Tuesday, February 25, 2014

ناشکرے انسان سے رب کا مکالمہ

ناشکرے انسان سے رب کا مکالمہ !

نحنُ خلقناکم فلو لا تصدقون ؟

ھم نے تمہیں بنایا اور تم ھی ھماری بات پر اعتبار نہیں کرتے،نہ ھماری بات کو سچ سمجھتے ھو اور نہ اس کی تصدیق کرتے ھو ! ویسے کمال کرتے ھو !
تم جیسا جھگڑالوُ تو پوری مخلوق میں نہیں ھے،، اور ناشکرا تو تــُــو کمال کا ھے ! ھم نے تمہیں صدیوں امانت کے طور پہ سنبھالے رکھا،جہاں بھی تمہیں شفٹ کیا وھیں تیرا خاص خیال رکھا جیسے ھمیں تیرے سوا کسی سے دلچسپی ھیں نہیں ! زیادہ دور نہ جا ،، ھاں صدیوں پیچھے نہ جا صرف تیرے پردادا سے تمہیں شروع کرتے ھیں،، ھم نے تیرے پردادا کو اس وقت تک مرنے نہیں دیا جب تک تمہیں اس سے نکال کر آگے منتقل نہیں کر دیا ! تیرے پردادا کو تو بیماری سے مار دیا مگر تمہیں اس بیماری سے بچا لیا ،پھر تیرے دادا کو ھم سنبھالے سنبھالے پھرتے تھے کہ اس میں میری ایک امانت ھے ،، اسےھر حادثے سے بچائے رھے تا آنکہ تجھے اس میں سے بچا نکالا اور آگے منتقل کر دیا ! اور تیرے باپ میں بھی ھم تجھ پر نظر رکھے رھے کہ کہیں تو کھو نہ جائے ،تجھے کچھ ھو نہ جائے !

تــــــُــو پیدا ھو گیا !

قتل الانسانُ مآ أکفــــــرہ ! من ای شئً خلقہ ؟ من نطفہ !

مارا جائے یہ انسان ،،'گولہ لگے اسے" یہ کتنا ناشکرا ھے !

کس چیز سے اسے بنا کھڑا کیا؟ نطفے سے !

چلـــــــو تمہیں اس کی یاد نہ ھو گی مگر جو تجھ سے نکلتا ھے اسے دیکھا ھے ؟

اَفَرایتم ما تمنون ؟ جو تم ٹپکاتے ھو ،اسے تم دیکھتے ھو ناں ؟
پھر اس میں سے جو ھم بنا کھڑا کرتے ھیں وہ بھی دیکھتے ھو ناں ؟
یہ کون بناتا ھے تم یا میں ؟؟ تم تو اسے ھاتھ لگانا پسند نہیں کرتے !
تم تو اس سے کراھت کرتے ھو ! اسے بے وقعت گندگی اور فضول چیز سمجھتے ھو ! اس بے وقعت کو قیمتی کون بناتا ھے ،،میں کہ توُ ؟ اس مکروہ کو پسندیدہ کون بناتا ھے،،میں یا تُو؟؟ جس سے تو نفرت کرتا تھا اس میں سے محبوب بنا کر کون کھڑا کرتا ھے ؟ جسے تو چھونا پسند نہیں کرتا تھا ،اس میں سے چومنے چاٹنے والا کون پیدا کرتا ھے،،؟؟
پھر بھی تو ھمارا اعتبار نہیں کرتا،،ھمارے وجود کی گواھی نہیں دیتا ،تو گلی گلی چوک چوک ھمارے تذکرے نہیں کرتا ،وہ گواھی جو تو نے عہدِ الست میں دی تھی وہ تیرے پاس ھماری امانت تھی اس امانت کی خاطر ھم نے تجھے بھی امانت سمجھ کر تجھے صدیوں سنبھال سنبھال کر رکھا اور جب گواھی دینے کا وقت آیا تو ،تو نے صاف کہہ دیا کہ ،، ان ھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا وما نحن بمبعوثین،،یہ دنیا کہ زندگی خود بخود ھے ھم خود ھی جیتے ھیں اور خود ھی مر جاتے ھیں اور ھمیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا !( المومنون 37 ) 
قتل الانسان مآ اکفرہ ! مارا جائے یہ انسان یہ کتنا ناشکرا ھے !
جو پانی تم پیتے ھو کبھی اسے سوچ کی نظر سے بھی دیکھا ھے ؟
اسے بادلوں سے ھم برساتے ھیں یا تم ؟ اگر ھم چاھئیں تو اسے کھارا بنا دیں ،پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے ؟ اب اسے کہاں سے اٹھاتے ھیں کیسے بہاتے ھیں باقی کو پہاڑوں پہ برسا کر محفوظ کرتے ھیں پھر اسے تیرے پیچھے پیچھے بھیجتے ھیں ، دریا پاس نہ ھو تو ھم اسے زمین کی رگوں میں دوڑا کر تیرے گھر کے پاس لاتے ھیں کہ تو اسے کنوئیں سے کھینچ لے !

جو تم مٹی میں دبا کر گھر لوٹ آتے ھو ،اسے کون اگاتا ھے اور تیرے پیچھے بوریاں بھر کر بھیجتا ھے ،، ؟ اگر ھم چاھتے تو اگنے سے پہلے اسے مار دیتے اور تو دُھائیاں دیتا پھرتا کہ میں برباد ھو گیا میری تو اصل بھی ضائع ھو گئ مجھے تو چَـٹی پڑ گئ !

تم اپنے آپ کو تو نہیں بھولے، اپنے خالق اور پالنے والے کو کیسے بھول گئے؟ ما غرک بربک الکریم ؟ اپنے رب کریم کو کیسے بھولے؟ کس نے بھلا دیا ؟ تجھے اپنی ذات یاد ھے پھر اس ذات کو بنانے والا کیونکر بھول گیا؟ تجھے عارضی پتہ یاد ھے تو مستقل پتہ کیسے بھول گیا؟ ھم نے تجھے تین اندھیروں میں سب سے چھپا کر بنایا اور صلاحیتوں سے اس طرح بھر دیا جس طرح شہد کا چھتہ شہد سے بھرا ھوتا ھے،، ھم ھی تیرا باعزت حوالہ ھیں،، تو دوسری نسبتوں سے اپنے کو باعزت ثابت کرنا چاھتا ھے ! ھم نے تجھے بھیجا، اپنے کام سے بھیجا کہ ھماری ھستی کی دھوم مچا دو دنیا میں اور پھر تمہیں ھمارے پاس آ کر جوابدھی کرنی ھے کہ ھمارے وجود کی گواھی دے کر آئے ھو یا تم بھی جا کر مخالف پارٹی سے مل گئے تھے اور ھمارے ھی خلاف گواھی دے آ ئے ھو ،،؟ !

دکھ اور سکھ کی حکمت


دکھ اور سکھ کی حکمت !

دکھ اور شکست دونوں کا کوئی وارث نہیں ھوتا ! 

جبکہ کائنات کے خالق نے دونوں میں بہت حکمت رکھی ھے !

جب آپ ایک دوا مسلسل لیتے رھتے ھیں تو پھر بدن اس کے خلاف مزاحمت کرنے پر قادر ھو جاتا ھے، اب وہ دوا اس کے لئے چاکلیٹ بن جاتی ھے، ڈاکٹر اسے فوراً تبدیل کر دیتا ھے !

جس لمحے آپ کو کوئی خوشی نصیب ھوتی ھے تو ٹھیک اگلے لمحے سے اس کا زوال شروع ھو جاتا ھے اور ھر آنے والا لمحہ ایک سوراخ کی مانند ھوتا ھے جس میں سے وہ خوشی قطرہ قطرہ ٹپک کر ختم ھو جاتی ھے،، نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اب آپ کو خوش ھونے کے لئے خوشی کی مزید ھائی پوٹینسی ڈوز چاھئے،، اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ھے یہانتک کہ جب بندے کے پاس دنیا کی ھر چیز موجود ھوتی ھے مگر خوشی نہیں ھوتی ! اب اسے صرف ایک ھی دوا نظر آتی ھے جو اسے تھرل دے سکتی ھے،کچھ نیا کر سکتی ھے اور وہ موت ھے ! یورپ میں خود کشی کا تناسب امیر گھرانوں میں زیادہ ھے !
غریب کی خوشی بھی چھوٹی سی ھوتی ھے،، وہ شروع میں ھی نس میں لگنے والے ٹیکے کی طرح خوشی کا انجیکشن نہیں لیتا ، بلکہ خوشیوں کی بہت ھلکی سی ڈوز لیتا ھے،، اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ھے اجر بھی لیتا ھے اور اگلی خوشی کا مزہ بھی !

دکھ پہلی خوشی کو نیوٹرلائز کر دیتا ھے، اس خوشی کے مضر اثرات کو زیرو کر کے انسان کو پھر نئ خوشی کے لئے تیار کر دیتا ھے،جس طرح کسان فصل لینے کے بعد اس زمین کے بخیئے ادھیڑ دیتا ھے، اس میں دو پھالی راجہ ھل چلا کر نیچے کا حصہ اوپر اور اوپر کا نیچے کر دیتا ھے،، اسے کھاد دیتا ھے اور سہاگہ چلاتا ھے،یوں اسے نئ فصل کے لئے تیار کر دیتا ھے،، اگر انسان امیری میں غریبوں کے درد کو اپنے اوپر وارد کرتا رھے ، اس درد کو محسوس کرتا رھے اور اس کا مداوہ کرتا رھے تو اب اسے اپنے دکھ کی ضرورت نہیں رھتی،، اور اللہ پاک اسے ذاتی دکھوں سے دوچار نہیں کرتا ! نیز غریبوں کی دعائیں اس کے مصائب کے خلاف ڈھال کا کام کرتی ھیں ! 

جب کسی مریض کو 500 روپے بھی دے دو تو جو جو اور جس قسم کی دعائیں وہ دیتا ھے سن کر انکھیں بھیگ جاتی ھیں ،،یہ 15 بیس درھم ھم یہاں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر جھٹ خرچ کر دیتے ھیں جبکہ کسی اور کے لئے یہی 20 درھم زندگی موت کا مسئلہ ھوتے ھیں ! کبھی اسپتال کے ڈینگی وارڈ کے باھر جا کر دیکھئے، کچھ لوگ سر پکڑے بیٹھے نظر آئیں گے ! پوچھیئے گا تو جواب ملے گا ، ڈاکٹر نے بولا ھے کہ خون کی فوری ضرورت ھے،، آپ اسے کہیئے کہ پھر بیٹھے تماشہ کیا دیکھ رھے ھو جا کر جلدی سے خون لاؤ !! وہ پلٹ کر کہے گا کیسے لاؤں کہاں سے لاؤں میرے پاس تو ٹیکسی کا کرایہ بھی نہیں ! یہ وہ جگہ ھے جہاں آپ کسی کی جان بچا کر اپنی گردن آخرت میں آزاد کر سکتے ھیں ! بات صرف 20 ھزار کی ھے،، 20 ھزار سے زیادہ خون نہیں لگتا مگر کچھ بچے اپنی ماں کی پرشفقت گود سے محروم ھونے سے بچ جاتے ھیں،، کچھ بچے یتیم ھونے سے بچ جاتے ھیں،، 

جو لوگ سود نہیں کھانا چاھتے مگر بینک میں پیسہ رکھنا بھی ان کی مجبوری ھے وہ پیسہ ان لوگوں کو جان بچانے کے لئے دے سکتے ھیں،، وہ ھمارے لیئے ناجائز ھے،، ان اضطرار والوں کے لئے جائز ھے ! لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کر کے اپنے حصے کا درد وھاں محسوس کر لیں گے تو اپنے دکھوں سے بچے رھیں گے ! کسی کے بچے کی ٹانگ ٹوٹنے پر اپ اپنے بچے والا درد محسوس کر لیں گے اور اس کے علاج کے لئے بھاگ دوڑ کریں گے تو آپ کے بچے کی ٹانگ توڑ کر آپ کو دکھ دینے کا پلان اللہ پاک منسوخ کر دیں گے کہ اس نے اپنے مقدر کا درد وصول کر لیا ھے ! یوں آپ کو اجر بھی ملے گا،، گھر سے مصیبت بھی دور رھے گی اور آپ کا بچہ بھی محفوظ رھے گا اور آپ کے قلب و نظر میں رقت و گداز بھی رھے گا اور آپ رب کے قریب بھی ھو جائیں گے