سوچو کبھی ایسا ھو تو کیا ھو ؟
بعض حضرات کے اپنے معاملات، کچھ درست نہیں ھوتے مگر وہ بیوی کو صحابیہؓ بنانے کی کوشش کرتے ھیں،، نتیجہ کھڑاک کی صورت میں نکلتا ھے،، خاتون نے پردہ کرنا شروع کر دیا،، بازار نہیں جاتی،، جو چیز چاھئے حضرت گھر ھی لۓ آ کر پسند کروا لیتے ھیں،،اصرار پر بازار لے جائیں تو گاڑی میں ھی بٹھا کر رکھتے ھیں اور گاڑی میں ھی کپڑا جوتا دکھاتے ھیں،، خاتون بھی کوئی گائے بکریاں چراتی نہیں آئی تھی،، ملٹری اکیڈیمی کی پروفیسر تھی ،،مگر اسلام مین ڈھلتی چلی گئ،،
گھر چھٹی جاتے ھیں تو صاحب کی اپنی کنواری بہن رات بارہ بجے واپس آتی ھے،، ساری بہنیں پردہ نہیں کرتیں، وہ رات کو انہیں سمجھاتی کہ بہن کو سمجھائیں اور اللہ رسولﷺ کا حکم بتائیں کہ پردہ کرے اور وقت پر گھر آیا کرے،، صبح منہ دھونے سے پہلے امی کو جا کر بتاتے ھیں کہ مجھے بہنوں کے بارے میں پٹی پڑھاتی ھے،، ظاھر ھے پھر ساس اور نندوں نے تو اس کو پھینٹی لگانی ھے !
واپس آتے ھیں تو اپنی سیکرٹری سے ھنس ھنس کر گھنٹوں باتیں ھوتی ھیں،،ھاسے بغلوں اور کچھوں سے نکلتے ھیں، کوئی نہیں سوچتا وہ بھی کسی کی بہن ،بیٹی بیوی ھو گی،، اب ردعمل کی باری آتی ھے،، اس عورت نے جمعے والے دن صبح صبح فون کر کے مجھے،جس کا خطبہ اس کا شوھر باقاعدگی سے سنتا ھے،اپنے شوھر کو اور اس منافقانہ اسلام کو اتنی گالیاں دیں،، کہ رھے نام اللہ کا،، اس کے بعد اتنا روئی اتنا روئی کہ مجھے بھی اشکبار کر دیا،،
سارا اسلام بیوی کے لئے نہیں شوھر ، ساس اور نندیں بھی ایک ایک چمچ نہار منہ کھا لیا کریں،، اگر بہنیں نہیں مانتیں تو قطع تعلق کریں تا کہ آپکی بیوی کو آپ کے دینی اخلاص کا یقین ھو،، یہ دین نہیں دین کے نام پر کسی کو تنگ کرنا ھوتا ھے،، حضرت عمرؓ نے بیوی کو ڈانٹا تھا کہ " جواب دیتی ھو ؟ گھر والی نے بیٹی کا طعنہ دیا تھا،،ذرا جا کے نبیﷺ سے پوچھنا تیری بیٹی اللہ کے رسولﷺ کو جواب دیتی ھے،، عمرؓ کی شان کوئی نبیﷺ سے زیادہ نہیں،،،
بڑی بدقسمتی ھے،، ھر انسان خطاؤں کا مجموعہ ھے،، عورت میں اگر کچھ کمی بیشی ھو گی تو شوھر بھی بہت سارا گند پالے ھوئے ھو گا،، مگر اپنا گند کسے نظر آتا ھے،، انسان دودھ پیتے بچے کی پیٹھ دھو دے تو جب تک ھاتھ صابن سے نہ دھوئے تسلی نہیں ھوتی،،مگر اپنا استنجا کر کے اکثریت بغیر صابن ھاتھ بھگو کر کھانا کھا لیتی ھے،، یہی حال گناھوں کا ھے اور خطاؤں کا ھے،، ساس کو جو باتیں اپنی بیٹی کا بھولپن نظر آتی ھیں وھی بہو کا عیب بن جاتی ھیں
ھمارا حقیقی مسئلہ یہ ھے کہ ھم خریدنا چاھتے ھیں گوبھی مگر ھم براہ راست گوبھی خریدنے کی بجائے آلو خرید کر لے آتے ھیں اور پھر ان پر لال دوپٹہ ڈال کر دو رکعت صلاہ الحاجت پڑھ کر نہایت خشوع و خضوع سے دعا کرتے ھیں کہ کہ یا اللہ تو ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے،میں نہیں کر سکتا تو کر سکتا ھے،، یا اللہ یہ آلو ھیں تو ان کو گوبھی بنا دے،، بس اسی جھگڑے میں گھر اجڑ جاتے ھیں،، سب سے پہلے یہ طے کریں کہ یہ عورت نام کی مخلوق جس کو لانے کے لئے سارے پروگرام بنائے جا رھے ھیں،وہ کس کس کے لئے ھو گی؟ یہ سوال تو تین سال کا بچہ بھی والدین سے بازار مین ھی کر لیتا ھے کہ یہ گڑیا جو آپ نے خریدی ھے کس کے لئے خریدی ھے کیونکہ بھائی بہن تو ھم 6 ھیں،، اور گڑیا ایک ؟ اگر تو کہہ دیا بیٹا جی تیرے لئے،پھر تو وہ خوش خوش لے کے گاڑی مین بیٹھ جائے گا،،اور اگر کہا کہ سب کے لئے تو وہ آپ کا ھاتھ چھوڑ کر ادھر ھی بیٹھ کر ایڑیاں رگڑنے لگے گا،، اگر آپ کو چاھئے ایسی بہو جو ایک شوھر اور سات دیوروں کو سنبھالے، ان سب کے احتلام والے کپڑے دھوئے ،تو بہتر ھے کوئی دیہاتی یتیم سی بچی کر لیں جس بیچاری کی روٹی بھی چل جائے گی اور آپ کا دھوبی گھاٹ بھی چلتا رھے گا،،اس دھوبی گھاٹ کے لئے بیوی لے کر آئے ھیں جو نفسیات میں پی ایچ ڈی ھے ایک لاکھ پچاس ھزار تنخواہ لیتی ھے اور سی ایم ایچ میں میجرز اور بریگیڈئرز کو لیکچر دیتی ھے،، اب اس سے تقاضا کرنا کہ وہ یہ دھوبی گھاٹ چلائے تو ،،،،، آج کل دونوں کو دورے پڑ رھے ھیں شوھر کو بھی اور بیوی کو بھی ،،،،پردہ اتروانا ھے تو بے پردہ جو ملتی ھیں وہ لے آؤ ، اس کو کوئی پردے والا لے جائے گا،،وہ جو بے پردے والی کو لا کر تشدد سے پردہ کرائے گا،،تم پردے والی پر تشدد کر کے اترواؤ گے،، پہلے فیصلہ تو کرو تمہیں کیا چاھئے ؟
خواتین جو کام اپنے عمل سے بگاڑتی ھیں اسے وظیفوں سے درست کرنے کو کوشش کرتی ھیں،، وظیفہ کبھی بھی عمل کا نعم البدل نہیں ھو سکتا،، اللہ پاک نے عورت پر کوئی اھم ذمہ داری نہیں ڈالی سوائے اھم ترین ذمہ داری کے،، شوھر کو خوش رکھو،، اولاد پر توجہ دو،اور سماج کو اچھے انسان فراھم کرو،،تمہیں جماعت کی نماز بھی معاف،تمہیں جمعے کی بھی چھٹی،، تمہیں جہاد بھی معاف،، تیرا سب سے بڑا جہاد اپنے گھر میں ھے،، بنو سنورو اس طرح کہ شوھر کی نظر کی پیاس بجھ جائے کسی اور طرف دیکھنے کی رغبت مر جائے،، ھنسی مذاق، اور چٹکلے، دل جوئی اس طرح کی ھو کہ گھر سے باھر جا کر اس کا دل واپسی کے لئے بےچین رھے اور فرصت ملتے ھی گھر کی طرف دوڑے،، گھر میں داخل ھو کر پرسکون ھو جائے ،، پھر جو چاھو اس سے منوا لو،، ھر وقت کی چخ چخ،، گلے شکوے اور رونے سیاپے،، تمہیں شوھر سے کچھ بھی نہیں دلائیں گے سوائے طلاق کے ،، جب چاھو لے لو
No comments:
Post a Comment