Tuesday, April 22, 2014

فریب خوردہ قوم !

فریب خوردہ قوم !
حقیقت میں اسلامی نظام کے نام پر سزاؤں کا نفاذ ھمارا مطمع نظر ھے،یعنی جس ملک میں اسلامی سزاؤں کا نفاذ ھو جائے لوگ ھاتھ کاٹنا اور سنگسار کرنا شروع کر دیں،،لوگ کہیں گے کہ اسلام آ گیا ! یہ آج کے مسلمان کا کانسیپٹ ھے ،اسلامی نظام کے بارے میں اور یہ ضیاء صاحب کے دور میں زیادہ اسٹیبلیش ھوا ھے ،، 
اب بھی جب کہا جاتا ھے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ھے یا پاکستان ایک اسلامی ملک ھے تو لوگ سوال کرتے ھیں کہ 1947 سے کتنے لوگوں کے ھاتھ کاٹے گئے ھیں؟ کتنے لوگوں کو سنگسار کیا گیا ھے ؟ یہ ھے ھمارا اسلامی نظام ،، 18 کروڑ میں سے 16 کروڑ کے ھاتھ کاٹ دیجئے تو اسلام آ جائے گا ! اس کے علاوہ کونسا اللہ کا حکم ھے جو پوری دنیا میں پورا نہیں کیا جا سکتا؟ کوئی نماز سے روکتا ھے؟ کوئی روزے سے منع کرتا ھے ؟ کوئی زکوۃ سے روکتا ھے ؟ شہادتین سے منع کرتا ھے،، حدیثِ جبریل میں تو یہی اسلام ھے ! اب رہ گیا معاشی نظام تو وہ پوری دنیا میں ممکن نہیں ھے،جب کہ مکے مدینے والی خودکفیل ریاست میں ممکن نہیں ھے ،جہاں تیل نہ بھی ھو، حج اور عمرے والوں کا زرمبادلہ ھر لحظہ بارش کی جھڑی کی طرح مسلسل برستا رھتا ھے ،، ھم تو ھیں ھی بھکاری قوم ! تحت الثراء تک قرضوں میں جکڑی ھوئی قوم ،،ھم قرض کی ادائیگی سے کیسے انکار کر سکتے ھیں ؟ جن لوگوں کو یہ زعم ھے کہ ھم ایک خود مختار مالیاتی نظام کھڑا کر سکتے ھیں میری ان سے گزارش رھی ھے کہ " ھم نے ھزاروں جانیں اور عصمتیں قربان کر کے صومالیہ میں ایک بنی بنائی حکومت گرائی ھے اور اسے تہس نہس کر دیا ھے، اب وہ ٹھیک 1434 سال پرانا ملک ھے ! کسی کے قرضے میں مقروض نہیں،، اس کی کوئی کرنسی نہیں،، کوئی بینک نہیں،،بس سارے مخلص مسلمان وھاں تشریف لے جائیے اور ایک غیر سودی مالیاتی نظام کھڑا کر دکھائیے ،، تا کہ سند رھے،، اب بھی شاید کوئی بھائی گوگل سرچ کر کے تقی عثمانی صاحب کا کیا ھوا " نیٹ پریکٹس ٹائپ " مالیاتی سسٹم شیئر کر دے گا کہ یہ لو ،کام تو سارا ھو چکا ھے بس اب حکومت اس کو نافذ کرے ،، مگر حقیقت یہ ھے کہ وہ صرف دھوکا ھے،، اتنا سارا دھوکا جتنا آپ کے وضو کا پانی واش بیسن سے کموڈ والے 4 انچ پائپ میں جا کر مکس اپ ھوتا،، پھر دونوں ایک جیسے ناپاک ھو جاتے ھیں،، مفتی صاحب کا بنایا ھوا مالیاتی نظام صرف ایک برانچ سے دوسری برانچ کا سفر ھے وھی جو فیصل بینک میں حلال اور پاک ھوتا ھے وھی شام کو اسٹیٹ بینک اور بھر سٹی بینک یعنی عالمی مالیاتی نظام میں پہنچتے ھی پھر وھی ناپاک بن جاتا ھے ،، یہ اب اضطرار بن چکا ھے تا آنکہ ایٹمی جنگ میں دنیا تباہ ھو کر واپس پتھر کے دور میں پہنچ جائے اور لوگ گندم دے کر گاجریں خریدیں اور بکری بیچ کر آٹا ،، بارٹر سسٹم شروع ھو جائے ،، ھمارے مجاھدین اسی لئے ایٹمی ھتھیاروں تک رسائی چاھتے ھیں ! اگر ایک شخص ان تمام معاملات میں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت کرتا ھے جن میں  وہ اطاعت کرنے کی استطاعت رکھتا ھے،تو اللہ پاک اسے ان معاملات میں معاف فرما دے گا جن میں وہ مجبور کر دیا گیا تھا جن میں سودی نظام بھی شامل ھے، لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا ،، اور رفع عن امتی ثلاث،، الخطاء والنسیان وما استکرھوا ! میری امت سے تین باتوں پر پرسش معاف کر دی گئ ھے ،، غلطی ، بھُول چوک اور جس پر اسے مجبور کر دیا جائے ! جب بندہ اپنی استطاعت میں بری ھو جائے گا تو معاف کر دیا جائے گا،،مگر ایک مسلمان جب اپنے اخلاقیات اور اردگرد کے معاملات میں جن میں وہ عمل کرنے میں آزاد ھے بودا ثابت ھو جائے گا،، تو پھر باقی کے بارے میں وہ ماخوذ ھو گا ! آج مسلمان معاشرے عام انسانی اقدار سے بھی کوسوں دور ھیں،، ھر برائی اپنی بدترین شکل میں ان میں موجود ھے، بڑے بڑے دیندار اور خود وہ جو اللہ کے دین کے نفاذ کا خوشنما دعوی لے کر اٹھے ھیں خود وہ انسانیت کے اجتماعی قتل کے مجرم ھیں،، عبادت گاھوں کو نمازیوں سمیت اڑانے کے مجرم ،، سکول وینوں کو بچوں سمیت اڑانے کے مجرم ،، بازاروں کو خریداروں سمیت اڑانے کے مجرم ،، ھر نیک و بد ان کے نشانے پہ ھے ! یہ لوگ اسلام کے نام پر اپنی ذاتی ڈکٹیٹر شپ چاھتے ھیں ،، اور کچھ نہیں،، یہ روئے زمین پر بدترین مخلوق ھیں،، یہ اللہ کے اختیارات کو سلب کر کے اپنی ذات میں مرتکز کرنا چاھتے ھیں،، یہ چاھتے ھیں کہ یہ لوگوں کے بالوں کا اسٹائل طے کریں ،، اور کپڑا آپ کا ھو مگر ناپ وہ طے کریں ! یہ گسٹاپو کا مذھبی روپ ھے اور کچھ نہیں ! اس کو یہ لوگ اسلامی نظام کہتے ھیں !

ماں کو خوشخبری سنائیں

ھم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے !
اگست کی تپتی دوپہر ، تندور کی طرح لـُـو کی لپٹیں اٹھاتی گلیوں میں سے وہ دوڑتا ھوا ماں کے پاس پہنچا جو ایک تالاب پر کپڑے دھونے آئی ھوئی تھی !
امی ، امی ابو کا خط اس نے ماں کو خوشخبری سنائی ! تیسری کلاس میں پڑھتے اپنے بیٹے کے تپتے ھوئے چہرے کو دیکھتے ھوئے اس نے اسی کو خط پڑھنے کو کہا کیونکہ وہ خود ان پڑھ تھی !
بیٹا خط کھول رھا تھا اور وہ کھڑی ھو کر کوئی کپڑا نچوڑ رھی تھی جب اچانک بیٹے نے خط کا سرنامہ پڑھا ،،،،،،،،،،،طلاق نامہ ،،،،،،،،،،،،،،
سرنامہ پڑھ کر بچے نے مزید آگے پڑھنے سے پہلے ماں کی طرف دیکھا، جس کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر دوبارہ تالاب کے پانی میں گر گیا تھا اور وہ کمر کو پکڑ کر بیٹھنے کی کوشش کر رھی تھی ! معصوم بچہ جسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ طلاق نامہ کیا بلا ھوتی ھے ! یہ خوشخبری ھوتی ھے یا کسی کی زندگی کی تباھی کا اعلان نامہ ! وہ ماں کی حالت دیکھ کر پریشان ھو گیا جو اسے ھاتھ کے اشارے سے مزید آگے پڑھنے سے روک رھی تھی ! ماں نے دھلے ان دھلے سارے کپڑے لپیٹے اور گھر واپس آ گئ ! فردِ جرم یہ لگائی گئ کہ میں نے جب تمہیں بہن کے گھر جانے سے منع کیا تھا تو تم اس کے گھر کیوں گئ ھو ! وہ دو بہنیں ھی تھیں اور کوئی ان کا تھا بھی نہیں ! نہ والدین نہ بھائی !
طلا ق کے بعد وہ 24 سال کی عمر میں بہن ھی کے گھر کے ایک کمرے میں رھنے لگی ! باپ کی کوشش کے باوجود بیٹا ماں کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا ، حساس طبیعت بچے نے اس واقعے کو اپنی زندگی کا دکھ بنا لیا اور اس دکھ کو محنت میں تبدیل کر کے تعلیم پر پوری توجہ مبذول کر دی،، وہ اس چھوٹی عمر میں ھی محنت کرنے لگ گیا اور اپنے تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرتا ! ماں اسے چنے چاٹ بنا دیتی جو وہ عصر اور مغرب کے درمیاں بیچ دیتا ،، وہ بورا تربوز کا ایک دفعہ خرید لیتے جسے وہ روزانہ عصر کے بعد اور چھٹی والے دن بیچتا،، ماں لوگوں کے گھروں کا کام کرتی یوں گھر کے اخراجات چلتے ! وقت گزرتے دیر نہین لگتی بی اے کرنے کے بعد اس نے ایل ایل بی کا امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے پاس کیا ،، لاھور ھائی کورٹ سے لائسنس ملنے کے بعد اس نے اپنی تحصیل میں پریکٹس شروع کی ! عموماً وہ سول کیس لیتا تھا اور خاص کر طلاق کے کیس تو اس کے پاس کثرت سے آتے تھے ! وہ جب عدالت میں کھـڑا ھوتا تو ھر طلاق یافتہ عورت اسے اپنی ماں لگتی وہ ان عورتوں کے مستقبل کو یوں جانتا تھا جیسے اپنی ماں کے ماضی کو ،، اپنا درد جب وہ الفاظ میں سمو کر جج سے مخاطب ھوتا تو پوری عدالت کا ماحول جذباتی ھو جاتا ،، وہ سب کچھ جو وہ چھوٹا ھونے کی وجہ سے باپ سے نہ کہہ سکا تھا وہ طلاق دینے والے کے کانوں میں پگھلے ھوئے سیسے کی طرح اتار دیتا،، بہت سارے مقدموں میں صلح بھی ھو جاتی اور گھر بس جاتے ،مگر ھر کیس کا فیصلہ اس کے حق میں ھی ھوتا !
وقت نے اسے سول جج اور میجسٹریٹ دفعہ 30 بنا دیا ،،

ماں کے دکھ نے اسے مذھب کی طرف مائل کر دیا تھا ! دکھ ایک دھکا ھوتا ھے جو کسی کو گمراھی کے تالاب میں گرا دیتا ھے تو کسی کو اللہ کے قدموں میں لا ڈالتا ھے ! اس نے سکول کی تعلیم کے دوران ھی قرآن بھی حفظ کر لیا تھا ! جب وہ اپنی مشت بھر داڑھی کے ساتھ قراقلی پہن کر عدالت میں بیٹھا ھوتا تو لگتا کوئی خطیب ھے، وہ ظہر کی نماز کا وقفہ کر کے باقاعدہ نماز جماعت کے ساتھ کچہری کی مسجد میں ادا کرتا ! اس کی شادی اسی خالہ کی بیٹی سے کر دی گئ تھی جن کے گھر وہ رھتا تھا !
عدالت میں جب بھی کوئی طلاق کا کیس آتا تو اسے ایک لمحے کے لئے ایک جوان عورت کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر گرتا نظر آتا اور دوسرے لمحے وہ عورت اپنی کمر پہ ھاتھ رکھے زمین بوس ھوتی نظر آتی ! ساری زندگی یہ کلپ اس کا پیچھا کرتا رھا ،جس کا پرتو اس کے ھر فیصلے میں نظر آتا ! ماں کی دعاؤں کا اثر تھا یا اس کی دیانت تھی کہ وہ جھٹ پٹ سول سے سیشن جج بنا اور اس کی پوسٹنگ اسلام آباد کچہری میں ھو گئ،، جہاں اسے کئ وزراء اعظم کی ضمانت اور کئ کے وارنٹ جاری کرنے پڑے ! 

اس کے والد اور والدہ مقبوضہ کشمیر کے ایک ھی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے ! 1948 کی ھجرت کے دوران اس کی والدہ کا سارا خاندان تہہ تیغ کر دیا گیا تھا ،، صرف دو بہنیں زندہ بچ گئ تھیں وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ اس وقت کسی کے گھر گئ ھوئی تھی کھیلنے کے لئے ! اس کے نانا گاؤں کے امیر ترین آدمی تھے ! گائیں بھینسیں زمینیں اور کھیتی باڑی ،، ھندو ان کے ملازم تھے اور وھی ڈوگروں کو چڑھا کر لائے تھے ! اس کے دادا نے گاؤں سے نکلتے وقت ان دونوں بہنوں کو بھی ساتھ رکھ لیا یوں اس کے والد اور والدہ ایک ھی گھر میں اکٹھے کھیل کود کر جوان ھوئے تھے !
یہ شادی بھی دونوں کی رضامندی سے ھوئی تھی ! طلاق کے باوجود والدہ نے کبھی بھی اسے والد کے خلاف نہیں بھڑکایا ،ھمیشہ اسے والد کا احترام کرنے کی نصیحت کی، والد نے دوسری شادی کر لی تھی جس سے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں،، دوسری بیوی نے اس کے والد کو تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیا تو اولاد تو اللہ کا عذاب بن کر آئی ،، اسے اکثر اپنی والدہ کی بات یاد آتی، بیٹا وہ تیرے والد ھیں،تو ان سے تعلق رکھ اور ان کا احترام کر ،، میرا حساب اللہ دنیا میں چکا دے گا ورنہ آخرت تو پڑی ھوئی ھے وھاں دیکھ لیں گے ! مگر وہ سلام دعا کرنے کے باوجود والد کے ساتھ کوئی قلبی تعلق پیدا نہ کر سکا ! اس کا والد جب اپنے دوسرے بیٹوں کے پیچھے گلی گلی ٹوکا لیئے دوڑ رھا ھوتا تو اسے تعجب ھوتا کہ کل تک اتنا سنجیدہ انسان جو اس کا آئیڈیل تھا ، آج اولاد اسے کس مقام پر لے آئی تھی ! سرکاری نوکری سے ریٹائرڈ ھونے کے بعد اس کے والد کا رعب داب اور ٹھاٹ بھاٹ سب ختم ھو گئے تھے،، جب کبھی وہ گھر میں والد صاحب کی درگت بیان کرتا تو اسے محسوس ھوتا جیسے اس کی ماں بجائے خوش ھونے کے دکھی ھو جاتی ھے ! یہ بات اسے بعد میں اچھی طرح معلوم ھو گئ کہ اس کی ماں طلاق کے صدمے کے باوجود اس کے والد کی محبت کو دل سے نہیں نکال سکی تھی ،، اور اسی وجہ سے اس نے دوسری شادی کے لئے نہایت معقول پیش کشیں ٹھکرا دی تھیں !
جب کبھی وہ دوسرے بھائیوں کی شرارتیں اور والد کا گلی گلی ان کے پیچھے دوڑنا ماں کو بتاتا تو وہ افسردہ ھو کر کہتی " بیٹا جب انسان اللہ کی ناشکری کرتا ھے تو اس کی سزا بھی اسی صورت میں پاتا ھے،، تیرے جیسے ھونہار بیٹے کا بچپن خراب کر کے تیرے ابا نے اللہ کی ناشکری کی تھی، اللہ نے اولاد ھی کی صورت میں ان کو عذاب دے دیا اور میرے ساتھ جو کیا ،، وہ دوسری بیوی کی صورت میں پا لیا ! تو ان کے یہاں جایا کر اور جو خدمت ھو سکتی ھے وہ بھی کیا کر ،، وہ اولاد کی طرف سے دکھی ھیں،، تو کوشش کیا کر کہ تو ان کو وقت دے سکے ! ماں کے مجبور کرنے پر جب کبھی وہ مسجد سے نماز پڑھ کر والد کے ساتھ ھی ان کے گھر جاتا تو ،، اسے محسوس ھوتا جیسے والد اپنے کیئے کی کوئی وضاحت کرنا چاھتے ھیں مگر شاید ان کو الفاظ نہیں ملتے یا وہ اس کے رد عمل سے ڈرتے ھیں کہ کہیں جو تھوڑا بہت تعلق ھے وہ بھی نہ ٹوٹ جائے ! ایک دفعہ رات کو زور کی آندھی چلی ،گرمیوں کا موسم تھا سارے چھتوں پہ سوئے ھوئے تھے وہ اس وقت نویں کلاس میں پڑھتا تھا ،، والدہ نیچے صحن میں تھی اور وہ انہیں چھت پر سے چارپائی پکڑا رھا تھا جب ھوا کے تیز تھپیڑے نے اسے چھت سے نیچے دھکیل دیا ! اس کے والد جو پڑوس میں اپنی چھت پر سے یہ منظر دیکھ رھے تھے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ سیڑھیاں اترنے کی بجائے چھت پر سے گلی میں چھلانگ لگا کر دوڑے ، اور سیدھے ان کے گھر میں آ گھسے ! وہ چھت سے چھاتی کے بل گرا تھا اور سینے پر براہ راست لگنے والی چوٹ نے شاید اس کا دل بند کر دیا تھا یا گرتے وقت جو چیخ اس نے ماری تھی پھر پھیپھڑوں پر لگنے والے دھچکے نے سانس کا ردھم الٹا کر رکھ دیا تھا،، وہ سانس اندر لینا چاھتا تھا جبکہ پھیپھڑوں میں ایکسٹرا بھری ھوئی " ھوا " سانس اندر آنے نہیں دے رھی تھی بلکہ باھر دھکیل رھی تھی،، جو بھی تھا اس کی آنکھیں سفید ھو چکی تھیں اور والدہ کو اس آدھی رات اپنا چاند ڈوبتا نظر آرھا تھا ! ایسے میں اس کے والد کی آمد نے ماں کو حوصلہ دیا انہوں نے آتے ھی اس کی حالت کا اندازہ لگا لیا اور اسے لیٹے لیٹے اپنے منہ سے سانس دی ،اور پھر بٹھا کر اس کی چھاتی کو ملنا شروع کیا ! اس کی حالت سنبھل گئ تو والد نے اس کی والدہ سے کہا کہ میں دودھ بھیجتا ھوں اسے گرم دودھ میں ھلدی ڈال کر دو ! یہ پہلا مکالمہ تھا جو اس نے چھ سالوں بعد اپنے والد اور والدہ کے درمیان سنا تھا ! صبح اس کی سوتیلی ماں آئی تو اس نے بتایا کہ رات کو انہوں نے سیڑھیوں سے اترنے کی بجائے باھر گلی میں چھلانگ لگا دی تھی جس کی وجہ سے ان کے اپنے پاؤں میں سخت موچ آ گئ ھے ! اس دن اسے احساس ھوا کہ اس کے والد بہرحال اس سے پیار کرتے ھیں !؛

پارٹ ٹائم ٹیویشن پڑھانے کے باوجود والدہ اور اپنی یونیورسٹی کے اخراجات کے لئے اسے پیسے کا انتطام کرنا مشکل ھو رھا تھا ! ایسے میں گاؤں کے ایک صاحب جو اس کے والد کے دوست تھے اور لندن سے پینشن لینے کے بعد مستقل گاؤں میں ھی آ کر آباد ھو گئے تھے ! نام تو ان کا نور حسین تھا مگر کافی تعلیم یافتہ بھی تھے اور گورے چٹے ھونے کی وجہ سے لوگ ان کو بابو جی ،بابو جی کہہ کر پکارا کرتے تھے ! انہوں نے اسے ایک دن بلایا اور کہا کہ مجھے معلوم ھے کہ تعلیم کی وجہ سے آپ کو اخراجات کو manage کرنا مشکل ھو رھا ھے،، میں آپ کی یونیورسٹی کی سہ ماھی فیس جمع کرا دیا کروں گا ، آپ جب کام پر لگ جاؤ گے تو مجھے آئستہ ائستہ اسی ترتیب سے ادا کر دینا ! خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ،، ایک بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا تھا !
جس دن اس کی گریجویشن کی تقریب تھی وہ خود بابو جی کے پاس چل کر گیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ یونیورسٹی مہمان کے طور پہ چلیں ! انہوں نے اسے کہا کہ بہتر یہ ھے کہ وہ اپنے والد کو ساتھ لے کر جائے کیونکہ یہ ان کا حق ھے مگر اس نے کہا کہ سر آپ نے میرے اوپر اتنی مہربانی کی ھے ، آپ نے والد والی جگہ کام کیا ھے ،، آپ بھی میرے والد کی جگہ ھیں اسی لئے میں خود چل کر آپ کے پاس آیا ھوں ،، انہوں نے اس کا ھاتھ پکڑ کر اپنے دائیں طرف بٹھایا اور بڑی سنجیدگی سے کہا " یاد رکھنا والد والی جگہ دنیا میں کوئی نہیں لے سکتا " یہ دھوکا زندگی میں کبھی نہ کھانا ،، میں نے جو کچھ تمہارے ساتھ کیا ،، تمہارے والد کے کہنے پر ھی کیا ھے، وہ سارے پیسے تمہارے والد کے ھی تھے اس نے اپنے چراٹ سیمنٹ کمپنی کے سارے شیئر مجھے بیچ کر وہ رقم تمہارے لئے ارینج کی تھی ،، تمہیں اس لئے نہیں بتایا گیا تھا کہ شاید تم جزباتی ھو کر پیسے قبول کرنے سے انکار کر دو ،، بیٹا تمہارا باپ تمہارے ساتھ نہایت مخلص ھے ، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اور تمہاری ماں کے ساتھ اس نے جو کیا ھے وہ اس پر بھی شرمندہ ھے ،، بقول اس کے اس نے ایک ھی طلاق لکھی تھی اور وہ بھی ڈرانے کی نیت سے ،،مگر وہ یہ سمجھتا تھا کہ طلاق تین دفعہ لکھنے سے ھی واقع ھوتی ھے ،، بس یہ وہ غلط فہمی ھے جو اکثر لوگوں کو ھوتی ھے کہ تین دفعہ طلاق لکھو تو طلاق ھوتی ھے ! وہ بابو جی کے پاس سے اٹھ کر آیا تو سیدھا ماں کے پاس گیا اور ان کو وہ سب کچھ بتایا جو بابو جی سے سن کر آیا تھا ! ماں نے اسے کہا کہ میں نے تمہیں اسی لئے ھمیشہ یہ کہا تھا کہ اپنے والد کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آؤ ! وہ دل کے بہت اچھے انسان ھیں ! طلاق والی بات بھی انہوں نے مجھے کسی ذریعے سے پہنچائی تھی کہ وہ مسئلہ پتہ کر کے رجوع کر لیں گے مگر میں نے انکار کر دیا تھا،، البتہ پیسوں والی بات میرے لئے نئ ھے ، تم جاؤ اور ان کو کل کے لئے دعوت دو اور اصرار کر کے انہیں ساتھ لے کر جانا !
وہ والد صاحب کی حویلی میں داخل ھوا تو اس کی باڈی لینگویج ھی تبدیل ھو چکی تھی ، آج وہ شرمندہ شرمندہ سا لگ رھا تھا ، والد صاحب کے ھاتھ میں چائے کی پیالی تھی جو انہوں نے اسے ھی پکڑا دی اور اپنے لئے دوسری پیالی منگوا لی ! عام طور پہ وہ والد صاحب کے گھر بہت کم کھاتا پیتا تھا مگر آج اسے احساس ھوا کہ وہ گھر میں بھی والد صاحب کا ھی کھا رھا تھا ! جب وہ چائے پی چکا تو والد صاحب نے پیالی پکڑنے کو ھاتھ آگے بڑھایا ، اس نے پیالی تو نیچے رکھ دی اور والد صاحب کا ھاتھ پکڑ لیا ،، ان کا ھاتھ اپنے دونوں ھاتھوں میں لے کر اس نے انہیں کہا کہ کل اس کی گریجویشن تقریب ھے ،وہ چاھتا ھے کہ وہ اس کے ساتھ چلیں،، اسے محسوس ھوا جیسے والد صاحب کا ھاتھ آئستہ سے کانپا ھے ! انہوں نے اسے گہری نظر سے دیکھا اور حامی بھر لی !

تقریب میں اس کے دائیں طرف والد صاحب اور بائیں طرف والدہ تھیں ! جب وہ سند لے کر اترا تو سیدھا ماں کی طرف آیا ماں نے اس کا ماتھا چوما ، وہ رو رھی تھیں،، اس دن کے انتظار میں وہ زندہ تھیں،، ماں سے مل کر وہ والد صاحب کی طرف جھکا تو وہ والدہ کی طرح ماتھا چومنے کا منتظر تھا ،کیونکہ خوشی کے موقعے پر اس ماتھا چومنے کی رسم کے علاوہ اسے اور کسی رسم کا تجربہ نہیں تھا، مگر آج اسے ایک نیا تجربہ ھونا تھا ،، وہ جب تیسری کلاس میں پڑھتا تھا تو جب بھی والد گھر آتے وہ ھمیشہ ان کے پاس سوتا تھا، ان کے پسینے کی خوشبو اس پہ جادو کا اثر کرتی تھی ! ماں کو طلاق ھو جانے کے بعد اس نے کبھی اس پسینے کی خوشبو نہ سونگھی تھی نہ اس کا مطالبہ کیا تھا اور نہ وہ اس کی امید رکھتا تھا ! باپ نے جب اسے کھینچ کر سینے سے لگایا تو 16 سال پرانی پسینے کی خوشبو نے اس کی ھستی میں وھی دھمال مچا دی جو گرم توے پہ ٹھنڈے پانی کے قطروں کے گرنے سے مچتی ھے ! اس کے اندر کا تیسری کلاس کا اسٹوڈنٹ ، ابا جی کے پسینے کا نشئی بچہ سارے دائرے تہس نہس کرتا باھر نکل آیا تھا،، وہ بلک بلک کر رو دیا،، اس کے دوست اور دیگر مہمان جو ٹوپیاں اچھال رھے تھے اور قہقے لگا رھے تھے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے تھے، وہ بھی اس فیملی کے انوکھے رد عمل پر حیران تھے کہ یہ کیسی خوشی منائی جا رھی تھی

والد صاحب مسلسل ٹینشن میں رھنے لگے تھے کیونکہ ان کا دوسری بیوی سے بڑا بیٹا ھر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی معاملے میں تھانے جا پہنچتا ، کبھی چرس تو کبھی لڑائی جھگڑا ! یہ ٹینشن ان کے لئے فالج کو لے کر آئی ،، اسے یہ خبر عدالت میں ایک مقدمے کی بحث کے دوران دوسرے وکیل نے آ کر بتائی کہ اس کے والد کو فالج کا اٹیک ھوا ھے ! وہ بحث مؤخر کر کے کیس کی تاریخ لے کر جب گھر پہنچا تو والد صاحب کے گرد ساری برادری اکٹھی ھو چکی تھی اور لوگ اپنا اپنا ثواب کمانے کے لئے ان کے منہ میں پانی ڈالنے کے چکر میں تھے ! اس کو دیکھتے ھی انہوں نے اسے چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کمزور سی ڈوبتی آواز میں کہا کہ تم نے آنے میں دیر کر دی ! اس نے بچپن سے اپنے اللہ سے بڑا قریب کا تعلق رکھا تھا،، اسی سہارے پہ تو وہ اس منزل تک پہنچا تھا،، اس نے کہا ابا جی آج کل فالج کوئی اتنی بڑی بیماری بھی نہیں ھے، برادری والوں کو اس نے سمجھا کر بٹھا دیا اور گاڑی کے لئے سوتیلے بھائی کو بھیج دیا ! والد صاحب نے کہا کہ میرے نچلے دھڑ سے جان نکل چکی ھے تم میرا مردہ خراب نہ کرو ! ان کا پریشر260/160 چل رھا تھا،، اس نے انہیں گاڑی میں ڈالا اور شہر کے بہترین پرائیویٹ اسپتال لے گیا ،، جہاں پہلے تو ان کا بلڈ پریشر کنٹرول کیا گیا اور پھر مثانے کی غدود کا آپریشن کیا گیا جس نے پورا مثانہ بھر رکھا تھا اور اسی کی وجہ سے بلڈ پریشر اتنا اوپر جا رھا تھا کیونکہ وہ ساری ساری رات کھڑے قطرہ قطرہ پیشاب کرتے رھتے تھے مگر کسی کو بتایا تک نہیں ، اور یہ ان کی شروع سے عادت تھی کہ وہ اپنی تکلیف کسی کو بتاتے نہیں تھے،بس اپنی ذات پر جھیل لیتے تھے ! دس دن کے بعد وہ اسپتال سے پلٹے تو اگلے دس سال تک جیتے رھے ! ایک دن انہوں نے اسے کہا کہ وہ ان کی سوا دو کنال حویلی میں سے ایک کنال میں اپنا مکان بنا لے ،، کیونکہ وہ چاھتے ھیں کہ دوسری بیوی کے بچوں پر وہ نگرانی رکھے اور ان کی سرپرستی کرے ! ان کے حکم پر اس نے اپنا مکان ان کے سامنے بنا لیا ،یہ وہ وقت تھا جب وہ سول جج بن چکا تھا ! بس یہ وہ دور تھا جسے سنہرا دور کہا جا سکتا تھا ! ایک دن اس نے سنا کہ اس کا سوتیلا بھائی چرس سمیت نصیر آباد چوکی پر پکڑا گیا ھے،، اسے معلوم تھا کہ والد صاحب پریشان ھونگے مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ،، صبح اس نے اپنے چیمبر کی کھڑکی سے والد صاحب کو دیکھا وہ کچہری میں تھیلا لئے پھر رھے تھے ! وہ سمجھا والد صاحب ضمانت کے چکر میں دھکے کھا رھے ھیں،، وہ انہیں بتانا چاھتا تھا کہ یہ کیس قابلِ ضمانت نہیں ھے ، وہ وقت ضائع نہ کریں،، اس نے اپنے اہلمد کو بھیجا کہ وہ بابا جی کو بلا کر لائے ،، والد صاحب آئے تو اس نے انہیں بٹھا کر چائے پانی پلانے کے بعد بتایا کہ فی الحال بھائی کی ضمانت ممکن نہیں ،جب چالان پیش ھوا تو میں ضمانت کا بندوبست کر لوں گا ،،مگر وہ بولے تو انہوں نے اسے شرمندہ کر کے رکھ دیا ،،کہنے لگے ضمانت کرانی ھوتی تو میں رات کو ھی تمہیں کہہ دیتا ،،مجھے اس کی ضمانت نہیں کرانی اور نہ کبھی تم اس کی کوشش کرو گے،، تم اپنے دامن پہ کوئی دھبہ مت لگاؤ ،، میں تو تحصیلدار کے دفتر سے آ رھا ھوں ،،میں نے سارے مکان اور زمینیں تمہارے نام کرا دی ھیں،، انہوں نے کاغذ تھیلے سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیئے ،، انہوں نے ایک انچ بھی نہیں چھوڑا تھا ،، ساری زرعی زمین اور مکان اس کے نام کر دیئے تھے ! یہ آپ نے کیا کر دیا ؟ اس نے پریشانی سے کہا،، یہ تو ھم بھائیوں میں دشمنی شروع ھو جائے گی ،، پھر لوگ کیا کہیں گے کہ باپ کو ھاتھوں پہ ڈال کر سب کچھ ھتھیا لیا ! کچھ نہیں ھو گا،، میری انکھیں بند ھوتے ھی وہ سب کچھ بیچ دیں گے ،ماں بھی ان سے ڈرتی ھے - تم ان کو خرچہ دیتے رھنا اور اگر سدھر گئے تو ان کا حصہ ان کو دے دینا،، نہ سدھرے تو میں حلال کی کمائی چرس اور شراب میں ضائع کرنے کے لئے نہیں دے سکتا ! تقریباً دس سال نہایت پیار اور محبت سے گزرے تھے ،، ابا جان اس کے بچوں سے اس کے بچپن کی باتیں کرتے تو بچے قہقے مار کر اس کا مذاق اڑاتے ،، اس دوران اس کی امی بھی مسکراتی رھتیں ،، اس کی پوسٹنگ منڈی بہاولــدین میں تھی ! والدہ اور بیوی بچے اس کے ساتھ تھے ،جب اسے صبح 4 بجے والد صاحب کی فوتگی کی اطلاع ملی ،، وہ آدھے گھنٹے میں ھی ختم ھو گئے تھے،، دل کی تکلیف شروع ھوئی تو خود اٹھ کر دوا کھائی بیٹے کو بیجھا کہ چچا سے بولو گاڑی لاؤ،، چارپائی گاڑی پر رکھی گئ، ساری میڈیکل رپورٹیں ساتھ لے کر خود دھوتی مضبوطی سے باندھ کر گاڑی پر چڑھے اور چارپائی پر لیٹ گے،، 5 کلومیٹر جب ڈاکٹر کے گھر جا کر دروازہ بجایا اور ڈاکٹر نے باھر نکل کر پاؤں پہ ھاتھ رکھا تو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ دیا،،پھر اوپر چڑھ کر آنکھ میں بیٹری مار کر کہا کہ بابا جی تو ٹھنڈے بھی ھو گئے ھیں،، بس اتنی دیر لگی،،چارپائی کے سرھانے بیٹھے بیٹے اور بھتیجے کو بھی پتہ نہیں چلا کب روح مسافر ھو گئ ؟ اس نے گاڑی بک کی اور والدہ کو بھی ساتھ لیا بچے ساتھ لیئے اور نکل پڑے،، رستے میں کھاریاں پہنچ کر والدہ کی طبیعت ناساز ھو گئ ، اس نے انہین کہا کہ آپ رو لیں آنسو نکلیں گے تو شاید طبیعت ھلکی ھو جائے گی،، ان پڑھ ماں نے ایسی پتے کی بات کی کہ اس کی روح تک اتر گئ !

امی نے کہا "آنسو  "! بیٹا یہ آنسو تو پچھلی دو دھائیوں سے بہہ رھے ھیں مگر کوئی آرام نہیں آیا ،،کیا آنسو باھر ھی بہتے ھیں؟ یہ آنسو اندر ھی اندر نہیں بہہ سکتے ؟ کیا یہ دریا باھر زمین پر ھی بہتے ھیں ؟،، زیر زمین چشمے نہین بہتے ! بیٹا باھر کے آنسو آسان ھوتے ھیں انہین پونچھنے والے بھی مل جاتے ،،انسان کو کھوکھلا وہ آنسو کرتے ھیں جو اندر ھی اندر بہتے اور زمین کی طرح اس کی ھستی کو بھی اس طرح کھوکھلا کرتے ھیں جیسے بڑے بڑے مضبوط پل بیٹھ جاتے ھیں،، عمارتیں زمین بوس ھو جاتی ھیں ! اس دن لوگوں کو پتہ چلتا ھے کہ اس عمارت کے نیچے سے تو کب کی زمین نکل گئ تھی،یہ بس اپنی بناوٹ کے زور پہ کھـڑی تھی،، انہوں نے بچوں کے سر پہ ھاتھ پھیر کر کہا دیکھو ان معصوموں کو کبھی اس عذاب میں مبتلا مت کرنا جس سے تم گزرے ھو ،، زندگی میں کئ بار وہ مقام آئیں گے جب تم اپنی انا کے گرداب مین پھنسو گے،،یاد رکھو اس گرداب سے تمہیں صرف یہ بچے نکالیں گے،،ان کے مسقبل کی خاطر تم دونوں صبر اور حوصلے سے کام لو گے،، جہلم پہنچ کر ان پر نیم غشی کی کیفیت طاری ھو گئ،، اس نے گاڑی سی ایم ایچ کی طرف مڑوا لی ،، اسپتال جا کر انہیں ابتدائی طبی امداد ھی دی جا رھی تھی کہ انہوں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی ! اس پر سکتہ طاری ھو گیا،، یہ اچانک خوشیوں کو آگ کیسے لگ گئ ؟ اس کو مسلسل قے شروع ھو گئ،، جس پر سے فوری طبی امداد دی گئ، اس دوران ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا بیوی بچے تو گاڑی میں تھے مگر وہ ایمبولینس میں سوار ھو گیا ،، سارا رستہ وہ کبھی ماں کا سر چومتا تو کبھی ان کے سینے سے لپٹ لپٹ کر روتا رھا ! جب ایمبولیس گاؤں پہنچی تو کہرام مچ گیا،، والدہ کی میت بھی والد صاحب والے گھر اسی صحن مین رکھی گئ تا کہ خواتین کو تکلیف نہ ھو ! دو قبریں تیار کی گئیں ،، اس کے جاننے والے وکیل اور کئ جج بھی جنازے مین شرکت کے لئے پہنچے ھوئے تھے،، والد صاحب کی چارپائی پر آ کر اس نے ان کے پاؤں پکڑے کچھ دیر ان کو پیار سے سہلانے کے بعد وہ جھکا اور آنسوؤں تر اپنے ھونٹ ان قدموں پر رکھ دیئے ،، یہ وہ پیار تھا جو وہ بچپن میں
 والد صاحب کے سونے کے بعد لیا کرتا تھا ﷺ اور آج وہ
 ھمیشہ کی نیند سو گئے تھے ! وہ ابا کے قدموں پہ منہ ٹیکے پاؤں کے بل کتنی دیر بیٹھا رھا، آج وہ جنت کے دونوں بند دروازوں پہ دستک دے رھا تھا کبھی ماں کا سر چومتا تو کبھی بابا کے قدم !
دونوں جنازے تیار کیئے گئے،، وہ باوقار انداز مین ساتھ ساتھ چل رھا تھا، اس کے اندر ایک بچہ بلک رھا تھا مگر بظاھر وہ سیشن جج تھا جس کے ارد گرد تین تحصیلوں کے وکیل تھے اور سول ججز اور دیگر عہدیدار تھے،، وہ نہایت باوقار انداز مین کبھی ابا کی چارپائی کو کندھا دیتا تو کبھی امی کی چارپائی کو !  دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ بنائی گئ تھیں یوں دونوں مل کر اس کی زندگی کو ایک خاص دھارے میں ڈھال کر خود چل بسے تھے  

عورت کی کہانی قرآن کی زبانی

ھمیں تعجب اس بات پر ھوتا تھا کہ ایک طرف برگر فیملی کی خواتین اسلام کے خلاف مظاھرے کر کے آزادی طلب کر رھی ھوتی ھیں ( حالانکہ ان کا جلوس نکالنا ھی بتا رھا ھوتا ھے کہ ان کو سب آزادی حاصل ھے ) دوسری جانب ان کو جلوس کے لئے فنڈ دینی والے یورپی ممالک کی خواتین دھڑا دھڑ مسلمان ھوئے چلی جا رھی ھیں ،یہانتک کہ بڑے بڑے گھرانوں میں اسلام نے نقب لگا لی اور خاص کر ٹونی بلیئر کی سالی نے تو نہ صرف خود اسلام قبول کیا بلکہ ٹونی بلیئر کو بھی آدھا مسلمان کر لیا ، مرنے سے پہلے باقی آدھا مسلمان ھونے کا اس کا پروگرام،، دعا کریں کہ وہ مرنے سے پہلے لمبی بیماری میں مبتلا ھو تاکہ اسے باقی آدھا اسلام قبول کرنے یعنی اعلان کرنے کا موقع نصیب ھو جائے ،،بس اب اعلان ھی باقی ھے اور اعلان ھی مشکل ھے !! اگر کوئی کارڈیک اریسٹ ھو گیا تو اعلان رستے میں ھی رہ جائے گا ! تو عالیــجــاہ !

ھم نے بھی اس کتاب کو جو کہ اللہ کی آخری کتاب ھے، بغور پڑھنا شروع کیا گویا کہ پہلی دفعہ اسٹڈی کر رھے ھیں ! اور خاص طور پر خواتین کے واقعات پر توجہ مرکوز کی تو ایک نئ دنیا منکشف ھوئی اور سمجھ لگ گئ کہ کیوں پڑھی لکھی خواتین کو اسلام کھینچ لیتا ھے ! یہ یورپ کی پڑھی لکھی خواتین کی بات کر رھا ھوں اپنے یہاں تو جو عورت " ھاف سلیو پہننا شروع کر دے،جس کا دوپٹہ ایک پٹی بن جائے اور صرف ھنگامی زکام میں ناک پونچھنے کے لئے گلے میں ڈال لیا جائے ! سرخی ذرا گہری ھو جائے پاوڈر ایک ھی دفعہ اتنا تھوپ لے کہ دوسری خاتون بھی ھاتھ پھیر کر اپنی کمی پوری کر لے ! وہ اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہنا شروع کر دیتی ھے ! اللہ پاک نے جس جس انداز میں عورت کا ذکر قرآن میں کیا ھے، اس کے ھر روپ کو ایک مقام عطا کر دیا ،،بطور ماں، بیوی ،بیٹی ،بہن ھر روپ میں اس کی صلاحیتوں کو سراھا ھے اور بڑے بڑے تاریخی واقعات کہ جن کے گرد مذاھب گھومتے ھیں ،، وہ عورت سے شروع ھوئے ، اور عورت نے ھی انہیں ایک انجام تک پہنچایا ! اللہ پاک نے ان بڑے واقعات میں جس قدر عورت پر اعتماد کیا ھے، اس کا عشر عشیر ھمارے گھروں ،معاشرے اور ھمارے رویوں میں نظر نہیں آتا ،، وہ مذھب کہ ھزاروں انبیاء جس کی شریعت کے پابند رھے وہ اول ، آخر اور درمیان سارے کا سارا عورت کے گرد گھومتا ھے ! عورت بہترین فوری اقدام کرنے والی ،، بہترین مشاھدہ کار یعنی آبزرور اور جاسوس ،بہترین مشیر بہترین وکیل ھے ! اور بہترین حکمران بھی ! میں جو واقعات لکھنے لگا ھوں اور جن کو اپنے استدلال کی بنیاد بنانے لگا ھوں وہ سب قران حکیم سے لئے گئے ھیں ! اگر کوئی اختلاف رکھتا ھے تو قرآن سے کم کسی دلیل کو میں قبول نہیں کروں گا ! 1- عورت کا جھٹ سے بڑا فیصلہ لے لینا ! قران میں سب سے پہلے حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ 'زوجہ عمران 'کا ذکر شروع ھوتا ھے اور اچانک بریکنگ نیوز کی طرح کے واقعے سے شروع ھوتا ھے کہ عمران کی زوجہ نے اعلان کیا کہ اے پروردگار میں اپنا پیٹ والا بچہ دنیاوی ذمہ داریوں سے آزاد کر کے تیری نذر کرتی ھوں تو اسے قبول فرما ! مریم علیہ السلام کے والد زندہ ھیں ،، مگر اس واقعے کی پکچر سے مکمل طور پر باھر ھیں،، گویا اللہ کے نزدیک ناقابلِ ذکر ھیں ،،ان کا کوئی کردار نہیں ،ایک عورت فیصلہ کر لیتی ھے کہ اس نے بیٹے کو کیا بنانا ھے ! پھر جب وہ بچہ بیٹے کی بجائے بیٹی ثابت ھوتی ھے تو بھی وہ بیٹھ کر شوھر سے مشورہ نہیں کرتیں بلکہ بیٹی بھی نذر کر دیتی ھیں اور یہ بنی اسرائیل کی ساری تاریخ میں پہلا موقع ھے کہ کوئی لڑکی معبد کی نذر کی جائے ،، اس ایک فیصلے نے نہ صرف سابقہ ساری تاریخ بدل ڈالی بلکہ آنے والے زمانوں کا رخ متعین کر دیا اور یہ فیصلہ ایک عورت نے لیا ! فیصلہ کن فطرت کی دوسری مثال ام موسی علیہا السلام ھیں وہ بھی زوجہ عمران ھیں مگر وھاں ان کا ذکر عمران کی زوجہ کی بجائے ام موسی علیہ السلام کی حیثیت سے کرایا گیا ھے،، مریم علیہا السلام کے واقعے میں بیوی کی حیثیت اور موسی علیہ السلام کے واقعے میں ماں کی حیثیت سے فیصلہ لینے کی صلاحیت کو اجاگر کیا ھے،قران میں سب سے زیادہ موسی علیہ السلام کا تذکرہ ھے اور اسی نسبت سے ام موسی کا کردار ! اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کی ماں کو وحی کی کہ اسے تابوت میں ڈالو اور تابوت کو دریا برد کر دو ! یہاں بھی شوھر موجود ھے مگر فیصلے میں نہ ھونے کے برابر ھے ! بیوی ھی سارا فریضہ سرانجام دیتی ھے اور وھی رب کے خطاب اور وحی کا مہبط بنتی ھے ! یہی معاملہ مریم علیہا السلام کا ھے ! کہ جب ان کی والدہ نے عرض کیا کہ میرے مالک میں نے تو بیٹی جن دی ھے، یعنی بیٹے کی توقع میں منت مانی تھی مگر بیٹیاں تو کوئی معبد کو نہیں دیتا ،، اللہ پاک فرماتا ھے کہ اللہ بخوبی جانتا تھا کہ اس نے کتنی عظیم ھستی پیدا کی ھے،بے چاری کو کیامعلوم کہ بیٹا ھوتا بھی تو اس بیٹی جیسا کبھی نہ ھوتا، معبد میں لوبان جلاتا ، جھاڑو دیتا اور آنے والوں کا استقبال کرتا اس کے سوا اس نے کرنا کیا تھا،، ولیس الذکر کالانثی " اور لڑکا لڑکی جیسا نہ ھوتا " ایک عظیم آیت ھے،ایسی آیت اگر مرد کے بارے میں نازل ھو جاتی تو پتہ نہیں مرد حضرات کیا کچھ کرتے ! پھر جب اس بچی کو معبد کو سونپ دیا گیا اس کی توجہ اور ارتکاز کا یہ عالم تھا کہ گویا وہ جہاں ھوتی خدا ان کے پاس ھوتا ! ان کو رنگ برنگ کے بے موسم کے پھل فراھم کرتا ،، یہانتک کہ اللہ کا نبی زکریا علیہ السلام بھی اس تعلق سے بے خبر رھتے ھیں اور جب انہیں اس بات کا ادراک مریم کی زبان سے ھوا کہ اس مجلس میں معاملہ کہاں تک پہنچا ھوا ھے تو ،، بے ساختہ وہ بھی ایسی ھی لائق اور اللہ کی منظورِ نظر اولاد مانگنے پر مجبور ھو گئے ! پھر فرشتوں کا ھر وقت مریم علیہا السلام کو گھیرے رھنا اور نبی عیسی علیہ السلام کی معجزانہ تخلیق کا بوجھ بھی عورت مریم کے کندھوں پہ ڈال دینا اور انہیں اس امتحان کے لئے چن لینا عورت کی بحیثیت ماں عظمت کا شہکار ھے ! عورت بحیثیت آبزرور یا جاسوس ! جاسوسی اور مشاھدے کی صلاحیت اللہ نے عورت ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ھے، اس میں کوئی استثناء نہیں ھے کہ وہ عورت دیہاتی ھے یا شہری ،،پڑھی لکھی ھے یا ان پڑھ،، گوری ھے یا کالی ،،موٹی ھے یا پتلی ،، لمبی ھے یا چھوٹی ،،بچی ھے یا بوڑھی ! مشاھدہ اور تجسس و جاسوسی نیز اپنے تأثرات کو چھپا لینے کی صلاحیت جس قدر عورت کو ودیعت کی گئ ھے،مرد کو اس کا عشرِ عشیر بھی نصیب نہیں ! کوئی مرد اپنے آپ کو یا اپنے تاثرات کو بیوی سے نہیں چھپا سکتا،وہ آفس میں جھگڑ کر آیا ھے تو گھر میں گھستے ھی ،بیوی پہلا سوال کرے گی، " کسے نال لڑ کے آئے او؟ اگر آپ باھر کوئی منظر دیکھ کر آئے ھیں تو پہلا سوال ھو گا" کیا دیکھا ھے ؟ خوش کیوں ھو ؟ وہ جو کہا گیا ھے کہ جس نے شادی کر لی اس نے آدھا ایمان محفوظ کر لیا ،، اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیوی کر لینے سے مرد کے جذبات آدھے سو جاتے ھیں بلکہ اس کا مطلب ھے کہ ان پر ایک دقیق نگران بٹھا دیا جاتا ھے ! جو اس سکائی لیب کو کنٹرول کرتا رھتا ھے ! موسی علیہ السلام کو دریا میں پھینک دینے کے بعد موسی علیہ السلام کی والدہ نے اپنے دس سالہ بیٹے کی بجائے بیٹی کو جاسوسی کے لئے چنا اور حکم دیا کہ قصۜیہہ،، اس کے پیچھے پیچھے جا ! بس ماں نے تو اتنا ھی حکم دیا تھا،، مگر 9 سالہ بیٹی نے تو کمال ھی کر دیا ! اللہ پاک اس معصوم کی ادا کا ذکر فرماتے ھیں کہ بچی دریا کے کنارے تابوت کے ساتھ ساتھ کچھ اس طرح چل رھی تھی کہ گویا وہ اجنبی ھے اور اس کا دریا میں تیرتے تابوت کے ساتھ نہ کوئی تعلق ھے اور نہ ھی تجسس ! فبصرت بہ عن جنبٍ و ھم لا یشعرون" اس نے نظر رکھی اس پر اجنبی بن کر اور انہیں محسوس بھی نہ ھونے دیا ! پھر جب تابوت پکڑ لیا گیا تو وہ گھر کی طرف خبر دینے نہیں دوڑی ،، بلکہ وہ موسی کو کھونا اور نظر سے اوجھل کرنا نہیں چاھتی تھی جب تک کہ ان کا اخری ٹھکانہ نہ دیکھ لے ! وہ سارے مجمعے میں ایک اجنبی کی طرح تماشہ دیکھتی رھی،، ایکسٹرا ویجیلینس کا مظاھرہ بھی نہیں کیا کہ کوئی شاھی جاسوس ان کی دلچسپی کو محسوس نہ کر لے ،، مگر جہاں بولنا چاھئے تھا وھیں وہ بولی اور اس طور پہ بولی اور ان الفاظ کا انتخاب کیا کہ پھر اپنے تعلق کو صاف چھپا گئ،، جب بچہ دوددھ نہیں پی رھا تھا تو اس نے نارمل انداز میں تجویز دی کہ ایک گھرانہ ھے جو بچوں کو دودھ پلاتا ھے اگر اس کو یہ بچہ دے دیا جائے تو وہ اس کو خیر خواھی سے پالیں گے اور دودھ بھی پلائیں گے کیونکہ ان کو اس کا تجربہ ھے ! تجویز منظور ھو گئ اور وہ 9 سالہ بچی ماں کے لئے نوکری بھی ڈھونڈ لائی ،، بھائی کا مستقبل بھی محفوظ کر لیا ،، میں کہا کرتا ھوں کہ شاید ھارون علیہ السلام ھوتے تو وہ " ھائے میرا ویر کہہ کہہ کر لپٹ جاتے بچے سے خود بھی مرتے اور بھائی کو بھی مروا دیتے لہذا اللہ پاک نے نہایت حکمت سے ماں بیٹی کا انتخاب کیا اس تاریخی موڑ پر ،، سورہ القصص کا اسٹارٹ ھی معرکہ الآراء ھے،،ھم نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل پر احسان کیا جائے اور ان ھی کو لیڈر بنایا جائے اور ان ھی کو حکومت کا وارث بنایا جائے اور ان کو ملک میں تمکن عطا کیا جائےاور فرعون ھامان اور ان کے لشکروں کو وہ کر کے دکھا ھی دیا جائے جس کا وہ خدشہ محسوس کر رھے تھے،( اور اسی خدشے کے پیشِ نظر بچوں کا قتل عام کر رھے تھے ) و اوحینا الی ام موسی ،،، ان تمام خدائی فیصلوں کے ظہور میں لانے کا بوجھ موسی کی ماں پر ڈال دیا،،اور ھم نے وحی کی موسی کی ماں کو ،، عورت تیری عظمت کو سلام ھے،، تجھ پر تیرے رب کے اعتماد کو سلام ھے ! 



      موسی علیہ السلام کی زندگی میں جب بھی کوئی نیا موڑ آیا کسی نہ کسی عورت کی وجہ سے ھی آیا - ان کی زندگی کو نیا موڑ دینے ھمیشہ عورت استعمال کی گئ ! وہ جب بھی انتہائی مطلوب ھوئے انہین بچانے کے لئے اللہ پاک نے عورت کو ھی بھیجا !! فرعون کے محل میں آپ کا داخلہ کچھ اس شان سے ھوا کہ آپ انتہائی مطلوب ھستی تھے، وہ مطلوب جس کو اس کی ماں نے بھی پناہ نہیں دی اور اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا ،، وہ مطلوب جس کے شک میں گر ھزاروں نہیں تو سیکڑوں بچے ضرور مروا دیئے گئے ! مگر جب وہ انتہائی مطلوب ھستی فرعون کے گھر پہنچی یعنی شیر کی کھچار میں پہنچی تو ایک عورت خم ٹھونک کر کھڑی ھو گئ ! و قالت أمرأۃ فرعون قرۃ عینٍ لی و لک لا تقتلوہ ،، اور کہا فرعون کی زوجہ نے یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ھے مت قتل کرو اسے ،، عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولداً،، ھو سکتا ھے کہ یہ ھمیں نفع دے دے یا ھم اس کو اپنا بیٹا ھی بنا لیں ! یوں فرعون کی عقل اسے کچھ اور سمجھا رھی تھی،، ھامان اپنی سی کوشش کر رھا تھا اور آسیہ ڈٹ کر کھڑی تھی وہ مسلسل اصرار کرتی رھیں تا آنکہ فرعون نے موسی علیہ السلام کے قتل کا فیصلہ منسوخ کر دیا ! موسی رائل فیملی کا حصہ بن گئے ،، اور پھر آپ سے قتل خطا ھو گیا ،، ایک قبطی آپ کے ھاتھ سے غلطی سے قتل ھو گیا اور اب پھر آپ کے قتل کے لئے شوری بیٹھ گئ،،شوری نے موسی علیہ السلام کے قتل پر اتفاق کر لیا اور آل فرعون کے ایک شخص کی وجہ سے آپ کو بروقت اطلاع مل گئ ،یوں آپ خالی ھاتھ لگے کپڑوں میں صحراء کی جانب روانہ ھو گئے،،جس طرف اللہ لے جائے مجھے تو رستے کا کوئی اندازہ نہیں ،، اب موسی پھر موسٹ وانٹیڈ ھو چکے تھے،، آپ کی تلاش میں ھرکارے پھر رھے تھے اور بھوکے پیاسے در بدر موسی علیہ السلام کو پناہ دینے اور ان کی زندگی کو نبوت کی صان چڑھانے اور تربیت دینے پھر دو عورتیں کنوئیں پر منتظر کھڑی تھیں ! یہ دو عورتیں ھی نہیں اپنے باپ کے وہ بیٹے بنی ھوئی تھیں جنہوں نے گھر کا سارا معاشی بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھایا ھوا تھا اور اللہ کی طرف سے کسی ریلیف کی منتظر تھیں کہ موسی علیہ السلام کی صورت میں ریلیف آ پہچی ، دیکھئے اللہ پاک کس طرح ایک ھی واقعے سے کتنے رنگ پیدا کرتا ھے ! موسی علیہ السلام نے پوچھا سارے چرواھے تو پانی پلا رھے ھیں ، آپ دونوں کا معاملہ کیا ھے کہ اس طرح ھٹ کر کھڑی ھیں ؟ جواب دیا گیا کہ ھم تب تک پانی نہیں پلا سکتیں جب تک سارے چرواھے پانی پلا کر فارغ نہ ھو جائیں !! آپ نے ڈول پکڑا اور ان بہنوں کے جانوروں کو پانی پلا دیا ! بچیاں جب روزانہ کے معمول سے جلدی گھر پہنچیں تو باپ کو تعجب ھوا ،پوچھا کیا ماجرا ھوا ؟ جواب دیا گیا کہ ایک اللہ والا پردیسی جوانمرد کھڑا تھا اس نے جھٹ پٹ پانی پلا دیا،،حکم ھوا اس پردیسی کو بلایا جائے کہ اس کو جزاء بھی دی جائے اور اس کا واقعہ بھی سنا جائے ! ادھر موسی پانی پلا کر فارغ ھوئے تو اسی درخت کے تلے جا کھڑے ھوئے جہاں وہ بہنیں کھڑی تھیں اور اپنی وہ مشہور دعا مانگی جسے پڑھ کر دل بھر آتا ھے ،، شاھی خاندان کا پروردہ ، رائل اکیڈیمی کا تربیت یافتہ ،، اللہ سے کلام کرتا ھے،، قال رب انی لما انزلت الیۜ من خیر فقیر ،، میرے رب میں ھر اس خیر کا فقیر ھوں جو بھی تو مجھے بھیج دے !! اور ایک عورت مدد کے روپ میں نمودار ھوتی ھے ! ان میں سے ایک جو بڑی بھی تھی اور ھوشیار بھی،وہ سراپا حیا بنے ،حیاء کی چال چلتے ھوئے آئی اور موسی علیہ السلام کو کہا کہ ھمارے ابا جان آپ کو بلا رھے ھیں وہ آپ کو بدلہ دینا چاھتے ھیں اس نیکی کا جو آپ نے ھمارے حق میں کی ھے ! موسی علیہ السلام جب شیخِ مدین کے گھر پہنچے تو ساری کہانی سنا دی ،، بابا جی نے تسلی دی کہ آپ فکر مت کریں آپ ظالم قوم کے علاقے سے نکل آئے ھیں ! اسی لڑکی نے جس نے موسی علیہ السلام سے پہلی دفعہ کلام کیا تھا،، پھر باپ سے بات کی تھی پھر موسی علیہ السلام کو بلانے آئی تھی ،، باپ کو مشورہ دیا کہ ابا بندہ امانت دار بھی ھے کیونکہ اس نے آنکھوں کی خیانت بھی نہیں کی اور قوت والا بھی ھے،، اور ایسا ھی قوی اور امین ھمارے گھر کی ضرورت تھا آپ ان سے نوکری کی بات کیوں نہیں کرتے ؟ مشورہ قبول کر لیا گیا اور موسی علیہ السلام سے ایک محرم رشتہ قائم کرتے ھوئے اسی بچی کا نکاح 8 سال کی بکریاں چرانے کی مشقت کے عوض کر لیا گیا ،، یوں پہلا بندہ جس نے بیوی کی خاطر بکریاں چرائیں وہ موسی علیہ السلام تھے،، وھیں آپکی تربیت کی گئ کیونکہ بکریاں چرانا ھر نبی کی سنت رھی ھے،، شاھی خاندان کے پروردہ شہزادے نے 10 سال بکریاں چرائیں اور 10 سال بعد بیوی لے کر واپسی کی راہ کا سفر اختیار کیا ! دوران سفر آپ قضائے الہی سے رستہ بھول گئے ، اور آپکی زوجہ کو دردِ زہ شروع ھو گیا ،، دھند نے زمین آسمان ایک کر رکھا تھا کہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا جبکہ زچہ و بچہ کو اس شدید سردی میں آگ اور حرارت کی ضرورت تھی ! یوں بیوی کی خاطر آگ متلاشی موسی کی نظروں کو وہ آگ دکھائی گئ ،،جس کو وہ لینے پہنچے تو آگ کی بجائے پیغمبری تھما دی گئ ،، اور آپ کو اسی فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیج دیا گیا جو آپ کے قتل کا خواھشمند تھا !  



قرآن کی بیان کردہ مدبر اور کامیاب حکمران " ملکہ سبا بلقیس " ! قرآنِ حکیم نے جہاں انبیاء پر لگائے گئے الزامات سے ان کا دامن صاف کیا ھے وھیں ملکہ سبا بلقیس کے بارے میں بھی یہود کی ھرزہ سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا اور انہیں ایک مدبر اور اپنے عوام سے محبت کرنے والی ایک ذھین مسلمان ملکہ کے طور پر پیش کیا ھے ! جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے خط لکھا تو اس نے اپنی شوری کا اجلاس بلایا ،،جبکہ وہ مشرک اور سورج کی پوجا کرنے والی تھی ،،مگر قرآنی خبر " و امرھم شوری بینھم " کہ مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ھوتے ھیں کا مصداق تھی ! شوری کے دوران سرداروں نے جنگ کی طرف میلان ظاھر کیا اور اپنی قوت اور تجربے کا حوالہ دیا مگر آخری فیصلہ ملکہ پر ھی چھوڑ دیا ! ملکہ نے ان سے تاریخ کا نچوڑ صرف ایک جملے میں بیان کر دیا ،، اور اللہ پاک نے ملکہ کے قول کی تائید فرمائی ! اس نے کہا " دیکھو یہ بادشاہ لوگ جب فاتح ھو کر کسی بستی میں گھستے ھیں تو وھاں فساد بپا کر دیتے ھیں اور اس بستی کے عزیز ترین لوگوں کو ذلیل ترین بنا دیتے ھیں ،، اللہ پاک نے فرمایا ،، و کذالک یفعلون "بالکل اسی طرح کرتے ھیں ! آج بھی ھم دیکھتے ھیں کہ ملکہ بلقیس کا قول کتنا ٹو دا پؤائنٹ     ھے،، عراق اور لیبیا کو دیکھ لیں،،کل تک جو عہدوں اور طاقت کے لحاظ سے ٹاپ ٹین تھے وہ اگلے دن موسٹ وانٹیڈ لسٹ میں ٹاپ ٹین پر تھے ! پھر اس نے جنگ کے آپشن کو رد کر کے کہا کہ میں ایک وفد بھیج رھی ھوں جو وھاں جا کر صورتحال کا جائزہ لے گا اور اس کی رپورٹ پر ھی اگلا قدم طے کیا جائے گا ! اپنے سفراء کی رپورٹ سے غیر مطمئن ملکہ نے خود دورہ کرنے کا ارادہ کر لیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اپنے دورے کی اطلاع دے دی ،، حضرت سلیمان نے ملکہ کا تخت منگوا لیا اور جب وہ دربار مین حاضر ھوئی تو اس کا "' تــراہ " نکالنے کے لئے اک دم اسی کا تخت بیٹھنے کے لئے پیش کر دیا ،، اور سوال کیا " أھٰکذا عرشکِ؟ کیا آپ کا عرش بھی اسی جیسا ھے ؟ ملکہ نے نہایت وقار سے تخت پر قدم رنجہ فرماتے ھوئے بڑا ڈپلومیٹک جواب دیا ،، جس سے اس کی ذھانت کا اندازہ ھوتا ھے،، اس نے نہ تو تعجب کا اظہار کیا ،، اور نہ ھاں یا نہ میں جواب دیا ،،بلکہ کہا " کأنہ ھو !! لگتا تو اسی جیسا ھے ! مگر اس نے اس بات کو اپنے حساب میں جوڑ ضرور لیا ! پھر جب سلیمان علیہ السلام نے اپنا دربار اس ھال میں سجایا جہاں نہایت شفاف شیشے کا فرش تھا جس کے پانی میں نیچے چلتی پھرتی مچھلیاں بھی نظر آرھی تھیں اور ملکہ کو دربار میں دعوت دی گئ تو ملکہ نے سمجھا کہ دربار تک جانے والے رستے مین پانی ھے تو اس نے اپنی شلوار تھوڑی سی اوپر اٹھائی ،جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے آواز دی کہ تشریف لائیے یہ شیشہ ھے پانی اس کے نیچے ھے،، اس بات سےملکہ حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئ کہ یہ نفیس آدمی عام دنیا دار بادشاہ نہیں بلکہ واقعتاً کسی عظیم آسمانی ھستی کا نمائندہ ھے،، یوں اس نے سابقہ زندگی سے توبہ کر کے سلیمان علیہ السلام کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا ! جس کے نتیجے میں اس کے اندازِ حکومت کو دیکھتے ھوئے سبا کی حکومت ملکہ ھی کے پاس رھنے دی گئ ،یوں ملکہ اپنی پوری قوم سمیت مسلمان ھو گئ،،خود بھی دونوں جہانوں میں کامیاب ھوئی اور اپنی قوم کو بھی سرخرو کر دیا ! اس کا تقابل اگر کرنا ھے تو مرد بادشاہ سے کر کے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں کہ مرد بادشاہ کامیاب ھوا یا عورت ملکہ ؟؟ نیز کس کی قوم برباد ھوئی ،مرد بادشاہ کی یا عورت حکمران کی ؟؟ 1-پہلے نمبر پر فرعون کو دیکھ لیں ایک نہیں دو رسول تشریف لائے تھے،ایک ملاقات نہیں بلکہ 30 سال انہوں نے محنت کی اور 9 معجزے اس نے دیکھے ! مگر خود بھی ڈوبا اور قوم بھی ڈبو دی ! قرآن اس کی بربادی اور کم عقلی کا ذکر کچھ یوں کرتا ھے " و اضل فرعون قومہ وما ھدی،، فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا ،انہیں سیدھی راہ نہ سجھائی ! اور فیصلہ سنایا یقدم قومہ یوم القیامہ فاوردھم علی النار، و بئس ورد المورد ! اور وہ اپنی قوم کے اگے آگے چلے گا قیامت کے دن اور انہیں آگ میں جا اتارے گا اور برا ٹھکانہ ھے اترنے کے لئے !
 2- قیصر کو اللہ کے رسول ﷺ نے خط لکھا اور اسے لکھا کہ اگر تم مسلمان ھو جاؤ گے تو تمہاری قوم بھی مسلمان ھو جائے گی اور تمہیں ان کے اسلام کا اجر بھی ملے گا،،اور تمہاری بادشاھی بھی تمہارے پاس رھے گی ! اور اگر تم پہلے کافر بنے تو تمہاری قوم بھی تمہارے اتباع میں کافر رھے گی ، یوں تمہیں ان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھانا ھو گا ! ابوسفیان کی گواھی کے نتیجے میں حق کچھ اس طرح قیصر پر واضح ھوا تھا کہ اس نے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ اس رسول کا حکم ٹھیک اس جگہ پہنچ کر رھے گا جہاں اس وقت میرے یہ قدم ھیں،،مگر وہ اپنی قوم کے سرداروں کے دباؤ کا سامنا نہ کر سکا اور ان کے دباؤ میں اور بادشاھی جانے کے ڈر سے اسلام قبول نہ کر سکا یوں خود بھی برباد ھوا اور اپنی قوم کو بھی برباد کیا، جبکہ ملکہ بلقیس نے حق واضح ھو جانے کے بعد ایک لمحے کی دیر بھی نہیں کی اور اسلام کو قبول کرنے کا بولڈ قدم اٹھایا اور سرداروں کے دباؤ کو مسترد کر کے اپنے عوام کو دونوں جہانوں کی بربادی سے بھی بچا لیا اور اپنی بادشاھی اور حکمرانی بھی بچا لے گئ !

زن مریدی

کوئی مانے یا نہ مانے ،آج مانے یا بیس سال کی چخ چخ اور ٹینشن کے بعد مانے مگر حقیقت یہی ھے کہ گھر میں امن و سکون  زن مریدی سے ھی حاصل ھوتا ھے ! اپنے اختیارات اپنی خوشی اور دل و جان کی گہرائیوں کے ساتھ کسی کو سونپ دینا،، محبت اسی کا نام ھے اس کے بعد ھر جھگڑا ختم ھو جاتا ھے - اسی کو انڈر اسٹینڈنگ کہتے ھیں،، جو لوگوں میں چھ  سات بچے پیدا کر کے بھی نہیں ھوتی ! البتہ اپنی گاڑی سے دو ماہ میں انڈر اسٹینڈنگ ھو جاتی ھے،وہ پیٹرول کتنا کھاتی ھے،کہاں پر سوئی ھو تو کتنے کلومیٹر نکال لیتی ھے،آئل کب تبدیل کرنا ھے ،وغیرہ وغیرہ مگر میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پتہ نہین چلتا کہ کس بات پہ غصہ آتا ھے،کس بات کا تذکرہ پسند نہیں کرتا - اس کی عادات و اطوار کیا ھیں سونے جاگنے کے اوقات کیا ھیں ،، بس چار چیزوں کی ریڈنگ کرنی ھوتی ھے اور اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ھوتا ھے،" یا اپنا کسے نوں کر لے یا آپ کسے دا ھو بیلیا "کسی ایک کو ھتھیار ڈالنے ھونگے تو جنگ بند ھو گی اور گھر امن و امان کا گہوارہ بنے گا - اور جو محبت کرے گا ھتھیار وھی ڈالے گا ،، وہ عورت جس کا بچہ دوسری عورت نے اٹھا لیا تھا ، جب دونوں کا جھگڑا قاضی کے سامنے پہنچا تو دونوں عورتیں ثبوت فراھم کرنے میں ناکام ھو گئیں ،جس پر قاضی نے فیصلہ دیا کہ بچے کو کاٹ کر آدھا آدھا دونوں عورتوں کو تقسیم کر دیا جائے - جس پر اصلی ماں نے ھتھیار ڈال دیئے اور دعوی واپس لے کر بیٹا دوسری کو سونپ دیا کہ کم از کم زندہ تو رھے گا۔جبکہ نقلی ماں خاموش کھڑی رھی جس پر قاضی نے سچ جان لیا اور بچہ اصلی ماں کو سونپ دیا !!  جس کو گھر ، اولاد اور اولاد کا مستقبل عزیز ھو گا وہ ضد چھوڑ کر حالات سے سمجھوتہ کر لے گا ! اس کا نام ھے انڈر اسٹینڈنگ - مرد کو ھینڈل کرنا اصل میں یہ سیٹ  ھی عورت کی ھے،،عورت ھی اس کو پیدا کرتی ھے ،زنانہ وارڈ میں اس کا نزول ھوتا ھے،عورتیں ھی اس کو خوش آمدید کہتی ھیں،، عورت ھی اسے پالتی اور اس کی تربیت کرتی ھیں اچھی ھو یا بری، پھر ھار سنگھار کر کے اسے دوسری عورت کو سونپ دیتی ھے،، لہذا ھر ماں یہ دیکھ لیا کرے کہ وہ اپنا لعل کس کو سونپ رھی ھے ! اس کی میت بھی عورتوں میں ھی پڑی ھوتی ھے،مرد صرف غسل دینے کے لیئے اٹھانے آتے ھیں ! عورت کے بگاڑے کو عورت ھی سدھار سکتی ھے، ماں کے بگاڑے ھوئے کو بیوی ھی سدھار سکتی ھے ،، اور ماں کے سدھارے کو بیوی ھی بگاڑ سکتی ھے،، اس کا پاس ورڈ ازل سے عورت کے پاس ھے،، اور یہ ھمیشہ ماں یا بہنوں یا بیوی کے درمیان فٹ بال بنا رھتا ھے جو اپنی اپنی مرضی کی گیم اس پر کھیلتی اور اس کی سیٹنگز تبدیل کرتی رھتی ھے،، ماں کی سیٹنگز بیوی رات کو تبدیل کر دیتی صبح اماں ایک پھونک سے وہ ھٹا کر دوبارہ فیکٹری سیٹنگز ریسٹور کر لیتی ھے،، بس اتنی ساری مرد کہانی ھے ! عموماً اماں جی اپنی سلطنت میں اضافے کے لئے بیٹے کو بطورِ چارہ استعمال فرماتی ھیں تا کہ  کسی غیر کی پالی پوسی پڑھی پڑھائی بیٹی ھاتھ آ جائے اور یوں وہ اپنے اختیارات کو دو گھروں تک وسیع کر لیں ! اس کے لئے شادی سے پہلے ھنگامی دورے ھوتے ھیں، لنچ کہیں اور ھوتا ھے تو برنچ کہیں اور ڈنر کہیں اور ھوتا ھے تو ونر کوئی اور ،، اس بھاگ دوڑ کے بعد آخر ایک گھر منتخب کر لیا جاتا ھے اور یوں مچھلی پکڑ کر گھر لائی جاتی ھے،، شادی کے بعد ٹیسٹ کیس کے طور پر اماں جی اپنی بیٹیوں اور بہو کا تقابل کرتی ھیں،، کوشش کرتی ھیں کہ بہو اور بیٹا جہاں جائیں ایک آدھ بہن ساتھ جائے جو ان کی سرگرمیوں میں نظر رکھے - اگر بہن کو بھی ساتھ لے کر جانا ھے تو پھر بہتر ھے ھنی مون پہ نہ ھی جایا جائے ،، کیونکہ اس میں دو نقصانات ھوتے ھیں،، پہلا تو یہ کہ جس محبت کے ماحول کے لئے انسان جاتا ھے وہ کبھی حاصل نہیں ھوتا،،یہ ایسا ھی سماں ھوتا ھے جیسے افطاری سے پہلے پکوڑے سموسے اور روح افزاء سامنے رکھ کر بیٹھنے والوں کا ھوتا ھے،، بہن بھی کوشش کرتی ھے کہ وہ نہ صرف بھابھی اور بھائی کو خلوت میسر نہ آنے دے بلکہ وہ بس میں بھی کوشش کر کے میاں بیوی کے درمیان دیوارِ برلن بن کر بیٹھتی ھے،دوسرا بہن واپس آکر جو غلط رپورٹنگ کرتی ھے وہ فساد کی پہلی چنگاری ھو تی ھے،، یوں ماں کو بیٹا ھاتھ سے جاتا نظر آتا ھے اور اسے احساس ھوتا ھے کہ کشمیر لیتے لیتے مشرقی پاکستان بھی ھاتھ سے گیا ! دوسرا ٹیسٹ یہ ھوتا ھے کہ بیٹا جو چیز اپنی بیوی کے لئے خریدے وھی چیز بہن کے لئے بھی خریدے ،، چاھے وہ سونا ھو یا کپڑا ! سوال یہ ھے کہ بیٹے نے دو شادیاں نہیں کیں کہ وہ دونوں میں انصاف کرے،، زیادہ جنتی جوان سوچتے ھیں کہ بہن کے لئے پیسے نہیں تو بیوی کے لئے بھی تحفہ نہیں خریدنا،، یوں بھاوج اور نند کا تنازعہ شروع ھوتا ھے،، تنازعات میں مرد کی اھمیت بڑھ جاتی ھے،، زیادہ تر مرد مارکیٹنگ کے اس دور میں اپنی مارکیٹ ڈاؤن نہیں ھونے دیتے، وہ ماں کو بھی گولی دیتے ھیں اور بیوی کو کیپسول،، جو ایک طرف کا ھو جائے وہ چلا ھوا کیپسول گنا جاتا ھے - مگر مرد ری فِل قسم کا کارتوس ھے،ذرا سا بیوی کی طرف سے شکوہ پیدا ھوا تو اسے اپنا ریٹ گرتا ھوا محسوس ھوتا ھے،، اب یہ اس بہن کے گھر جا گھسے گا جو بیوی کی سب سے زیادہ مخالف ھے، کھانا وھاں سے کھا کر آئے گا،، اور منہ سوجا سوجا سا بنا لے گا چاھے اس بہن نے کچھ بھی نہ کہا ھو، بیوی کھانے کو پوچھے گی تو بتائے گا،، بہن کے یہاں کھا آیا ھوں،، بیوی کا تراہ نکل جائے گا، اب وہ اس رویئے کا ذمہ دار نند کو سمجھے گی،،یوں پھر قبضے کی جنگ شروع ھو جائے گی اور مرد کی مارکیٹ چڑھ جائے گی ،، یہ بیوی کی کچھ باتیں ماں سے شیئر کرتا رھتا ھے یوں ماں کی گڈ بُکس میں رھتا ھے،اور جنت کی ریزرویشن پکی رکھتا ھے اور فی الآخرۃِ حسنۃ کا پتہ ھاتھ میں رکھتا ھے ،ادھر ماں کی دو چار باتیں بیوی کو بتا کر فی الدنیا حسنۃ بھی کیش میں لیتا ھے،، بس تھوڑی سی ذلالت اس دن ھو جاتی ھے جس دن وہ لڑائی میں ایک دوسرے کو بتا دیتی ھیں کہ اگر میری تمہارے ساتھ کی ھے تو تمہاری بھی مجھے بتاتا ھے، ! یہ ایک فساد ٹائپ گھر کا ماحول ھے مگر بدقسمتی یہ ھے کہ یہ اکثریت کا فسانہ ھے ! اس قسم کے ماحول میں پیدا ھونے والے بچے ھر وقت جنگ کے ماحول میں پلتے بڑھتے ھیں - دادی ،اور پھوپھو کو اپنی والدہ کا دشمن سمجھتے ھیں، والد کو بھی بے انصاف سمجھتے ھیں، مجبوراً والد کے ساتھ جڑے رھتے ھیں مگر اندر سے اس کے مخالف ھوتے ھیں،،حالانکہ مرد اگر اپنی بیوی اور ماں سے مخلص نہ بھی ھو تو بھی اولاد کے ساتھ 100٪ مخلص ھوتا ھے،،لیکن یہی وہ جگہ ھے جہاں انسان نہ آگے کا رھتا ھے اور نہ پیچھے گا،، آپ گرم دیگچے کو کرتے ھیں مگر گرم سالن ھوتا ھے،،اور آپ ٹھنڈا برتن کو کرتے ھیں مگر ٹھنڈا سالن ھوتا ھے،، جس عورت کی گود میں آپ نے اپنا مستقبل اور دل کا ٹکڑا رکھا ھے اسے تتے توے پر بٹھا کر آپ کیسے گمان کر لیتے ھیں کہ اولاد ٹھنڈی رھے گی ؟ اب اولاد نہ تو پھوپھو کے گھر سے شادی کرتی ھے اور نہ چچا کے گھر سے،، یہی وجہ ھے کہ خاندان میں رشتوں کی بجائے باھر کا رجحان ھے،ایک تو یہ ڈر ھوتا ھے کہ جو ھم نے کیا ھوا ھے اس کے نتیجے میں کہیں ھماری بیٹی کے ساتھ بدلہ نہ چکایا جائے،، دوسرا طرف عورت کو یہ ھوتا ھے کہ جنہوں نے زندگی بھر میرے شوھر کے کان بھرے ھیں وہ میرے بیٹے کو کب بخشیں گے، اس طرح دونوں فریق اپنے کیئے سے ڈرتے ھوئے رشتوں کے لئے باھر دھکے کھا رھے ھوتے ھیں !اگر آپ چاھتے ھیں کہ آپکی اولاد آپ سے پیار کرے آپ سے مخلص رھے، اور اچھی تعلیم و تربیت پائے تو بیوی کے ساتھ تعلقات کو کبھی خراب مت ھونے دیں،، شریعت نے والدین کے حقوق مقرر کر دیئے ھیں اور ان کی ادائیگی بغیر کسی کا حق مارے بھی ھو سکتی ھے،،نماز میں سب سے اھم رکن سجدہ ھے جب سب کچھ کر کے انسان اپنا سر رب کے قدموں میں رکھ دیتا ھے،،مگر نماز صرف رکوع میں سر رکھے رھنے کا نام نہیں ھے،اس میں قیام بھی ھے،رکوع بھی ھے، قومہ و جلسہ و قعدہ بھی ھے،،یہ سجدے سے کم اھم ھو سکتے ھیں،،مگر نماز کے ھونے میں ان کا وجود بھی ضروری ھے،،ماں اگر سجدے کا مقام بھی رکھتی ھے تو بیوی قیام اور اولاد رکوع والی جگہ پہ رکھ لیں مگر دین اور دنیا ان سب کے ساتھ مکمل ھوتے ھیں،، نا اںصافی اللہ پاک کو سخت ناپسند ھے اور وہ اسے ظلم سے تعبیر کرتا ھے، اور ظالموں سے نفرت بھی کرتا ھے اور ان پر لعنت بھی کرتا ھے،،ماں سے محبت اپنی مٹھاس رکھتی ھے ،بیوی سے محبت اپنی مٹھاس رکھتی ھے اولاد کا پیار اپنا مزہ دیتا ھے،،ان سب مزوں کا نام زندگی ھے،، عیسی علیہ السلام کو پھانسنے کے لئے یہود نے ایک مسئلہ پیش کیا کہ حکومت کو ٹیکس دینا چاھئے یا نہیں ؟ عیسی علیہ السلام نے فرمایا اس درھم کو پلٹو ! اس پر قیصر کی تصویر بنی تھی،، آپ نے فرمایا جو قیصر کا ھے وہ قیصر کو دو -جو اللہ کا ھے وہ اللہ کو دو،،یعنی درھم پر قیصر کی مہر ھے اور تم پر اللہ کی مہر ھے ! ماں بیوی والے حصے پر شب خون نہ مارے،، اور بیوی ماں کے حصے کو ھڑپ نہ کرے،، ! جو ماں کا ھے وہ ماں کو دو اور جو بیوی کا ھے وہ بیوی کو دو !

خواتین کی خدمت

خواتین کی خدمت میں " شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات !
سوال !
دنیا کا کوئی میک اپ نہ تو عورت کو خوش کر سکتا ھے اور نہ اس کے ھونٹوں پہ مسکراھٹ لا سکتا ھے !
جواب !
1-یہ صرف آپ کا مسئلہ نہیں تقریباً ھر عورت کا یہی خیال ھے کہ یہ میک ان کے ھونٹوں پہ مسکراھٹ نہیں لا سکتا ،،مگر حکم یہ ھی ھے کہ عورت جب اپنی عصمت کی حفاظت کرے،، نماز روزے کی پابندی کرے اور شوھر جب اس کی طرف دیکھے تو خوش ھو جائے ،،، اس حال میں مر جائے تو جنت کے جس دروازے سے چاھے جنت میں چلی جائے ! شاید جنت بھی آپ کے ھونٹوں پہ مسکراھٹ نہ لا سکے ! گھریلو معاملات میں گلے شکوے اپنی جگہ اور ھر جگہ ھوتے ھیں ، مگر انسان ان کی وجہ سے کسی دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا ! اب آپ کہیں گی کہ مرد بھی عورت کے حقوق کا اسی طرح خیال رکھے،، تو گزارش ھے کہ مرد تو چکی کے دو پاٹوں میں پس رھا ھوتا ھے ! وہ اگر یہ تسلیم کر لے کہ اس کے والدین یا بھائی اور بھابھیاں یا اس کی بہنیں اس کی بیوی کے ساتھ زیادتی کر رھی ھیں تو یہ حاتم طائی کی قبر پر لات ھے، عورت کو چاھئے کہ وہ اس بات کو appreciate کرے ، اور بات کو ختم کردے ،، مرد نہ تو ماں کو مار سکتا ھے، نہ طلاق دے سکتا ھے اور نہ اس کا خرچہ بند کر سکتا ھے،، اب آپ یا کوئی اور خاتون یہ تجویز کر دے کہ مرد کو اپنی ماں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاھئے بیوی کی ایف آئ آر کے بعد ؟ تا کہ ھم بھی اس پر عمل کر سکیں اور زوجہ کو خوش کر سکیں،، جواب دے کر ثوابِ دارین حاصل کریں !
2- اگر مرد اپ کے لشکارے پر ھر کسی کے گلے پڑے گا اور گھر کو مارشل لاء کورٹ بنا کر رکھے گا تو بھی بدنامی آپ کی ھو گی کہ شوھر کو ھر وقت چابی دے کر رکھتی ھے اور لگائی بجھائی کرتی ھے ! آگے چل کر یہ صورتحال آپکی اولاد کے لئے مصائب کھڑے کر دے گی،، لوگ ایسی ماں کی بیٹی کو بیاھتے ھوئے سو بار سوچتے ھیں جس کی ماں شوھر کو چابی دیتی رھتی ھے،، نیز اس کے بیٹوں کو بھی رشتے سوچ سمجھ کر دیئے جاتے ھیں کہ جو شوھر کو مسلم لیگ نون کا شیر بنا کر رکھتی تھی بیٹوں کو تو بھیڑیا بنا کر رکھے گی،، بندہ بندے کا دارو ھوتا ھے،، صبر کا پھل میٹھا ھوتا ھے،حکمت سے چلنا پڑتا ھے ! شوھر کو یہ تو بتایا جا سکتا ھے کہ یہ کام کرنا ھے،،مگر کس طرح کرنا ھے اس کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیں وہ حکمت سے مناسب موقعے پر کر دے گا،، یہ اصرار کرنا کہ ابھی کرو ،، اسی طرح ھے جیسے ڈرائیور کو کمانڈ دینا کہ سلو ٹریک سے یو ٹرن کرو ! ،، وہ پہلے اپنے مطلوبہ ٹریک میں پہنچے گا ،، پھر یو ٹرن کا فیصلہ کرے گا ! یاد رکھیں وہ چاروں طرف دیکھ رھا ھے، دائیں بائیں سامنے اور بیک میرر ،، اور آپ صرف ایک سائڈ پہ نظریں جمائے ھوئے ھیں،، وہ جو دیکھ رھا ھے آپ نہیں دیکھ رھیں !

آسمانی جوڑا

عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو وھاں سے بے روزگار ھونے والے واپس اپنے اپنے وطن میں پہنچے جہاں لوگوں نے انہیں دنیا کے دونوں رخ مرنے سے پہلے ھی دکھا دیئے  ورنہ یہ رخ مرنے کے بعد ھی سامنے آتے ھیں     !

مــرنے والا قـبر میں کیا چین پائے بعـدِ دفن     !
موت نے دنیا کے دونوں رخ دکھائے بعدِ دفن     !

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے بعدِ دفن     !
زندگـــی بھــر کی محبت کا صــلہ دینے لگے     !

لوگوں نے منگنیاں توڑ دیں،رشتے ناتے ختم کر دیئے ،،وہ جو دعوتوں پہ دعوتیں کیا کرتے تھے انہوں نے مانگے کا کمبل بھی ادھار نہ دیا ! پانچ سات سال کے بعد وہ مہاجرینِ کویت واپس کویت تو آگئے مگر اپنے ساتھ تجربوں کی دنیا اور کہانیوں کے انبار بھی سمیٹ لائے     !

ان میں وقاص صاحب کی فیملی بھی تھی،جس میں ان کی بیوی فرح دیبا اور اکلوتا بیٹا فرحان بھی تھا ! فرحان سے پہلے ان کے تین بچے مس کیریج ھو چکے تھے اور اس کے بچنے کے بعد ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے مزید اولاد کی امید پر پانی پھیر دیا تھا،یوں گھوم پھر کر فرحان ھی ان کی دنیا تھا ! پاکستان جاتے ھی انہوں نے اسے اپنے گھر کے سامنے چکلالہ اسکیم نمبر 3 میں  ایک اکیڈیمی میں آٹھویں کلاس میں ڈال دیا ! وہ فرحان کا کلاس میں پہلا دن تھا جب مس طیبہ کلاس میں داخل ھوئی ! تمام بچوں کے ساتھ فرحان بھی ان کے استقبال کے لئے کھڑا ھوا،، پھر سارے بچے بیٹھ گئے مگر فرحان کھڑے کا کھڑا رہ گیا، وہ ٹرانس میں چلا گیا تھا ! مس طیبہ جو صرف ایف اے کر کے اکیڈیمی جوائن کرنے پر مجبور ھو گئ تھی کیونکہ اس کے والد جو سی ڈی اے میں ملازم تھے اپنی موٹر سائیکل پہ ڈیوٹی پہ جا رھے تھے کہ ایک ویگن کی ٹکر نے ان کی دنیا اندھیر کر دی ،، ان کی کہولے کی ھڈی کچھ اس طرح ٹوٹی تھی کہ اسے دوبارہ ٹھیک طرح سے جوڑنے کے لئے ڈھائی تین لاکھ کا خرچہ آتا تھا جو ان جیسے دیانتدار شخص کے لئے ناممکن تھا،، ان کے دو چھوٹے بیٹے اور ایک بڑی بیٹی تھی جو سیکنڈ ایئر میں تھی،، حادثے کے بعد انہیں کام سے فارغ کر دیا گیا یوں ان کی روزی روٹی کا ذریعہ جاتا رھا ! کسی دوست نے مہربانی کر کے ان کی سیکنڈ ایئر کرنے والی بیٹی کو کام دلوا دیا یوں ، کم ازکم فوری ضرورتوں کا سامان ھو گیا ! مس طیبہ فرحان سے عمر میں کچھ زیادہ  بڑی نہیں تھی، فرحان کے لئے مسئلہ ان کی معصوم اور بھولی بھالی صورت تھی جس کے بیک گراؤنڈ میں انجانے درد کی کسک نے ان کی صورت میں مزید کشش پیدا کر دی تھی،، اور سب سے بڑی قیامت ان کے دونوں گالوں پہ بننے والے ھلکے ھلکے گڑھے تھے! جنہیں ڈمپل کہا جاتا ھے ! بس یہیں فرحان ٹریپ ھو گیا تھا یا انہی گڑھوں میں ڈوب مرا تھا،، اسے مارنے کے لئے ایک ھی گڑھا کافی تھا،،مگر دوسرے گڑھے کی موجودگی نے اس کے نکلنے کے تمام  امکانات ختم کر دیئے تھے ! کہتے ھیں اللہ کچھ لوگوں کو تو دھن کی دولت دیتا ھے تو کچھ کو تن کی دولت دیتا ھے اور کچھ کو من کی ! مس طیبہ کو اللہ پاک نے تن کی دولت کے ساتھ من کی دولت سے بھی نوازا تھا ،وہ نہایت پاک فطرت لڑکی تھی، جسے صرف اپنے والد اور بہن بھائیوں کی فکر تھی ، اس سے آگے کی فکر اس نے کبھی سوچی بھی نہیں تھی     !
فرحان جونہی کلاس روم کے  دروازے پہ پہنچتا اور کہتا " مِـس " اور مس طیبہ اس کی طرف دیکھتی تو وہ " مے آئی کم ان " کہنا ھمیشہ بھول جاتا اور بس ان کے "یـس " کہہ دینے پر اندر داخل ھو جاتا،، وہ کوشش کرتا کہ مس طیبہ کو خوش رکھے اور ان کی ھر ضرورت پوری کرے ! وہ خود  گھر سے دوڑ کر نیل کٹر لے آتا ،، امی کے ھیئر بینڈ جو ابھی پیک پڑے تھے اٹھا لاتا اور اچھا کھانا پکا ھوتا تو لنچ بریک کے دوران مس طیبہ کو لا کر دے دیتا،، مگر وہ یہ سب کچھ امی کے نام سے کرتا ،مس امی نے یہ کھانا بھیجا ھے،،مس امی نے یہ ھیئر بینڈ دیئے ھیں وغیرہ وغیرہ ،جبکہ مس طیبہ کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ کیا ھو رھا ھے ! جب کبھی مس طیبہ کسی دوسرے بچے کو توجہ دیتی تو فرحان کو ھمیشہ برا لگتا ،وہ جیلس ھو جاتا ،،بعض دفعہ مس کی توجہ حاصل کرنے کے لئے وہ کوئی ایسی غلطی کر جاتا ،جس پر وہ اسے خوب ڈانٹتی تو وہ سر جھکا کر نہایت اطمینان سے ان کی ڈانٹ ڈپٹ سنتا ،صرف اس احساس کے ساتھ کہ وہ اس وقت اپنی پوری ھستی پورے دل و جان سے اس کی طرف متوجہ ھیں     !

عـــــــشق کے مراحــــل میں وہ بھی مقام آتا ھے     !
آفـــتیں برســـــــتی ھـیں، دل سکــــــون پاتا ھے     !

سال پلک جھپکتے گزر گیا اور فرحان کو ھائی اسکول میں داخل کرا دیا گیا ! فرحان تو اکیڈیمی سے نکل گیا مگر مس طیبہ فرحان کے اندر سے نہ نکل سکیں ! وہ آتے جاتے جان بوجھ کر اس وقت اکیڈیمی کے پاس سے گزرتا جب مس طیبہ اکیڈیمی کی وین میں بیٹھ رھی ھوتیں یا اتر رھی ھوتیں وہ پیپلز کالونی ٹینچ بھاٹہ سے آتی تھیں جہاں ان کا دو کمرے کا مکان تھا اور فرحان وھاں جا چکا تھا، وہ ابو کے ساتھ مس طیبہ کے معذور والد کے لئے الیکٹرک وھئیل چیئر لے کر گیا تھا جس کے لیور کے ذریعے وہ خود ھی چیئر کو آگے پیچھے چلا لیتے تھے  !
فرحان نے جب بی - اے کر لیا تو کویت کے حالات بھی نارمل ھو گئے تھے جہاں اس کے والد آئل ریفائنری میں کیمیکل انجیئنر تھے ! وزارتِ پیٹرولیم نے اس کے والد کو دوبارہ کال کر لیا تھا یوں فرحان واپس کویت آ گیا اور پیٹرولیم انسٹیٹیوٹ میں انجیئرنگ میں داخلہ لے لیا،مگر اس نے ھمیشہ کسی نہ کسی طرح مس طیبہ سے رابطہ برقرار رکھا اور والد یا والدہ کے نام پر انہیں تحفے تحائف بھی بھیجتا رھا ،،مگر یہ بات طے تھی کہ طیبہ کو فرحان کے ارادوں کی کوئی خبر نہ تھی !

فرحان خاندانی لڑکا تھا کوئی لچر یا لوفر لفنگا نہیں تھا ! مس طیبہ کے متعلق وہ بےبسی کا شکار تھا ! پتہ نہیں اس کے دل کو کیا ھو گیا تھا ،وہ سوتے میں بھی مس طیبہ کے ڈِمپلز پر ارتکاز کر کے سوتا تھا،، نمازی تو وہ شروع سے تھا جب کے-جی ٹو میں پڑھتا تھا تو بھی نماز گھر کے باھر والی مسجد میں بستہ رکھ کر وضو کر کے پڑھ کر گھر آتا تھا ،، اب تو اسے اللہ سے خاص کام پڑ گیا تھا لہذا اس کی نماز میں گداز پیدا ھو گیا تھا ! وہ اللہ سے رو رو کر عرض کرتا کہ جب تک وہ پاؤں پہ کھڑا نہ ھو جائے ،مس طیبہ کا کوئی پروپوزل نہ آئے اور اگر آئے تو اللہ اس کے دل کو پھیر دے تا کہ وہ اسے ریجیکٹ کر دے ! بس اللہ ھی اس کی پہلی اور آخری امید تھا، انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد انسٹیٹیوٹ نے اسے جاب یا پھر برطانیہ میں اسپیشلایئزیشن کرانے کی پیشکش کی ! والدین کا اصرار تھا کہ وہ برطانیہ جائے مگر فرحان اب اس سے زیادہ دور جانا نہیں چاھتا تھا اس نے فی الحال جاب کو ترجیح دی ، اسپیشلایزیشن زندگی میں کبھی بھی کیا جا سکتا تھا،جبکہ اس کے لئے مس طیبہ کو مزید لمبا کھینچا مناسب نہیں تھا ،، وہ ڈمپلز تک جلد از جلد رسائی چاھتا تھا ! جاب جوائن کر لینے کے بعد والدین اس کی شادی کے پروگرامز بنا رھے تھے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور ان کا تھا نہیں ایسے بچے کی نسل چلانے کی والدین کو بہت فکر ھوتی ھے ! والد صاحب اپنے بہن بھائیوں میں سے کسی کے گھر کرنا چاھتے تھے تو والدہ اپنوں کے لئے اسے رام کرنے کے چکر میں تھیں !

آخر والدہ نے ھی پریشر ککر سے ڈھکن اٹھایا اور وہ بھی اسٹیم نکالے بغیر !

دیکھو بیٹا ھم پاکستان تمہاری شادی کرنے جارھے ھیں ! تم اتنے سال وھاں رہ کر آئے ھو اور دوست دشمن سے آگاہ ھو، تم ان کو بھی جانتے ھو جو مخلص ھیں اور ان کو بھی جو پیسے کے ھیں ! اس لئے اب تم ننہیال میں سے چنو یا ددھیال میں سے مگر مخلص گھرانے پہ ھاتھ رکھنا ! مما اگر آپ لوگوں نے معاملہ میرے اوپر چھوڑا ھے تو پھر یہ برادری کی شرط بھول جائیں ! اگر شادی خوشی کو کہتے ھیں تو پھر شادی کو شادی ھونا چاھئے ! نہ کہ برادری کو ٹانکے لگانی والی کاپر کی تار ! مما میں نے لڑکی چن لی ھے اور بہت عرصہ پہلے چن لی تھی ،، میں اسی سے شادی کرنے جا رھا ھوں ! اچھا وہ لڑکی ھے کون ؟ مس طیبہ !! فرحان نے دھماکہ کیا ،، دیبا فرح کے ھاتھ سے وہ کنگھی گر گئ،، مس طیبہ وہ لڑکی جو تجھے اکیڈیمی مین پڑھاتی تھی؟ ماں نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ھوئے کہا ! جی وھی ،، فرحان نے اطمینان سے جواب دیا ! مگر ،،مگر بیٹا وہ تو تم سے پانچ سات سال بڑی ھے اور پھر ،،،،،
مما یہ زندگی انسان سے کتنی بڑی ھے ! ھزاروں لاکھوں سال ناں ؟ مگر کسی نے آج تک اس زندگی کو اس لئے اپنانے سے انکار نہیں کیا کہ وہ اس سے بڑی ھے ! زندگی تو زندگی ھے بڑی ھو یا چھوٹی ،،مما مس طیبہ میری زندگی ھے، میں ایک ایسی چلتی پھرتی لاش ھوں جس میں زندگی کی رمق بھی نہیں ،،میں اپنی روح پاکستان چھوڑ آیا ھوں ،، ماما آپ ایک کہانی سنایا کرتی تھیں ناں کہ دیو کی جان طوطے میں ھوتی ھے اور اس طوطے کی گردن مروڑ دو تو دیو مر جاتا تھا،، مما وہ طوطا مس طیبہ ھے،، جس دن مجھے یقین ھو گیا کہ وہ مجھے نہیں مل پائے گی یا وہ کسی اور کے لئے ڈولی میں بیٹھ جائے گی،، اس دن آپ کو یقین آ جائے گا کہ فرحان میں روح نہیں تھی وہ ایک بےروح لاش تھا !
دیبا دھشت زدہ ھو کر یہ سب کچھ سن رھی تھی ! وہ تو سمجھتی تھی کہ اس کا یہ نمازی پرھیزگار بچہ جو کسی عورت کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ،، یہ بھی نہیں جانتا ھو گا کہ عورت کیا ھوتی ھے اور کس چیز کے ساتھ کھائی جاتی ھے !! وہ بچہ اس کے سامنے کھڑا فلسفہ بیان کر رھا تھا،، مگر خاندانی عورت تھی اور عقلمند بھی تھی،، اس نے بیٹے کو گلے سے لگا لیا،،بیٹا تم ھی تو ھماری دنیا ھو،، بھلا ھمیں تمہاری خوشی کے سوا اور کیا چاھئے،،میں جاؤں گی ان لوگوں کے گھر تیرے رشتے کے لئے اور تیرے پاپا کو بھی میں راضی کروں گی ،، بس تم اب ٹینشن مت لینا !
 جس دن فرحان کی امی رشتہ مانگنے طیبہ کے گھر گئ ،، فرحان کے پاپا بھی اس کے ساتھ تھے جنہوں نے طیبہ کے والد سے ان کے حالاتِ زندگی معلوم کیئے تو انہیں افسوس ھوا کہ اتنی ضرورتمند فیملی کیوں ان کی نظروں سے اوجھل رھی،، اگرچہ یہ لوگ غریب تھے،مگر بات چیت سے سادہ دل اور مخلص لگتے تھے ! طیبہ کے چند رشتے آئے تھے جو طیبہ ھی کے اصرار پر رد کر دیئے گئے تھے کیونکہ وہ اپنے بھائیوں کے بارے میں متفکر تھی کہ ان کی کفالت کون کرے گا !
طیبہ فرحان کی امی کو ماں کے پاس چھوڑ کر کچن میں چائے بنا رھی تھی جب دیبا نے فرحان کے رشتے کی بات چلائی کہ وہ فرحان کے لئے طیبہ کا رشتہ مانگنے آئے ھیں،، وہ چمچ جس سے طیبہ چائے میں پتی ڈالنے جا رھی تھی اس کے لئے شہتیر بن گئ جسے سنبھالنا اس کے لئے مشکل ھو گیا،، اس نے بمشکل چولہا بند کیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گئ !

اس نے نہ تو کبھی فرحان کو اس نظر سے دیکھا تھا اور نہ وہ امید کرتی تھی کہ وہ ایک دن اس کے لئے پروپوزل لیئے آ پہنچے گا ! وہ ایک حقیقت پسند لڑکی تھی اور دو باتوں کو بخوبی جانتی تھی،،پہلی بات سوشل اور فائنانشیل اسٹیٹس ،، دوسری بات لڑکے کی عمر ، وہ چائے چھوڑ کر اندر چلی آئی اور اس نے کہا کہ آنٹی میں اس سلسلے میں فرحان سے بات کرنا چاھتی ھوں،، یقیناً اس نے آپ کو مجبور کیا ھو گا ورنہ کوئی ماں اپنے بیٹے کے لیئے اس کی عمر سے بڑی عمر کی لڑکی پسند نہیں کرتی خاص طور پر جب کہ وہ ایک غریب اور لاچار گھرانے سے تعلق رکھتی ھو ! آپ یقین کریں میں نے فرحان کو سوائے ایک اسٹوڈنٹ کے اور کچھ نہیں سمجھا اور نہ میں اس قسم کی ڈورے ڈالنے والی لڑکی ھوں ! آپ مجھے اس سے بات کرنے دیں،، میں اسے اس رشتے سے انکار پر راضی کر لونگی !
وہ ھیسٹیریا کے مریض کی طرح بولے چلے جا رھی تھی یہ دیکھے بغیر کہ اس کے اس بولنے کا اثر فرحان کی امی پر کیا پڑ رھا ھے ! انہوں نے اسے پکڑ کر کھینچا اور سینے سے لگا کر بھینچ لیا ،، وہ بھی مسلسل روئے چلے جا رھی تھیں ! تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے اس الگ گیا،، طیبہ نیم مدھوشی کی کیفیت میں تھی،، دیکھو طیبہ امیری غریبی تو اللہ کے ھاتھ میں ھے، چند سال کے لئے اس نے ھمیں امیروں میں سے نکال کر غریبی کی کیفیت میں اسی لئے مبتلا کیا تھا کہ ھم جان سکیں کہ غریبی نہ کوئی ذات ھوتی ھے اور نہ کوئی جرم،،یہ صرف امتحان ھوتا ھے،، بیٹا آپ نے امتحان پاس کر لیا ھے ،،میرے بیٹے کو بھی امتحان میں کامیاب ھونے دو آخر کو وہ بھی تمہارا اسٹوڈنٹ ھے،،میں اس سے تجھے ضرور ملاؤں گی مگر یہ بات نوٹ کر لو کہ جو اور جس طرح تم نے میرے سامنے بات کی ھے،ویسے اور ویسی بات میرے فرحان سے مت کرنا وہ میرا اکلوتا بیٹا ھے اور میں اسے کھونا نہیں چاھتی،، وہ تمہیں اپنی جان کہتا اور سمجھتا ھے اور اپنے اپ کو تمہارے بغیر بے روح کا لاشہ سمجھتا ھے،، اس سے بات کرنے سے پہلے اس کی بات سن لینا ،، شاید پھر تمہیں بات کرنے کی ضرورت بھی نہ رھے،میں کل تم لوگوں کی دعوت کر رھی ھوں ، وھاں تم اس کے ساتھ تسلی سے بات کر لین گھر واپس آ کر دیبا نے فرحان کو مناسب انداز میں طیبہ کے ردعمل سے آگاہ کر دیا ،، تا کہ جب طیبہ اس سے بات کرے تو وہ ذھنی طور پر تیار ھو اور کوئی شدید رد عمل ظاھر نہ کرے ! مگر ان کا یہ خدشہ عبث تھا کیونکہ فرحان مس طیبہ کے سامنے شدید یا خفیف کوئی رد عمل دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا ! وہ کسی اور غیر شعوری کیفیت کا شکار تھا ! جس میں شاید اذیت بھی لذت دیتی ھے،ھم نے کئ نشہ بازوں کو اپنے آپ کو بلیڈ مارتے بھی دیکھا ھے ! اگلے دن طیبہ کی پوری فیملی فرحان کے گھر آئی سب باھر بیٹھ کر گپیں لگا رھے تھے جبکہ فرحان اندر اپنے کمرے میں لیٹا ھوا ٹی وی دیکھ رھا تھا ! دیبا نے طیبہ کو آنکھ سے فرحان کے کمرے کی طرف اشارہ کیا اور دیبا اپنے آپ کو سنبھالتی ھوئی فرحان کے کمرے کی طرف چل دی ! دیبا بھی اس کے پیچھے پیچھے تھی مگر وہ کمرے میں جانے کی بجائے باھر کھڑکی کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گئ ! طیبہ نے دروازے کو ھلکا سا کھٹکا دیا ، کم اِن ،، اندر سے فرحان کی آواز آئی ،شاید وہ نوکر کے چائے لانے کا منتظر تھا مگر طیبہ کو دروازے سے داخل ھوتے دیکھ کر گویا اسے بجلی کا جھٹکا لگا ،، وہ بالکل 10 سال کے بچے کی طرح اچھل کر اپنے بیڈ پہ اس طرح کمبل لپیٹ کر بیٹھا جس طرح مرغی انڈے سمیٹ کر بیٹھتی ھے ،، طیبہ اس کے بیڈ کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھی تو فرحان نے غیر محسوس انداز میں اپنے آپ کو ٹوئیسٹ کیا کہ اس کی نظر طیبہ کے چہرے پہ نہ پڑے،، آپ کب تشریف لائیں ؟ اس نے طیبہ سے سوال کیا ! جب سے آپ کو ھماری آوازیں آ رھی تھیں، طیبہ نے ھلکی سی مسکراھٹ کے ساتھ جواب دیا ،، وہ تو ٹھیک ھے ،مگر میرا مطلب ھے میرے کمرے میں ،،،، وہ امی جان ،، کیا وہ باھر نہیں ھیں ؟ جی امی جان تو باھر ھیں مگر میں آپ سے کچھ عرض کرنے آئی تھی اگر آپ سننے کی زحمت کریں گوارہ کریں تو ؟ جی مس آپ ضرور بات کریں مگر پلیز مجھے آپ مت کہیں ،فرحان نے گڑگڑا کر کہا ،، فرحان میری طرف دیکھیں میں بہت سیریس ھوں آپ میری بات کو توجہ سے سنیں ،،جی مس جب آپ بولتی ھیں تو پھر میرے کان اس کائنات میں کسی اور آواز کو قبول ھی نہیں کرتے ،، رہ گئ بات آپ کی طرف دیکھنے کی تو اگر آپ چاھتی ھیں کہ میں آپکی بات کا جواب بھی دوں تو پلیز مجھے اپنی طرف دیکھنے پر مجبور مت کریں ،،آپ کو دیکھتے ھیں میرا اسپیچ سنٹر ڈس ایبل ھو جاتا ھے،،میں کچھ بھی نہیں بول پاتا ،،شاید آپ کو اس کا کوئی اندازہ بھی ھو گا ! دیکھو فرحان تم اب میرے شاگرد نہیں ھو اور نہ میں تمہاری ٹیچر ھوں ،تم ایک جوان مرد ھو اور تعلیم کے لحاظ سے بھی تم مجھ سے بہت آگے ھو ! میں تو ایک مجبور لڑکی تھی جسے ضرورت وقت سے پہلے اکیڈیمی لے گئ تھی ! میری آپ سے یہ گزارش ھے کہ آپ حقیقت کا سامنا کریں اور وہ انتخاب کریں جو کل کلاں آپ کے لئے اور آپ کے والدین کے لئے خفت کا باعث نہ ھو ! کمال ھے ایک انجینئر مڈل کلاس کے ایک لڑکے کے ھاتھوں مجبور ھو گیا ھے اور اسے سمجھانے سے عاجز ھے کہ آج کل کے سماجی رویئے کیا ھیں ؟ یہ عشق اور محبت کا بھوت بہت جلد اتر جاتا ھے، کل کلاں لوگ آپ کو شرم دلائیں گے کہ اپنے سے بڑی لڑکی سے شادی رچا بیٹھے ! اور آپ گھر آ کر مجھ پہ غصہ اتاریں گے یا مجھے کوسیں گے یا اپنے آپ کو کوسیں گے !! طیبہ پریشر بڑھاتی جا رھی تھی اور باھر بیٹھی دیبا کا دل بیٹھا جا رھا تھا،، وہ ماں تھی ، اس کا جی چاھتا تھا وہ جھٹ سے اندر جا کر اپنے بیٹے کے تاثرات کو چیک کرے ،، وہ کہیں سکتے میں مبتلا نہ ھو جائے،کیونکہ وہ ابھی تک صرف سن رھا تھا پلٹ کر کچھ کہہہ نہیں رھا تھا ! طیبہ نے بات ختم کی اور ایک لمبی سانس لے کر فرحان کی طرف دیکھا جو ٹکٹکی باندھ کر سامنے کی دیوار کو دیکھے چلے جا رھا تھا ! چند منٹ خاموشی میں گزر گئے تو دیبا نے اندر جانے کا من بنا لیا جونہی وہ اٹھی اسے فرحان کی آواز آئی اور وہ پھر بیٹھ گئ ! مس طیبہ ،، آپ نے کبھی یہ جملہ سنا ھے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ھیں اور دنیا میں ملتے ھیں ! میں نے جب آپ کو پہلی دفعہ دیکھا تھا تو بخدا میری اندر کی سانس اندر اور باھر کی باھر رہ گئ تھی،،یہ میرا سوچا سمجھا ردعمل نہیں تھا اور نہ میں نے ایک عاشق کی نظر سے آپ کو دیکھا تھا اور نہ وہ میری عمر عشق کمانے کی تھی ! بس وہ کوئی عجیب چیز تھی ،اگر آپ اس دن مجھے سٹ ڈاؤن کی کمانڈ دے کر حرکت پر مجبور نہ کرتیں تو شاید میں اسی دن مر گیا ھوتا ،، آپ نے کبھی بلیو ٹوتھ ڈیوائس پیئر کی ھو گی ! وہ آپ سے ایک سوال کرتا ھے کہ کیا آپ اس کو اپنی ڈیفالٹ ڈیوائس بنانا چاھتے ھیں،، ؟ آپ کے یس کرنے کے بعد وہ آپکی ڈیفالٹ ڈیوائس بن جاتی ھے،پھر آن ھوتے ھی خود بخود اپنے جوڑے کو تلاشنا شروع کرتی ھے اور ملنے پر خود ھی کنکٹ ھو جاتی ھے،، مس طیبہ آپ کو میری ڈیفالٹ پارٹنر بنا کر بھیجا گیا تھا،، اس دن کلاس میں جوڑے نے اپنے جوڑے کو تلاش لیا تھا،، قصور نہ آپ کا تھا اور نہ میرا ،،، یہ سیٹنگز ،، شاید فیکٹری سیٹنگز تھیں ،، امی بتا رھی تھیں کہ آپ نے بہت اچھے دو رشتے ری جیکٹ کر دیئے تھے،، آخر اس کی وجہ کیا تھی ؟ شاید آپکی فیکٹری سیٹنگز نے انہیں قبول نہیں کیا تھا ! میں خود غرض نہیں ھوں ، اگر آپ اپنے آپ کو میرے ساتھ ایزی فِیل نہیں کرتیں تو میں قطعاً اصرار نہیں کرونگا کہ آپ میری پروپوزل کو قبول کریں،، مگر یہ بات طے ھے کہ میں کسی اور عورت کے ساتھ ظلم نہیں کرونگا کہ میرا دل تو کہیں اور ھو اور میں اسے اپنی مادہ کے طور پر اپنے کھونٹے سے باندھ لوں،، نیور ،،، رہ گئ بات آپ کے عمر میں کچھ بڑا ھونے کی تو بحیثیت مسلمان ھمیں اس بات کو کبھی ڈسکس ھی نہیں کرنا چاھئے ،کیونکہ یہ تو ھمارے نبی پاک ﷺ کا اسوہ ھے ! اپنی بات ختم کرکے فرحان نے ایک گہری سانس لی گویا کوئی بوجھ اس کے سر سے اتر گیا ھو ! طیبہ نے اب ایک عورت کی نظر سے فرحان کو دیکھا ،، وہ ایک خوبصورت اور باوقار نوجوان تھا جس کے چہرے پہ ھلکی ھلکی داڑھی کے پس منظر میں معصوم مگر اداس چہرہ بہت پرکشش نظر آرھا تھا،، تو آپ باز آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ؟ طیبہ نے ھلکی سی مسکراھٹ کے ساتھ کہا،، تو آواز کی ٹون اور لہجے کی تبدیلی نے مایوس بیٹھے ھوئے فرحان کو چونکا دیا ! اس نے بے ساختہ طیبہ کی طرف دیکھا اور پھر وھی ھوا جو پہلے دن کلاس روم میں ھوا تھا،، وہ بس دیکھتا رہ گیا اور طیبہ مسکراتی ھوئی دھیرے دھیرے باھر کی طرف چل دی ! باھر بیٹھی دیبا کا دوپٹہ بھیگ چکا تھا اور وہ دونوں ھاتھ آسمان کی طرف اٹھائے ، اللہ کا شکر ادا کر رھی تھی ! طیبہ نے انہیں پکڑ کر اٹھایا اور گلے سے لگا لیا ! ھفتے کے اندر اندر شادی ھو گئ ! باراتیوں کا رش کم ھوا تو دیبا ، فرحان کو ساتھ لے کر عجلہ عروسی کے دروازے تک آئی اور اسے وھاں چھوڑ کر اس کا ماتھا چوم کر چلتی بنی ! فرحان تھوڑی دیر اپنے حواس درست کرتا رھا ،پھر اس نے دروازے کو ھلکا سا دھکا دیا تو وہ کھلتا چلا گیا ! مـِـس ! فرحان نے آئستہ سے کہا ! شاید سنا نہیں گیا تھا یا سننے والی کو یقین نہیں آرھا تھا ،، مِس ! دوسری دفعہ کہا گیا اور گونگھٹ کے پیچھے سے اک شرمیلی سی آواز نے کہا " yes " فرحان اندر داخل ھوا اور دروازہ آئستہ سے لاک کر دیا،، زندگی بند درازوں کے پیچھے ھی جنم لیتی ھے !! اگلے ھفتے طیبہ کے والد صاحب کا آپریشن کرایا گیا جو کامیاب رھا ،، ایک ماہ کے اندر اندر وہ چلنا پھرنا شروع ھو گئے تھے !ایک واقف کی سفارش سے وہ نوکری پر بھی بحال ھو گئے تھے ! فرحان نے کویت آ کر تین ماہ کے اندر طیبہ کو بھی بلوا لیا تھا،، آج کل فرحان اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ ابوظہبی مقیم ھیں جہاں وہ ابوظہبی کی پٹرولیم کمپنی اڈناک میں چیف انجینئر ھیں ،، بچے بہترین اداروں میں آخری سالوں میں ھیں ،، مگر سب سے عجیب بات یہ ھے کہ فرحان آج بھی طیبہ کو مس ھی کہتا ھے،،