Tuesday, November 4, 2014

ان کے لیے فتوی کیوں نہیں

وہ شخص مفتی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا
 سلام کیا اور مفتی صاحب کے سامنے بیٹھہ گیا، مفتی صاحب میرے دو بچے ہیں بیوی ھے اور میں ہوں، یہ مختصر سا کنبہ ہے میرا، کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، حالات بہت خراب ہیں بہت تنگدستی ھے منہگائی نے کمر توڑ دی ھے آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں کسی طور بھی گھر کا خرچہ پورا نہیں ھوتا رہنمائی فرمائیے کیا کروں؟۔ مفتی صاحب نے روایتی لائن دوھرائی، عیاشیاں ختم کرو اخراجات پر کنٹرول کرو تقویٰ اختیار کرو اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئیے جدوجہد کرو معاملات بہتر ھوجائیں گے انشاءاللہ۔ مفتی صاحب یہاں جائز خواہشات دم توڑ چکی ہیں آپ عیاشی کی بات کر رہے ہیں، اخراجات صرف اتنے ہیں کے روح سے سانس کا رشتہ قائم رہے، میرے گھر میں بھوک ناچ رہی ھے آپ کہہ رہے ہیں کہ میں تقویٰ اختیار کروں، تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے پلے کچھہ ھونا ضروری ھوتا ھے کہ میرے پاس ہیں تو دنیا بھر کی نعمتیں مگر میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے انتہائی سادہ زندگی بسر کروں، میرے پاس تو تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے بھی کچھہ نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہہ کا قول ہے کے مفلسی کفر تک لے جاتی ھے۔ بھوکے آدمی کا کوئی مذہب ہی نہیں ھوتا اور آپ مجھے تقوئے کا درس دے رہے ہیں. صبح منہ اندھیرئے گھر سے نکلتا ہوں اور رات اندھیرئے میں ہی گھر لوٹتا ہوں، سارے دن کی مشقت اس قابل نہیں چھوڑتی کہ کوئی اور کام کر سکوں اور نہ ہی وقت بچتا ھے کسی دوسرے کام کے لئیے، معاشرئے میں بیروزگاری اتنی پھیل چکی ھے کہ مالک سے تنخواہ بڑھانے کے لئیے کہتا ہوں تو وہ کہتا ھے زیادہ نخرئے نہ دکھاو تم سے بھی کم تنخواہ میں لوگ کام کرنے کے لئیے تیار ہیں۔ گورنمنٹ نے کم از کم تنخواہ سات ہزار روپے رکھی ھے مجھے تو پھر بھی دس ہزار روپے تنخواہ ملتی ھے میں سوچتا ہوں کے جب میرا دس ہزار میں گزارا ممکن نہیں تو سات ہزار روپے ماہوار کمانے والے شخص کے لئیے کیسے ممکن ھوسکتا ھے؟۔ ایک کچی بستی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، چار ہزار مکان کا کرایہ ھے، بجلی کا کم از کم بل دو ہزار روپے آتا ھے، گیس اور پانی کی مد میں پانچ سو روپے خرچ ھوجاتے ہیں، صرف انتہائی ضروری اشیاء خورد و نوش مہینے کے راشن میں شامل ہوتی ہیں جو کم از کم تین ہزار میں آتی ہیں، ناشتے میں مکھن ڈبل روٹی جیم وغیرہ کھائے ہوئے تو مدت ھوگئی بلکے مجھے اور میری بیوی کو تو اب ذائقہ بھی یاد نہیں کے مکھن اور جیم کا زائقہ کیسا ھوتا ھے، جبکہ مکھن جیم جیلی وغیرہ جیسی پر تعیش چیزیں تو میرئے بچوں نے صرف ٹی وی پر ہی دیکھی ہیں وہ بھی پڑوسی کے گھر میں کہ ٹی وی خریدنے کی میری حیثیت نہیں۔ رات کی باسی روٹی چائے میں ڈبو کر کھا لیتے ہیں دودھہ چینی چائے کی پتی اتنی مہنگی ھوچکی ہیں کے صرف چائے کا وجود ناشتے میں شامل کرنے کے لئیے پندرہ سو روپے ماہوار خرچ کرنا پڑتے ہیں، گھر سے فیکڑی تک جانے میں بس کے کرائے کی مد میں ہر روز پچاس روپے خرچ ھوتے ہیں جو کے تقریباَ پندرہ سو روپے ماہوار بنتے ہیں، پان سگریٹ یا کوئی اور نشہ میں نہیں کرتا۔ )حدیث کا مفہوم ہے کہ( کوئی تمہیں دعوت دے تو تم ضرور جاو، مگر میں تو اس سعادت سے بھی محروم رہتا ہوں کہ کہیں شادی بیاہ میں جاوں تو عزت کا بھرم رکھنے کے لئیے کچھہ نہ کچھہ تو دینا پڑتا ہے جبکہ میرے پاس دینے کے لئیے صرف دعائیں ہوتی ہیں جو کے آج کے دور میں عزت بچانے کے لئیے ناکافی ہیں۔ مشقت اور مالی پریشانیوں کے باعث ہر وقت ڈپریشن میں رہتا ہوں جس کی وجہ سے شوگر کا مرض ھوگیا ھے جسکا علاج کم از کم دو ہزار روپے مہینہ نگل جاتا ھے۔ حدیث ھے کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، مگر میں تو بچوں کو گلی کے نکڑ والے اسکول میں پڑھاتا ھوں اسکی بھی فیس ماہوار پانچ سو روپے فی بچہ بنتی ھے دو بچوں کے ہزار روپے ماہوار، نصاب اور یونیفارم کا خرچہ الگ ہے، گونمنٹ کے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی نیت سے بھیجنا بلکل ایسا ہی ہے جیسے بیل سے دودھہ نکالنا، کے وہاں سے بچہ اور تو بہت کچھہ حاصل کرسکتا ھے مگر تعلیم نہیں۔ عید کے عید اپنے بیوی کے اور بچوں کے کپڑے بناتا ہوں کے ہر ماہ یا ہر دو تین ماہ بعد کپڑے خریدنا میری جیسی آمدنی والے کے لئیے عیاشی کے مترادف ھے، موبائل فون میرے پاس نہیں ھے کہ میری دسترس میں ہی نہیں ھے ویسے بھی مجھے اسکی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کیوں کے میرے جیسے حالات رکھنے والوں کی خیریت دریافت کرنا کوئی گوارہ نہیں کرتا نہ ہی کسی کو مجھہ سے کوئی کام پڑتا ھے۔ پھل صرف بازاروں میں ہی دیکھتے ہیں ہم، دودھہ جیسی اللہ کی نعمت صرف چائے کے لئیے ہی استعمال کرتے ہیں، گوشت ہمیں صرف بقراء عید کے دنوں میں ہی میسر آتا ھے، بکرے کو تو کبھی بغیر کھال کے دیکھا ہی نہیں میرے بچوں نے۔ دال اور سبزیاں بھی اتنی مہنگی ھوچکی ہیں کے اب تو وہ بھی عیاشی کے زمرے میں آچکی ہیں۔ روز مرہ کے اخراجات جیسے کے سبزی وغیرہ کے لئیے سو روپے روز خرچ ھوجاتے ہیں جو کے مہینے کے تین ہزار بنتے ہیں۔ مفتی صاحب اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کے میرے ان اخراجات میں اسراف کہاں ھے؟ عیاشی کہاں ھے؟ کہاں کا تقویٰ کیسی قناعت؟ ان سارے اخراجات میں ناجائز کیا ھے؟ مفتی صاحب، میری تنخواہ دس ہزار ھے اور یہ جو میں نے آپکو انتہائی جائز اخراجات گنوائے ہیں سالانہ اور ماہوار ملا کر اوسطاَ بیس ہزار روپے مہینہ بنتا ھے جبکہ میری آمدنی دس ہزار روپے مہینہ ھے یعنی ہر ماہ دس ہزار روپے کا فرق، بتائیے یہ فرق کیسے مٹایا جائے؟، آپ نائب رسول ہیں امت کی زمہ داری ہے آپ پر، میں آپ سے سوال کرتا ہوں کے ان حالات میں کیا حکم ھے اسلام کا میرے لئیے؟ اور ان حالات میں بہ حیثیت مذہبی رہنما کیا زمہ داری بنتی ھے آپکی؟۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلامی حدود کب اور کس معاشرے پر نافذ ھوتی ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جنکا معاشی نظام آج بیشتر کفار ممالک میں نافذ ہے وہ نظام جس میں انسان تو انسان درختوں تک کا وظیفہ مقرر تھا، وہ نطام تو ہمیں بتاتا ھے کہ حکومت کی زمہ داری ھے کہ اپنے شہری کی جان، مال، عزت، روٹی، روزی، تعلیم، صحت، یعنی تمام بنیادی ضرورتیں انشور کرئے، مگر مجھے گورنمنٹ سے ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نہیں مل رہی۔ قحط کے دوران حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ہاتھہ کاٹنے کی سزا معاف کر دی تھی فرمایا کہ جب میں لوگوں کو روٹی نہیں دے سکتا تو مجھے انہیں سزا دینے کا بھی حق نہیں ھے۔ تو اگر ایسے معاشرے میں، میں اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے یہ دس ہزار روپے ماہوار کا یہ فرق مٹانے کے لئیے کوئی ناجائز زریعہ استعمال کرتا ھوں تو آپ مجھے بتائیں کے اسلام کا کیا حکم ھے میرے لئیے؟ اور بہ حیثیت نائب رسول آپکی کیا زمہ داری ہےِ؟۔ آپ جیسے سارے مذہبی اکابرین پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر سال لاکھوں لوگوں کا اجتماع کرتے ہیں جس میں آپ بعد از مرگ کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بہت تفصیل سے بتاتے ہیں قبر کے عذاب کے بارے میں بتانے ہیں جہنم سے ڈراتے ہیں، مگر یہ جو اٹھارہ کروڑ میں سے سولہ کروڑ لوگ جیتے جی جہنم جھیل رہے ہیں انہیں آپ انکے جائز حقوق کے بارے میں آگہی کیوں نہیں دیتے؟ اسلام نے شہری کے لئیے کیا حقوق وضع کیئے ہیں یہ آپ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟ لوگ آپ کے منہ سے نکلی بات کو اہمیت دیتے ہیں اسے اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہیں، )سلمان تاثیر کا قاتل ممتاز قادری اسکی زندہ مثال ہے( عوام کے اس اہم مسئلے پر جس مسئلے پر صحیح معنوں میں ایک عام آدمی کی جنت اور دوزخ کا دارومدار ہے، اس اہم مسئلے پر آخر آپ گورنمنٹ کو کوئی ڈیڈ لائن کیوں نہیں دیتے کہ یا تو عوام کو اسلام کے مطابق بنیادی حقوق دو ورنہ ہم ان لاکھوں لوگوں کو لے کر حکومتی اعوانوں میں گھس جائیں گے، میں نہیں مانتا کے آپ سے اتنی محبت کرنے والے لوگ آپکی اس آواز حق پر لبیک نہیں کہیں گے۔ میرا ایمان ہے کے ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کی مثال سب کے سامنے ہے کے عوام کی بغاوت کے خوف سے کیسے ان ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو اربوں ڈالر کے پیکج دئیے ہیں، مجھے پورا یقین ہے کے علماء برادری کا دیا ہوا فتویٰ اور الٹی میٹم ہی کافی ہونگے ان بزدل حکمرانوں کے لئیے۔ کیا آپکی ذمہ داری نہیں بنتی کے آپ حکومت وقت سے مطالبہ کریں کے اسلام کے مطابق کم از کم تنخواہ دس گرام سونے کے برابر ھونی چاہیے، چلیں دس گرام نہیں تو پانچ گرام سونے کے مساوی تنخواہ کا مطالبہ کردیں۔ کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کہ آپ فتویٰ دیں کے پاکستان جیسے معاشرے میں حدود نافذ العمل نہیں ہیں۔ میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں مفتی صاحب یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے سولہ کروڑ لوگوں کا مسئلہ ہے اس پر آپکی یہ مجرمانہ خاموشی آپ کی ذات پر اور آپ کے منصب پر سوالیہ نشان ھے، میں وہ مفلس ہوں جسکے لئیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ نے فرمایا ھے کہ مفلسی کفر تک لے جاتی ھے، آپ جیسے علماء کے پیچھے کروڑوں لوگ چلتے ہیں آپ کی بات سنتے ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لوگوں کا حق بنتا ھے آپ پر کہ آپ لوگوں کے اس بنیادی مسئلے پر لب کشائی کریں فتویٰ دیں اور ان حالات میں اگر کوئی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے کوئی ناجائز ذریعہ استعمال کرتا ھے تو بتائیں لوگوں کو کے اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ھے؟. یہ سب کہنے کے بعد وہ شخص خاموش ھوگیا اور مفتی صاحب کی طرف دیکھنے لگا، مفتی صاحب بولے تمہاری ہر بات ٹھیک ھے لیکن اب تم مجھ سے کیا چاہتے ھو؟ میں آپ سے فتویٰ چاہتا ہوں کہ ایسے معاشرے میں حدود نافذ نہیں ھوتیں۔ یا تو گورنمنٹ پہلے عام آدمی کو اسلام کے مطابق تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرے پھر اگر وہ روزی کمانے کا کوئی ناجائز ذریعہ استعمال کرتا ھے تو اسے سزا کا مرتکب ٹھرائے۔ اگر گورنمنٹ ایسا نہیں کرتی تو عام آدمی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے آزاد ہے کہ وہ جو بھی ذریعہ چاہے استعمال کرے، مفتی صاحب بولے میں ایسا نہیں کرسکتا اسطرح تو معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا سارا نظام درہم برہم ھوجائے گا انارکی پھیل جائے گی۔ وہ شخص بولا مفتی صاحب سولہ کروڑ لوگوں کی زندگی تو اس وقت بھی انتشار کا شکار ہے، انکی زندگی میں انارکی تو اس وقت بھی پھیلی ہوئی ہے، آپ کے فتوے سے تو صرف دس پرسنٹ لوگوں کی زندگی میں انتشار پھیلے گا اور یہ وہ ہی دس پرسنٹ لوگ ہیں جو نوے پرسنٹ کا حق مار رہے ہیں تو اگر آپ کے فتوے سے دس پرسنٹ کی زندگی میں انارکی پھیلتی ہے تو اسکا فائدہ تو نوے پرسنٹ لوگوں کو ملے گا یہ تو گھاٹے کا سودا نہیں ہے، اور ویسے بھی آپکا کام نفع نقصان دیکھنا نہیں، آپکا کام حق اور صحیح کی حمایت کرنا ہے کیا آپکو نہیں لگتا کے آپ کے اور آپ جیسے تمام علماء اور مفتی حضرات کی خاموشی کا فائدہ لٹیروں کو مل رہا ہے؟۔ عام آدمی تو مسلسل تنزلی کا شکار ہورہا ہے وہ نہ دین کا رہا نہ دنیا کا، کبھی غور کیا آپ نے کہ ایک عام پاکستانی کی زندگی کا مقصد ہی صرف دو وقت کی روٹی کا حصول بن چکا ہے، زندگی جیسی قیمتی چیز کو لوگ موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، سوچیں اس ماں کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہوگی جو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو موت کی نیند سلانے پر مجبور ہورہی ہے، عزت دار گھر کی لڑکیاں عصمت فروشی پر مجبور ہوگئی ہیں، جن ننھے ننھے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں ان ہاتھوں میں گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے والا وائپر ہے، آپکا سینہ اس وقت غم سے کیوں نہیں پھٹتا جب سخت سرد رات میں دس سال کا معصوم بچہ ابلے ہوئے انڈے بیچ رہا ہوتا ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں موبائل فون کی سم فری اور روٹی سات روپے کی ہے، کیا یہ انتشار نہیں ہے؟ کیا یہ انارکی نہیں ہے؟ کیا یہ سب ننگے حقائق آپکا دل دھلانے کے لئیے کافی نہیں ہیں؟ کیا بہ روز حشر آپ اللہ تعالی سے بھی یہ ہی کہیں گے کہ میں نے حق بات اسلئیے نہیں کہی کہ دس پرسنٹ لٹیروں کا نظام زندگی درہم برہم ہوجاتا انکی عیاشیاں ختم ہوجاتیں، دے سکیں گے آپ اللہ کے حضور یہ دلیل؟. میں آپ کے آگے ہاتھہ جوڑ کے التجا کرتا ہوں کے آپ اور آپ جیسے تمام علماء اکرام مفتی حضرات جب سلمان تاثیر کے خلاف فتویٰ دے سکتے ہیں، جب سنی حضرات شیعہ حضرات کے خلاف اور شیعہ حضرات سنی حضرات کے خلاف کفر کا فتویٰ دے سکتے ہیں، جب فرقے اور مسلک کے نام پر فتویٰ دے سکتے ہیں، جب فون پر سلام کے بجائے ہیلو کہنے پر فتویٰ دے سکتے ہیں، جب کسی اداکار یا کسی اداکارہ کے خلاف فتویٰ دے سکتے ہیں، تو پھر سولہ کروڑ لوگوں کے جائز حقوق کے لئیے فتویٰ کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟۔ مفتی صاحب بت بنے اسکی باتیں سنتے رہے اس اثناء میں وہ شخص جانے کے لئیے کھڑا ہوگیا اور بولا میرے ہر سوال کا جواب آپکی مجرمانہ خاموشی میں پنہاں ہے۔ بس اب آپ سے اور آپکی علماء برادری سے آخری بات یہ ہی کہوں گا کہ اب بھی اگر آپ لوگوں نے سولہ کروڑ عوام کے اس مسئلے پر مسجد کے منبر سے آواز حق بلند نہ کی تو ثابت ہوجائے گا کے آپ اور آپکی پوری علماء برادری بھی سولہ کروڑ عوام کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں آپ بھی ان ہی دس پرسنٹ لٹیروں میں شامل ہیں، آپکو اور آپکی علماء برادری کو بھی سولہ کروڑ عوام کے اس اہم اور بنیادی مسلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر برابر کا حصہ مل رہا ہے۔ یاد رکھئیے گا میری بات جس دن بھی عوام کے اندر پکا ہوا یہ لاوا پھٹا اس روز ان دس پرسنٹ مراعت یافتہ لوگوں کے ساتھہ ساتھہ عوام آپکی بھی پگڑیاں نہیں، سر اچھالے گی۔ اس سے پہلے کہ مفتی صاحب مزید کچھہ کہتے وہ شخص کمرے سے جاچکا تھا۔ —

Thursday, August 14, 2014

سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار

  ہمارا ماننا ہے کہ آدمی کو خدا کے اعتماد پر جینا چاہئے  

نہ کہ سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار پر
سیاسی اور سماجی حالات خواه کچهہ هوں
           لیکن   
 جس آدمی کو خدا پر حقیقی اعتماد هو

وه ہر حال میں یکساں طور پر مثبت نفسیات کا مالک بنا رہے گا

Tuesday, August 5, 2014

تقدیر کے کھیل

              زنا کرنے والوں کے نام ایک پیغام                 
نازیہ کا باپ ایک کامیاب وکیل تھا ،، ایل ایل بی کے ساتھ اس نے اسلامیات میں ماسٹر بھی کیا تھا اور عملی
زندگی میں بھی ایک نیک اور اچھا انسان سمجھا جاتا تھا ، محلے کی مسجد میں امام صاحب جب بھی چھٹی پہ جاتے تو امامت اور خطابت کی ذمہ داریاں نازیہ کے والد ھی ادا کرتے تھے ،، نازیہ ان کی اکلوتی اولاد تھی ،نہایت نیک فطرت اور باحیا بچی تھی تربیت بھی اچھی تھی وہ ابھی میٹرک میں تھی کہ والد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ھو گئے ،، ان کی شہادت پہ سارے بڑے بڑے مذھبی علماء ،،،وکلاء تنظیموں اور مذھبی پارٹیوں کے سربراھان نے تعزیتی بیانات دیئے اور پھر بس ،،، کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس گھرانے کا گزارہ کیسے چلتا ھے !! زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چل رھی تھی ، نازیہ بی اے میں تھی اور روزانہ ویگن سے ھی یونیورسٹی جاتی تھی ،،
ایک دن ھڑتال کی کال تھی ، والدہ نازیہ کو روک رھی تھی کہ وہ یونیورسٹی نہ جائے اس کا دل ھول رھا تھا کہ وہ سارا دن اس ٹینشن میں کیسے گزارے گی ؟ مگر نازیہ کا اصرار تھا کہ آج بہت اھم پیریڈ ھے اور اسے ھر حال جانا ھے ،، ایسے میں شومئ قسمت کہ نازیہ کی امی کو نازیہ کے پھوپھی زاد ذوھیب کا خیال آ گیا ، ذوھیب کا آفس بھی یونیورسٹی کی طرف تھا ،، تعلقات میں سرد مہری کے باوجود اس نے ذوھیب کی ماں سے کہا کہ وہ ذوھیب سے کہے کہ جاتے ھوئے نازیہ کو لے جائے اور واپسی پہ ڈراپ کر دے ،، اگرچہ نازیہ نے ماں کو منع کیا کہ وہ ان لوگوں کا احسان نہ لے مگر قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ھے ،، ذوھیب نے نازیہ کو گھر سے اٹھایا اور پھر اسے اپنے آفس ھی لے گیا کہ کچھ پیپر وھاں سے لینے ھیں پھر لے کر چلتے ھیں ،،مگر ذوھیب اس دن پھوپھی زاد نہیں ایک شیطان کا روپ دھار چکا تھا ،،،،،،،،،،،،،،، لٹی پٹی نازیہ کو گھر کے پاس ڈراپ کر کے وہ بھاگ نکلا ،،، نازیہ جونہی گھر میں داخل ھوئی ماں کو دیکھتے ھی اس پر ھیسٹیریا کا شدید دورہ پڑا ،، وہ اپنی ماں کے بال کھینچ رھی تھی تو کبھی اپنا سر دیوار سے ٹکرا رھی تھی پھر وہ غشی میں چلی گئ ،، نازیہ کی ماں نے نند کے گھر فون کیا کہ کیا ذوھیب واپس آیا ھے ،اس نے جواب دیا کہ اس کا آفس تو شام 5 بجے بند ھوتا ھے ،، نازیہ کی ماں نے پڑوس سے ایک نرس کو بلایا جو آغا خان اسپتال میں سروس کرتی تھی ، اس نے نازیہ کا معائینہ کیا ، اور جتن کے ساتھ اسے ھوش میں لائی ، ساری صورتحال علم میں آنے کے بعد نازیہ کی ماں خود بھی ڈیپریشن کا شکار ھو گئ ،، نند کو فون کیا تو اس نے پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیا ،میرا بیٹا تو ایسا ھو ھی نہیں سکتا ،،ھم نے اسے حلال کا لقمہ کھلایا ھے ،تم لوگ رشتہ دینے کے لئے ھمیں بلیک میل کرنا چاھتے ھو وغیرہ وغیرہ !!
اس دن کے بعد نازیہ نے یونیورسٹی کا منہ تک نہ دیکھا اور گھر کی ھو کر رہ گئ ،،
دو ماہ کے بعد نازیہ میں زندگی کے آثار واضح ھو چکے تھے ، گویا یہ ایک اور قیامت تھی کہ جس سے ماں بیٹی کو دوبارہ گزرنا تھا ،، یا تو بچے کا ابارشن کرا دیا جائے یا پھر جھٹ سے نازیہ کی شادی کر کے اسے کسی کے سر منڈھ دیا جائے ،، اسی پہ رات دن ڈسکشن چلتی ،، آخر نازیہ کی والدہ نے اپنی بہن سے رابطہ کیا اور اس کو صورتحال بتائے بغیر اس سے نازیہ کے رشتے کی بات کی ،، نازیہ کا خالہ زاد ثاقب صدیقی نہایت شریف دیندار اور کامیاب بزنس مین تھا ، اگرچہ والد اس کے بھی فوت ھو چکے تھے اور وہ بھی اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا !
شادی طے ھو گئ ، ڈولی کیا اٹھی جنازہ تھا جو روتے دھوتے اٹھایا گیا اور ایک غیر یقینی مستقبل کے حوالے کر دیا گیا ،، رخصتی کے وقت تو ھر دلہن روتی ھے مگر سسرال جا کر بھی جو دھاڑیں نازیہ نے ماریں وہ عرش ھلا دینے والی تھیں،،ان میں کسی کے لئے بدعائیں تو کسی سے التجائیں تھیں ،، پہلے ھی دن نازیہ کی نظر جب ثاقب پہ پڑی تو اس نے طے کر لیا کہ وہ اس شریف انسان کو دھوکہ نہیں دے گی ، وہ کسی اور کے جرم کی سزا کسی معصوم کو دینے سے ڈرتی تھی ،، قتل کے مقابلے میں وہ دھوکہ دینا ایک چھوٹا گناہ سمجھتی تھی مگر جس کو دھوکہ دینا تھا وہ جب سامنے آیا تو اسے دھوکہ دینا اسے قتل سے بھی بڑا گناہ لگا ،، اس نے رو رو کر ساری داستان ثاقب کو سنا دی اور اپنی قسمت کا فیصلہ اس پہ چھوڑ دیا ،، ثاقب یہ سب کچھ سن کر ھکا بکا رہ گیا ،، اس دنیا میں ایسا بھی ھوتا ھے ! یہ تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،، وہ خاموشی کے ساتھ عجلہ عروسی سے باھر نکل آیا !! نازیہ کی امی بھی بہن کے پاس ھی ٹھہر گئ تھی ، رات بھر دونوں بہنیں آپس میں دکھ سکھ بانٹتی رھیں مگر نازیہ کی امی نے اپنی بہن کو معاملے کی کوئی خبر نہ لگنے دی ، ساری رات اس کا دھیان اور اس کے کان اوپر کی منزل کی طرف لگے رھے ،، اسے ھول اٹھ رھے تھے ،وہ دل میں اللہ سے دعا کرتی رھی کہ وہ اس کا پردہ رکھ لے - ثاقب نے ساری رات ڈرائنگ روم میں چکر کاٹتے گزار دی ،، بات اگر صرف ریپ کی ھوتی تو وہ نازیہ کو اپنا لیتا ، اسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ھوئی ھے ،مگر بچہ ؟ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن گیا تھا ،،کیا میں کسی کے بچے کو اپنا نام اور خاندان دونگا ، یہ شرعاً کیسا ھو گا یہ تو علماء سے پتہ چلے گا مگر میں اس زھر کو پل پل گھونٹ گھونٹ کیسے پیوں گا ،،صبح ثاقب کی امی عجلہ عروسی کی طرف رواں دواں تھی کہ پیچھے سے ڈرائنگ روم کے دروازے سے ثاقب نے آواز دی " امی !! ماں نے پلٹ کر دیکھا تو بیٹے کی سوجی ھوئی سرخ آنکھیں اور دھکتا چہرہ ھی سب کچھ کہہ رھا تھا !
امی آپ نے میرے ساتھ یہ کیا کر دیا ھے ؟ وہ سسک پڑا ،،
کیا ھوا بیٹا ؟ ماں نے اسے گلے لگاتے ھوئے کہا ،پہلے دن کھٹ بٹ ھو ھی جاتی ھے ،بچی مانوس نہیں ھے ،،،،،، ، بس بس امی پلیز بس کر دیں ،، 
ایسا نہیں ھے ، امی جان ،،،،،،،،،،، نازیہ ذوھیب کے بچے کی ماں بننے والی ھے ،، ثاقب نے گویا گولہ فائر کر دیا ،، اس کی ماں کو ایک دفعہ چکر آگئے ، دھوکہ اور بہن کے ساتھ ؟ یہ میری نمازی تہجدگزار بہن کا تحفہ ھے ،،، وہ بڑبڑا رھی تھی ،، پھر وہ ثاقب کو انتظار کا کہہ کر نیچے اپنی بڑی بہن کے پاس چلی گئ ! جونہی وہ واپس کمرے میں داخل ھوئی آگے بہن تیار کھڑی تھی اس نے اوپر کی کھسر پھسر کو سن لیا تھا ،، ثاقب کی امی نے ابھی بات شروع کی تھی کہ بہن نے دوپٹہ اتار کر اپنی چھوٹی بہن کے قدموں میں ڈال دیا ،، میں ، میرا مرحوم شوھر اور میری بیٹی ھم سب بدنام ھو جائیں گے ! ھماری عزت آپ کے ھاتھ میں ھے ،،آپ بچے کی پیدائش کے بعد بے شک میری بیٹی کو طلاق دے دیجئے گا اور نئی شادی کر لیجئے گا ، ھم بچے کو پال لیں گے ،،مگر بس ایک نام کا سوال ھے تا کہ بچہ معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے ! ثاقب کی ماں کو چپ لگ گئ ،یہ بڑی بہن تھی جس نے اسے ماں کا پیار دیا تھا ،اور اس نے اسے ماں ھی کی جگہ سمجھا تھا آج وہ سر ننگا کیئے اس کے سامنے کھڑی تھی ،، وہ بہن جو اس کا سر دھوتی ،ج‍ؤئیں نکالتی تھی ، اسے سختی کے ساتھ سر ڈھانپنے کو کہا کرتی تھی آج تقدیر نے اسی بہن کو سر ننگا کر کے اس کے سامنے کھڑا کر دیا تھا ،، اس نے دوپٹہ اٹھا کر بہن کے سر پہ رکھا اور اسے سینے سے لگا کر رونے لگ گئ !
اوپر جا کر اس نے ثاقب کے سامنے یہی تجویز رکھی کہ وہ فی الحال صبر کر لے اور بچے کی پیدائش کے بعد نازیہ کو فارغ کر دے ،، یوں پورے خاندان کا پردہ رہ جائے گا ! مگر ثاقب آج پہلی بار ماں کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا ،، ایسا کسی صورت نہیں ھو سکتا میں ایک حرام کے بچے کو اپنا نام ھر گز نہیں دے سکتا - وہ غصے سے پلٹا ،،میں اس کو ابھی فارغ کر کے ماں کے ساتھ بھیجتا ھوں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، مگر ثاقب کی امی نے اس کا رستہ روک لیا ،، اور کچھ کہے بغیر اپنا دوپٹہ اتار کر بیٹے کے قدموں پر ڈال دیا ،، لگتا تھا وہ دوپٹہ نہیں سانپ تھا ،، ثاقب تڑپ کر پیچھے ھٹا اور ماں کے دوپٹے کو اٹھا کر ماں کے سر پر رکھا ،،ماں کا سر چوما اور گھر سے باھر نکل گیا !!
ثاقب صدیقی گھر سے نکل کر ساتھ کی مسجد میں چلا گیا ، اس نے اشراق پڑھی اور دعا کے لئے ھاتھ اٹھا دیئے مگر کیا مانگے اسے کچھ سمجھ نہیں لگ رھی تھی ،، ھاتھ مہندی سے رنگے تھے مگر وہ رنگ اسے اب ارمانوں کا خون لگتا تھا ،، وہ سسکتا رھا ،، مگر کچھ بھی نہ مانگ سکا ،، صرف ھاتھوں کا کشکول پھیلا کر رہ گیا ،، اسے سسکتا دیکھ کر امام مسجد صاحب بچوں کو قرآن پڑھتا چھوڑ کر اس کے پاس چلے آئے ،، کیا ھوا بیٹا ؟ کل کے دولہے کو سسکتے دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئے تھے ،، وہ اسے اٹھا کر حجرے میں لائے ،، حجرے میں ثاقب نے ان سے ساری بات کھول کر بیان کر دی ،،،،، امام صاحب گہری سوچ میں ڈوب گئے ، دیکھ بیٹا اللہ پاک جب کسی کا امتحان لیتا ھے تو اس آدمی کی استطاعت دیکھ کر لیتا ھے ،، اللہ نے تجھے بہت بڑے کام کے لئے چنا ھے اور میرا ایمان کہتا ھے کہ اس کا انعام بھی بہت ھی بڑا ھو گا،، نبی کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ بچہ اس کا ھے جس کے بستر پر پیدا ھوا ھے اور زانی کے لئے پتھر ھیں ،، یہ شرعاً تیرا بچہ ھو گا ،بیٹی ھو یا بیٹا ، اس کو نام تیرا ھی ملے گا ،، جو اللہ جانتا ھے وہ تم نہیں جانتے شاید اللہ نے اس بچے میں ھی تیری خیر رکھی ھے ، دیکھ وہ بچی مظلوم ھے اور تم بھی مظلوم ھو اور وہ بچہ معصوم ھے اور اللہ تم لوگوں کے ساتھ ھے ،، امام صاحب اسے کافی دیر سمجھاتے رھے ، وہ واپس گھر کی طرف چلا تو اس کا دل کافی ھلکا ھو چکا تھا ،
سات ماہ لوگوں کے لئے تو پل جھپکتے گزرے ھونگے مگر نازیہ ، ثاقب اور گھر والوں کے لئے وہ سات سال کے برابر تھے ،، نازیہ نے اپنا آپ بھلا دیا تھا وہ مٹی کے ساتھ ھو کر رہ گئ تھی ،گھر والوں کی تو جو خدمت اس نے کی وہ ایک الگ کہانی ھے ، اس نے اس گھر کو بھی شیشہ بنا کر رکھ دیا ،، رات کو اپنی خالہ کے قدم دباتے دباتے وہ وھیں ان کے پاس سو جاتی ،کبھی کبھار گزرتے ثاقب کو کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو پوچھ لیتا ، ورنہ میاں بیوی کا آپس میں کوئی خاص انٹر ایکشن نہیں تھا ! سات ماہ بعد اللہ پاک نے نازیہ کو بچے سے نوازا اور یہاں بھی نازیہ کا پردہ رہ گیا ،بچہ نازیہ کی کلرڈ کاپی تھا ، باپ کی کوئی جھلک اس میں نہیں پائی جاتی تھی ، نازیہ نے سکھ کا سانس لیا ، وہ یہی سوچ سوچ کر پاگل ھوئی جا رھی تھی کہ اگر بچی بچہ ذوھیب پہ چلا گیا تو کیا ھو گا !
بچے کی پیدائش کے دو چار ماہ بعد دونوں میاں بیوی کی ھیلو ھیلو شروع ھو گئ تھی جو آئستہ آئستہ قربت میں تبدیل ھوتی چلی گئ ،، ادھر بچہ سال کا ھو گیا تھا ،،وہ جب ثاقب کی گود میں آ کر بیٹھتا تو ثاقب کے چہرے پہ ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا ،، نازیہ جھٹ سے بچہ اس کی گود سے اٹھا لیتی مگر وہ روتا اور لپکتا تھا ثاقب کی طرف،، کھڑی ماں کے ھاتھوں سے وہ ثاقب کی طرف لٹکتا اور اس کی طرف فریادی نظروں سے دیکھتا کہ وہ اسے ماں سے لے لے ،، پھر اس نے اسے پاپا پاپا کہنا شروع کیا تو ثاقب کی اذیت مین مزید اضافہ ھو گیا ، بچہ جس کا نام احسان اللہ رکھا گیا تھا ،، رات کو ضد کرتا کہ وہ پاپا کے پاس سوئے گا ،،مگر ماں اس روتے دھوتے کو اٹھا کر اپنے پاس سلا لیتی ، بعض دفعہ بچے کی آنکھ کھلتی تو وہ ماں کے پاس سے اتر کر ثاقب کے بیڈ پہ چلا جاتا اور اس کے سینے پہ ھاتھ رکھ کر سو جاتا ،، ایک دن ثاقب پھر امام صاحب کے پاس چلا گیا اور ان سے اپنی اس اذیت کا ذکر کیا کہ بچہ جب مجھے پاپا کہتا ھے تو میرے سینے پہ چھری چل جاتی ھے ،، اس پہ امام صاحب نے اسے سمجھایا کہ شریعت جب اسے اس کا پاپا تسلیم کرتی ھے تو اسے اتنی زیادہ ٹینشن نہیں لینی چاھئے ،،
دو سال گزر گئے تھے مگر ثاقب کے گھر کوئی نئ امید نہیں لگی تھی ،، آخر اس نے ایک ڈاکٹر سے رجوع کیا ،جس نے اسے بتایا کہ نازیہ کے ٹیسٹ کی تو فی الحال ضرورت نہیں البتہ وہ اپنا ٹیسٹ کرا لے ،،، ٹیسٹ کے لئے سمپل دے کر ثاقب گھر آ گیا ،،تیسرے دن وہ فالو اپ کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر کے چہرے کی پر ضرورت سے زیادہ سنجیدگی دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ! صدیقی صاحب آپ نے اس سے قبل کبھی یہ ٹیسٹ کرایا تھا ؟ جی نہیں ثاقب نے روانی میں جواب دیا ،، ویسے انسان کو شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ ضرور کر لینا چاھئے تا کہ کسی کی بچی برباد نہ ھو ،، صدیقی صاحب ابھی کبھی بھی باپ بننے کے قابل نہیں ھیں ،، ڈاکٹر صاحب بول رھے تھے اور ثاقب کا سر گھوم رھا تھا ،، بیٹا مستقبل کو اللہ جانتا ھے ھم نہیں جانتے ، اس کی تقدیر کے پیچھے اس کی بڑی حکمتیں چھپی ھوتی ھیں ، اس کے کانوں میں مولوی صاحب کے الفاظ گونج رھے تھے !
وہ ایک ھارے ھوئے جواری کی طرح واپس لوٹا تھا ،، اور پھر اس نے تقدیر کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ، اس نے احسان اللہ کو اللہ کا احسان سمجھ کر قبول کر لیا اور ٹوٹ کر اسے پیار کرنے لگا ،، نازیہ بڑی حیرت کے ساتھ اس تبدیلی کو دیکھ رھی تھی مگر اس نے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ھی ثاقب نے اسے وجہ بتانے کی زحمت کی ! احسان اللہ کو مسجد میں مولوی صاحب کے پاس حفظ مین بٹھا دیا گیا ،بچہ بہت ذھین تھا ،، گھر والدہ اس کو اسکول کی تیاری بھی کراتی تھی ،حفظ مکمل کر کے احسان اللہ کو براہ راست پانچویں کلاس میں ڈال دیا گیا تھا !!
دوسری جانب ذوھیب کی شادی بھی نازیہ کی شادی کے پندرہ دن بعد کر دی گئ تھی ، اور اللہ نے اسے بھی بیٹے سے نوازا تھا ، بیتا ذھین تو تھا مگر لاڈ پیار نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا تھا ،، وہ بچپن سے ھی ضدی تھا جوں جوں بڑا ھو رھا تھا اس کی ضد اور ھٹ دھرمی میں اضافہ ھو رھا تھا ،، احسان اللہ نے جس دن ایم بی بی ایس مکمل کیا تھا ،، نازیہ اور ثاقب کے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے ،، اللہ پاک نے آج ان کے صبر کا پھل دے دیا تھا ؛؛ اگلے دن پتہ چلا کہ ذوھیب نے بیٹے کو رات نشے میں لیٹ نائٹ واپس آنے پر ڈانٹا جس پر بیٹے نے اینٹ باپ کے سر میں مار کر اس کا سر کھول دیا ،، بیہوشی کی حالت میں ذوھیب کو اسپتال داخل کر دیا گیا ،مگر بقول ڈاکٹر ذوھیب کی یاد داشت اور نظر دونوں کو خطرہ تھا ،، ایک دو آپریشز کے بعد نظر کا مسئلہ تو تقریباً حل ھو گیا ۔۔،مگر ذوھیب کی یاد داشت جواب دے گئ تھی اور اب وہ ایک خالی الذھن پاگل تھا ! وہ گھر سے باھر نکل جاتا ،کاروبار تباہ ھو گیا ،ذوھیب کو کبھی کسی درگاہ سے واپس لایا جاتا تو کبھی کسی نشہ خانے سے ، وہ چرس اور ھیروئین کے نشے کی لت میں مبتلا ھو گیا تھا ،، ایک دن ثاقب ،نازیہ اور احسان اللہ شاپنگ کر کے گاڑی میں واپس آ رھے تھے کہ ایک جگہ ان کی گاڑی رش میں پھنس گئ ، اچانک ایک فقیر نے گاڑی کی ڈرائیور والی کھڑکی پر آ کر شیشہ بجایا ،، احسان اللہ نے جو کہ گاڑی چلا رھا تھا جونہی گا ڑی کا شیشہ بھیک دینے کے لئے کھولا ،،کسی بچے نے اچانک اس فقیر کو دور سے پتھر دے مارا ،، فقیر کے سر سے بھل بھل خون بہنے لگا جو سیدھا احسان اللہ کے ھاتھ پہ گرا ،، اس نے جھٹ سے گھبرا کر شیشہ بند کر دیا ،، گاڑی آگے چلی تو نازیہ نےآئستہ سے ثاقب سے پوچھا " آپ نے فقیر کو پہچانا ؟ نہیں ثاقب نے جواب دیا ،، یہ ذوھیب تھا ،نازیہ نے جھرجھری لے کر کہا ! ثاقب نے چونک کر نازیہ کی طرف دیکھا اور اس کے کانوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول گونجا جو اس کو امام صاحب نے بتایا تھا ،بچہ اس کا ھے جس کے بستر پر پیدا ھو اور زانی کے لئے پتھر ھیں "
احسان اللہ نے پریکٹس کرنے کی بجائے سی ایس پی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور ڈائریکٹ اے ایس پی بھرتی ھو گیا، ابھی ٹریننگ مکمل کی تھی کہ بوسنیا کی جنگ میں جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کو تحقیقات کے لئے پاکستان سے 25 پولیس افسروں کی ضرورت پڑی سب سے پہلے احسان اللہ کا انتخاب ھوا ،، 6 فٹ دو انچ کا احسان اللہ اپنے گورے رنگ اور انگلش کی وجہ سے انگریز ھی لگتا تھا ،، سارے افسر ڈیپوٹیشن سے واپس آ گئے مگر احسان اللہ کو اقوام متحدہ نے ریلیز کرنے سے انکار کر دیا ،، بوسنیا کے بعد روانڈا کے جنگی جرائم کی تحقیق بھی احسان اللہ کے ذمے تھی ،، نازیہ اور ثاقب بھی نیویارک میں اپنی بہو کے پاس ھیں ، اس دوران ذوھیب کو مردہ حالت میں کہیں سے اٹھا کر ایدھی والوں نے دفنا دیا تھا ،گھر والوں کو بعد میں خبر ملی تھی وہ ایدھی سنٹر گئے تو انہیں ذوھیب کے خون آلود کپڑے ،، سگریٹ ،ماچس اور 50 روپے پکڑا دیئے گئے

پڑوس کی جنت دال برابر

     ایک عورت     
"میں جب بھی گزارش کرتا ھوں کہ عورت سراپا وفا ھے
تو 
مرد حضرات اعتراض کرتے ھیں ،،
 اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں استثناء بھی ھے جیسا کہ ھر معاملے میں ھوتا ھے مگر عموماً عورت جو قربانی دیتی ھے وہ مرد سوچ بھی نہیں سکتے یا شاید مرد کی جبلت ھی ایسی ھے
 کسی عورت کا شوھر بیمار ھو تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ اسے چھوڑ کر کہیں اگلے کے ساتھ جا شادی رچائے ،،
 بعض لڑکیاں نامرد کے ساتھ عمر بتا دیتی ھیں
مگر ساس کے طعنوں اور بیٹے کو نئ شادی کرانے کی دھمکیوں کے باوجود یہ نہیں بتاتی کہ اس نے بیٹا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دی ھے !
یہ شارجہ کا واقعہ ھے ،،
 ایک خاتون کے یہاں 3 بچے تھے ،دو بیٹے اور ایک بیٹی ، بڑا بیٹا 11 سال کا تھا پھر بیٹا تھا پھر بیٹی تھی !
 شوھر کا رویہ بیوی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں تھا ،
 اولاد بڑی حساس ھوتی ھے ،
وہ والدین کے معاملات کو جانتی ھوتی ھے
 اور
ظالم و مظلوم کو بھی پہچانتی ھے !
بیٹا کہا کرتا امی ابو آپ کے ساتھ بہت ظلم کرتے ھیں ،
ھم اپنی بہن پہ ایسا ظلم نہیں ھونے دیں گے ،،
 ھم اسے دور نہیں بیاھیں گے،
 ھم تین منزلہ گھر بنائیں گے نیچے میں رھونگا اوپر بہن کو رکھیں گے
اور
 سب سے اوپر دوسرا بھائی ھو اس طرح بہن دو بھائیوں کے درمیان رھے گی تو کوئی ظلم نہیں کرے گا !
یہی 11 سالہ بیٹا شام کو فٹ بال کھیلنے گیا ،،
بال کنپٹی میں لگا ،،
 وہ رات تو جیسے تیسے درد درد کرتے گزری اگلے دن اسپتال لے کر گئے
تو
 چیک اپ کے دوران ھی بیٹے کی زبان بند ھو گئ
پھر اس کے پورے بدن کو فالج ھو گیا ، صرف اس کی آنکھیں کھلی تھیں ،، ماں روز صبح اس کے سامنے جا کر بیٹھ جاتی اسے ادھر ادھر کی باتیں سناتی مگر وہ صرف دیکھ سکتا تھا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا ،، ماں کے لئے اس سے بڑھ کر اذیت کیا ھو گی کہ اس کا اس قدر ھمدرد بیٹا بے حس و حرکت اس کے سامنے لیٹا تھا اور ماں کی بات کا جواب نہیں دیتا تھا ،، اس کی ساری خوشیاں اور سوشل زندگی راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئ،، شوھر کا مطالبہ تھا کہ وہ ھار سنگھار کرے ،،مگر وہ کہتی تھی جس ماں کا بیٹا اس حال میں سامنے پڑا ھو وہ کیسے ھار سنگھار کر سکتی ھے ؟ اسٹوری گلف نیوز میں آ گئ ،کچھ عرصہ لوگوں نے مدد بھی کی مگر کب تک ! آئستہ آئستہ لوگ بھول گئے ،، شوھر بھی ناراض ھو گیا اس نے پہلے کمرہ الگ کیا پھر نئ شادی کر لی ! یہ ایک دو دن یا ایک دو ماہ کی بات نہیں ،، یہ چھ سال کا طویل عرصہ ھے ،جس میں 11 سال کا بچہ مونچھوں اور داڑھی والا جوان بن گیا ،بیڈ پہ لیٹے لیٹے ماں کےسامنے ھی اس کی مسیں بھیگیں پھر گھنی داڑھی نکلی ،، اور 17 سال کا کڑیل جوان ایک دن ماں کی گود میں سر رکھ کر مر گیا ،، چند آنسو تھے جو اس کے مرنے کے ساتھ اس کی آنکھوں سے گرے ،، اور چھ سال مسلسل کھلی آنکھیں آخر کار بند ھو گئیں ،،مگر وہ عورت غم کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ھوئی ،شوھر نے اپنی دنیا بسا لی تھی،، چھوٹے بیٹے کو نویں کلاس سے اٹھا کر سفاری والوں کے ساتھ لگا دیا جو تھوڑے بہت پپسے ملتے ان سے نظام چل رھا تھا ،،بیٹی کو وہ پڑھاتی رھی جو اس وقت گیارھویں میں پڑھ رھی ھے ! شوھر پہلے دوستوں کے برا بھلا کہنے پہ مکان کا کرایہ دے دیا کرتا تھا ،جو کہ اب وہ بھی بند ھے ،،ایک بیٹے کے دو یا ڈھائی ھزار میں وہ بیٹی کو پڑھائے ،مکان کا کرایہ دے جو کہ 1800 درھم ھے یا گھر کا روٹی کا نظام چلائے ،، اس کے آگے بھی اندھیرا ھے اور پیچھے بھی اندھیرا ھے ! درد بانٹنے والا بھی کوئی نہیں اور یادیں شیئر کرنے والا اپنی دنیا بسائے بیٹھا ھے ،، بیٹے کی تیمار داری کے دوران خود گرنے سے اس کی اپنی ریڑھ کی ھڈی کے مہرے بھی فریکچر ھو چکے ھیں،، بیٹی اسکول سے آ کر کچھ پکا کر کھلا دے تو کھلا دے ،، !
لوگ جنت ڈھونڈنے پتہ نہیں کہاں کہاں جاتے ھیں
 اور
 جنت ان کے پڑوس میں لگی ھوتی ھے !

تقوی

    تقوی    
ھر تمنا دل سے رخصت ھو گئ     
                                    اب تو آ جا ، اب تو خلوت ھو گئ 
جب آپ کو کسی کا سامنا کرنا ھو تو آپ سب سے پہلے اپنا جائزہ لیتے ھیں کہ آپ اس شخصیت کے شایان شان حال میں ھیں جس کا سامنا کرنے جارھے ھیں یا نہیں !
آپ اسے انتظار کرواتے ھیں تب تک اپنا حال درست کرتے ھیں ! 
اپنے کپڑے ،حلیہ ،، جوتے الغرض ھر چیز کو ری وزٹ کرتے ھیں !
جب انسان کو اللہ سے محبت ھو جاتی ھے تو وہ چن چن کر اپنی ھستی سے گند نکالتا ھے ،، اس وقت اسے یہ ھوش نہیں ھوتا کہ دوسرے کیسے ھیں اور کیا کر رھے ھیں، وہ اپنے حال پہ نگاہ ٹکائے دل کے نہاں خانوں سے کوڑا کرکٹ نکال رھا ھوتا ھے ،، وہ نارمل پانی سے نہیں بلکہ آنسوؤں کے پانی سے اس دل کو مل مل کر دھوتا ھے ! جب وہ اس کام میں لگ جاتا ھے تو اللہ پاک بھی اس کی مدد کرتا ھے اور اسے پاک صاف کرتا ھے نیز پھر گند لگنے نہیں دیتا کہ ابھی تو میرے بندے نے میری خاطر یہ گند نکالا ھے اور یہ شیطان خانہ خراب پھر گند ڈالنے آ گیا ھے ،، فرشتوں کی ڈیوٹی لگ جاتی ھے کہ اس شیطان کو اس سے دور رکھو ،، یہاں تک کے موت کے وقت بھی " تتنزل علیھم الملائکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا و ابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون ،، نحن اولیائکم فی الحیوۃ الدنیا و فی الآخرہ ،، 
مسجد میں آنے کے لئے صرف باھر کی زینت کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اندر بھی سنوار کر لانے کو کہا گیا ھے !
باھر کی شلوار سے زیادہ اندر کے سانپ کی فکر کرنے کا کہا گیا ھے ،،
ھو مبارک تمہیں سر جھکانا ، پھر بھی اتنی گزارش کروں گا !
دل جھکانا بھی لازم ھے زاھد ، سر جھکانا ھی سجدہ نہیں ھے !
ایسی نماز بندے کو رب سے ھر وقت جوڑے رکھتی ھے ،وہ کوئی بھی رویہ اختیار کرنے سے پہلے سوچے گا ،، یار اللہ بھی کیا سوچے گا کہ یہ کیا چول مار رھا ھے ! 
یار کتنی شرم کی بات ھے ، اللہ بھی کیا سوچے گا کہ میرا دوست کیا کرنے جا رھا ھے ؟
اللہ بھی کیا سوچے گا کتنا شرمناک رویہ ھے میرا !
اللہ بھی کیا سوچے گا کہ اس کے خیالات کتنے گندے ھیں اور چلا ھے میرا دوست بننے !
جس دن " اللہ کیا سوچے گا " اللہ کیا کہے گا " ھماری سوچ بن گئ اس دن ھماری ھستی میں سے گناہ مٹنا اور نیکیاں بسنا شروع ھو جائیں گی !
مجھے جب کوئی بندہ فرینڈ شپ کی درخواست بھیجتا ھے اور ساتھ ننگے پیج بھی لائک کیئے ھوئے ھوتے ھیں تو میرا دل کرتا ھے کہ اگر وہ میرے پاس ھو تو اس کے منہ پر چپیڑ ماروں ،، حالانکہ میں ایک گنہگار انسان ھوں ،سر سے پاؤں تک گناھوں سے بھرا ھوا ھوں !
فرینڈ شپ کی درخواست اللہ جل جلالہ کو ارسال کرنا اور اندر باھر گند بھر کر کرنا ،، کیسا غضب بھڑکتا ھو گا !
حجرے شاہ مقیم تے اک جٹی عرض کرے !
پنج مرن سہیلیاں تے سَتاں تو تاپ چڑھے !
کتی مرے فقیر دی جہڑی کاؤں کاؤں نت کرے !
اس تکیے دار فقیر نوں شالا " لا " دا ناگ لڑے !
میں بکرا دیاں گی پیر جی میرے سر دا کونت مرے !
گلیاں ھونڑ سوانجھڑیاں ،وچ رانجھنڑ یار پھرے !
حضرت دوست محمد قریشی فرمایا کرتے تھے ،، سارا تصوف ان اشعار میں ھے !
پانچ سہیلیاں پانچ مجلسی برائیاں ھیں جن کا ذکر سورہ الحجرات میں ھے !
سات لطیفے جن کا جاری ھونا طلب کیا گیا ھے !
کُـتی سے مراد لالچ ھے 
تکیے دار فقیر سے مراد نفس ھے ھے جو اللہ کی چیز پہ قابض ھو بیٹھا ھے !
لا کا ناگ کلمے کی لا سے ھر چیز پر کسی کی ملکیت کی نفی ھے ، کلمے میں الا سے زیادہ اھمیت لا کی ھے ،کیونکہ لا کے بغیر الا کے لئے جگہ بھی دستیاب نہیں ھے !
لا کے دروازے سے نفس نکلتا ھے تو الا کے دروازے سے اللہ پاک داخل ھوتا ھے !
سر کا کونت ،، تکبر اور خناس ھے !
یہ تمام رکاوٹیں دور ھو جائیں ،،کوئی میرے رحمان کو تنگ نہ کرے ،، یہ دل اس کے لئے مخصوص ھو جائے ،،بادشاھوں کے محلات کی طرح میرے اللہ کے لئے سجا رھے ،جب چاھے ، میرا محبوب تجلی فرمائے !!
بس دل کو اس طرح صاف ستھرا رکھنے ،، اس کا جائزہ ھر وقت لیتے رھنے کا نام تقوی ھے

مانگو. ڈهونڈو

      مانگو تو تم کو دیا جائے گا ڈهونڈو تو پاؤگے-   
دروازه کهٹکهٹاؤ تو تمہارے واسطے کهولا جائے گا- کیونکہ جو کوئ مانگتا هے اسے ملتا هے اور جو ڈهونڈتا هے وه پاتا هے اور جو کهٹکهٹاتا هے اس کے واسطے کهولا جائے گا
تم میں ایسا کون سا آدمی هے کہ آگر
 اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو وه اسے پتهر دے دے یا آگر مچهلی مانگے تو اسے سانپ دے دے- پس جب کہ تم برے هو کر آپنے بچوں کو آچهی چیزیں دینا جانتے هو
 تو  
 تمہارارب جو آسمانوں پر هے آپنے مانگنے والوں کو آچهی چیزیں کیوں نہ دے گا

Thursday, June 12, 2014

ایک لاکھ کا چیک

   ایک لاکھ کا چیک   
ایک عالم کا واقعہ ہے۔ ان کی زندگی ایک تصنیفی ادارہ میں گزری۔ وہ بہت سادہ طور پر رہتے تھے۔ اپنی مختصر آمدنی میں بھی وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت کر لیا کرتے تھے۔ ان کی صرف ایک لڑکی تھی۔ اس کی انھوں نے شادی کی تو شادی میں کچھ خرچ نہیں کیا۔ ایک نوجوان سے سادہ طور پر نکاح پڑھایا اور اس کے بعد لڑکی کو رخصت کر دیا۔
البتہ انہوں نے رخصت کرتے ہوئے اپنی لڑکی اور داماد کو ایک چیک دیا۔ یہ چیک 100،000 روپے کا تھا۔ انہوں نے کہا: یہی میری زندگی بھر کی بچت ہے جو بینک میں جمع تھی۔ اس رقم کو میں شادی کی رسوم میں بھی خرچ کر سکتا تھا۔ تاہم اس کے مقابلے میں مجھے یہ زیادہ پسند آیا کہ میں اس کو نقد تم لوگوں کے حوالے کردوں۔ تم لوگ اسے سنبھالو اور اس کو اپنی زندگی کی تعمیر میں استعمال کرو۔
لڑکی اور داماد نے باہم مشورہ کیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس رقم سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ابتداء میں ان کو کافی محنت کرنی پڑی۔ بعض اوقات بڑے سخت مراحل سامنے آئے۔ مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کاروبار پر جمے رہے۔ بالآخر حالات بدلنا شروع ہوئے۔ مذکورہ 100,000 روپیہ میں برکت ہوئی اور وہ لوگ چند سال کے بعد کافی ترقی کر گئے۔ اب وہ اپنے مقام پر ایک باعزت اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
شادی آدمی کی زندگی کا ایک بے حد سنجیدہ واقعہ ہے۔ وہ دھوم مچانے کا دن نہیں بلکہ زندگی کی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کا دن ہے۔ اس دن ایک مرد اور عورت اپنے کوگاڑھے اقرار (نساء۔۲۱) میں باندھتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ نکاح کی تقریب سادہ ہو، وہ فضول نمائشوں سے بالکل پاک ہو۔ اور اگر کسی کو خرچ ہی کرنا ہے تو اس خرچ کی ایک اچھی صورت وہ ہے جس کی مثال اوپرکے واقعہ میں نظر آتی ہے۔
اگر ہمارے درمیان اس قسم کا رواج پڑ جائے تو شادی قومی تعمیر کے پروگرام کا ایک اہم جز بن جائے۔ ہر خاندان میں نہایت خاموشی کے ساتھ ترقی کاسلسلہ چل پڑے۔ قوم کے اربوں روپے جو ہر سال چند دن کے تماشوں میں ضائع ہوجاتے ہیں، قوم کی تعمیر کا ایک مستحکم ذریعہ بن جائیں،وہ قومی اقتصادیات کے منصوبہ کا جز بن جائیں اور قوم اقتصادی حیثیت سے اوپر اٹھ جائے تو یہ صرف ایک اقتصادی واقعہ نہیں ہوگا بلکہ بے شمار پہلوؤں سے وہ قوم کی ترقی کے لیے مفید ہوگا۔ یہ ایک مزید فائدہ ہے مگر مزید خرچ کے بغیر۔

کفاف،تکاثر

   کفاف،تکاثر  
رزق کا حصول ہر آدمی کی ایک لازمی ضرورت ہے-اس رزق کے لیے آدمی مختلف ذرائع سے مال کماتا ہے-
قرآن اور حدیث میں اس رزق کے دو معیار بتائے گئے ہیں-
کفاف
Necessities
تکاثر
Abundance
قرآن کی سوره نمبر 102 میں بتایا گیا ہے کی لوگوں کا حال یہ ہے کہ وه تکاثر کی نفسیات میں مبتلا رہتے ہیں،یعنی زیاده سے زیاده مال جمع کرنا- وه یہ بهول جاتے ہیں کہ مال ذریعہ عیش نہیں،بلکہ وه ایک سنگین ذمہ داری ہے،ایک ایسی ذمہ داری جس کے بارے میں خدا کی عدالت میں ان سے پوچها جائے گا-جس آدمی کے اندر یہ احساس ہو،وه مال کو اپنی زندگی میں ثانوی  
درجہ دئے گا۔کیوں کہ وه اس حقیقت کو جانے گا کہ زیاده مال کا مطلب ہے----زیاده جواب دہی 
دوسرا طریقہ کفاف کا طریقہ ہے-اس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یعنی وه آدمی کامیاب رہا جس نے خدا کی اطاعت کی،اور اس کو بقدر ضرورت رزق ملا،اور اللہ نے اس کو جو کچھہ دیا،اس پر اس نے قناعت کیا-
( صحیح مسلم،ابن ماجہ،مسند احمد)
تکاثر کی نفسیات میں مبتلا ہونا دراصل مال کو اپنا سب کچهہ سمجهنا ہے-ایسا آدمی رسمی طور پر خدا کا نام لے گا،لیکن حقیقت کے اعتبار سے مال ہی کو اس کی زندگی میں معبود کا درجہ حاصل هو گا-ایسا آدمی دنیا میں بظاہر مال دار دکهائی دے گا،لیکن آخرت میں وه پوری طرح بے مال هو جائے گا
اس کے برعکس،جس شخص نے رزق کے معاملے میں کفاف کا طریقہ اختیار کیا،یعنی اس نے بقدر ضرورت پر قناعت کی،وه کامیاب انسان ہے-کیونکہ ایسے آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وه اپنی توانائی کو ضائع هونے سے بچائے،وه آخرت کی ابدی کامیابی کے لیے زیاده سے زیاده عمل کرے-

Thursday, May 29, 2014

سوچو کبھی ایسا ھو تو کیا ھو ؟

سوچو کبھی ایسا ھو تو کیا ھو ؟
بعض حضرات کے اپنے معاملات، کچھ درست نہیں ھوتے مگر وہ بیوی کو صحابیہؓ بنانے کی کوشش کرتے ھیں،، نتیجہ کھڑاک کی صورت میں نکلتا ھے،، خاتون نے پردہ کرنا شروع کر دیا،، بازار نہیں جاتی،، جو چیز چاھئے حضرت گھر ھی لۓ آ کر پسند کروا لیتے ھیں،،اصرار پر بازار لے جائیں تو گاڑی میں ھی بٹھا کر رکھتے ھیں اور گاڑی میں ھی کپڑا جوتا دکھاتے ھیں،، خاتون بھی کوئی گائے بکریاں چراتی نہیں آئی تھی،، ملٹری اکیڈیمی کی پروفیسر تھی ،،مگر اسلام مین ڈھلتی چلی گئ،،

گھر چھٹی جاتے ھیں تو صاحب کی اپنی کنواری بہن رات بارہ بجے واپس آتی ھے،، ساری بہنیں پردہ نہیں کرتیں، وہ رات کو انہیں سمجھاتی کہ بہن کو سمجھائیں اور اللہ رسولﷺ کا حکم بتائیں کہ پردہ کرے اور وقت پر گھر آیا کرے،، صبح منہ دھونے سے پہلے امی کو جا کر بتاتے ھیں کہ مجھے بہنوں کے بارے میں پٹی پڑھاتی ھے،، ظاھر ھے پھر ساس اور نندوں نے تو اس کو پھینٹی لگانی ھے !
واپس آتے ھیں تو اپنی سیکرٹری سے ھنس ھنس کر گھنٹوں باتیں ھوتی ھیں،،ھاسے بغلوں اور کچھوں سے نکلتے ھیں، کوئی نہیں سوچتا وہ بھی کسی کی بہن ،بیٹی بیوی ھو گی،، اب ردعمل کی باری آتی ھے،، اس عورت نے جمعے والے دن صبح صبح فون کر کے مجھے،جس کا خطبہ اس کا شوھر باقاعدگی سے سنتا ھے،اپنے شوھر کو اور اس منافقانہ اسلام کو اتنی گالیاں دیں،، کہ رھے نام اللہ کا،، اس کے بعد اتنا روئی اتنا روئی کہ مجھے بھی اشکبار کر دیا،،
سارا اسلام بیوی کے لئے نہیں شوھر ، ساس اور نندیں بھی ایک ایک چمچ نہار منہ کھا لیا کریں،، اگر بہنیں نہیں مانتیں تو قطع تعلق کریں تا کہ آپکی بیوی کو آپ کے دینی اخلاص کا یقین ھو،، یہ دین نہیں دین کے نام پر کسی کو تنگ کرنا ھوتا ھے،، حضرت عمرؓ نے بیوی کو ڈانٹا تھا کہ " جواب دیتی ھو ؟ گھر والی نے بیٹی کا طعنہ دیا تھا،،ذرا جا کے نبیﷺ سے پوچھنا تیری بیٹی اللہ کے رسولﷺ کو جواب دیتی ھے،، عمرؓ کی شان کوئی نبیﷺ سے زیادہ نہیں،،،
بڑی بدقسمتی ھے،، ھر انسان خطاؤں کا مجموعہ ھے،، عورت میں اگر کچھ کمی بیشی ھو گی تو شوھر بھی بہت سارا گند پالے ھوئے ھو گا،، مگر اپنا گند کسے نظر آتا ھے،، انسان دودھ پیتے بچے کی پیٹھ دھو دے تو جب تک ھاتھ صابن سے نہ دھوئے تسلی نہیں ھوتی،،مگر اپنا استنجا کر کے اکثریت بغیر صابن ھاتھ بھگو کر کھانا کھا لیتی ھے،، یہی حال گناھوں کا ھے اور خطاؤں کا ھے،، ساس کو جو باتیں اپنی بیٹی کا بھولپن نظر آتی ھیں وھی بہو کا عیب بن جاتی ھیں
ھمارا حقیقی مسئلہ یہ ھے کہ ھم خریدنا چاھتے ھیں گوبھی مگر ھم براہ راست گوبھی خریدنے کی بجائے آلو خرید کر لے آتے ھیں اور پھر ان پر لال دوپٹہ ڈال کر دو رکعت صلاہ الحاجت پڑھ کر نہایت خشوع و خضوع سے دعا کرتے ھیں کہ کہ یا اللہ تو ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے،میں نہیں کر سکتا تو کر سکتا ھے،، یا اللہ یہ آلو ھیں تو ان کو گوبھی بنا دے،، بس اسی جھگڑے میں گھر اجڑ جاتے ھیں،، سب سے پہلے یہ طے کریں کہ یہ عورت نام کی مخلوق جس کو لانے کے لئے سارے پروگرام بنائے جا رھے ھیں،وہ کس کس کے لئے ھو گی؟ یہ سوال تو تین سال کا بچہ بھی والدین سے بازار مین ھی کر لیتا ھے کہ یہ گڑیا جو آپ نے خریدی ھے کس کے لئے خریدی ھے کیونکہ بھائی بہن تو ھم 6 ھیں،، اور گڑیا ایک ؟ اگر تو کہہ دیا بیٹا جی تیرے لئے،پھر تو وہ خوش خوش لے کے گاڑی مین بیٹھ جائے گا،،اور اگر کہا کہ سب کے لئے تو وہ آپ کا ھاتھ چھوڑ کر ادھر ھی بیٹھ کر ایڑیاں رگڑنے لگے گا،، اگر آپ کو چاھئے ایسی بہو جو ایک شوھر اور سات دیوروں کو سنبھالے، ان سب کے احتلام والے کپڑے دھوئے ،تو بہتر ھے کوئی دیہاتی یتیم سی بچی کر لیں جس بیچاری کی روٹی بھی چل جائے گی اور آپ کا دھوبی گھاٹ بھی چلتا رھے گا،،اس دھوبی گھاٹ کے لئے بیوی لے کر آئے ھیں جو نفسیات میں پی ایچ ڈی ھے ایک لاکھ پچاس ھزار تنخواہ لیتی ھے اور سی ایم ایچ میں میجرز اور بریگیڈئرز کو لیکچر دیتی ھے،، اب اس سے تقاضا کرنا کہ وہ یہ دھوبی گھاٹ چلائے تو ،،،،، آج کل دونوں کو دورے پڑ رھے ھیں شوھر کو بھی اور بیوی کو بھی ،،،،پردہ اتروانا ھے تو بے پردہ جو ملتی ھیں وہ لے آؤ ، اس کو کوئی پردے والا لے جائے گا،،وہ جو بے پردے والی کو لا کر تشدد سے پردہ کرائے گا،،تم پردے والی پر تشدد کر کے اترواؤ گے،، پہلے فیصلہ تو کرو تمہیں کیا چاھئے ؟
خواتین جو کام اپنے عمل سے بگاڑتی ھیں اسے وظیفوں سے درست کرنے کو کوشش کرتی ھیں،، وظیفہ کبھی بھی عمل کا نعم البدل نہیں ھو سکتا،، اللہ پاک نے عورت پر کوئی اھم ذمہ داری نہیں ڈالی سوائے اھم ترین ذمہ داری کے،، شوھر کو خوش رکھو،، اولاد پر توجہ دو،اور سماج کو اچھے انسان فراھم کرو،،تمہیں جماعت کی نماز بھی معاف،تمہیں جمعے کی بھی چھٹی،، تمہیں جہاد بھی معاف،، تیرا سب سے بڑا جہاد اپنے گھر میں ھے،، بنو سنورو اس طرح کہ شوھر کی نظر کی پیاس بجھ جائے کسی اور طرف دیکھنے کی رغبت مر جائے،، ھنسی مذاق، اور چٹکلے، دل جوئی اس طرح کی ھو کہ گھر سے باھر جا کر اس کا دل واپسی کے لئے بےچین رھے اور فرصت ملتے ھی گھر کی طرف دوڑے،، گھر میں داخل ھو کر پرسکون ھو جائے ،، پھر جو چاھو اس سے منوا لو،، ھر وقت کی چخ چخ،، گلے شکوے اور رونے سیاپے،، تمہیں شوھر سے کچھ بھی نہیں دلائیں گے سوائے طلاق کے ،، جب چاھو لے لو

خبر دار ! عورت کی عزت کرنا منع ہے

ایک شوھر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو بے حد اہمیت دے ،
 اسے ایک قیمتی چیز کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھے ، اسے بے توقیر نہ ہونے دے، نہ خود اولاد کے سامنے اس کی بے عزتی کرے اور نہ کسی کو کرنے دے ،
یاد رکھے اس کی بیوی کی عزت اس کی اپنی عزت ہے اور بیوی کی بے عزتی اس کی اپنی بے عزتی ہے،جس عورت کو اس کی اولاد کے سامنے مارا پیٹا جاتا ہےیا گالی گلوچ اور طنز و استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اپنی اولاد کی نظر مین بے توقیر اور بے وقار ہو جاتی ہے،،پھر ایسی ماں سے اولاد سنبھالے نہیں سنبھالی جاتی وہ بھی ماں کو ہاؤس میڈ کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں ،، ایسے بچے آگے چل کر اپنی بیویوں کے لئے بھی برے شوہر ثابت ہوتے ہیں 
میاں بیوی میں ناچاقی۔ یا  ۔ رنجش ہوبھی جائے جو کہ ایک فطری اور لازمی چیز ہے،،
 جب نبی ﷺ جیسی ہستی کے گھر میں بھی رنجش ہوئی ہے تو
 کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں بہت اچھا انسان ہوں تو میرے گھر میں نہیں ہو سکتی ،، عورت بھی " ایک قسم کی" انسان ہے اسے بھی غصہ آتا ہے تو وہ غصہ اپنے شوہر پر ہی نکالے گی یا محلے والوں پہ نکالے گی ؟،،
پھر کپڑا پھٹ بھی جائے تو انسان محلے کو نہیں دکھاتا پھرتا کہ میری شلوار پھٹ گئ ہے،، میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ھیں،،(قرآن) لباس ستر بھی ڈھانپتا ہے اور خوبصورتی اور زینت بھی بخشتا ہے ،، عورت کے بغیر مرد اس حکمران کی طرح ھوتا ھے جس کا تختہ الٹادیا گیا ،، 
پھرتا ہے میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ،، گھر پھر گھر ھوتا ہے ،، 
غیر ممالک میں تو کنوارے کو کرائے پہ مکان کوئی نہیں دیتا چاہےوزیرہی کیوں نہ ہو ،، جبکہ فیملی کے لئے سب لوگ چشم براہ ھوتے ھیں ،،کیونکہ فیملی والا معزز گنا جاتا ہے اور چھڑا بےلباس و بے اعتبار۔۔۔ 
شوھر کو چاہیے کہ وہ اپنی تنخواہ میں سے ایک معقول رقم بیوی کو دے تا کہ وہ اس میں سے اپنی ضرورت کی چیزیں بھی لے کچھ صدقہ کرے اور کچھ اپنے والدین کو بھی بھیجے کیونکہ انہوں نے اسے پیدا کیا ،پالا پوسا اور پڑھایا اور اس کی خاطر مالی و جذباتی قربانی دی ،، اس کے والدین کا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے جتنا شوہر کے والدین کا شوہر پر ہے ،، کبھی اس کے والدین یا بھائیوں کے لطیفے نہ بنائے اپنی اولاد کے سامنے ان کے (ننھیال)نانکے کو مزاق  کا نشانہ نہ بنائے بلکہ انہیں اپنے والدین کی طرح عزت دے تا کہ بیوی بھی اس کے والدین کی دل و جان سے خدمت کرئے 

Monday, May 12, 2014

مجھے ٹیلی ویژن بنادے

ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔

سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے ٹیلی ویژن بنادے میں ٹی وی کی جگہ لینا چاہتا ہوں، ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے گھر میں موجود ٹی وی جی رہا ہے میں ٹی وی کی جگہ لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹی وی کی طرح بول رہا ہونگا تو سب میری باتیں بڑی توجہ سے سن رہے ہونگے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا اور بغیر رکے سب مجھے ہی دیکھتے سنتے رہیں گے کوئی مجھ سے سوال جواب نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی مجھے ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کرے گا۔ میں ایسی ہی خاص احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاؤں گا جیسے ٹی وی کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کی جاتی ہے جیسے جب ٹی وی خراب ہوجائے اس کا جتنا خیال کیا جاتا ہے اتنا ہی میرا خیال رکھا جائے گا میری زرا سی خرابی سب کو پریشان کردے گی۔

میں اپنے ابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے میرے ابو ٹی وی کو دیتے ہیں کہ آفس سے آتے ہی ٹی وی کی طرف متوجہ رہتے ہیں چاہے ابو کتنے ہی تھکے ہوئے ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ میری امی بھی میری طرف ایسے ہی متوجہ رہیں جیسے وہ ٹی وی کی طرف متوجہ رہتی ہیں چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور غصے میں ہوں۔ چنانچہ بجائے مجھے نظر انداز کرنے کے وہ میری طرف متوجہ رہیں گی۔

اور میرے بھائی بہن بھی جو مجھ سے لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میرے اردگرد پھریں گے میرے لیے امی ابو کی منتیں کریں گے اس طرح سب کے سب میری طرف متوجہ رہیں گے اور آخر میں سب سے بڑھ کر یہ کہ سب میری وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں تو میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میں ان سب کو ایسے ہی خوش و خرم رکھ سکوں گا جس طرح ٹی وی رکھتا ہے۔

اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے ٹی وی بنادے مجھے اس کی جگہ دے دے۔

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا مایوس بچہ ہے۔ بے چارے کے ساتھ کتنا برا ہوتا ہے اس کے گھر میں اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے۔

ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.

Monday, May 5, 2014

کھلا پلا کر اپنا دشمن بنانا کوئی والدین سے سیکھے


اولاد کو برباد کرنا!
انہیں پل پل زخم دینا!
ان کی شخصیت کو کچل کچل کر مسخ کرنا !
کھلا پلا کر اپنا دشمن بنانا کوئی والدین سے سیکھے

ان میں کبھی بھی اعتماد کو پنپنے نہ دینا،بلکہ دوسرے اگر اعتماد کا اظہار کریں تو تعجب کا اظہار کرنا اور اپنی اولاد کے

لطیفے بنا بنا کر انہیں سنانا، ان کی ھر قسم کی صلاحیتوں پر شک کا اظہار کرنا، اگر وہ اچھے نمبر لے آئیں تو حلف لے

کر اس بات کا یقین کرنا کہ انہوں نے نقل نہیں کی،، غلطی کسی کی بھی ھو مار اور گالیاں اپنی اولاد کو دینا،، سودا

سلف لائیں تو بار بار شک کا اظہار کرنا کہ پیسے مار تو نہیں لیئے ؟ اور دکاندار سے فون کر کے ایک ایک چیز کا ریٹ

پوچھنا،، دکان پر بھیجنا تو پیسے پورے گن کر دینا،چار آنے زیادہ نہ چلے جائیں،، سکول جائے تو بس کے کرائے کے

پورے پیسے دینا،، یہ گنجائش نہ رکھنا کہ شاید ٹیکسی پہ آنا پڑ جائے،، جو بھی کاپی یا کتاب لینا ،،بچے کی خوب

کلاس لے کر اور اگلا ھفتہ اسی ورد میں گزارنا کہ ھم تیرے اوپر کتنا خرچ کر رھے ھیں، ھمارے والدین یہ کچھ ھم کو

نہیں لے کر دیتے تھے،،بچہ کچھ کھانے کو مانگے تو اسے یاد کرانا کہ اسلامک اسٹڈی کی بک 90 درھم کی لائے

ھیں،،وہ کوئی اچھی ڈش پکانے کا بولے تو پورے سال کی فیس کا بل اس کے آگے رکھ دینا،، وہ کہیں آؤٹنگ میں جانے

کی فرمائش کرے تو اس کی مارکس شیٹ اس کے سامنے رکھ کر اسے پڑھائی پر لیکچر دینا تا کہ آئندہ وہ اس قسم کے

شوق سے توبہ کر لے،عین جس وقت وہ کارٹون دیکھنے کو ریموٹ پکڑے یا کھیل کے لئے بیٹ اٹھائے تو اس سے سوال

کرنا کہ کیا قرآن پڑھا تھا؟ وہ وضو کرے تو اس کے ھاتھ پاؤں کو بار بار ھاتھ لگا کر چیک کرنا،، گیلے ثابت ھو جائیں تو پھر

بھی کہنا کہ کمال ھے ابھی ابھی تو تم غسل خانے میں گئے تھے،ھمارے زمانے مین اتنا جلدی وضو تو نہیں ھوتا

تھا،،اس کے برعکس جب غسل کے لئے جائے تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازہ بجا کر پوچھتے رھنا کہ کیا کر رھے ھو؟

نہانے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی؟ اور جب نماز پڑھ کے آئے تو یقین نہ کرنا اور اس سے پوچھنا مولوی صاحب نے

کونسی سورت پہلی رکعت میں پڑھی تھی،،پھر اس کے دوست کو فون کر کے تصدیق کرنا یا پوچھنا کہ تیرے دائیں طرف

کون تھا اور بائین طرف کون تھا،،پھر اس کے باپ سے تصدیق کرنا،، پیرینٹس ٹیچرز میٹنگ پہ جانا ھی اس نیت سے کہ

بچے کی برائیاں کر کے اسے ٹیچر کی نگاھوں سے بھی گرانا ھے ، مولوی صاحب کو ختم شریف پہ بلانا تو سارا وقت

اولاد کی برائیاں بیان کرتے رھنا اور کہنا کہ یہ نماز پڑھنے جائے تو اس پر خصوصی نظر رکھا کریں یا کوئی تعویز دیں جو

اس کو انسان کا بچہ بنا دے یوں بچے کو امام مسجد کی نظروں سے بھی گرا دینا،،اس کے سامنے دوسروں کے بچوں

کی ھر وقت تعریف کرنا اور ان کی ماؤں کی بیان کردہ خوبیاں اپنے بچوں کے سامنے بیان کر کے انہیں لعن طعن کرنا

حالانکہ وہ بچے اچھی طرح جانتے ھیں کہ ممدوح بچے کیا گُل کھلاتے پھرتے ھیں،، شوھر کو ھر وقت ٹوکتے رھنا کہ تم

بچے پر سختی نہیں کرتے ھو، اسے تھپکی دے کر اولاد پر پھینکنا کہ مرد بنو مرد،، باپ بن کے دکھاؤ،،بچہ فیس بک پر

بیٹھے تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد سلام پھیرنے کے انداز مین نظر ڈال لینا، کہیں شادی کا کہہ دے تو تمسخر اڑانا اور دنبی

میں دانا پڑنے کی بشارت سنانا ،، سہیلیوں کو فون کر کے بتانا کہ اس کا بیٹا" وہٹی "مانگتا ھے- جاب کی تلاش مین

دھکے کھا کر آئے تو اسے دیکھتے ھی کہنا" کھا آئے او" مجھے پہلے ھی پتہ تھا،، یا کہنا دوستوں کے ساتھ ھوٹلوں

میں بیٹھ کر گپیں لگا کر آ جاتے ھو ،تم کام ڈھونڈتے کب ھو،، کڑیاں پچھے پھر کے آ جاتے ھو،، شادی مین کوشش کرنا

کہ لڑکا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی نہ کرنے پائے بلکہ کسی ایسے رشتہ دار کی بیٹی سے شادی کرے جس نے

زندگی مین آپ پر احسان کیا تھا، تاکہ اسے بَلی کا بکرا بنایا جا سکے،، شادی کے بعد پہلی صبح کو دلہن کے کمرے

کے بعد اپنی برادری کی عورتوں کو لے کر گِــــــــدھــــــــــــوں کی طرح جھرمٹ لگا کر بیٹھ جانا تا کہ لڑکی کی عصمت کا

حساب کتاب ان خرانٹ عورتوں پر مشتمل جیـــــــــــــــــــــــــوری میں پیش کر کے نشانِ حیدر لیا جائے،، دو چار ماہ اولاد

کا سلسلہ نہ چلے تو ،،بار بار بچے کو اکیلے میں امان جی کا مشکوک انداز میں پوچھنا" منڈیا تو ٹھیک تو ھے ناں ؟
،
اور پھر تعویز دھاگے اور پیر بابے کے چکر،، پھر ھم بریکنگ نیوز سنتے ھیں،، پنڈی چھاونی میں حاضر سروس کیپٹن بیٹے

نے اپنے ریٹائرڈ برگیڈیئر والد ،والدہ اور تین بہنوں سمیت پورے خاندان کو رشتے کے تنازعے میں قتل کر دیا،، کل ماں اور

باپ کو قتل کرنے والا بیٹا اورنگی ٹاؤن مین گرفتار ! لوگ والدین کو کیوں مارتے ھیں ؟ اس لئے کہ وہ خود چلتی پھرتی

لاش ھوتے ھیں !! فــاعتبروا یا اولو الابصار،،اھل بصیرت عبرت پکڑو

یہ وہ ساری شکایات ھیں جو والدین یا بچوں کے ذریعے مجھ تک پہنچیں اور میں نے دونوں فریقوں کو یہ سمجھایا کہ اولاد کو اس طرح رسوا نہیں کرتے اور دوسری طرف اولاد کی سمجھایا کہ اگرچہ ان کے طریقہ کار میں خامی ھو مگر ان سے بڑھ کر تمہارا ھمدرد کوئی ھے نہ ملے گا، یہ تمہارے وجود کا حصہ ھیں اور تم ان کی ایکسٹینشن ھو،، وہ تمہیں اپنا آپ سمجھ کر اس طرح کا سلوک کرتے ھیں،،وہ جس طرح خود ھونا چاھتے ھیں تمہیں ویسا بنانے کی کوشش کر رھے ھیں یہ الگ بات ھے کہ وہ عمر کے فرق کو بھول گئے ھیں، اولاد نے وقتی طور پہ اگرچہ میری نصیحت کا برا بھی منایا مگر پھر وقت آیا کہ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ میری بات ھی ٹھیک تھی،جبکہ ان کو بھڑکانے والے انہیں دھوکا دے رھے تھے-
خود میری تربیت الحمد للہ والد صاحب نے اس طرح کی کہ مجھے محسوس ھی نہیں ھونے دیا کہ مجھے کوئی حکم دیا جا رھا ھے،زندگی بھر انہوں نے جب کوئی کام کروانا چاھا مجھ سے مشورے کے انداز میں پوچھا اور مجھے پتہ چل گیا کہ وہ کیا چاھتے ھیں،دین میں جبر نام کی کوئی چیز میں نے ان کی طرف سے محسوس نہیں کی،انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کو اور مجھ کو حکم دینے والی ایک ھی ھستی ھے اور ھم دونوں کو اس کے حکم پر برابر چلنا ھے اور اس چلنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ھے،اگر کہیں کوئی کوتاھی ھوئی ھے تو انہوں نے مجھ سے پہلے آگے بڑھ کر اسے عمر کا تقاضہ سمجھا اور بغیر معافی مانگے معاف کیا ھے اور بغیر نصیحت کیئے اپنے حسن سلوک سے نصیحت کر دی ھے،ان کے چہرے کی ایک ایک سلوٹ سے میں آگاہ تھا،ان کی ناراضی کو ان کے چہرے کی سلوٹ میں پڑ لیتا تھا اور درستگی پر اسی سلوٹ میں خوشی کا سورج طلوع ھوتے بھی دیکھتا تھا،مجھے اچھی طرح یاد ھے جب انہیں پتہ چلا کہ ھم بھائی فرضوں اور سنتوں کے بعد مسجد سے نکل جاتے ھیں اور تراویح نہیں پڑھتے بلکہ پاس کے ھوٹل کے باھر لگے ٹی وی پر ریسلنگ دیکھتے رھتے ھیں اور جب  وتر کی باری آتی ھے تو فوراً مسجد پہنچ کر شریک ھو جاتے ھیں تو بجائے ڈانٹنے کے جب انہوں نے قہقہ مار کر والدہ کو ھم بھائیوں کا یہ کارنامہ بتایا اور فرمایا کہ چھوٹے بھوت بڑے بھوتوں کو ٹھگتے رھے ھیں،،پھر فرمایا دیکھو مسجد سے نکل کر دوبارہ مسجد میں آنا بڑے کمال کی بات ھوتی ھے،اس کھیل میں بھی یہ کان اور دھیان اس بات پر رکھتے تھے کہ کب تراویح ختم ھوئی ھے اور وتر کھڑے ھوئے ھیں،، بس ان کا یہ فرمانا ھی ھماری اصلاح تھی، پھر زندگی میں کبھی ھم سے ایسی خطا نہیں ھوئی، آج جو اعتماد آپ کو مجھ میں نظر آتا ھے یہ اللہ کا فضل اور میرے والد کا مجھ پر احسان ھے کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کی حد کر دی ،ان کے نزدیک حنیف سب علماء سے زیادہ جانتا تھا اور حنیف کا کہا اخری ھوتا تھا، اسی اعتماد پر میں نے اپنی اولاد کی تربیت کی ھے،، میں نے کل جب وہ یونیورسٹی چلے جائیں گے تو بھی ان کے کہے پر اعتبار کرنا تھا،اس اعتبار کی ابتدا میں نے گھر سے کر دی تھی، یہ اعتبار کی مار بھی بڑی کارآمد ھوتی ھے،میں دسویں کلاس میں تھا،ظہر کی نماز کے بعد میں ھیڈ ماسٹر صاحب کے پاس گیا چھٹی لینے کے لئے جو صحن میں ھمارے اردو کے استاد ماسٹر نواز صاحب آف آدڑہ کے ساتھ ٹہل رھے تھے،میں نے کہا کہ  سر مجھے بخار ھے گھر جانا ھے،ماسٹر نواز صاحب نے ھیڈ ماسٹر سے کہا کہ یہ لڑکا ماشاء اللہ بہت لائق اور نمازی پرھیز گار ھے،بہانہ نہیں کرتا،ان کی اس بات پر ھیڈ ماسٹر صاحب نے چھٹی دے دی،مگر اس چھٹی کی خوشی ختم ھو کر رہ گئی ،ایک آدمی مجھے کتنا نیک سمجھتا ھے اور میں نے بہانہ کر کے اس کے اعتماد کو دھوکا دیا ھے،، اس کے بعد مین نے کبھی یہ حرکت نہیں کی اور زندگی بھر ان کے اعتماد و اعتبارکو یاد رکھا،بعد مین میں نے انہیں یہ بات بتائی جب میں ابوظہبی سے واپس چھٹی گیا تو انہوں نے ھنس کر کہا کہ یہ اعتراف بھی آپ کی نیک شرست کی نشانی ھے، آپ اولاد پر اعتماد کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ اس اعتماد کو ٹھیس نہ لگنے دیں،، آپ ان کی تعریف کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ آپ تعریف کر کے شرمندہ نہ ھوں،،آپ ان کے پاس نہیں ھوتے مگر آپ کا اعتماد ان کے ساتھ ھوتا ھے ،اسی اعتماد کی رشتے میں آپ بندھے ھوتے ھیں،، شک ھمیشہ تباھی مچاتا ھے ،جس کے دل میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی اور جس کے بارے میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی ،اس سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ھوتا، میں نے بالکل اسی اعتماد پر اولاد کو پالا ھے، انہیں اجازت ھے کہ وہ جس موضوع پر چاھئیں مجھ سے ڈسکس کریں،میرا بیٹا قاسم جو حافظِ قران بھی ھے ،عربی مادری زبان کی طرح بولتا ،لکھتا اور پڑھتا ھے، اس نے بہت سارے معاملات میں میری رائے کو تبدیل کیا ھے،  میں اگر پھر بھی پیدا ھوں تو اسی حیثیت مین پیدا ھونا چاھوں گا ،انہی والدین کے گھر ،اسی اولاد کے والد کی حیثیت سے،، یہ میرےاطمینان کی حد ھے،،

Monday, April 28, 2014

بہنوں اور بیٹیوں کیلئے ایک بہت خوبصورت سبق

بہنوں اور بیٹیوں کیلئے ایک بہت خوبصورت سبق
 یہ بات اپنی بہن ، بیٹیوں کو بھی سکھائیں ، آج کے دن بدن بگڑتے معاشرے میں یہ بہت ضروری ہے
میری زندگی میں پسند کی حد تک بھی کوئی مرد کبھی داخل ہی نہیں ہو پایا ، وہ بڑے اطمینان سے کہہ گئی ۔ اس کی بھی ایک وجہ تھی ۔ امی ابو کے بعد ممانی نے مجھے اپنی بیٹیوں کی طرح پالا اور ہمیشہ گھر سے نکلتے ہوئے ایک بات کہی کہ بیٹی ! زندگی میں ایک دن آتا ہے جب مرد عورت کی زندگی میں کسی طوفان کی طرح داخل ہوتا ہے یا پھر بہار کے        جھونکے کی طرح     شادی سے پہلے آنے والا مرد اکثر طوفان کی مثل آتا ہے جو اپنے پیچھے صرف اور صرف بربادی چھوڑ جاتا ہے ایسی بربادی جو اگر جسم کو پامال نہ بھی کرے تو روح پر اپنی خراشیں ضرور ڈالتی ہے ۔ جسم کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن روح کے گھاؤکبھی ختم نہیں ہوتے اور بربادی کی یادیں عورت کو کبھی اپنے شوہر سے پوری طرح وفا دار نہیں ہونے دیتی اور شوہر عورت کی زندگی میں اس بہار کے جھونکے کی طرح آتا ہے جسے جلد یا بدیر آنا ہی ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ عورت کا جوڑا اس کے دنیا میں آنے سے پہلے آسمانوں پر بن چکا ہوتا ہے
کیونکہ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں۔اس لئے کوشش کرنا کہ تم انتظار سے سانجھ پیدا کرو۔۔۔ میرا تم پر کوئی زور ہے نہ ہم تم پر نگاہ رکھے گے۔ہم تم پر اعتماد بھی کررہے ہے۔ اور تمہیں پوری آزادی بھی دے رہے ہیں ۔
کیونکہ تم تم ناجاہل ہو نہ غلام ۔طوفان سے آشنائی میں تمہارا بھلا ہے یا بہار کے انتظار میں ،
یہ فیصلہ اب تمہیں کرنا ہے ہم اس لئے بھی یہ اعتبار کا کھیل ۔۔کھیل رہے ہیں کہ ہمیں اپنی تربیت کا امتحان مقصود ہے

Sunday, April 27, 2014

حدیث سمجھ کر حوالہ جات نہ پوچھنا

اسے ایک اصلاحی کہانی سمجھئے گا،، حدیث سمجھ کر حوالہ جات نہ پوچھنا

 شروع کر دینا ! ایک شخص تھا جس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی غیرعورت کی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھاتھا، ایک بار کچھ یوں ہوا کہ وہ شخص بہت ہی زیادہ تنگ دست ہوگیا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ گھر میں فاقے شروع ہوگئے.. اس شخص کی ایک جوان بیٹی بھی تھی، جب فاقے انتہا سے بڑھ گئے تو وہ لڑکی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی حالت دیکھ کر غلط قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی، دل میں ارادہ کرکے گھرسے نکلی کہ اپنا جسم بیچ کر کچھ کھانے کا سامان کرونگی.. وہ گھرسے نکل کر پوچھتے پوچھتے ایسے علاقے میں جا پہنچی جہاں پر جسم فروشی کی جاتی تھی، وہ لڑکی وہاں جاکر اپنی ادائیں دکھا کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے لگی، لیکن کسی ایک شخص نے بھی اسکی طرف توجہ نہیں دی توجہ تو دور کسی نے اسکی طرف نظر تک اٹھا کرنہیں دیکھا، لوگ آتے اور اسکی طرف نظر اٹھائے بنا گزرجاتے.. خیر اسی طرح کھڑے کھڑے لڑکی کو شام ہوگئی، وہ کافی دلبرداشتہ ہوکر گھر کی جانب قدم بڑھانے لگ گئی.. جب گھر پہنچی تو اپنے باپ کو منتظر پایا، پریشانی میں مبتلا باپ نے پوچھا "بیٹی تو کہاں چلی گئی تھی؟؟؟ لڑکی نے باپ سے مافی مانگی اور رو رو کر سارا ماجرا بیان کیا کہ "ابو مجھ سے اپنے بھوک سے بلکتے ہوئے بہن بھائیوں کی حالت دیکھی نہیں گئی اور میں مجبور ہو کر گناہ کرنے نکل پڑی، لیکن کسی ایک بھی شخص نے بھی میری طرف نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھا... سارا ماجرا سننے کے بعد باپ نے اپنی بیٹی سے کہا کہ "بیٹا تیرے باپ نے آج تک کبھی کسی غیر عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی تیری طرف نظر اٹھا کر دیکھے" دوستو ہماری سوچ کے راستے بہت وسیع ہیں امید کرتیں ہیں یہ تحریر پڑھنے کے بعد آپ اس بارے میں ضرور سوچیں گے

Thursday, April 24, 2014

لوگو ایک بڑی اھم بات ھے

یار لوگو ایک بڑی اھم بات ھے ،جو ھر گھر کا فسانہ ھے اور صدیوں سے جاری ھے ،مگر اس کا معمہ نہ تو مذھب حل کر سکا ھے، اور نہ فلسفی،، یہ ھر مذھب کی کہانی ھے،، ھر ملک،رنگ،نسل اور زبان میں یکساں ماجرا ھے،، اتنی یکسانیت دنیا کے کسی اور مسئلے مین نہین پائی جاتی،، مگر اس کو خواتین حل کر سکتی ھیں،اگر وہ سچ بولنے کا تہیہ کر لیں اور اندر کی بات بتا دیں،،مذھب نے تو ھاتھ کھڑے کر دیئے ھیں،، اور اجازت دے دی ھے کہ جھوٹ بول کے جان بچاؤ،، گھر کا ماحول اور اولاد کا مستقبل بچاؤ،،کوئی گناہ نہیں،، یعنی حدیث میں گھریلو ماحول درست رکھنے کے لئے جھوٹ کی اجازت دی گئی،، مسئلہ یہ ھے کہ مرد جب کوئی بھی چیز لاتا ھے تو عورت یہ کیوں پوچھتی ھے کہ کتنے کی لائے ھو؟ پھر مرد اگر قیمت سچ بتاتا ھے تو عذاب بن جاتا ھے،، اور پھر اس کو 50 کی چیز 30 کی بتانا پڑتی ھے،، اس پر بھی اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ کہا جاتا ھے کہ چٹ دکھاؤ ،، رسید کہاں ھے؟بائی دا وئے اگر وہ چیز مہنگی بھی لایا ھے تو اس کی اپنی کمائی ھے،، کوئی سسرال سے مانگ کے تو لایا نہین اور نہ سالوں کی کمائی ھے،، نفع نقصان اس کا اپنا ھے،، فساد کیوں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی کمپلیکس ھے؟ اگر شوھر یہی سوال عورت سے کرنا شروع کر دے تو قیامت آ جاتی ھے کہ جناب شوھر بہت سخت ھے،، بات بات پر حساب لیتا ھے،، جی رسیدیں چیک کرتا ھے،،مگر مرد کہاں جائے،،کس سے فریاد کرے؟ آپ کہہ سکتے ھیں کہ یہ مرد کی ھی خیر خواھی ھے ایسی خیر خواھی جو گھر اجاڑ دے ،، نادان دوست کی دوستی جیسی ھوتی ھے جو کہ عقلمند کی دشمنی سے بدتر ھوتی ھے ! یہی خیر خواھی جب مرد کرے اور بات بے بات پوچھے کہ یہ چیز کتنے کی لائی ھو،، رسید دکھاؤ یا قیمت کا سٹکر دیکھ کر کہے کہ ابھی جاؤ جا کر واپس کر کے آؤ ،، تو پھر یہ ظلم کیوں بن جاتا ھے؟ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے مرد کا دل عورت کی طرف سے خراب ھو جاتا ھے ، اور عورت پوچھتی پھرتی ھے کہ ان کو ھوا کیا ھے ؟پچھلے رمضان کی بات ھے شوھر مارکیٹ سے ایک الیکٹرونک چیز لے کر آیا ،، بیوی کو حسبِ معمول کم قیمت بتائی ، بیوی نے اسے کہا کہ یہ مہنگی ھے اس کے بدلے فلاں چیز لے آؤ ، شوھر نے کہا کہ میں واپس نہیں جاؤں گا ،، کیونکہ وہ قیمت کا اسٹیکر اتار چکا تھا،، شوھر یہ بات کہہ کر نماز پڑھنے چلا گیا ! بیوی زیادہ چالاک بنی اور اپنے بہنوئی کو بلا کر کہا کہ امارات جنرل مارکیٹ میں جاؤ اور انہیں کہو کہ فلاں چیز کے ساتھ تبدیل کردیں اور قیمت وھی بتائی جو شوھر نے بتائی تھی ! اس نےبالکل اسی طرح کیا جیسے باجی نے کہا تھا ،،چونکہ قیمت بہت کم بتائی گئ تھی اور اسٹکر بھی ھٹا دیا گیا تھا ،، مارکیٹ والوں کو شک پڑا کہ اس نے یہ چیز چوری کی ھے ! انہوں نے سیکورٹی گارڈ بلا کر بندہ گرفتار کرا دیا ! وہ بے چارہ اپنے ھم زلف کو فون کرے جو تراویح پڑھنے گیا ھوا تھا - جب تک ساڈو صاحب تراویح پڑھ کر آتے وہ حضرت پولیس اسٹیشن منتقل ھو چکے تھے،، ھم زلف نے مارکیٹ جا کر ان کو رسید دکھائی جو کہ وہ گاڑی میں ھی چھوڑ گئے تھے ،"بیوی کے ڈر سے "مارکیٹ والے مینیجر صاحب بات کو سمجھ گئے کیونکہ وہ بھی شادی شدہ تھے ،کیس واپس لے لیا مگر یہاں کا قانون ھے کہ بندہ ایک دفعہ شرطے چلا جائے تو کفیل ھی واپس لاتا ھے ،ویسے پولیس نہیں چھوڑتی ، اب اس کا کفیل عمرے پر گیا ھوا تھا ، عید والے دن اپنا عشرہ اعتکاف پورا کر کے آیا اور ساڈو جی کا رمضان اور عید پولیس اسٹیشن مین ھی گزری ! اس سے بھی آگے کی چیز ،، آپ پراجیکٹ مینیجر ھیں 500 آدمی آپ کے انڈر کام کر رھا ھے اور کروڑوں کے بل آپ کے دستخط سے پاس ھوتے اور چیک بنتے ھیں، بڑی بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیاں آپ تک رسائی پانے کے جتن کرتی ھیں،، آپ کے ماتھے کا ایک بل گئ گھرانے معاشی طور پر برباد کر دیتا ھے،،مگر بیوی آپ کو ایک درھم کے دھنیا کے لئے دکان کے دو چکر لگوا دے گی کہ تبدیل کر کے لاؤ ،، تمہیں دھنیا کی بھی پہچان نہیں،،؟ آپ کہیں کہ اسے کچرے میں پھینک دو میں دوسرا لے آتا ھوں،، پھر وھی ڈال لے گی کہ نیا نہیں لاؤ اسی سے گزارا کر لیتی ھوں،، یہ ھے مرد کی ویلیو ،، یہ گزارہ اعتراض کرنے سے پہلے بھی کیا جا سکتا تھا،، یہ کمپرومائز ایک درھم کے ساتھ ھوا ھے ، شوھر کے ساتھ نہیں !
ایک میاں بیوی امریکہ سے تشریف لائے ھوئے تھے اور ٹی وی پر انٹرویو چل رھا تھا،، وہ بتا رھے تھے کہ میں سیب لایا 35 روپے کے درجن لایا ،، پرانی بات سنا رھے تھے،، اس نے پوچھا تو میں نے 26 کے درجن بتا دیا،، اگلے دن پڑوسن آئی تو میری بیوی نے اس کو بھی 26 روپے درجن ریٹ بتا دیا،، اس کا شوھر پورا بازار گھوم کے آ گیا مگر کہیں بھی 26 کے درجن نہ ملے،، تو میری بیوی اپنے اٹھا کے اسے دے دیئے اور 26 روپے لے لیئے اور جب مین گھر واپس آیا تو بولی وہ سیب میں نے پڑوسن کو 26 کے دے دیئے ھیں،، کل آتے ھوئے اپنے پکڑ کے لے آنا،،،، ایک صاحب بیوی کا سوٹ لائے 65 درھم کا ،،مگر بیوی کو 45 کا بتایا کہ یہ ھمیشہ شور کرتی ھے تم مہنگا لاتے ھو،،ایک تو پیار سے سوٹ لاؤ اور الٹا بے عزتی کراؤ،، اور موڈ الگ خراب،، خیر بیوی نے وہ اٹھا کر سہیلی کو 45 درھم کا دے دیا کہ میرے پاس پہلے ھی ایک سوٹ پڑا ھوا ھے،یہ تم لے لو ،، میری خواتین سے گزارش ھے کہ وہ اس سوال سے کیا حاصل کرنا چاھتی ھیں،، اور اپنی کس حس کی تسکین کرتی ھیں،، اگر بات واضح ھو جائے تو شاید بچیوں کی تربیت سے جھوٹ کی اس فیکٹری کو بند کرنے میں مدد ملے،،

Tuesday, April 22, 2014

فریب خوردہ قوم !

فریب خوردہ قوم !
حقیقت میں اسلامی نظام کے نام پر سزاؤں کا نفاذ ھمارا مطمع نظر ھے،یعنی جس ملک میں اسلامی سزاؤں کا نفاذ ھو جائے لوگ ھاتھ کاٹنا اور سنگسار کرنا شروع کر دیں،،لوگ کہیں گے کہ اسلام آ گیا ! یہ آج کے مسلمان کا کانسیپٹ ھے ،اسلامی نظام کے بارے میں اور یہ ضیاء صاحب کے دور میں زیادہ اسٹیبلیش ھوا ھے ،، 
اب بھی جب کہا جاتا ھے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ھے یا پاکستان ایک اسلامی ملک ھے تو لوگ سوال کرتے ھیں کہ 1947 سے کتنے لوگوں کے ھاتھ کاٹے گئے ھیں؟ کتنے لوگوں کو سنگسار کیا گیا ھے ؟ یہ ھے ھمارا اسلامی نظام ،، 18 کروڑ میں سے 16 کروڑ کے ھاتھ کاٹ دیجئے تو اسلام آ جائے گا ! اس کے علاوہ کونسا اللہ کا حکم ھے جو پوری دنیا میں پورا نہیں کیا جا سکتا؟ کوئی نماز سے روکتا ھے؟ کوئی روزے سے منع کرتا ھے ؟ کوئی زکوۃ سے روکتا ھے ؟ شہادتین سے منع کرتا ھے،، حدیثِ جبریل میں تو یہی اسلام ھے ! اب رہ گیا معاشی نظام تو وہ پوری دنیا میں ممکن نہیں ھے،جب کہ مکے مدینے والی خودکفیل ریاست میں ممکن نہیں ھے ،جہاں تیل نہ بھی ھو، حج اور عمرے والوں کا زرمبادلہ ھر لحظہ بارش کی جھڑی کی طرح مسلسل برستا رھتا ھے ،، ھم تو ھیں ھی بھکاری قوم ! تحت الثراء تک قرضوں میں جکڑی ھوئی قوم ،،ھم قرض کی ادائیگی سے کیسے انکار کر سکتے ھیں ؟ جن لوگوں کو یہ زعم ھے کہ ھم ایک خود مختار مالیاتی نظام کھڑا کر سکتے ھیں میری ان سے گزارش رھی ھے کہ " ھم نے ھزاروں جانیں اور عصمتیں قربان کر کے صومالیہ میں ایک بنی بنائی حکومت گرائی ھے اور اسے تہس نہس کر دیا ھے، اب وہ ٹھیک 1434 سال پرانا ملک ھے ! کسی کے قرضے میں مقروض نہیں،، اس کی کوئی کرنسی نہیں،، کوئی بینک نہیں،،بس سارے مخلص مسلمان وھاں تشریف لے جائیے اور ایک غیر سودی مالیاتی نظام کھڑا کر دکھائیے ،، تا کہ سند رھے،، اب بھی شاید کوئی بھائی گوگل سرچ کر کے تقی عثمانی صاحب کا کیا ھوا " نیٹ پریکٹس ٹائپ " مالیاتی سسٹم شیئر کر دے گا کہ یہ لو ،کام تو سارا ھو چکا ھے بس اب حکومت اس کو نافذ کرے ،، مگر حقیقت یہ ھے کہ وہ صرف دھوکا ھے،، اتنا سارا دھوکا جتنا آپ کے وضو کا پانی واش بیسن سے کموڈ والے 4 انچ پائپ میں جا کر مکس اپ ھوتا،، پھر دونوں ایک جیسے ناپاک ھو جاتے ھیں،، مفتی صاحب کا بنایا ھوا مالیاتی نظام صرف ایک برانچ سے دوسری برانچ کا سفر ھے وھی جو فیصل بینک میں حلال اور پاک ھوتا ھے وھی شام کو اسٹیٹ بینک اور بھر سٹی بینک یعنی عالمی مالیاتی نظام میں پہنچتے ھی پھر وھی ناپاک بن جاتا ھے ،، یہ اب اضطرار بن چکا ھے تا آنکہ ایٹمی جنگ میں دنیا تباہ ھو کر واپس پتھر کے دور میں پہنچ جائے اور لوگ گندم دے کر گاجریں خریدیں اور بکری بیچ کر آٹا ،، بارٹر سسٹم شروع ھو جائے ،، ھمارے مجاھدین اسی لئے ایٹمی ھتھیاروں تک رسائی چاھتے ھیں ! اگر ایک شخص ان تمام معاملات میں اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت کرتا ھے جن میں  وہ اطاعت کرنے کی استطاعت رکھتا ھے،تو اللہ پاک اسے ان معاملات میں معاف فرما دے گا جن میں وہ مجبور کر دیا گیا تھا جن میں سودی نظام بھی شامل ھے، لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا ،، اور رفع عن امتی ثلاث،، الخطاء والنسیان وما استکرھوا ! میری امت سے تین باتوں پر پرسش معاف کر دی گئ ھے ،، غلطی ، بھُول چوک اور جس پر اسے مجبور کر دیا جائے ! جب بندہ اپنی استطاعت میں بری ھو جائے گا تو معاف کر دیا جائے گا،،مگر ایک مسلمان جب اپنے اخلاقیات اور اردگرد کے معاملات میں جن میں وہ عمل کرنے میں آزاد ھے بودا ثابت ھو جائے گا،، تو پھر باقی کے بارے میں وہ ماخوذ ھو گا ! آج مسلمان معاشرے عام انسانی اقدار سے بھی کوسوں دور ھیں،، ھر برائی اپنی بدترین شکل میں ان میں موجود ھے، بڑے بڑے دیندار اور خود وہ جو اللہ کے دین کے نفاذ کا خوشنما دعوی لے کر اٹھے ھیں خود وہ انسانیت کے اجتماعی قتل کے مجرم ھیں،، عبادت گاھوں کو نمازیوں سمیت اڑانے کے مجرم ،، سکول وینوں کو بچوں سمیت اڑانے کے مجرم ،، بازاروں کو خریداروں سمیت اڑانے کے مجرم ،، ھر نیک و بد ان کے نشانے پہ ھے ! یہ لوگ اسلام کے نام پر اپنی ذاتی ڈکٹیٹر شپ چاھتے ھیں ،، اور کچھ نہیں،، یہ روئے زمین پر بدترین مخلوق ھیں،، یہ اللہ کے اختیارات کو سلب کر کے اپنی ذات میں مرتکز کرنا چاھتے ھیں،، یہ چاھتے ھیں کہ یہ لوگوں کے بالوں کا اسٹائل طے کریں ،، اور کپڑا آپ کا ھو مگر ناپ وہ طے کریں ! یہ گسٹاپو کا مذھبی روپ ھے اور کچھ نہیں ! اس کو یہ لوگ اسلامی نظام کہتے ھیں !

ماں کو خوشخبری سنائیں

ھم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے !
اگست کی تپتی دوپہر ، تندور کی طرح لـُـو کی لپٹیں اٹھاتی گلیوں میں سے وہ دوڑتا ھوا ماں کے پاس پہنچا جو ایک تالاب پر کپڑے دھونے آئی ھوئی تھی !
امی ، امی ابو کا خط اس نے ماں کو خوشخبری سنائی ! تیسری کلاس میں پڑھتے اپنے بیٹے کے تپتے ھوئے چہرے کو دیکھتے ھوئے اس نے اسی کو خط پڑھنے کو کہا کیونکہ وہ خود ان پڑھ تھی !
بیٹا خط کھول رھا تھا اور وہ کھڑی ھو کر کوئی کپڑا نچوڑ رھی تھی جب اچانک بیٹے نے خط کا سرنامہ پڑھا ،،،،،،،،،،،طلاق نامہ ،،،،،،،،،،،،،،
سرنامہ پڑھ کر بچے نے مزید آگے پڑھنے سے پہلے ماں کی طرف دیکھا، جس کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر دوبارہ تالاب کے پانی میں گر گیا تھا اور وہ کمر کو پکڑ کر بیٹھنے کی کوشش کر رھی تھی ! معصوم بچہ جسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ طلاق نامہ کیا بلا ھوتی ھے ! یہ خوشخبری ھوتی ھے یا کسی کی زندگی کی تباھی کا اعلان نامہ ! وہ ماں کی حالت دیکھ کر پریشان ھو گیا جو اسے ھاتھ کے اشارے سے مزید آگے پڑھنے سے روک رھی تھی ! ماں نے دھلے ان دھلے سارے کپڑے لپیٹے اور گھر واپس آ گئ ! فردِ جرم یہ لگائی گئ کہ میں نے جب تمہیں بہن کے گھر جانے سے منع کیا تھا تو تم اس کے گھر کیوں گئ ھو ! وہ دو بہنیں ھی تھیں اور کوئی ان کا تھا بھی نہیں ! نہ والدین نہ بھائی !
طلا ق کے بعد وہ 24 سال کی عمر میں بہن ھی کے گھر کے ایک کمرے میں رھنے لگی ! باپ کی کوشش کے باوجود بیٹا ماں کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا ، حساس طبیعت بچے نے اس واقعے کو اپنی زندگی کا دکھ بنا لیا اور اس دکھ کو محنت میں تبدیل کر کے تعلیم پر پوری توجہ مبذول کر دی،، وہ اس چھوٹی عمر میں ھی محنت کرنے لگ گیا اور اپنے تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرتا ! ماں اسے چنے چاٹ بنا دیتی جو وہ عصر اور مغرب کے درمیاں بیچ دیتا ،، وہ بورا تربوز کا ایک دفعہ خرید لیتے جسے وہ روزانہ عصر کے بعد اور چھٹی والے دن بیچتا،، ماں لوگوں کے گھروں کا کام کرتی یوں گھر کے اخراجات چلتے ! وقت گزرتے دیر نہین لگتی بی اے کرنے کے بعد اس نے ایل ایل بی کا امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے پاس کیا ،، لاھور ھائی کورٹ سے لائسنس ملنے کے بعد اس نے اپنی تحصیل میں پریکٹس شروع کی ! عموماً وہ سول کیس لیتا تھا اور خاص کر طلاق کے کیس تو اس کے پاس کثرت سے آتے تھے ! وہ جب عدالت میں کھـڑا ھوتا تو ھر طلاق یافتہ عورت اسے اپنی ماں لگتی وہ ان عورتوں کے مستقبل کو یوں جانتا تھا جیسے اپنی ماں کے ماضی کو ،، اپنا درد جب وہ الفاظ میں سمو کر جج سے مخاطب ھوتا تو پوری عدالت کا ماحول جذباتی ھو جاتا ،، وہ سب کچھ جو وہ چھوٹا ھونے کی وجہ سے باپ سے نہ کہہ سکا تھا وہ طلاق دینے والے کے کانوں میں پگھلے ھوئے سیسے کی طرح اتار دیتا،، بہت سارے مقدموں میں صلح بھی ھو جاتی اور گھر بس جاتے ،مگر ھر کیس کا فیصلہ اس کے حق میں ھی ھوتا !
وقت نے اسے سول جج اور میجسٹریٹ دفعہ 30 بنا دیا ،،

ماں کے دکھ نے اسے مذھب کی طرف مائل کر دیا تھا ! دکھ ایک دھکا ھوتا ھے جو کسی کو گمراھی کے تالاب میں گرا دیتا ھے تو کسی کو اللہ کے قدموں میں لا ڈالتا ھے ! اس نے سکول کی تعلیم کے دوران ھی قرآن بھی حفظ کر لیا تھا ! جب وہ اپنی مشت بھر داڑھی کے ساتھ قراقلی پہن کر عدالت میں بیٹھا ھوتا تو لگتا کوئی خطیب ھے، وہ ظہر کی نماز کا وقفہ کر کے باقاعدہ نماز جماعت کے ساتھ کچہری کی مسجد میں ادا کرتا ! اس کی شادی اسی خالہ کی بیٹی سے کر دی گئ تھی جن کے گھر وہ رھتا تھا !
عدالت میں جب بھی کوئی طلاق کا کیس آتا تو اسے ایک لمحے کے لئے ایک جوان عورت کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر گرتا نظر آتا اور دوسرے لمحے وہ عورت اپنی کمر پہ ھاتھ رکھے زمین بوس ھوتی نظر آتی ! ساری زندگی یہ کلپ اس کا پیچھا کرتا رھا ،جس کا پرتو اس کے ھر فیصلے میں نظر آتا ! ماں کی دعاؤں کا اثر تھا یا اس کی دیانت تھی کہ وہ جھٹ پٹ سول سے سیشن جج بنا اور اس کی پوسٹنگ اسلام آباد کچہری میں ھو گئ،، جہاں اسے کئ وزراء اعظم کی ضمانت اور کئ کے وارنٹ جاری کرنے پڑے ! 

اس کے والد اور والدہ مقبوضہ کشمیر کے ایک ھی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے ! 1948 کی ھجرت کے دوران اس کی والدہ کا سارا خاندان تہہ تیغ کر دیا گیا تھا ،، صرف دو بہنیں زندہ بچ گئ تھیں وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ اس وقت کسی کے گھر گئ ھوئی تھی کھیلنے کے لئے ! اس کے نانا گاؤں کے امیر ترین آدمی تھے ! گائیں بھینسیں زمینیں اور کھیتی باڑی ،، ھندو ان کے ملازم تھے اور وھی ڈوگروں کو چڑھا کر لائے تھے ! اس کے دادا نے گاؤں سے نکلتے وقت ان دونوں بہنوں کو بھی ساتھ رکھ لیا یوں اس کے والد اور والدہ ایک ھی گھر میں اکٹھے کھیل کود کر جوان ھوئے تھے !
یہ شادی بھی دونوں کی رضامندی سے ھوئی تھی ! طلاق کے باوجود والدہ نے کبھی بھی اسے والد کے خلاف نہیں بھڑکایا ،ھمیشہ اسے والد کا احترام کرنے کی نصیحت کی، والد نے دوسری شادی کر لی تھی جس سے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں،، دوسری بیوی نے اس کے والد کو تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیا تو اولاد تو اللہ کا عذاب بن کر آئی ،، اسے اکثر اپنی والدہ کی بات یاد آتی، بیٹا وہ تیرے والد ھیں،تو ان سے تعلق رکھ اور ان کا احترام کر ،، میرا حساب اللہ دنیا میں چکا دے گا ورنہ آخرت تو پڑی ھوئی ھے وھاں دیکھ لیں گے ! مگر وہ سلام دعا کرنے کے باوجود والد کے ساتھ کوئی قلبی تعلق پیدا نہ کر سکا ! اس کا والد جب اپنے دوسرے بیٹوں کے پیچھے گلی گلی ٹوکا لیئے دوڑ رھا ھوتا تو اسے تعجب ھوتا کہ کل تک اتنا سنجیدہ انسان جو اس کا آئیڈیل تھا ، آج اولاد اسے کس مقام پر لے آئی تھی ! سرکاری نوکری سے ریٹائرڈ ھونے کے بعد اس کے والد کا رعب داب اور ٹھاٹ بھاٹ سب ختم ھو گئے تھے،، جب کبھی وہ گھر میں والد صاحب کی درگت بیان کرتا تو اسے محسوس ھوتا جیسے اس کی ماں بجائے خوش ھونے کے دکھی ھو جاتی ھے ! یہ بات اسے بعد میں اچھی طرح معلوم ھو گئ کہ اس کی ماں طلاق کے صدمے کے باوجود اس کے والد کی محبت کو دل سے نہیں نکال سکی تھی ،، اور اسی وجہ سے اس نے دوسری شادی کے لئے نہایت معقول پیش کشیں ٹھکرا دی تھیں !
جب کبھی وہ دوسرے بھائیوں کی شرارتیں اور والد کا گلی گلی ان کے پیچھے دوڑنا ماں کو بتاتا تو وہ افسردہ ھو کر کہتی " بیٹا جب انسان اللہ کی ناشکری کرتا ھے تو اس کی سزا بھی اسی صورت میں پاتا ھے،، تیرے جیسے ھونہار بیٹے کا بچپن خراب کر کے تیرے ابا نے اللہ کی ناشکری کی تھی، اللہ نے اولاد ھی کی صورت میں ان کو عذاب دے دیا اور میرے ساتھ جو کیا ،، وہ دوسری بیوی کی صورت میں پا لیا ! تو ان کے یہاں جایا کر اور جو خدمت ھو سکتی ھے وہ بھی کیا کر ،، وہ اولاد کی طرف سے دکھی ھیں،، تو کوشش کیا کر کہ تو ان کو وقت دے سکے ! ماں کے مجبور کرنے پر جب کبھی وہ مسجد سے نماز پڑھ کر والد کے ساتھ ھی ان کے گھر جاتا تو ،، اسے محسوس ھوتا جیسے والد اپنے کیئے کی کوئی وضاحت کرنا چاھتے ھیں مگر شاید ان کو الفاظ نہیں ملتے یا وہ اس کے رد عمل سے ڈرتے ھیں کہ کہیں جو تھوڑا بہت تعلق ھے وہ بھی نہ ٹوٹ جائے ! ایک دفعہ رات کو زور کی آندھی چلی ،گرمیوں کا موسم تھا سارے چھتوں پہ سوئے ھوئے تھے وہ اس وقت نویں کلاس میں پڑھتا تھا ،، والدہ نیچے صحن میں تھی اور وہ انہیں چھت پر سے چارپائی پکڑا رھا تھا جب ھوا کے تیز تھپیڑے نے اسے چھت سے نیچے دھکیل دیا ! اس کے والد جو پڑوس میں اپنی چھت پر سے یہ منظر دیکھ رھے تھے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ سیڑھیاں اترنے کی بجائے چھت پر سے گلی میں چھلانگ لگا کر دوڑے ، اور سیدھے ان کے گھر میں آ گھسے ! وہ چھت سے چھاتی کے بل گرا تھا اور سینے پر براہ راست لگنے والی چوٹ نے شاید اس کا دل بند کر دیا تھا یا گرتے وقت جو چیخ اس نے ماری تھی پھر پھیپھڑوں پر لگنے والے دھچکے نے سانس کا ردھم الٹا کر رکھ دیا تھا،، وہ سانس اندر لینا چاھتا تھا جبکہ پھیپھڑوں میں ایکسٹرا بھری ھوئی " ھوا " سانس اندر آنے نہیں دے رھی تھی بلکہ باھر دھکیل رھی تھی،، جو بھی تھا اس کی آنکھیں سفید ھو چکی تھیں اور والدہ کو اس آدھی رات اپنا چاند ڈوبتا نظر آرھا تھا ! ایسے میں اس کے والد کی آمد نے ماں کو حوصلہ دیا انہوں نے آتے ھی اس کی حالت کا اندازہ لگا لیا اور اسے لیٹے لیٹے اپنے منہ سے سانس دی ،اور پھر بٹھا کر اس کی چھاتی کو ملنا شروع کیا ! اس کی حالت سنبھل گئ تو والد نے اس کی والدہ سے کہا کہ میں دودھ بھیجتا ھوں اسے گرم دودھ میں ھلدی ڈال کر دو ! یہ پہلا مکالمہ تھا جو اس نے چھ سالوں بعد اپنے والد اور والدہ کے درمیان سنا تھا ! صبح اس کی سوتیلی ماں آئی تو اس نے بتایا کہ رات کو انہوں نے سیڑھیوں سے اترنے کی بجائے باھر گلی میں چھلانگ لگا دی تھی جس کی وجہ سے ان کے اپنے پاؤں میں سخت موچ آ گئ ھے ! اس دن اسے احساس ھوا کہ اس کے والد بہرحال اس سے پیار کرتے ھیں !؛

پارٹ ٹائم ٹیویشن پڑھانے کے باوجود والدہ اور اپنی یونیورسٹی کے اخراجات کے لئے اسے پیسے کا انتطام کرنا مشکل ھو رھا تھا ! ایسے میں گاؤں کے ایک صاحب جو اس کے والد کے دوست تھے اور لندن سے پینشن لینے کے بعد مستقل گاؤں میں ھی آ کر آباد ھو گئے تھے ! نام تو ان کا نور حسین تھا مگر کافی تعلیم یافتہ بھی تھے اور گورے چٹے ھونے کی وجہ سے لوگ ان کو بابو جی ،بابو جی کہہ کر پکارا کرتے تھے ! انہوں نے اسے ایک دن بلایا اور کہا کہ مجھے معلوم ھے کہ تعلیم کی وجہ سے آپ کو اخراجات کو manage کرنا مشکل ھو رھا ھے،، میں آپ کی یونیورسٹی کی سہ ماھی فیس جمع کرا دیا کروں گا ، آپ جب کام پر لگ جاؤ گے تو مجھے آئستہ ائستہ اسی ترتیب سے ادا کر دینا ! خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ،، ایک بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا تھا !
جس دن اس کی گریجویشن کی تقریب تھی وہ خود بابو جی کے پاس چل کر گیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ یونیورسٹی مہمان کے طور پہ چلیں ! انہوں نے اسے کہا کہ بہتر یہ ھے کہ وہ اپنے والد کو ساتھ لے کر جائے کیونکہ یہ ان کا حق ھے مگر اس نے کہا کہ سر آپ نے میرے اوپر اتنی مہربانی کی ھے ، آپ نے والد والی جگہ کام کیا ھے ،، آپ بھی میرے والد کی جگہ ھیں اسی لئے میں خود چل کر آپ کے پاس آیا ھوں ،، انہوں نے اس کا ھاتھ پکڑ کر اپنے دائیں طرف بٹھایا اور بڑی سنجیدگی سے کہا " یاد رکھنا والد والی جگہ دنیا میں کوئی نہیں لے سکتا " یہ دھوکا زندگی میں کبھی نہ کھانا ،، میں نے جو کچھ تمہارے ساتھ کیا ،، تمہارے والد کے کہنے پر ھی کیا ھے، وہ سارے پیسے تمہارے والد کے ھی تھے اس نے اپنے چراٹ سیمنٹ کمپنی کے سارے شیئر مجھے بیچ کر وہ رقم تمہارے لئے ارینج کی تھی ،، تمہیں اس لئے نہیں بتایا گیا تھا کہ شاید تم جزباتی ھو کر پیسے قبول کرنے سے انکار کر دو ،، بیٹا تمہارا باپ تمہارے ساتھ نہایت مخلص ھے ، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اور تمہاری ماں کے ساتھ اس نے جو کیا ھے وہ اس پر بھی شرمندہ ھے ،، بقول اس کے اس نے ایک ھی طلاق لکھی تھی اور وہ بھی ڈرانے کی نیت سے ،،مگر وہ یہ سمجھتا تھا کہ طلاق تین دفعہ لکھنے سے ھی واقع ھوتی ھے ،، بس یہ وہ غلط فہمی ھے جو اکثر لوگوں کو ھوتی ھے کہ تین دفعہ طلاق لکھو تو طلاق ھوتی ھے ! وہ بابو جی کے پاس سے اٹھ کر آیا تو سیدھا ماں کے پاس گیا اور ان کو وہ سب کچھ بتایا جو بابو جی سے سن کر آیا تھا ! ماں نے اسے کہا کہ میں نے تمہیں اسی لئے ھمیشہ یہ کہا تھا کہ اپنے والد کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آؤ ! وہ دل کے بہت اچھے انسان ھیں ! طلاق والی بات بھی انہوں نے مجھے کسی ذریعے سے پہنچائی تھی کہ وہ مسئلہ پتہ کر کے رجوع کر لیں گے مگر میں نے انکار کر دیا تھا،، البتہ پیسوں والی بات میرے لئے نئ ھے ، تم جاؤ اور ان کو کل کے لئے دعوت دو اور اصرار کر کے انہیں ساتھ لے کر جانا !
وہ والد صاحب کی حویلی میں داخل ھوا تو اس کی باڈی لینگویج ھی تبدیل ھو چکی تھی ، آج وہ شرمندہ شرمندہ سا لگ رھا تھا ، والد صاحب کے ھاتھ میں چائے کی پیالی تھی جو انہوں نے اسے ھی پکڑا دی اور اپنے لئے دوسری پیالی منگوا لی ! عام طور پہ وہ والد صاحب کے گھر بہت کم کھاتا پیتا تھا مگر آج اسے احساس ھوا کہ وہ گھر میں بھی والد صاحب کا ھی کھا رھا تھا ! جب وہ چائے پی چکا تو والد صاحب نے پیالی پکڑنے کو ھاتھ آگے بڑھایا ، اس نے پیالی تو نیچے رکھ دی اور والد صاحب کا ھاتھ پکڑ لیا ،، ان کا ھاتھ اپنے دونوں ھاتھوں میں لے کر اس نے انہیں کہا کہ کل اس کی گریجویشن تقریب ھے ،وہ چاھتا ھے کہ وہ اس کے ساتھ چلیں،، اسے محسوس ھوا جیسے والد صاحب کا ھاتھ آئستہ سے کانپا ھے ! انہوں نے اسے گہری نظر سے دیکھا اور حامی بھر لی !

تقریب میں اس کے دائیں طرف والد صاحب اور بائیں طرف والدہ تھیں ! جب وہ سند لے کر اترا تو سیدھا ماں کی طرف آیا ماں نے اس کا ماتھا چوما ، وہ رو رھی تھیں،، اس دن کے انتظار میں وہ زندہ تھیں،، ماں سے مل کر وہ والد صاحب کی طرف جھکا تو وہ والدہ کی طرح ماتھا چومنے کا منتظر تھا ،کیونکہ خوشی کے موقعے پر اس ماتھا چومنے کی رسم کے علاوہ اسے اور کسی رسم کا تجربہ نہیں تھا، مگر آج اسے ایک نیا تجربہ ھونا تھا ،، وہ جب تیسری کلاس میں پڑھتا تھا تو جب بھی والد گھر آتے وہ ھمیشہ ان کے پاس سوتا تھا، ان کے پسینے کی خوشبو اس پہ جادو کا اثر کرتی تھی ! ماں کو طلاق ھو جانے کے بعد اس نے کبھی اس پسینے کی خوشبو نہ سونگھی تھی نہ اس کا مطالبہ کیا تھا اور نہ وہ اس کی امید رکھتا تھا ! باپ نے جب اسے کھینچ کر سینے سے لگایا تو 16 سال پرانی پسینے کی خوشبو نے اس کی ھستی میں وھی دھمال مچا دی جو گرم توے پہ ٹھنڈے پانی کے قطروں کے گرنے سے مچتی ھے ! اس کے اندر کا تیسری کلاس کا اسٹوڈنٹ ، ابا جی کے پسینے کا نشئی بچہ سارے دائرے تہس نہس کرتا باھر نکل آیا تھا،، وہ بلک بلک کر رو دیا،، اس کے دوست اور دیگر مہمان جو ٹوپیاں اچھال رھے تھے اور قہقے لگا رھے تھے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے تھے، وہ بھی اس فیملی کے انوکھے رد عمل پر حیران تھے کہ یہ کیسی خوشی منائی جا رھی تھی

والد صاحب مسلسل ٹینشن میں رھنے لگے تھے کیونکہ ان کا دوسری بیوی سے بڑا بیٹا ھر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی معاملے میں تھانے جا پہنچتا ، کبھی چرس تو کبھی لڑائی جھگڑا ! یہ ٹینشن ان کے لئے فالج کو لے کر آئی ،، اسے یہ خبر عدالت میں ایک مقدمے کی بحث کے دوران دوسرے وکیل نے آ کر بتائی کہ اس کے والد کو فالج کا اٹیک ھوا ھے ! وہ بحث مؤخر کر کے کیس کی تاریخ لے کر جب گھر پہنچا تو والد صاحب کے گرد ساری برادری اکٹھی ھو چکی تھی اور لوگ اپنا اپنا ثواب کمانے کے لئے ان کے منہ میں پانی ڈالنے کے چکر میں تھے ! اس کو دیکھتے ھی انہوں نے اسے چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کمزور سی ڈوبتی آواز میں کہا کہ تم نے آنے میں دیر کر دی ! اس نے بچپن سے اپنے اللہ سے بڑا قریب کا تعلق رکھا تھا،، اسی سہارے پہ تو وہ اس منزل تک پہنچا تھا،، اس نے کہا ابا جی آج کل فالج کوئی اتنی بڑی بیماری بھی نہیں ھے، برادری والوں کو اس نے سمجھا کر بٹھا دیا اور گاڑی کے لئے سوتیلے بھائی کو بھیج دیا ! والد صاحب نے کہا کہ میرے نچلے دھڑ سے جان نکل چکی ھے تم میرا مردہ خراب نہ کرو ! ان کا پریشر260/160 چل رھا تھا،، اس نے انہیں گاڑی میں ڈالا اور شہر کے بہترین پرائیویٹ اسپتال لے گیا ،، جہاں پہلے تو ان کا بلڈ پریشر کنٹرول کیا گیا اور پھر مثانے کی غدود کا آپریشن کیا گیا جس نے پورا مثانہ بھر رکھا تھا اور اسی کی وجہ سے بلڈ پریشر اتنا اوپر جا رھا تھا کیونکہ وہ ساری ساری رات کھڑے قطرہ قطرہ پیشاب کرتے رھتے تھے مگر کسی کو بتایا تک نہیں ، اور یہ ان کی شروع سے عادت تھی کہ وہ اپنی تکلیف کسی کو بتاتے نہیں تھے،بس اپنی ذات پر جھیل لیتے تھے ! دس دن کے بعد وہ اسپتال سے پلٹے تو اگلے دس سال تک جیتے رھے ! ایک دن انہوں نے اسے کہا کہ وہ ان کی سوا دو کنال حویلی میں سے ایک کنال میں اپنا مکان بنا لے ،، کیونکہ وہ چاھتے ھیں کہ دوسری بیوی کے بچوں پر وہ نگرانی رکھے اور ان کی سرپرستی کرے ! ان کے حکم پر اس نے اپنا مکان ان کے سامنے بنا لیا ،یہ وہ وقت تھا جب وہ سول جج بن چکا تھا ! بس یہ وہ دور تھا جسے سنہرا دور کہا جا سکتا تھا ! ایک دن اس نے سنا کہ اس کا سوتیلا بھائی چرس سمیت نصیر آباد چوکی پر پکڑا گیا ھے،، اسے معلوم تھا کہ والد صاحب پریشان ھونگے مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ،، صبح اس نے اپنے چیمبر کی کھڑکی سے والد صاحب کو دیکھا وہ کچہری میں تھیلا لئے پھر رھے تھے ! وہ سمجھا والد صاحب ضمانت کے چکر میں دھکے کھا رھے ھیں،، وہ انہیں بتانا چاھتا تھا کہ یہ کیس قابلِ ضمانت نہیں ھے ، وہ وقت ضائع نہ کریں،، اس نے اپنے اہلمد کو بھیجا کہ وہ بابا جی کو بلا کر لائے ،، والد صاحب آئے تو اس نے انہیں بٹھا کر چائے پانی پلانے کے بعد بتایا کہ فی الحال بھائی کی ضمانت ممکن نہیں ،جب چالان پیش ھوا تو میں ضمانت کا بندوبست کر لوں گا ،،مگر وہ بولے تو انہوں نے اسے شرمندہ کر کے رکھ دیا ،،کہنے لگے ضمانت کرانی ھوتی تو میں رات کو ھی تمہیں کہہ دیتا ،،مجھے اس کی ضمانت نہیں کرانی اور نہ کبھی تم اس کی کوشش کرو گے،، تم اپنے دامن پہ کوئی دھبہ مت لگاؤ ،، میں تو تحصیلدار کے دفتر سے آ رھا ھوں ،،میں نے سارے مکان اور زمینیں تمہارے نام کرا دی ھیں،، انہوں نے کاغذ تھیلے سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیئے ،، انہوں نے ایک انچ بھی نہیں چھوڑا تھا ،، ساری زرعی زمین اور مکان اس کے نام کر دیئے تھے ! یہ آپ نے کیا کر دیا ؟ اس نے پریشانی سے کہا،، یہ تو ھم بھائیوں میں دشمنی شروع ھو جائے گی ،، پھر لوگ کیا کہیں گے کہ باپ کو ھاتھوں پہ ڈال کر سب کچھ ھتھیا لیا ! کچھ نہیں ھو گا،، میری انکھیں بند ھوتے ھی وہ سب کچھ بیچ دیں گے ،ماں بھی ان سے ڈرتی ھے - تم ان کو خرچہ دیتے رھنا اور اگر سدھر گئے تو ان کا حصہ ان کو دے دینا،، نہ سدھرے تو میں حلال کی کمائی چرس اور شراب میں ضائع کرنے کے لئے نہیں دے سکتا ! تقریباً دس سال نہایت پیار اور محبت سے گزرے تھے ،، ابا جان اس کے بچوں سے اس کے بچپن کی باتیں کرتے تو بچے قہقے مار کر اس کا مذاق اڑاتے ،، اس دوران اس کی امی بھی مسکراتی رھتیں ،، اس کی پوسٹنگ منڈی بہاولــدین میں تھی ! والدہ اور بیوی بچے اس کے ساتھ تھے ،جب اسے صبح 4 بجے والد صاحب کی فوتگی کی اطلاع ملی ،، وہ آدھے گھنٹے میں ھی ختم ھو گئے تھے،، دل کی تکلیف شروع ھوئی تو خود اٹھ کر دوا کھائی بیٹے کو بیجھا کہ چچا سے بولو گاڑی لاؤ،، چارپائی گاڑی پر رکھی گئ، ساری میڈیکل رپورٹیں ساتھ لے کر خود دھوتی مضبوطی سے باندھ کر گاڑی پر چڑھے اور چارپائی پر لیٹ گے،، 5 کلومیٹر جب ڈاکٹر کے گھر جا کر دروازہ بجایا اور ڈاکٹر نے باھر نکل کر پاؤں پہ ھاتھ رکھا تو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ دیا،،پھر اوپر چڑھ کر آنکھ میں بیٹری مار کر کہا کہ بابا جی تو ٹھنڈے بھی ھو گئے ھیں،، بس اتنی دیر لگی،،چارپائی کے سرھانے بیٹھے بیٹے اور بھتیجے کو بھی پتہ نہیں چلا کب روح مسافر ھو گئ ؟ اس نے گاڑی بک کی اور والدہ کو بھی ساتھ لیا بچے ساتھ لیئے اور نکل پڑے،، رستے میں کھاریاں پہنچ کر والدہ کی طبیعت ناساز ھو گئ ، اس نے انہین کہا کہ آپ رو لیں آنسو نکلیں گے تو شاید طبیعت ھلکی ھو جائے گی،، ان پڑھ ماں نے ایسی پتے کی بات کی کہ اس کی روح تک اتر گئ !

امی نے کہا "آنسو  "! بیٹا یہ آنسو تو پچھلی دو دھائیوں سے بہہ رھے ھیں مگر کوئی آرام نہیں آیا ،،کیا آنسو باھر ھی بہتے ھیں؟ یہ آنسو اندر ھی اندر نہیں بہہ سکتے ؟ کیا یہ دریا باھر زمین پر ھی بہتے ھیں ؟،، زیر زمین چشمے نہین بہتے ! بیٹا باھر کے آنسو آسان ھوتے ھیں انہین پونچھنے والے بھی مل جاتے ،،انسان کو کھوکھلا وہ آنسو کرتے ھیں جو اندر ھی اندر بہتے اور زمین کی طرح اس کی ھستی کو بھی اس طرح کھوکھلا کرتے ھیں جیسے بڑے بڑے مضبوط پل بیٹھ جاتے ھیں،، عمارتیں زمین بوس ھو جاتی ھیں ! اس دن لوگوں کو پتہ چلتا ھے کہ اس عمارت کے نیچے سے تو کب کی زمین نکل گئ تھی،یہ بس اپنی بناوٹ کے زور پہ کھـڑی تھی،، انہوں نے بچوں کے سر پہ ھاتھ پھیر کر کہا دیکھو ان معصوموں کو کبھی اس عذاب میں مبتلا مت کرنا جس سے تم گزرے ھو ،، زندگی میں کئ بار وہ مقام آئیں گے جب تم اپنی انا کے گرداب مین پھنسو گے،،یاد رکھو اس گرداب سے تمہیں صرف یہ بچے نکالیں گے،،ان کے مسقبل کی خاطر تم دونوں صبر اور حوصلے سے کام لو گے،، جہلم پہنچ کر ان پر نیم غشی کی کیفیت طاری ھو گئ،، اس نے گاڑی سی ایم ایچ کی طرف مڑوا لی ،، اسپتال جا کر انہیں ابتدائی طبی امداد ھی دی جا رھی تھی کہ انہوں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی ! اس پر سکتہ طاری ھو گیا،، یہ اچانک خوشیوں کو آگ کیسے لگ گئ ؟ اس کو مسلسل قے شروع ھو گئ،، جس پر سے فوری طبی امداد دی گئ، اس دوران ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا بیوی بچے تو گاڑی میں تھے مگر وہ ایمبولینس میں سوار ھو گیا ،، سارا رستہ وہ کبھی ماں کا سر چومتا تو کبھی ان کے سینے سے لپٹ لپٹ کر روتا رھا ! جب ایمبولیس گاؤں پہنچی تو کہرام مچ گیا،، والدہ کی میت بھی والد صاحب والے گھر اسی صحن مین رکھی گئ تا کہ خواتین کو تکلیف نہ ھو ! دو قبریں تیار کی گئیں ،، اس کے جاننے والے وکیل اور کئ جج بھی جنازے مین شرکت کے لئے پہنچے ھوئے تھے،، والد صاحب کی چارپائی پر آ کر اس نے ان کے پاؤں پکڑے کچھ دیر ان کو پیار سے سہلانے کے بعد وہ جھکا اور آنسوؤں تر اپنے ھونٹ ان قدموں پر رکھ دیئے ،، یہ وہ پیار تھا جو وہ بچپن میں
 والد صاحب کے سونے کے بعد لیا کرتا تھا ﷺ اور آج وہ
 ھمیشہ کی نیند سو گئے تھے ! وہ ابا کے قدموں پہ منہ ٹیکے پاؤں کے بل کتنی دیر بیٹھا رھا، آج وہ جنت کے دونوں بند دروازوں پہ دستک دے رھا تھا کبھی ماں کا سر چومتا تو کبھی بابا کے قدم !
دونوں جنازے تیار کیئے گئے،، وہ باوقار انداز مین ساتھ ساتھ چل رھا تھا، اس کے اندر ایک بچہ بلک رھا تھا مگر بظاھر وہ سیشن جج تھا جس کے ارد گرد تین تحصیلوں کے وکیل تھے اور سول ججز اور دیگر عہدیدار تھے،، وہ نہایت باوقار انداز مین کبھی ابا کی چارپائی کو کندھا دیتا تو کبھی امی کی چارپائی کو !  دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ بنائی گئ تھیں یوں دونوں مل کر اس کی زندگی کو ایک خاص دھارے میں ڈھال کر خود چل بسے تھے