Thursday, May 29, 2014

سوچو کبھی ایسا ھو تو کیا ھو ؟

سوچو کبھی ایسا ھو تو کیا ھو ؟
بعض حضرات کے اپنے معاملات، کچھ درست نہیں ھوتے مگر وہ بیوی کو صحابیہؓ بنانے کی کوشش کرتے ھیں،، نتیجہ کھڑاک کی صورت میں نکلتا ھے،، خاتون نے پردہ کرنا شروع کر دیا،، بازار نہیں جاتی،، جو چیز چاھئے حضرت گھر ھی لۓ آ کر پسند کروا لیتے ھیں،،اصرار پر بازار لے جائیں تو گاڑی میں ھی بٹھا کر رکھتے ھیں اور گاڑی میں ھی کپڑا جوتا دکھاتے ھیں،، خاتون بھی کوئی گائے بکریاں چراتی نہیں آئی تھی،، ملٹری اکیڈیمی کی پروفیسر تھی ،،مگر اسلام مین ڈھلتی چلی گئ،،

گھر چھٹی جاتے ھیں تو صاحب کی اپنی کنواری بہن رات بارہ بجے واپس آتی ھے،، ساری بہنیں پردہ نہیں کرتیں، وہ رات کو انہیں سمجھاتی کہ بہن کو سمجھائیں اور اللہ رسولﷺ کا حکم بتائیں کہ پردہ کرے اور وقت پر گھر آیا کرے،، صبح منہ دھونے سے پہلے امی کو جا کر بتاتے ھیں کہ مجھے بہنوں کے بارے میں پٹی پڑھاتی ھے،، ظاھر ھے پھر ساس اور نندوں نے تو اس کو پھینٹی لگانی ھے !
واپس آتے ھیں تو اپنی سیکرٹری سے ھنس ھنس کر گھنٹوں باتیں ھوتی ھیں،،ھاسے بغلوں اور کچھوں سے نکلتے ھیں، کوئی نہیں سوچتا وہ بھی کسی کی بہن ،بیٹی بیوی ھو گی،، اب ردعمل کی باری آتی ھے،، اس عورت نے جمعے والے دن صبح صبح فون کر کے مجھے،جس کا خطبہ اس کا شوھر باقاعدگی سے سنتا ھے،اپنے شوھر کو اور اس منافقانہ اسلام کو اتنی گالیاں دیں،، کہ رھے نام اللہ کا،، اس کے بعد اتنا روئی اتنا روئی کہ مجھے بھی اشکبار کر دیا،،
سارا اسلام بیوی کے لئے نہیں شوھر ، ساس اور نندیں بھی ایک ایک چمچ نہار منہ کھا لیا کریں،، اگر بہنیں نہیں مانتیں تو قطع تعلق کریں تا کہ آپکی بیوی کو آپ کے دینی اخلاص کا یقین ھو،، یہ دین نہیں دین کے نام پر کسی کو تنگ کرنا ھوتا ھے،، حضرت عمرؓ نے بیوی کو ڈانٹا تھا کہ " جواب دیتی ھو ؟ گھر والی نے بیٹی کا طعنہ دیا تھا،،ذرا جا کے نبیﷺ سے پوچھنا تیری بیٹی اللہ کے رسولﷺ کو جواب دیتی ھے،، عمرؓ کی شان کوئی نبیﷺ سے زیادہ نہیں،،،
بڑی بدقسمتی ھے،، ھر انسان خطاؤں کا مجموعہ ھے،، عورت میں اگر کچھ کمی بیشی ھو گی تو شوھر بھی بہت سارا گند پالے ھوئے ھو گا،، مگر اپنا گند کسے نظر آتا ھے،، انسان دودھ پیتے بچے کی پیٹھ دھو دے تو جب تک ھاتھ صابن سے نہ دھوئے تسلی نہیں ھوتی،،مگر اپنا استنجا کر کے اکثریت بغیر صابن ھاتھ بھگو کر کھانا کھا لیتی ھے،، یہی حال گناھوں کا ھے اور خطاؤں کا ھے،، ساس کو جو باتیں اپنی بیٹی کا بھولپن نظر آتی ھیں وھی بہو کا عیب بن جاتی ھیں
ھمارا حقیقی مسئلہ یہ ھے کہ ھم خریدنا چاھتے ھیں گوبھی مگر ھم براہ راست گوبھی خریدنے کی بجائے آلو خرید کر لے آتے ھیں اور پھر ان پر لال دوپٹہ ڈال کر دو رکعت صلاہ الحاجت پڑھ کر نہایت خشوع و خضوع سے دعا کرتے ھیں کہ کہ یا اللہ تو ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے،میں نہیں کر سکتا تو کر سکتا ھے،، یا اللہ یہ آلو ھیں تو ان کو گوبھی بنا دے،، بس اسی جھگڑے میں گھر اجڑ جاتے ھیں،، سب سے پہلے یہ طے کریں کہ یہ عورت نام کی مخلوق جس کو لانے کے لئے سارے پروگرام بنائے جا رھے ھیں،وہ کس کس کے لئے ھو گی؟ یہ سوال تو تین سال کا بچہ بھی والدین سے بازار مین ھی کر لیتا ھے کہ یہ گڑیا جو آپ نے خریدی ھے کس کے لئے خریدی ھے کیونکہ بھائی بہن تو ھم 6 ھیں،، اور گڑیا ایک ؟ اگر تو کہہ دیا بیٹا جی تیرے لئے،پھر تو وہ خوش خوش لے کے گاڑی مین بیٹھ جائے گا،،اور اگر کہا کہ سب کے لئے تو وہ آپ کا ھاتھ چھوڑ کر ادھر ھی بیٹھ کر ایڑیاں رگڑنے لگے گا،، اگر آپ کو چاھئے ایسی بہو جو ایک شوھر اور سات دیوروں کو سنبھالے، ان سب کے احتلام والے کپڑے دھوئے ،تو بہتر ھے کوئی دیہاتی یتیم سی بچی کر لیں جس بیچاری کی روٹی بھی چل جائے گی اور آپ کا دھوبی گھاٹ بھی چلتا رھے گا،،اس دھوبی گھاٹ کے لئے بیوی لے کر آئے ھیں جو نفسیات میں پی ایچ ڈی ھے ایک لاکھ پچاس ھزار تنخواہ لیتی ھے اور سی ایم ایچ میں میجرز اور بریگیڈئرز کو لیکچر دیتی ھے،، اب اس سے تقاضا کرنا کہ وہ یہ دھوبی گھاٹ چلائے تو ،،،،، آج کل دونوں کو دورے پڑ رھے ھیں شوھر کو بھی اور بیوی کو بھی ،،،،پردہ اتروانا ھے تو بے پردہ جو ملتی ھیں وہ لے آؤ ، اس کو کوئی پردے والا لے جائے گا،،وہ جو بے پردے والی کو لا کر تشدد سے پردہ کرائے گا،،تم پردے والی پر تشدد کر کے اترواؤ گے،، پہلے فیصلہ تو کرو تمہیں کیا چاھئے ؟
خواتین جو کام اپنے عمل سے بگاڑتی ھیں اسے وظیفوں سے درست کرنے کو کوشش کرتی ھیں،، وظیفہ کبھی بھی عمل کا نعم البدل نہیں ھو سکتا،، اللہ پاک نے عورت پر کوئی اھم ذمہ داری نہیں ڈالی سوائے اھم ترین ذمہ داری کے،، شوھر کو خوش رکھو،، اولاد پر توجہ دو،اور سماج کو اچھے انسان فراھم کرو،،تمہیں جماعت کی نماز بھی معاف،تمہیں جمعے کی بھی چھٹی،، تمہیں جہاد بھی معاف،، تیرا سب سے بڑا جہاد اپنے گھر میں ھے،، بنو سنورو اس طرح کہ شوھر کی نظر کی پیاس بجھ جائے کسی اور طرف دیکھنے کی رغبت مر جائے،، ھنسی مذاق، اور چٹکلے، دل جوئی اس طرح کی ھو کہ گھر سے باھر جا کر اس کا دل واپسی کے لئے بےچین رھے اور فرصت ملتے ھی گھر کی طرف دوڑے،، گھر میں داخل ھو کر پرسکون ھو جائے ،، پھر جو چاھو اس سے منوا لو،، ھر وقت کی چخ چخ،، گلے شکوے اور رونے سیاپے،، تمہیں شوھر سے کچھ بھی نہیں دلائیں گے سوائے طلاق کے ،، جب چاھو لے لو

خبر دار ! عورت کی عزت کرنا منع ہے

ایک شوھر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو بے حد اہمیت دے ،
 اسے ایک قیمتی چیز کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھے ، اسے بے توقیر نہ ہونے دے، نہ خود اولاد کے سامنے اس کی بے عزتی کرے اور نہ کسی کو کرنے دے ،
یاد رکھے اس کی بیوی کی عزت اس کی اپنی عزت ہے اور بیوی کی بے عزتی اس کی اپنی بے عزتی ہے،جس عورت کو اس کی اولاد کے سامنے مارا پیٹا جاتا ہےیا گالی گلوچ اور طنز و استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اپنی اولاد کی نظر مین بے توقیر اور بے وقار ہو جاتی ہے،،پھر ایسی ماں سے اولاد سنبھالے نہیں سنبھالی جاتی وہ بھی ماں کو ہاؤس میڈ کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں ،، ایسے بچے آگے چل کر اپنی بیویوں کے لئے بھی برے شوہر ثابت ہوتے ہیں 
میاں بیوی میں ناچاقی۔ یا  ۔ رنجش ہوبھی جائے جو کہ ایک فطری اور لازمی چیز ہے،،
 جب نبی ﷺ جیسی ہستی کے گھر میں بھی رنجش ہوئی ہے تو
 کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں بہت اچھا انسان ہوں تو میرے گھر میں نہیں ہو سکتی ،، عورت بھی " ایک قسم کی" انسان ہے اسے بھی غصہ آتا ہے تو وہ غصہ اپنے شوہر پر ہی نکالے گی یا محلے والوں پہ نکالے گی ؟،،
پھر کپڑا پھٹ بھی جائے تو انسان محلے کو نہیں دکھاتا پھرتا کہ میری شلوار پھٹ گئ ہے،، میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ھیں،،(قرآن) لباس ستر بھی ڈھانپتا ہے اور خوبصورتی اور زینت بھی بخشتا ہے ،، عورت کے بغیر مرد اس حکمران کی طرح ھوتا ھے جس کا تختہ الٹادیا گیا ،، 
پھرتا ہے میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ،، گھر پھر گھر ھوتا ہے ،، 
غیر ممالک میں تو کنوارے کو کرائے پہ مکان کوئی نہیں دیتا چاہےوزیرہی کیوں نہ ہو ،، جبکہ فیملی کے لئے سب لوگ چشم براہ ھوتے ھیں ،،کیونکہ فیملی والا معزز گنا جاتا ہے اور چھڑا بےلباس و بے اعتبار۔۔۔ 
شوھر کو چاہیے کہ وہ اپنی تنخواہ میں سے ایک معقول رقم بیوی کو دے تا کہ وہ اس میں سے اپنی ضرورت کی چیزیں بھی لے کچھ صدقہ کرے اور کچھ اپنے والدین کو بھی بھیجے کیونکہ انہوں نے اسے پیدا کیا ،پالا پوسا اور پڑھایا اور اس کی خاطر مالی و جذباتی قربانی دی ،، اس کے والدین کا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے جتنا شوہر کے والدین کا شوہر پر ہے ،، کبھی اس کے والدین یا بھائیوں کے لطیفے نہ بنائے اپنی اولاد کے سامنے ان کے (ننھیال)نانکے کو مزاق  کا نشانہ نہ بنائے بلکہ انہیں اپنے والدین کی طرح عزت دے تا کہ بیوی بھی اس کے والدین کی دل و جان سے خدمت کرئے