Thursday, April 18, 2013

احساس اصلاح



ایک مسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ وہ کتابت کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی تحریریں پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں آپ کا انداز مجھے بہت پسند ہے مگر آپ کی ایک بات مجھے کھٹکتی ہے ۔آپ اکثر مسلمانوں کی کمیوں کا ذکر کرتے ہیں، اس سے تو مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ آپ ایک کاتب ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ حرف ج اور ع کا دائرہ صحیح نہ بناتے ہوں اور آپ کے استاد آپ کی اس کمی کو بتائیں تو کیا آپ کہیں گے کہ استاد صاحب میرے اندر احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ اسی ذاتی مثال سے آپ میرے ان مضامین کو سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مضامین کا مقصد مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ احساس اصلاح پیدا کرنا ہے اور یہ ایک عا م بات ہے کہ اپنی کمیوں کی اصلاح کئے بغیر کوئی شخص یا گروہ اس دنیا میں ترقی نہیں کر سکتا۔عربی کی ایک مثل ہے کہ جو شخص تم کو نصیحت کرے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہاری تعریف کرے (مَن ہُوَنَا صِحُکَ خَیرلَکَ مِمَّن ہُوَ مَادِحُکَ)یہ مثل سوفی صد درست ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی کے ساتھ خیر خواہی رکھتا ہو، وہ یہی کرے گا کہ وہ اس کی کمیوں کی نشاندہی کرے گا اور اس کی کوتاہیوں پر اس کی سرزنش کرے گا یہی سچے مصلح کا طریقہ ہے۔ قرآن میں گھاٹے، (خسر) سے بچنے کے لئے جو لازمی صفات بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک ضروری صفت تَوَاصِی بِالحَقِّ اور تَوَاصِی بِالصَّبرِ ہے۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو حق وصبر کی نصیحت کرتے رہنا۔ وہی گروہ اس دنیا میں نقصان اور بربادی سے بچ سکتا ہے جس کے افراد میں یہ روح زندہ ہو کہ جب وہ اپنے بھائی کو حق کے راستہ سے ہٹا ہوا پائے تو فوراً اس کو ٹوکے اور جب بھی وہ اس کو بے صبری کی طرف جاتا ہوا دیکھے تو اس کو صبر کی اہمیت سے آگاہ کرے (سورة العصر)صحابہ کرام کے اندر نصیحت کرنے کا جذبہ بھی پوری طرح موجود تھا اور نصیحت سننے کا بھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک معاملہ میں ایک بار فیصلہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس فیصلہ میں غلطی نظر آئی انہوں نے اس پر ٹوکا ۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ خلیفہ اور حاکم تھے
انہوں نے فوراً اس کو مان لیا اور کہا: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہوجاتا۔
Sense Reform

No comments:

Post a Comment