Thursday, April 18, 2013

غصے کا علاج



ٹائمز آف انڈیامیں شیر کے بارے میں ایک رپورٹ چھپی ہے۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ شیر جنگل کی گھاس پر چلناپسند نہیں کرتے۔ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کوئی کانٹا ان کے نرم پائوں میں نہ چبھ جائے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ کھلے راستوں پر یا سڑکوں پر چلتے ہیں۔ شیر اور دوسرے تمام جانور فطرت کے مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں۔ وہ ہمیشہ اس طریقہ پر چلتے ہیں جو ان کے خالق نے براہ راست طور پر انہیں بتایا ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہو گا کہ شیر کا مذکورہ طریقہ فطرت کا پسندیدہ طریقہ ہے۔ شیر کیلئے یہ احتیاطی طریقہ اس کی طینت میں رکھ دیا گیا ہے اور انسان کیلئے شریعت کی زبان میں یہی بات ان لفظوں میں کہی گئی کہ خذواحذرکم (اپنے بچائو کا انتظام رکھو)
اللہ تعالیٰ نے جس خاص مصلحت کے تحت موجودہ دنیا کو بنایا ہے۔ اس کی بنا پر یہاں صاف ستھرے راستے بھی ہیں ، اور کانٹے دار جھاڑیاں بھی۔ یہ کانٹے دار جھاڑیاں لازماً اس دنیا میں رہیں گی۔ ان کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ اب یہاں جو کچھ کرنا ہے وہ وہی ہے جو خدا کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق جنگل کا شیر کرتا ہے۔ یعنی کانٹے دار جھاڑیوں سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور صاف اور کھلا ہواراستہ تلاش کرکے اس پر اپنا سفر جاری کیا جائے۔ شیر جنگل کی گھاس سے اعراض کرتے ہوئے چلتا ہے، ہم کو انسانوں کے فتنہ سے اعراض کرتے ہوئے اپنا سفرِ حیات طے کرنا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے کسی عمل سے دوسروں کو غصہ نہ دلائیں اور اگر دوسرے لوگ ہمارے اوپر غضب ناک ہو جائیں تو صبر کے ذریعہ ان کے غضب کو ٹھنڈا کریں اور حکیمانہ تدابیر کے ذریعے اپنے آپ کو ان کے غضب کا شکار ہونے سے بچائیں۔
”جنگل کا بادشاہ“ جو کچھ کرتا ہے وہ بزدلی نہیں ہے بلکہ عین بہادری ہے۔ اسی طرح ایک انسان اپنے سماج میں یہی طریق اختیار کرے تو وہ بزدلی نہیں ہو گا بلکہ عین بہادری ہو گا۔ اعراض کا طریقہ شیر کا طریقہ ہے نہ کہ گیدڑ کا طریقہ ۔
خداوند عالم کا ایک ہی قانون ہے جو انسانوں سے بھی مطلوب ہے اور غیر انسانوں سے بھی اور وہ ہے ناخوشگوار باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔
Anger treatment
Andyamyn Times printed a report about Tiger . Informed that the Lions do not clnapsnd Forest Lawn . Makes them fear that a fork stuck in their soft feet . They open paths or roads Let's go on . tigers and other animals are trained seminary nature . they always go the way that their Creator has told them directly . Based on this, it would be correct to say that the way of the tiger nature is the preferred method . Sher for this preventive measure has been put in its Hearted man in the language of the law said the same thing in these words kzuahzrkm ( Put his prevention Management )
Under the special purpose God has made the world . Based on its way here too clean , and too thorny shrubs . Thorny shrubs that will definitely stay in this world . Impossible to remove them now.moves away from the grass , while we turn away from the temptation of human life is to cover your trip . , we should not be angry with others to give us anything, and if other people get angry at us if patient source of their anger cool and wise solutions to your saved them from suffering the wrath .
the jackals .

God is the only law which is required by humans and non- humans , and that even ignoring the unpleasant things of my life to build .

بڑا اندیشہ



ڈاکٹر ڈینس بریو (Dennis Breo) نے ان طبی ماہرین سے ملاقاتیں کیں اور ان کا انٹرویو لیا جو مشہور شخصیتوں کے معالج رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام ہے غیر معمولی احتیاط۔ اس کتاب میں مصنف نے بڑے عجیب انکشافات کیے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ مشہور شخصیتیں اکثر ناممکن مریض ثابت ہوتی ہیں مثلاً ہیلر کو ایک جلدی مرض تھا مگر اس نے اس بات کو اپنے لیے فروتر سمجھا کہ ڈاکٹر کے سامنے وہ اپنا کپڑا اتارے۔ چنانچہ صحیح طور پر اس کا علاج نہ ہو سکا۔ مشہور امریکی دولت مند ہو ورڈ ہیوز کا دانت خراب تھا مگر اس نے کبھی ڈاکٹر کے سامنے اپنا منھ نہیں کھولا۔ اس نے اس کو پسند کیا کہ وہ شراب پی کر اپنی تکلیف بھلاتا رہے۔ وغیرہ۔
شاہِ ایران کے بارے میں مصنف نے بتایا ہے کہ وہ فساد خون کے مریض تھے مگر انہوں نے ڈاکٹروں سے اس کا علاج کرانے سے انکار کر دیا کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ چیز انہیں سیاسی طورپر کمزور کر دے گی۔
شاہ ایران نے فساد خون کو اپنی حکومت کیلئے خطرہ سمجھا حالانکہ بعد کے واقعات نے بتایا کہ فساد سیاست ان کی حکومت کیلئے زیادہ بڑا خطرہ تھا۔ ان کے اقتدار کو جس چیز نے ختم کیا وہ فساد خون کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ فساد سیاست کا مسئلہ تھا۔ وہ بڑے خطرے سے غافل رہے اور اپنی ساری توجہ چھوٹے خطروں میں لگا دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عین اس وقت ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا جب کہ اپنے نزدیک وہ اس کو بچانے کا پورا اہتمام کر چکے تھے۔ چھوٹے اندیشوں کی فکر کرنااور بڑے اندیشوں سے غافل رہنا‘ یہی اکثر انسانوں کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے‘ خواہ وہ مشہور لوگ ہوںیا غیر مشہور لوگ۔
Great fear
Dr. Dennis Brave (Dennis Breo) met him and interviewed medical experts who are practitioners of famous personalities . Later he published a book called extraordinary caution. Writer in this book grow Funny disclose .
He wrote the famous personalities are often impossible to prove such Heller patient had a skin disease , but that he considered himself frutr she undressed in front of the doctor . They did not treat him properly . Hughes to become rich, famous American was bad tooth , but it did not open his mouth in front of the doctor . , he liked to drink and he had forgotten his pain . etc..


was . they are oblivious to danger and put all your focus into small risk . Consequently, precisely the time when his government collapsed to save his sight he had arranged to meet . smaller concerns diaspora remain oblivious to the concerns about ' what is often the biggest reason for the failure of human beings , whether they hunya non- famous people famous people 

بامقصد آدمی کبھی محروم نہیں ہوتا


ضلع حسن ( کرنا ٹک ) میں ایک گا ﺅں ہے جس کا نام تھپر گھٹہ ہے یہاں ایک شخص لچھ نا ٹک نامی تھا جو ایک جھونپڑے میں رہتا تھا ، اور چوکیداری کا کام کر تا تھا ۔ اس کے چار بچے تھے۔ اس نے طے کیا کہ وہ اپنی تین لڑکیوں کو دیوی چمند یشوری پر بھینٹ چڑھا دے ۔ 23 اپریل 1988ء کو وہ دیوی کی مورت لیکر آیا ۔ اس کی پو جا کی اور اس کے بعد اپنی تین لڑکیوں ( ڈیڑھ سال ، تین سال، تیرہ سال ) کو درانتی سے ذبح کیا۔ اس کے لڑکے راج کمار ( 8 سال ) نے مزاحمت کرنی چاہی تو اس پر بھی حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں اس کا دایاں ہا تھ کٹ گیا ۔ اس مجنونانہ حرکت کے بعدوہ بھاگ کر با ہر چلا گیا ۔ چا ردن بعد اس کی لا ش آم کے ایک درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئی ۔ مذکورہ خبطی کی بیوی للی تھما (35سال ) کو چیف منسٹر فنڈ سے 5 ہزار روپیہ دیا گیا ہے ۔ انڈین ریڈکراس سوسائٹی نے اس کو ایک ہزار روپیہ دیا ہے ۔ اب وہ اپنے لڑکے کے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بنا رہی ہے ۔ اس کا خیا ل ہے کہ اس کے بچے کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے ۔ وہ اس کے لیے تیار ہے کہ بیٹے کو تعلیم کے لیے اگر اس کو ساری زندگی کام کرنا پڑے تو وہ ساری زندگی اس کے لیے کام کر ے گی ۔ اس کو بیوہ کی حیثیت سے 50 روپیہ ماہوار پینشن ملنے کی امید ہے ۔ تقریباً اتنی ہی ماہانہ رقم اس کے بیٹے کو معذوری کے وظیفہ کے طور پر ملے گی ۔ راج کمار جس کے دائیں ہا تھ کی پانچوں انگلیاں کٹ چکی ہیں ، اب اپنے بائیں ہاتھ سے لکھنا سیکھ رہا ہے ( ٹائم آف انڈیا 28 اپریل 1988ء) 
للی تھما کا سب کچھ لٹ چکا تھا ۔ اب بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ بھی خود کشی کر لے ۔ یا اپنے بیٹے کو لیکر رونے اور ماتم کرنے میں مشغول ہو جائے ۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا ۔ اس نے سب کچھ بھلا کر مثبت عمل کا منصوبہ بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنے معذور بیٹے کے مستقبل کی تعمیر کی صورت میں اس نے اپنے لیے ایک مقصد پا لیا ۔ 
بامقصد آدمی کبھی محروم نہیں ہو تا ، اس دنیا میں محروم وہ ہے جو مقصد سے محروم ہو جائے 
Purposeful man is never lost

District Hassan ( the tick should ) be protected in the name thpr ghth lch not a person here who was named last lived in a hut , and was able to guard . Had four children . Decided that their three girls goddess Chaminda ysury on wolves give . , 23 April 1988 Goddess statue brought . 's poo going and then my three girls ( and a half years, three years, thirteen years) with a sickle slaughtered . his son, Raj Kumar ( 8 years) I tried to resist but he also invaded the result of which his right hand was cut . fanatical movement that reappear again and went running outside . should reject the the La AM mango from a tree hangs found . these cranky wife Lily Putting (35 years), the Chief Minister's fund 5 thousand rupees has been given . , Indian Red Cross Society in the Rs have . longer theythis would work . widow as her monthly pension of 50 rupees is expected . approximately the same amount of monthly disability pension as his son would . Raaj Kumar , whose right hand of the five fingers have been cut , now is learning to write with my left hand (Time of India 28 Apr 1988)
Putting Lily had lost everything . Should now be apparent that they too have committed suicide . , Or weep and mourn over her son to be distracted . , But he did not do . So everything went well positive action plans . , because the construction of his disabled son's future if he got a goal .
Purposeful man ever to be lost , it is lost in this world who will be deprived of purpose

احساس اصلاح



ایک مسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ کتابت کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی تحریریں پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں آپ کا انداز مجھے بہت پسند ہے مگر آپ کی ایک بات مجھے کھٹکتی ہے ۔آپ اکثر مسلمانوں کی کمیوں کا ذکر کرتے ہیں، اس سے تو مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ آپ ایک کاتب ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ حرف ج اور ع کا دائرہ صحیح نہ بناتے ہوں اور آپ کے استاد آپ کی اس کمی کو بتائیں تو کیا آپ کہیں گے کہ استاد صاحب میرے اندر احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ اسی ذاتی مثال سے آپ میرے ان مضامین کو سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مضامین کا مقصد مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ احساس اصلاح پیدا کرنا ہے اور یہ ایک عا م بات ہے کہ اپنی کمیوں کی اصلاح کئے بغیر کوئی شخص یا گروہ اس دنیا میں ترقی نہیں کر سکتا۔عربی کی ایک مثل ہے کہ جو شخص تم کو نصیحت کرے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہاری تعریف کرے (مَن ہُوَنَا صِحُکَ خَیرلَکَ مِمَّن ہُوَ مَادِحُکَ)یہ مثل سوفی صد درست ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی کے ساتھ خیر خواہی رکھتا ہو، وہ یہی کرے گا کہ وہ اس کی کمیوں کی نشاندہی کرے گا اور اس کی کوتاہیوں پر اس کی سرزنش کرے گا یہی سچے مصلح کا طریقہ ہے۔ قرآن میں گھاٹے، (خسر) سے بچنے کے لئے جو لازمی صفات بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک ضروری صفت تَوَاصِی بِالحَقِّ اور تَوَاصِی بِالصَّبرِ ہے۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو حق وصبر کی نصیحت کرتے رہنا۔ وہی گروہ اس دنیا میں نقصان اور بربادی سے بچ سکتا ہے جس کے افراد میں یہ روح زندہ ہو کہ جب وہ اپنے بھائی کو حق کے راستہ سے ہٹا ہوا پائے تو فوراً اس کو ٹوکے اور جب بھی وہ اس کو بے صبری کی طرف جاتا ہوا دیکھے تو اس کو صبر کی اہمیت سے آگاہ کرے (سورة العصر)صحابہ کرام کے اندر نصیحت کرنے کا جذبہ بھی پوری طرح موجود تھا اور نصیحت سننے کا بھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک معاملہ میں ایک بار فیصلہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس فیصلہ میں غلطی نظر آئی انہوں نے اس پر ٹوکا ۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ خلیفہ اور حاکم تھے
انہوں نے فوراً اس کو مان لیا اور کہا: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہوجاتا۔
Sense Reform