Thursday, May 29, 2014

سوچو کبھی ایسا ھو تو کیا ھو ؟

سوچو کبھی ایسا ھو تو کیا ھو ؟
بعض حضرات کے اپنے معاملات، کچھ درست نہیں ھوتے مگر وہ بیوی کو صحابیہؓ بنانے کی کوشش کرتے ھیں،، نتیجہ کھڑاک کی صورت میں نکلتا ھے،، خاتون نے پردہ کرنا شروع کر دیا،، بازار نہیں جاتی،، جو چیز چاھئے حضرت گھر ھی لۓ آ کر پسند کروا لیتے ھیں،،اصرار پر بازار لے جائیں تو گاڑی میں ھی بٹھا کر رکھتے ھیں اور گاڑی میں ھی کپڑا جوتا دکھاتے ھیں،، خاتون بھی کوئی گائے بکریاں چراتی نہیں آئی تھی،، ملٹری اکیڈیمی کی پروفیسر تھی ،،مگر اسلام مین ڈھلتی چلی گئ،،

گھر چھٹی جاتے ھیں تو صاحب کی اپنی کنواری بہن رات بارہ بجے واپس آتی ھے،، ساری بہنیں پردہ نہیں کرتیں، وہ رات کو انہیں سمجھاتی کہ بہن کو سمجھائیں اور اللہ رسولﷺ کا حکم بتائیں کہ پردہ کرے اور وقت پر گھر آیا کرے،، صبح منہ دھونے سے پہلے امی کو جا کر بتاتے ھیں کہ مجھے بہنوں کے بارے میں پٹی پڑھاتی ھے،، ظاھر ھے پھر ساس اور نندوں نے تو اس کو پھینٹی لگانی ھے !
واپس آتے ھیں تو اپنی سیکرٹری سے ھنس ھنس کر گھنٹوں باتیں ھوتی ھیں،،ھاسے بغلوں اور کچھوں سے نکلتے ھیں، کوئی نہیں سوچتا وہ بھی کسی کی بہن ،بیٹی بیوی ھو گی،، اب ردعمل کی باری آتی ھے،، اس عورت نے جمعے والے دن صبح صبح فون کر کے مجھے،جس کا خطبہ اس کا شوھر باقاعدگی سے سنتا ھے،اپنے شوھر کو اور اس منافقانہ اسلام کو اتنی گالیاں دیں،، کہ رھے نام اللہ کا،، اس کے بعد اتنا روئی اتنا روئی کہ مجھے بھی اشکبار کر دیا،،
سارا اسلام بیوی کے لئے نہیں شوھر ، ساس اور نندیں بھی ایک ایک چمچ نہار منہ کھا لیا کریں،، اگر بہنیں نہیں مانتیں تو قطع تعلق کریں تا کہ آپکی بیوی کو آپ کے دینی اخلاص کا یقین ھو،، یہ دین نہیں دین کے نام پر کسی کو تنگ کرنا ھوتا ھے،، حضرت عمرؓ نے بیوی کو ڈانٹا تھا کہ " جواب دیتی ھو ؟ گھر والی نے بیٹی کا طعنہ دیا تھا،،ذرا جا کے نبیﷺ سے پوچھنا تیری بیٹی اللہ کے رسولﷺ کو جواب دیتی ھے،، عمرؓ کی شان کوئی نبیﷺ سے زیادہ نہیں،،،
بڑی بدقسمتی ھے،، ھر انسان خطاؤں کا مجموعہ ھے،، عورت میں اگر کچھ کمی بیشی ھو گی تو شوھر بھی بہت سارا گند پالے ھوئے ھو گا،، مگر اپنا گند کسے نظر آتا ھے،، انسان دودھ پیتے بچے کی پیٹھ دھو دے تو جب تک ھاتھ صابن سے نہ دھوئے تسلی نہیں ھوتی،،مگر اپنا استنجا کر کے اکثریت بغیر صابن ھاتھ بھگو کر کھانا کھا لیتی ھے،، یہی حال گناھوں کا ھے اور خطاؤں کا ھے،، ساس کو جو باتیں اپنی بیٹی کا بھولپن نظر آتی ھیں وھی بہو کا عیب بن جاتی ھیں
ھمارا حقیقی مسئلہ یہ ھے کہ ھم خریدنا چاھتے ھیں گوبھی مگر ھم براہ راست گوبھی خریدنے کی بجائے آلو خرید کر لے آتے ھیں اور پھر ان پر لال دوپٹہ ڈال کر دو رکعت صلاہ الحاجت پڑھ کر نہایت خشوع و خضوع سے دعا کرتے ھیں کہ کہ یا اللہ تو ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے،میں نہیں کر سکتا تو کر سکتا ھے،، یا اللہ یہ آلو ھیں تو ان کو گوبھی بنا دے،، بس اسی جھگڑے میں گھر اجڑ جاتے ھیں،، سب سے پہلے یہ طے کریں کہ یہ عورت نام کی مخلوق جس کو لانے کے لئے سارے پروگرام بنائے جا رھے ھیں،وہ کس کس کے لئے ھو گی؟ یہ سوال تو تین سال کا بچہ بھی والدین سے بازار مین ھی کر لیتا ھے کہ یہ گڑیا جو آپ نے خریدی ھے کس کے لئے خریدی ھے کیونکہ بھائی بہن تو ھم 6 ھیں،، اور گڑیا ایک ؟ اگر تو کہہ دیا بیٹا جی تیرے لئے،پھر تو وہ خوش خوش لے کے گاڑی مین بیٹھ جائے گا،،اور اگر کہا کہ سب کے لئے تو وہ آپ کا ھاتھ چھوڑ کر ادھر ھی بیٹھ کر ایڑیاں رگڑنے لگے گا،، اگر آپ کو چاھئے ایسی بہو جو ایک شوھر اور سات دیوروں کو سنبھالے، ان سب کے احتلام والے کپڑے دھوئے ،تو بہتر ھے کوئی دیہاتی یتیم سی بچی کر لیں جس بیچاری کی روٹی بھی چل جائے گی اور آپ کا دھوبی گھاٹ بھی چلتا رھے گا،،اس دھوبی گھاٹ کے لئے بیوی لے کر آئے ھیں جو نفسیات میں پی ایچ ڈی ھے ایک لاکھ پچاس ھزار تنخواہ لیتی ھے اور سی ایم ایچ میں میجرز اور بریگیڈئرز کو لیکچر دیتی ھے،، اب اس سے تقاضا کرنا کہ وہ یہ دھوبی گھاٹ چلائے تو ،،،،، آج کل دونوں کو دورے پڑ رھے ھیں شوھر کو بھی اور بیوی کو بھی ،،،،پردہ اتروانا ھے تو بے پردہ جو ملتی ھیں وہ لے آؤ ، اس کو کوئی پردے والا لے جائے گا،،وہ جو بے پردے والی کو لا کر تشدد سے پردہ کرائے گا،،تم پردے والی پر تشدد کر کے اترواؤ گے،، پہلے فیصلہ تو کرو تمہیں کیا چاھئے ؟
خواتین جو کام اپنے عمل سے بگاڑتی ھیں اسے وظیفوں سے درست کرنے کو کوشش کرتی ھیں،، وظیفہ کبھی بھی عمل کا نعم البدل نہیں ھو سکتا،، اللہ پاک نے عورت پر کوئی اھم ذمہ داری نہیں ڈالی سوائے اھم ترین ذمہ داری کے،، شوھر کو خوش رکھو،، اولاد پر توجہ دو،اور سماج کو اچھے انسان فراھم کرو،،تمہیں جماعت کی نماز بھی معاف،تمہیں جمعے کی بھی چھٹی،، تمہیں جہاد بھی معاف،، تیرا سب سے بڑا جہاد اپنے گھر میں ھے،، بنو سنورو اس طرح کہ شوھر کی نظر کی پیاس بجھ جائے کسی اور طرف دیکھنے کی رغبت مر جائے،، ھنسی مذاق، اور چٹکلے، دل جوئی اس طرح کی ھو کہ گھر سے باھر جا کر اس کا دل واپسی کے لئے بےچین رھے اور فرصت ملتے ھی گھر کی طرف دوڑے،، گھر میں داخل ھو کر پرسکون ھو جائے ،، پھر جو چاھو اس سے منوا لو،، ھر وقت کی چخ چخ،، گلے شکوے اور رونے سیاپے،، تمہیں شوھر سے کچھ بھی نہیں دلائیں گے سوائے طلاق کے ،، جب چاھو لے لو

خبر دار ! عورت کی عزت کرنا منع ہے

ایک شوھر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو بے حد اہمیت دے ،
 اسے ایک قیمتی چیز کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھے ، اسے بے توقیر نہ ہونے دے، نہ خود اولاد کے سامنے اس کی بے عزتی کرے اور نہ کسی کو کرنے دے ،
یاد رکھے اس کی بیوی کی عزت اس کی اپنی عزت ہے اور بیوی کی بے عزتی اس کی اپنی بے عزتی ہے،جس عورت کو اس کی اولاد کے سامنے مارا پیٹا جاتا ہےیا گالی گلوچ اور طنز و استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ اپنی اولاد کی نظر مین بے توقیر اور بے وقار ہو جاتی ہے،،پھر ایسی ماں سے اولاد سنبھالے نہیں سنبھالی جاتی وہ بھی ماں کو ہاؤس میڈ کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں ،، ایسے بچے آگے چل کر اپنی بیویوں کے لئے بھی برے شوہر ثابت ہوتے ہیں 
میاں بیوی میں ناچاقی۔ یا  ۔ رنجش ہوبھی جائے جو کہ ایک فطری اور لازمی چیز ہے،،
 جب نبی ﷺ جیسی ہستی کے گھر میں بھی رنجش ہوئی ہے تو
 کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں بہت اچھا انسان ہوں تو میرے گھر میں نہیں ہو سکتی ،، عورت بھی " ایک قسم کی" انسان ہے اسے بھی غصہ آتا ہے تو وہ غصہ اپنے شوہر پر ہی نکالے گی یا محلے والوں پہ نکالے گی ؟،،
پھر کپڑا پھٹ بھی جائے تو انسان محلے کو نہیں دکھاتا پھرتا کہ میری شلوار پھٹ گئ ہے،، میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ھیں،،(قرآن) لباس ستر بھی ڈھانپتا ہے اور خوبصورتی اور زینت بھی بخشتا ہے ،، عورت کے بغیر مرد اس حکمران کی طرح ھوتا ھے جس کا تختہ الٹادیا گیا ،، 
پھرتا ہے میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ،، گھر پھر گھر ھوتا ہے ،، 
غیر ممالک میں تو کنوارے کو کرائے پہ مکان کوئی نہیں دیتا چاہےوزیرہی کیوں نہ ہو ،، جبکہ فیملی کے لئے سب لوگ چشم براہ ھوتے ھیں ،،کیونکہ فیملی والا معزز گنا جاتا ہے اور چھڑا بےلباس و بے اعتبار۔۔۔ 
شوھر کو چاہیے کہ وہ اپنی تنخواہ میں سے ایک معقول رقم بیوی کو دے تا کہ وہ اس میں سے اپنی ضرورت کی چیزیں بھی لے کچھ صدقہ کرے اور کچھ اپنے والدین کو بھی بھیجے کیونکہ انہوں نے اسے پیدا کیا ،پالا پوسا اور پڑھایا اور اس کی خاطر مالی و جذباتی قربانی دی ،، اس کے والدین کا بھی اس پر اتنا ہی حق ہے جتنا شوہر کے والدین کا شوہر پر ہے ،، کبھی اس کے والدین یا بھائیوں کے لطیفے نہ بنائے اپنی اولاد کے سامنے ان کے (ننھیال)نانکے کو مزاق  کا نشانہ نہ بنائے بلکہ انہیں اپنے والدین کی طرح عزت دے تا کہ بیوی بھی اس کے والدین کی دل و جان سے خدمت کرئے 

Monday, May 12, 2014

مجھے ٹیلی ویژن بنادے

ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔

سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے ٹیلی ویژن بنادے میں ٹی وی کی جگہ لینا چاہتا ہوں، ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے گھر میں موجود ٹی وی جی رہا ہے میں ٹی وی کی جگہ لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹی وی کی طرح بول رہا ہونگا تو سب میری باتیں بڑی توجہ سے سن رہے ہونگے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا اور بغیر رکے سب مجھے ہی دیکھتے سنتے رہیں گے کوئی مجھ سے سوال جواب نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی مجھے ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کرے گا۔ میں ایسی ہی خاص احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاؤں گا جیسے ٹی وی کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کی جاتی ہے جیسے جب ٹی وی خراب ہوجائے اس کا جتنا خیال کیا جاتا ہے اتنا ہی میرا خیال رکھا جائے گا میری زرا سی خرابی سب کو پریشان کردے گی۔

میں اپنے ابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے میرے ابو ٹی وی کو دیتے ہیں کہ آفس سے آتے ہی ٹی وی کی طرف متوجہ رہتے ہیں چاہے ابو کتنے ہی تھکے ہوئے ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ میری امی بھی میری طرف ایسے ہی متوجہ رہیں جیسے وہ ٹی وی کی طرف متوجہ رہتی ہیں چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور غصے میں ہوں۔ چنانچہ بجائے مجھے نظر انداز کرنے کے وہ میری طرف متوجہ رہیں گی۔

اور میرے بھائی بہن بھی جو مجھ سے لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میرے اردگرد پھریں گے میرے لیے امی ابو کی منتیں کریں گے اس طرح سب کے سب میری طرف متوجہ رہیں گے اور آخر میں سب سے بڑھ کر یہ کہ سب میری وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں تو میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میں ان سب کو ایسے ہی خوش و خرم رکھ سکوں گا جس طرح ٹی وی رکھتا ہے۔

اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے ٹی وی بنادے مجھے اس کی جگہ دے دے۔

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا مایوس بچہ ہے۔ بے چارے کے ساتھ کتنا برا ہوتا ہے اس کے گھر میں اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے۔

ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.

Monday, May 5, 2014

کھلا پلا کر اپنا دشمن بنانا کوئی والدین سے سیکھے


اولاد کو برباد کرنا!
انہیں پل پل زخم دینا!
ان کی شخصیت کو کچل کچل کر مسخ کرنا !
کھلا پلا کر اپنا دشمن بنانا کوئی والدین سے سیکھے

ان میں کبھی بھی اعتماد کو پنپنے نہ دینا،بلکہ دوسرے اگر اعتماد کا اظہار کریں تو تعجب کا اظہار کرنا اور اپنی اولاد کے

لطیفے بنا بنا کر انہیں سنانا، ان کی ھر قسم کی صلاحیتوں پر شک کا اظہار کرنا، اگر وہ اچھے نمبر لے آئیں تو حلف لے

کر اس بات کا یقین کرنا کہ انہوں نے نقل نہیں کی،، غلطی کسی کی بھی ھو مار اور گالیاں اپنی اولاد کو دینا،، سودا

سلف لائیں تو بار بار شک کا اظہار کرنا کہ پیسے مار تو نہیں لیئے ؟ اور دکاندار سے فون کر کے ایک ایک چیز کا ریٹ

پوچھنا،، دکان پر بھیجنا تو پیسے پورے گن کر دینا،چار آنے زیادہ نہ چلے جائیں،، سکول جائے تو بس کے کرائے کے

پورے پیسے دینا،، یہ گنجائش نہ رکھنا کہ شاید ٹیکسی پہ آنا پڑ جائے،، جو بھی کاپی یا کتاب لینا ،،بچے کی خوب

کلاس لے کر اور اگلا ھفتہ اسی ورد میں گزارنا کہ ھم تیرے اوپر کتنا خرچ کر رھے ھیں، ھمارے والدین یہ کچھ ھم کو

نہیں لے کر دیتے تھے،،بچہ کچھ کھانے کو مانگے تو اسے یاد کرانا کہ اسلامک اسٹڈی کی بک 90 درھم کی لائے

ھیں،،وہ کوئی اچھی ڈش پکانے کا بولے تو پورے سال کی فیس کا بل اس کے آگے رکھ دینا،، وہ کہیں آؤٹنگ میں جانے

کی فرمائش کرے تو اس کی مارکس شیٹ اس کے سامنے رکھ کر اسے پڑھائی پر لیکچر دینا تا کہ آئندہ وہ اس قسم کے

شوق سے توبہ کر لے،عین جس وقت وہ کارٹون دیکھنے کو ریموٹ پکڑے یا کھیل کے لئے بیٹ اٹھائے تو اس سے سوال

کرنا کہ کیا قرآن پڑھا تھا؟ وہ وضو کرے تو اس کے ھاتھ پاؤں کو بار بار ھاتھ لگا کر چیک کرنا،، گیلے ثابت ھو جائیں تو پھر

بھی کہنا کہ کمال ھے ابھی ابھی تو تم غسل خانے میں گئے تھے،ھمارے زمانے مین اتنا جلدی وضو تو نہیں ھوتا

تھا،،اس کے برعکس جب غسل کے لئے جائے تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دروازہ بجا کر پوچھتے رھنا کہ کیا کر رھے ھو؟

نہانے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی؟ اور جب نماز پڑھ کے آئے تو یقین نہ کرنا اور اس سے پوچھنا مولوی صاحب نے

کونسی سورت پہلی رکعت میں پڑھی تھی،،پھر اس کے دوست کو فون کر کے تصدیق کرنا یا پوچھنا کہ تیرے دائیں طرف

کون تھا اور بائین طرف کون تھا،،پھر اس کے باپ سے تصدیق کرنا،، پیرینٹس ٹیچرز میٹنگ پہ جانا ھی اس نیت سے کہ

بچے کی برائیاں کر کے اسے ٹیچر کی نگاھوں سے بھی گرانا ھے ، مولوی صاحب کو ختم شریف پہ بلانا تو سارا وقت

اولاد کی برائیاں بیان کرتے رھنا اور کہنا کہ یہ نماز پڑھنے جائے تو اس پر خصوصی نظر رکھا کریں یا کوئی تعویز دیں جو

اس کو انسان کا بچہ بنا دے یوں بچے کو امام مسجد کی نظروں سے بھی گرا دینا،،اس کے سامنے دوسروں کے بچوں

کی ھر وقت تعریف کرنا اور ان کی ماؤں کی بیان کردہ خوبیاں اپنے بچوں کے سامنے بیان کر کے انہیں لعن طعن کرنا

حالانکہ وہ بچے اچھی طرح جانتے ھیں کہ ممدوح بچے کیا گُل کھلاتے پھرتے ھیں،، شوھر کو ھر وقت ٹوکتے رھنا کہ تم

بچے پر سختی نہیں کرتے ھو، اسے تھپکی دے کر اولاد پر پھینکنا کہ مرد بنو مرد،، باپ بن کے دکھاؤ،،بچہ فیس بک پر

بیٹھے تو تھوڑی تھوڑی دیر بعد سلام پھیرنے کے انداز مین نظر ڈال لینا، کہیں شادی کا کہہ دے تو تمسخر اڑانا اور دنبی

میں دانا پڑنے کی بشارت سنانا ،، سہیلیوں کو فون کر کے بتانا کہ اس کا بیٹا" وہٹی "مانگتا ھے- جاب کی تلاش مین

دھکے کھا کر آئے تو اسے دیکھتے ھی کہنا" کھا آئے او" مجھے پہلے ھی پتہ تھا،، یا کہنا دوستوں کے ساتھ ھوٹلوں

میں بیٹھ کر گپیں لگا کر آ جاتے ھو ،تم کام ڈھونڈتے کب ھو،، کڑیاں پچھے پھر کے آ جاتے ھو،، شادی مین کوشش کرنا

کہ لڑکا اپنی پسند کی لڑکی سے شادی نہ کرنے پائے بلکہ کسی ایسے رشتہ دار کی بیٹی سے شادی کرے جس نے

زندگی مین آپ پر احسان کیا تھا، تاکہ اسے بَلی کا بکرا بنایا جا سکے،، شادی کے بعد پہلی صبح کو دلہن کے کمرے

کے بعد اپنی برادری کی عورتوں کو لے کر گِــــــــدھــــــــــــوں کی طرح جھرمٹ لگا کر بیٹھ جانا تا کہ لڑکی کی عصمت کا

حساب کتاب ان خرانٹ عورتوں پر مشتمل جیـــــــــــــــــــــــــوری میں پیش کر کے نشانِ حیدر لیا جائے،، دو چار ماہ اولاد

کا سلسلہ نہ چلے تو ،،بار بار بچے کو اکیلے میں امان جی کا مشکوک انداز میں پوچھنا" منڈیا تو ٹھیک تو ھے ناں ؟
،
اور پھر تعویز دھاگے اور پیر بابے کے چکر،، پھر ھم بریکنگ نیوز سنتے ھیں،، پنڈی چھاونی میں حاضر سروس کیپٹن بیٹے

نے اپنے ریٹائرڈ برگیڈیئر والد ،والدہ اور تین بہنوں سمیت پورے خاندان کو رشتے کے تنازعے میں قتل کر دیا،، کل ماں اور

باپ کو قتل کرنے والا بیٹا اورنگی ٹاؤن مین گرفتار ! لوگ والدین کو کیوں مارتے ھیں ؟ اس لئے کہ وہ خود چلتی پھرتی

لاش ھوتے ھیں !! فــاعتبروا یا اولو الابصار،،اھل بصیرت عبرت پکڑو

یہ وہ ساری شکایات ھیں جو والدین یا بچوں کے ذریعے مجھ تک پہنچیں اور میں نے دونوں فریقوں کو یہ سمجھایا کہ اولاد کو اس طرح رسوا نہیں کرتے اور دوسری طرف اولاد کی سمجھایا کہ اگرچہ ان کے طریقہ کار میں خامی ھو مگر ان سے بڑھ کر تمہارا ھمدرد کوئی ھے نہ ملے گا، یہ تمہارے وجود کا حصہ ھیں اور تم ان کی ایکسٹینشن ھو،، وہ تمہیں اپنا آپ سمجھ کر اس طرح کا سلوک کرتے ھیں،،وہ جس طرح خود ھونا چاھتے ھیں تمہیں ویسا بنانے کی کوشش کر رھے ھیں یہ الگ بات ھے کہ وہ عمر کے فرق کو بھول گئے ھیں، اولاد نے وقتی طور پہ اگرچہ میری نصیحت کا برا بھی منایا مگر پھر وقت آیا کہ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ میری بات ھی ٹھیک تھی،جبکہ ان کو بھڑکانے والے انہیں دھوکا دے رھے تھے-
خود میری تربیت الحمد للہ والد صاحب نے اس طرح کی کہ مجھے محسوس ھی نہیں ھونے دیا کہ مجھے کوئی حکم دیا جا رھا ھے،زندگی بھر انہوں نے جب کوئی کام کروانا چاھا مجھ سے مشورے کے انداز میں پوچھا اور مجھے پتہ چل گیا کہ وہ کیا چاھتے ھیں،دین میں جبر نام کی کوئی چیز میں نے ان کی طرف سے محسوس نہیں کی،انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کو اور مجھ کو حکم دینے والی ایک ھی ھستی ھے اور ھم دونوں کو اس کے حکم پر برابر چلنا ھے اور اس چلنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنی ھے،اگر کہیں کوئی کوتاھی ھوئی ھے تو انہوں نے مجھ سے پہلے آگے بڑھ کر اسے عمر کا تقاضہ سمجھا اور بغیر معافی مانگے معاف کیا ھے اور بغیر نصیحت کیئے اپنے حسن سلوک سے نصیحت کر دی ھے،ان کے چہرے کی ایک ایک سلوٹ سے میں آگاہ تھا،ان کی ناراضی کو ان کے چہرے کی سلوٹ میں پڑ لیتا تھا اور درستگی پر اسی سلوٹ میں خوشی کا سورج طلوع ھوتے بھی دیکھتا تھا،مجھے اچھی طرح یاد ھے جب انہیں پتہ چلا کہ ھم بھائی فرضوں اور سنتوں کے بعد مسجد سے نکل جاتے ھیں اور تراویح نہیں پڑھتے بلکہ پاس کے ھوٹل کے باھر لگے ٹی وی پر ریسلنگ دیکھتے رھتے ھیں اور جب  وتر کی باری آتی ھے تو فوراً مسجد پہنچ کر شریک ھو جاتے ھیں تو بجائے ڈانٹنے کے جب انہوں نے قہقہ مار کر والدہ کو ھم بھائیوں کا یہ کارنامہ بتایا اور فرمایا کہ چھوٹے بھوت بڑے بھوتوں کو ٹھگتے رھے ھیں،،پھر فرمایا دیکھو مسجد سے نکل کر دوبارہ مسجد میں آنا بڑے کمال کی بات ھوتی ھے،اس کھیل میں بھی یہ کان اور دھیان اس بات پر رکھتے تھے کہ کب تراویح ختم ھوئی ھے اور وتر کھڑے ھوئے ھیں،، بس ان کا یہ فرمانا ھی ھماری اصلاح تھی، پھر زندگی میں کبھی ھم سے ایسی خطا نہیں ھوئی، آج جو اعتماد آپ کو مجھ میں نظر آتا ھے یہ اللہ کا فضل اور میرے والد کا مجھ پر احسان ھے کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کی حد کر دی ،ان کے نزدیک حنیف سب علماء سے زیادہ جانتا تھا اور حنیف کا کہا اخری ھوتا تھا، اسی اعتماد پر میں نے اپنی اولاد کی تربیت کی ھے،، میں نے کل جب وہ یونیورسٹی چلے جائیں گے تو بھی ان کے کہے پر اعتبار کرنا تھا،اس اعتبار کی ابتدا میں نے گھر سے کر دی تھی، یہ اعتبار کی مار بھی بڑی کارآمد ھوتی ھے،میں دسویں کلاس میں تھا،ظہر کی نماز کے بعد میں ھیڈ ماسٹر صاحب کے پاس گیا چھٹی لینے کے لئے جو صحن میں ھمارے اردو کے استاد ماسٹر نواز صاحب آف آدڑہ کے ساتھ ٹہل رھے تھے،میں نے کہا کہ  سر مجھے بخار ھے گھر جانا ھے،ماسٹر نواز صاحب نے ھیڈ ماسٹر سے کہا کہ یہ لڑکا ماشاء اللہ بہت لائق اور نمازی پرھیز گار ھے،بہانہ نہیں کرتا،ان کی اس بات پر ھیڈ ماسٹر صاحب نے چھٹی دے دی،مگر اس چھٹی کی خوشی ختم ھو کر رہ گئی ،ایک آدمی مجھے کتنا نیک سمجھتا ھے اور میں نے بہانہ کر کے اس کے اعتماد کو دھوکا دیا ھے،، اس کے بعد مین نے کبھی یہ حرکت نہیں کی اور زندگی بھر ان کے اعتماد و اعتبارکو یاد رکھا،بعد مین میں نے انہیں یہ بات بتائی جب میں ابوظہبی سے واپس چھٹی گیا تو انہوں نے ھنس کر کہا کہ یہ اعتراف بھی آپ کی نیک شرست کی نشانی ھے، آپ اولاد پر اعتماد کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ اس اعتماد کو ٹھیس نہ لگنے دیں،، آپ ان کی تعریف کرتے ھیں تو وہ کوشش کرتے ھیں کہ آپ تعریف کر کے شرمندہ نہ ھوں،،آپ ان کے پاس نہیں ھوتے مگر آپ کا اعتماد ان کے ساتھ ھوتا ھے ،اسی اعتماد کی رشتے میں آپ بندھے ھوتے ھیں،، شک ھمیشہ تباھی مچاتا ھے ،جس کے دل میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی اور جس کے بارے میں پیدا ھوتا ھے اس میں بھی ،اس سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ھوتا، میں نے بالکل اسی اعتماد پر اولاد کو پالا ھے، انہیں اجازت ھے کہ وہ جس موضوع پر چاھئیں مجھ سے ڈسکس کریں،میرا بیٹا قاسم جو حافظِ قران بھی ھے ،عربی مادری زبان کی طرح بولتا ،لکھتا اور پڑھتا ھے، اس نے بہت سارے معاملات میں میری رائے کو تبدیل کیا ھے،  میں اگر پھر بھی پیدا ھوں تو اسی حیثیت مین پیدا ھونا چاھوں گا ،انہی والدین کے گھر ،اسی اولاد کے والد کی حیثیت سے،، یہ میرےاطمینان کی حد ھے،،