جس کو نہ آپ دیکھ سکتے ھوں اور نہ کبھی دیکھا ھو ناممکن ھے،آپ میری معذرت قبول فرمائیں،، اس پہ وہ مسکرائے اور بولے یار تمہیں ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ھے،فنڈز بھی دیئے جائیں گے شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک شیطان دفتر کھولے بیٹھا ھے،، کالا جادو،پیلا جادو ،، تمنا کیسی ھی کیوں نہ ھو ،، سنگدل سے سنگدل محبوب قدموں میں،، فلاں بنگالی بابا ،فلاں سنیاسی بابا ،، فلاں برمی بابا ،، جاؤ یار ان کے یہاں تلاش کرو بغیر شیطان کی پارٹنرشپ کے ان کا کاروبار کیسے چل سکتا ھے ؟ ان میں سے کسی نہ کسی نے ضرور شیطان سے ملاقات کی ھو گی !!
یوں ھم نے یہ مشن اپنے ھاتھ میں لے لیا اور سارے جادوگروں کو ایک ایک کر کے چھاننا شروع کیا ،، ایک ایک سے سوال کیا ،منتیں کیں،، پیسے کا لالچ دیا کہ یار شیطان کا پتہ دے دو،، اس سے ضروری کام ھے !! مگر پتہ چلا کہ وہ خود بھی دو نمبر شیطان ھیں،، اصلی شیطان کے نظر نہ آنے کا انہوں نے فائدہ یوں اٹھایا کہ خود ھی شیطان بن بیٹھے اور اس کے فرنچائز بن کر اس کا کام کرتے ھیں ، مگر معاوضہ بھی انسان سے لیتے ھیں اور وہ بھی بھٹکانے اور ایمان ضائع کرنے کا !
مہینہ پلک جھپکتے گزر گیا اور اگلے دن رپورٹ پیش کرنی تھی ، فنڈ بھی سارا ختم ھو گیا تھا - اس دن رات کا کھانا بھی ٹھیک سے کھایا نہیں گیا اور میں جلدی بستر پہ چلا گیا ! سوچوں میں ڈوبے ھوئے پتہ نہیں کب نیند کی وادی میں چلا گیا تھا کہ اچانک دروازے سے ایک صاحب اندر داخل ھوئے ! دیکھنے میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے کوئی کھلاڑی لگتے تھے،، بڑے آرام سے آ کر میری چارپائی کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئے ! مجھے بڑی حیرت ھوئی ایک شخص بغیر کسی اجازت کے کسی کے کمرے میں گھس جائے اور معذرت بھی نہ کرے ! خطرہ تو محسوس ھوتا ھے،اس کے چہرے پر ویسے ھی لعنت نظر آ رھی تھی جیسے کوئی ٹارگٹ کلر ھو ! جب کہ صحافیوں کو دن دیہاڑے ٹارگٹ کیا جا رھا تھا !
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ! جناب کا تعارف ؟
پہلے تو اس نے ایک انتہائی مکروہ قہہقہ لگایا پھر بولا، چندا سارا شہر تو نے میری تلاش میں چھان مارا اور اب پہچاننے سے بھی انکار ؟ میں ھوں وہ شیطان جس سے آپ کو انٹرویو کرنا تھا،،میں نے سوچا چلو انسان اپنی سوانح عمری چھپواتا ھے تو ھم بھی یہ کر کے دیکھتے ھیں ! ویسے ایک بات ھے بھائی جابر ( مجھے اس کا بھائی کہنا ذرا بھی نہ بھایا ،گویا وہ واقعی ھمارا سالا بننے کے چکر میں تھا )،، یہ انسان جب آپ بیتیاں چھپواتا ھے تو اس میں ساری نیکیاں ھی چھپواتا ھے گویا وہ فرشتہ ھے جس سے کبھی گناہ سرزد ھوا ھی نہیں ! علماء کی سوانح عمریاں چاھے ان کے معتقدین کی طرف سے چھپوائی جائیں پڑھو تو لگتا ھے یہ تو معصوم عن الخطا ھیں اور ان کی کرامات ! پیغمبروں کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں ،، بعض علماء تو اپنی زندگی میں ھی اپنی ذات پر پی ایچ ڈی کروا رھے ھیں،،
مولانا فلاں ،، بحثیت ایک مجتہد ،، فلاں صاحب بطور خادم حدیث،، چار چار پی ایچ ڈیز ایک شیخ الاسلام پر ھو رھی ھیں !! ان حالات میں میرا سامنے آنا اور اصل حقائق سے پردہ اٹھانا بہت ضروری تھا،، اب آپ جو سوال کرنا چاھتے ھیں وہ کر لیں ،،اس وضاحت کے ساتھ کہ میں جھوٹ بولنے سے پیشگی معذرت کرتا ھوں،جو میرے دل میں ھو گا میں وھی بیان کروں گا،، میں نے اللہ سے بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، ایک ایک بات جو میرے دل میں تھی وہ اللہ کے سامنے رکھ دی تھی،، میں کیا کروں گا،،کیسے کرونگا اور کیوں کروں گا صاف صاف بتا دیا تھا،،میں کافر ھوں منافق نہیں ھوں ،،یہی لقب مجھے آسمانی کتابوں میں دیا گیا ھے،، میں کھلا دشمن ھوں چھپا دشمن نہیں ھوں،، چھپے دشمن پیدا کرنے میں انسان اپنی مثال آپ ھے !
اب ھمارے اندر کا صحافی جاگ پڑا - ھم نے کاغذ قلم سنبھالا اور اپنے مرتب کردہ سوالات کا جائزہ لیا ! شیطان کی بے تکلفی کو دیکھتے ھوئے ھمارا ڈر کم ھو گیا تھا جس کی روشنی میں ھم نے اپنے چند سوالات کو کاٹا اور چند نئے سوال مرتب کر کے انٹرویو شروع کیا

میرا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ سجدے سے انکار سے پہلے تمہارا اسٹیٹس آسمانوں پر کیا تھا ؟
میں نے شیطان کو واضح طور پر سنجیدہ ھوتے دیکھا،گویا کسی اذیت ناک یاد کا سایہ اس کے چہرے پر سے گزر گیا ھو ! اس نے میری طرف غور سے دیکھ کر کہا اس کے بارے میں آپ لوگوں میں بھی تو بہت ساری کہانیاں مشہور ھیں پھر مجھ سے آپ کو پوچھنے کی ضرورت کیوں محسوس ھوئی ؟ اور آپ کو ایک شیطان سے سچ کی توقع کیوں پیدا ھو گئ ھے ؟ پہلی بات یہ کہ میں تمہارے منہ سے سچ سننا چاھتا ھوں اور دوسری بات یہ کہ میں تمہارے اس دعوے کا امتحاں بھی چاھتا ھوں کہ تم نے اللہ کے سامنے سچ سچ بیان کر دیا تھا ! یار تمہیں بات کرتے ھوئے سمجھ نہیں لگتی ؟ ایک بات واضح طور پر تمہارے قرآن میں بار بار لکھی ھے کہ ابلیس نے یہ کہا کہ میں سجدہ نہیں کرتا،، میں اس سے بہتر ھوں،، مجھے تیری عزت کی قسم میں اسے گمراہ کرونگا، میں اس کے دائیں سے بھی آؤں گا ، بائیں سے بھی وار کروں گا،سامنے سے بھی آؤں گا اور پیچھے سے بھی وار کروں گا اور ان کی اکثریت تیری شکر گزار نہیں ھو گی،، میں دنیا کی چیزیں ان کے سامنے مزین کرونگا ،،پھر ان میں خواھشیں پیدا کروں گا،پھر میں جو حکم دوں گا وہ یہ پورا کریں گے،، یہ تمہاری طرف بھیجی گئ کتاب میں اللہ کا بیان ھے، اگر ترجمے سے قرآن پڑھا ھوتا تو تم میری بات پر شک نہ کرتے،،!! شیطان کو غصے میں دیکھ کر ھمیں اپنا انٹرویو رستے میں ھی ختم ھوتا نظر آ رھا تھا،،مگر میں نے بھی صحافیانہ چاپلوسی کا جال ڈالا،اچھا یار میں تمہارے منہ سے سننا چاھتا تھا کہ آسمان والے تو تم کو ھیرو سمجھتے تھے پھر تو ولن کیونکر نکل آیا ؟ 
دیکھو میاں جابر پہلی بات یہ کہ آسمانوں پر لاٹری کا کوئی قانون نہیں ھے ! جنوں میں سے ھوتے ھوئے فرشتوں تک رسائی آسمانوں میں جگہ بنانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ھے،،میں اللہ پاک کا مطیع اور فرمانبردار بندہ تھا ! میں نے زمین کے چپے چپے پہ سجدے کیئے ھیں جب زمین ختم ھوئی تو مجھے آسمان پر سجدوں کی اجازت ملی جہاں فرشتے سجدے کرتے تھے ! جتنا اللہ کو میں جانتا تھا ،جس طرح میں اسے بیان کر سکتا تھا فرشتے اس فن سے با آشنا تھے،میں جب رب کی عظمت اور جلال بیان کرتا تو فرشتے نہ صرف غش کھا جاتے بلکہ کئ کئ دن بیہوش رھتے ! سرکش جنات کے لئے میں فرشتوں کا لشکر لے کر آتا اور کچھ کو قتل کرتا کچھ فرار ھو جاتے کچھ دوبارہ مطیع ھو جاتے ! 
پھر تمہیں کس چیز نے بغاوت پر آمادہ کیا اور تو اللہ کی نافرمانی کر بیٹھا ؟
میاں جابر ،،،، اللہ کی بادشاھی میں کوئی کام اس کی اسکیم کے خلاف ھونا کیا ممکن ھے ؟ میں ابلیس کا منہ ھی دیکھتا رہ گیا !! یہ کیسے ممکن ھے کہ ابلیس کا کوئی رول نہ ھو اور ابلیس بن جائے ،، وہ بھی اس طرح کہ اللہ کو پتہ بھی نہ ھو اور وہ مجھ سے پوچھے کہ تمہیں کیا ھو گیا ھے کہ تو سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ھوا ؟ ابلیس اپنی بات جاری رکھے ھوئے تھا !
دیکھو جس طرح آدم کی تخلیق سے بھی پہلے لکھ دیا گیا تھا کہ آدم خطا کرے گا۔۔ اسی طرح ابلیس کی تقدیر بھی اس کی تخلیق سے پہلے لکھی جا چکی تھی ! مجھے وھاں نہیں جانا چاھئے تھا مگر میرا گزر اس تختی کے پاس سے ھوا جس میں لکھا ھوا تھا کہ اللہ کا کوئی بندہ صدیوں اسکی عبادت کرے گا اور پھر ایک نافرمانی کر کے راندہ درگاہ بن جائے گا ! بس بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ " کاش وہ میں ھوتا " جب آدم کو بنایا گیا تو سامنے نظر آرھا تھا کہ آدم کے ساتھ دوسرا دوڑنے والا چاھئے ،،جس سے جیت کر آدم پہلے نمبر پر آئے ! اکیلے دوڑ کر تو کوئی پہلے نمبر پر نہیں آتا؟ کیا کوئی کہانی بغیر ولن کے بھی ھوتی ھے؟ جتنا طاقتور ھیرو ھوتا ھے ویسا ھی شکتی مان ولن بھی چاھئے،، پھسپھسا سا ولن تو ھیرو کی انسلٹ ھوتی ھے ! خیر مجھے ساری اسکیم سمجھ لگ گئ،،فرشتوں میں سے کوئی نہ انکار کر سکتا تھا اور نہ ھی وہ اس اسکیم کو سمجھ کر قربانی دے سکتے تھے،، یہ کام مجھ جیسے ناھنجار سے ھی ھوا !
میرا جبریل سے مکالمہ اقبال نے لکھا ھے،،جس میں جبرائیل کو میں یہی سمجھا رھا ھوں کہ آدم کی کہانی بھی فرشتوں کی کہانی ھوتی ، جو تھرل اللہ چاھتا تھا کہ آدم کی کہانی میں ھو،، وہ سسپنس اور سنسنی میرے خون نے ھی پیدا کی !
گر کبھی خلوت میسر ھو تو پوچھ اللہ سے !
قصــہءِ آدم کــو رنگیں کــر گیا کــس کا لہو ؟
تم انسان سے گناہ کیوں کرواتے ھو ؟
یہ بھی ایک الزام ھے جس کی تردید کرنے کے لئے میں تمہارے پاس آیا ھوں !
دیکھو ثواب کے لئے نہیں تم صرف میری حقیقت جاننے کے لئے قرآن کو ترجمے سے پڑھ لو تو تم مسلمانوں کو احساس ھو جائے کہ تم کتنے بڑے خطرے سے دوچار ھو ! تم یہ سمجھتے ھو کہ قیامت کے دن سارا الزام مجھ پر رکھ کر تم سیدھے جنت میں چلے جاؤ گے؟ ایسا نہیں ھے قرآن میں میرا جتنا رول ھے میں بس وھی ادا کر رھا ھوں ،، جس چیز کا چیلنج دیا ھے اسی پر عمل کر رھا ھوں ،، میری کہانی اپنے رب کی زبانی سننی ھے اور اس میں انسان اور شیطان کے جرم کی نوعیت سمجھنی ھے تو سورہ ابراھیم کی ایک ھی آیت نمبر 22 کافی ھے،، میرا رول صرف دفعہ 109 کا ھے ،،کہ میں نے جرم کی دعوت دی،، جبکہ تم 302 کے مجرم ھو اور میں 302/109 کا مجرم ھوں ! اور تمہاری ھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 109 کو ثابت کرنا ناممکن ھے لہذا اس کے تحت اب سزا نہیں دی جاتی،، تمہیں میں نے بھی دعوت دی اور رسول ﷺ نے
 بھی دعوت دی،، زور نہ میرا تم پر چلتا تھا نہ نبی کا چلتا ھے اگر زور چلتا تو نوح اپنے بیٹے اور بیوی پر چلا لیتے،، تم نے نبیﷺ کی دعوت رد کر دی میری دعوت قبول کر لی ،رد و قبول کا اختیار تو تمہارے پاس تھا ؟ میری یہ بات اللہ نے تسلیم کر لی ھے اس کا رد نہین کیا،، میں ظلم میں مشورے کا ملزم ھوں اور تم ظلم کرنے والوں میں سے ھو ! آئی سمجھ جناب حضرتِ انسان ،، فرشتوں کے سجدے پہ ھی خوش ھوتے رھتے ھو،،اس ترک و اختیار اور رد و قبول کی امانت کا کوئی احساس ھے تمہیں کہ تم کیا بوجھ اٹھا بیٹھے ھو ؟
وہ بدبو جو مجھے ابلیس سے آ رھی تھی اور میں انٹرویو جلدی سے ختم کرنے کے چکر میں تھا،، اس سے زیادہ طاقتور بد بو کا بھبھکا میرے گریبان سے نکلا !! بات تو ابلیس کی سچ تھی ! کوئی کہے کہ کنوئیں میں چھلانگ لگا دو تو بندہ چھلانگ لگا لیتا ھے؟ کوئی کہے کہ زہر کھا لو تو بندہ زھر کھا لیتا ھے؟؟؟؟ پھر کوئی کہے کہ گناہ کر لو تو بندہ کیسے گناہ کر لیتا ھے ؟ اور ایسا بندہ معصوم کیسے بن جاتا ھے ؟
جب ھمیں کوئی جواب نہ سوجھا تو ھم نے پینترا بدلا اور اسے اس کے انجام کی طرف متوجہ کیا ! 
اچھا تمہیں اپنے انجام سے ڈر نہیں لگتا؟
جابر میاں تمہارا کیا خیال ھے اللہ کسی کی فیور میں بے انصافی بھی کرتا ھے ؟ ابلیس نے پلٹ کر سوال کر دیا !
نہیں یہ ناممکن ھے،میرا اللہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ بے انصافی کرتا ھے،،
تو پھر یقین رکھو وہ میرا بھی رب ھے وہ میرے ساتھ کبھی بھی بے انصافی نہیں کرے گا،، جتنا میرا جرم ھے اتنی ھی سزا دے گا ! اس نے آج تک ایک لفظ بھی میرے بارے میں کسی بھی آسمانی کتاب میں ایسا نہیں کہا جو مجھ پر میرے جرم سے زیادہ الزام لگاتا ھو ! ھر جگہ اس نے یہی فرمایا ھے کہ شیطان کے پاس تمہیں گناہ پر آمادہ کرنے کی نہ کوئی دلیل ھے اور نہ کوئی فزیکل طاقت ھے، ما کان لی علیکم من سلطانٍ الا ان دعوتکم فاستجبتم لی ،فلا تلومونی و لوموا انفسکم ،،
 ( ابراھیم 22 ) میری یہ میدانِ حشر کی دلیل دنیا ھی میں قبول کر لی گئ ھے ،، اللہ نے اس کا رد نہیں کیا،،مجھے جھوٹا نہیں کہا،، قرآن میرا بھی گواہ ھے ،، 
دوسرا مجھ پر حشر میں مقدمہ نہیں چلے گا،، میں تو تم لوگوں کے فیصلوں کے انتظار میں اس میدان میں کھڑا ھونگا تا کہ تمہیں ساتھ لے کر جاؤں ،،
میں سرک کر ابلیس سے دور ھو گیا !!
وہ لعنت کا کیا قصہ ھے ؟ ھم نے اپنا یکہ بھی پھینک دیا اور ساتھ طنزیہ مسکرائے بھی !
جی پہلی بات یہ کہ مجھ پر تو صرف اللہ کی لعنت ھے ! وان علیک لعنتی الی یوم الدین! اور تجھ پر میری لعنت ھے بدلے کے دن تک ! یہ اللہ کی لعنت تو تمہیں بخوبی یاد رھی اور تمہارا مولوی ھر جمعے کو منبر پر اچھل اچھل کر بیان کرتا ھے کہ شیطان پر اللہ نے لعنت کر دی ،،لعنت کر دی،،ملعون شیطان ،، شیطان ملعون ! مگر تمہیں پتہ ھے کہ حق بیان نہ کرنے والے مولوی پر اور اللہ کی طرف سے حق کو واضح کر دینے کے بعد صرف اپنی روٹی کی خاطر حق کو چھپا لینے والے مولوی پر ،اللہ کی بھی لعنت اور فرشتوں کی بھی لعنت اور جتنے انسان ھیں ان سب کی لعنت اور لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ھے ؟ اگر تمہارا مولوی حق بیان کرے اور حق کو تسلیم کر لے تو یہ جو تم گلی گلی مسجدیں بنا کر بیٹھے ھو یہ ایک مسجد میں تبدیل ھو جائیں ! وہ کتاب اللہ کی پکڑ کر بیٹھا ھوتا ھے مگر بات میری مانتا ھے ،، وہ حق کے نام پر حق سے روکتا ھے اور رستہ بتانے کے پیسے بھی لیتا ھے اور رستہ بھی غلط بتاتا ھے،، یقین نہیں آتا تو سورہ توبہ کی آیت 34 پڑھ لینا،،مگر کہیں توبہ کر ھی نہ لینا !! دوسری بات یہ کہ یہ لعنت قیامت کے دن تک ھے، کبھی غور فرما لینا،، وہ یوم الدین کو ایکسپائر ھو جائے گی ،،
اچھا دیکھو تم نے معافی کیوں نہیں مانگی ؟
معافی اللہ کی اسکیم میں ھی نہیں تھی ورنہ وہ مجھے معافی کی توفیق بھی دے دیتا،،میں نے جو چاھا وہ مانگا ،، اور جو مانگا اس نے وہ سب دیا،،پھر کیا معافی مانگتا تو وہ معافی نہ دیتا ؟ مگر میری معافی کے بعد پھر آدم نے اکیلے دوڑنا تھا اور اکیلے دوڑنے سے آدم کی ویلیو کچھ بھی نہ رھتی ،، اکیلے دوڑتے آدمی میں مسابقت کا جذبہ نہیں ھوتا،، ریس اور جوگنگ میں فرق ھوتا ھے،، آدم مسابقت اور ریس کے لیئے پیدا کیا گیا تھا،،جوگنگ کے لئے نہیں !! تم نے کبھی اللہ کا حکم پڑھا ،سابقوا الی مغفرۃ من ربکم و جنۃٍ عرضھا کعرض السماء والارض ( الحدید 21 ) بس یہ ھے وہ مسابقت اور ریس جس میں آدم کو میرے ساتھ دوڑایا گیا ھے،، میں نے مسابقت کر کے جہنم میں جانا ھے اور آدم نے دوڑتے دوڑتے جنت میں جانا ھے،،
تم تو جہنم کو یوں بیان کر رھے ھو جیسے وہ تمہارا مقصود و مطلوب ٹھکانہ ھے ؟ میں نے طنزیہ انداز میں کہا !!
وہ ابلیس تھا تھوڑا سا مسکرا کر بولا،، دیکھو رب کی اسکیم میں میرا ٹھکانہ وھی ھے اور میں نے اسے بہت سوچ سمجھ کر قبول کر لیا ھے، اللہ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ شیطان رو رو کر معافیاں مانگے گا،،کسی آسمانی کتاب میں میرے رونے گڑگڑانے کا کوئی ذکر نہ پاؤ گے،، کبھی غور کرنا کہ اس کی وجہ کیا ھے؟ البتہ کافروں کا ضرور ذکر ھے کہ وہ کہیں گے کہ اے اللہ ھمیں ایک بار اس میں سے نکال ھم دوبارہ اگر یہ کریں تو پھر ھم بہت ظالم ھونگے ! آگ کو آگ ھی سوٹ کرتی ھے،، آگ کا جنت میں کیا کام ؟ اللہ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ سزا نہیں دے گا،، ایمان والے گنہگار جب تک جہنم میں رھیں گے جہنم سامنے رھے گی،،جب آخری ایمان والا بھی نکال لیا جائے گا تو جہنم کا منہ لیپ کر اسے ھمیشہ کے لئے سب کی نظروں سے اوجھل کر دیا جائے گا،، فرشتوں کی نظر سے بھی ،، وہ صرف اللہ کے علم میں رھے گی،، اس گمشدہ جہنم میں کافروں پر میری حکمرانی ھو گی !! جس طرح جیل میں سب سے بڑا سزا یافتہ ان کا کھڑپینچ ھوتا ھے،میں نے جہنم کی کھڑپینچی منظور کر لی ھے ! کیا خیال ھے انٹرویو کا باقی حصہ وھیں نہ مکمل کر لیں ؟ شیطان نے جونہی یہ جملہ کہا میرا تراہ نکل گیا ! اور اس کے ساتھ ھی میری آنکھ بھی کھل گئ !