Sunday, March 23, 2014

شیطان سے بات چیت

شیطان سے مکالمہ !

جناب میں ایک صحافی ھوں ! صحافی اور اداکار کا اپنا کوئی نام نہیں ھوتا !
جو نام ایڈیٹر یا ھدایت کار کو کلک کر جائے وہ رکھ لیا جاتا ھے اور پھر دنیا نہیں جانتی کہ نورجہان کا نام اللہ وسائی تھا،، اور دلیپ کمار کا یوسف خان ! مجھے عموماً مدارس کے علماء سے انٹرویو کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی جو کہ ھم بخوبی سر انجام دیتے رھے- اس کام کے لئے نام کی بڑی اھمیت ھوتی ھے لہذا ھمارا نام بھی مذھبی طور پر بھاری بھر کم رکھا گیا جابر بن احمد الباقر- نام سنتے ھیں علماء کو یقین ھو جاتا کہ صحافی کوئی دھریہ نہیں ھے بلکہ مذھبی بیک گراؤنڈ رکھتا ھے ،، علماء کو پہلے بریفنگ دی جاتی ھے کہ ان سے ھمیں کس قسم کے مضمون کی ضرورت ھے، اسی کی نسبت سے ان کے مشورے کے ساتھ سوالات طے کیئے جاتے ھیں ! اور تقریباً طے شدہ جوابات دیئے جاتے ھیں ! اگر ایڈیٹر کو کوئی جواب پسند نہ آئے تو مولانا کے مشورے سے اسے مناسب بنا لیا جاتا ھے !
پاگل صرف پاگل خانوں میں نہیں ھوتے ھمارے دائیں بائیں پاگلوں کی بھر مار ھے ! ان میں ریڑھی بان سے لے کر بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ھوئے پاگل تک سب شامل ھیں ! جن میں سے ایک ھمارے اخبار کے چیف ایڈیٹر صاحب بھی ھیں،، ایک دن ھمیں دفتر میں بلایا گیا اور چائے بسکٹ کے بعد حکم دیا گیا کہ آپ نے اتنے بڑے بڑے علماء حضرات کو انٹرویو کیا ھے ! مگر یہ ساری اسٹوری ون وے ھے ،، اگر آپ شیطان کا انٹرویو کر سکیں تو اس کا ورژن بھی سامنے آ جائے کہ وہ اپنے بارے میں اور انسان کے بارے میں کیا کہنا چاھتا ھے ؟ مثبت اور متوازن صحافت اسی کا نام ھے !
ایڈیٹر صاحب کا حکم سننے کے دوران ھمارا پارہ چڑھنا شروع ھو چکا تھا اور غالباً یہ بھی شیطان کا ھی کارنامہ تھا ! جونہی ایڈیٹر صاحب خاموش ھوئے میں نے عرض کیا کہ جناب جس کسی نے بھی آپ کو یہ اطلاع دی ھے کہ شیطان میرا سالا ھے بالکل غلط کہا ھے،میری تو اس سے سلام دعا تک نہیں ھے اور نہ کبھی وہ مجھے ملا ھے ! اس لیئے کسی ایسی ھستی سے انٹرویو کرنا جس کو نہ آپ دیکھ سکتے ھوں اور نہ کبھی دیکھا ھو ناممکن ھے،آپ میری معذرت قبول فرمائیں،، اس پہ وہ مسکرائے اور بولے یار تمہیں ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ھے،فنڈز بھی دیئے جائیں گے شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک شیطان دفتر کھولے بیٹھا ھے،، کالا جادو،پیلا جادو ،، تمنا کیسی ھی کیوں نہ ھو ،، سنگدل سے سنگدل محبوب قدموں میں،، فلاں بنگالی بابا ،فلاں سنیاسی بابا ،، فلاں برمی بابا ،، جاؤ یار ان کے یہاں تلاش کرو بغیر شیطان کی پارٹنرشپ کے ان کا کاروبار کیسے چل سکتا ھے ؟ ان میں سے کسی نہ کسی نے ضرور شیطان سے ملاقات کی ھو گی !!
یوں ھم نے یہ مشن اپنے ھاتھ میں لے لیا اور سارے جادوگروں کو ایک ایک کر کے چھاننا شروع کیا ،، ایک ایک سے سوال کیا ،منتیں کیں،، پیسے کا لالچ دیا کہ یار شیطان کا پتہ دے دو،، اس سے ضروری کام ھے !! مگر پتہ چلا کہ وہ خود بھی دو نمبر شیطان ھیں،، اصلی شیطان کے نظر نہ آنے کا انہوں نے فائدہ یوں اٹھایا کہ خود ھی شیطان بن بیٹھے اور اس کے فرنچائز بن کر اس کا کام کرتے ھیں ، مگر معاوضہ بھی انسان سے لیتے ھیں اور وہ بھی بھٹکانے اور ایمان ضائع کرنے کا !
مہینہ پلک جھپکتے گزر گیا اور اگلے دن رپورٹ پیش کرنی تھی ، فنڈ بھی سارا ختم ھو گیا تھا - اس دن رات کا کھانا بھی ٹھیک سے کھایا نہیں گیا اور میں جلدی بستر پہ چلا گیا ! سوچوں میں ڈوبے ھوئے پتہ نہیں کب نیند کی وادی میں چلا گیا تھا کہ اچانک دروازے سے ایک صاحب اندر داخل ھوئے ! دیکھنے میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے کوئی کھلاڑی لگتے تھے،، بڑے آرام سے آ کر میری چارپائی کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئے ! مجھے بڑی حیرت ھوئی ایک شخص بغیر کسی اجازت کے کسی کے کمرے میں گھس جائے اور معذرت بھی نہ کرے ! خطرہ تو محسوس ھوتا ھے،اس کے چہرے پر ویسے ھی لعنت نظر آ رھی تھی جیسے کوئی ٹارگٹ کلر ھو ! جب کہ صحافیوں کو دن دیہاڑے ٹارگٹ کیا جا رھا تھا !
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ! جناب کا تعارف ؟
پہلے تو اس نے ایک انتہائی مکروہ قہہقہ لگایا پھر بولا، چندا سارا شہر تو نے میری تلاش میں چھان مارا اور اب پہچاننے سے بھی انکار ؟ میں ھوں وہ شیطان جس سے آپ کو انٹرویو کرنا تھا،،میں نے سوچا چلو انسان اپنی سوانح عمری چھپواتا ھے تو ھم بھی یہ کر کے دیکھتے ھیں ! ویسے ایک بات ھے بھائی جابر ( مجھے اس کا بھائی کہنا ذرا بھی نہ بھایا ،گویا وہ واقعی ھمارا سالا بننے کے چکر میں تھا )،، یہ انسان جب آپ بیتیاں چھپواتا ھے تو اس میں ساری نیکیاں ھی چھپواتا ھے گویا وہ فرشتہ ھے جس سے کبھی گناہ سرزد ھوا ھی نہیں ! علماء کی سوانح عمریاں چاھے ان کے معتقدین کی طرف سے چھپوائی جائیں پڑھو تو لگتا ھے یہ تو معصوم عن الخطا ھیں اور ان کی کرامات ! پیغمبروں کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں ،، بعض علماء تو اپنی زندگی میں ھی اپنی ذات پر پی ایچ ڈی کروا رھے ھیں،،
مولانا فلاں ،، بحثیت ایک مجتہد ،، فلاں صاحب بطور خادم حدیث،، چار چار پی ایچ ڈیز ایک شیخ الاسلام پر ھو رھی ھیں !! ان حالات میں میرا سامنے آنا اور اصل حقائق سے پردہ اٹھانا بہت ضروری تھا،، اب آپ جو سوال کرنا چاھتے ھیں وہ کر لیں ،،اس وضاحت کے ساتھ کہ میں جھوٹ بولنے سے پیشگی معذرت کرتا ھوں،جو میرے دل میں ھو گا میں وھی بیان کروں گا،، میں نے اللہ سے بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، ایک ایک بات جو میرے دل میں تھی وہ اللہ کے سامنے رکھ دی تھی،، میں کیا کروں گا،،کیسے کرونگا اور کیوں کروں گا صاف صاف بتا دیا تھا،،میں کافر ھوں منافق نہیں ھوں ،،یہی لقب مجھے آسمانی کتابوں میں دیا گیا ھے،، میں کھلا دشمن ھوں چھپا دشمن نہیں ھوں،، چھپے دشمن پیدا کرنے میں انسان اپنی مثال آپ ھے !
اب ھمارے اندر کا صحافی جاگ پڑا - ھم نے کاغذ قلم سنبھالا اور اپنے مرتب کردہ سوالات کا جائزہ لیا ! شیطان کی بے تکلفی کو دیکھتے ھوئے ھمارا ڈر کم ھو گیا تھا جس کی روشنی میں ھم نے اپنے چند سوالات کو کاٹا اور چند نئے سوال مرتب کر کے انٹرویو شروع کیا

میرا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ سجدے سے انکار سے پہلے تمہارا اسٹیٹس آسمانوں پر کیا تھا ؟
میں نے شیطان کو واضح طور پر سنجیدہ ھوتے دیکھا،گویا کسی اذیت ناک یاد کا سایہ اس کے چہرے پر سے گزر گیا ھو ! اس نے میری طرف غور سے دیکھ کر کہا اس کے بارے میں آپ لوگوں میں بھی تو بہت ساری کہانیاں مشہور ھیں پھر مجھ سے آپ کو پوچھنے کی ضرورت کیوں محسوس ھوئی ؟ اور آپ کو ایک شیطان سے سچ کی توقع کیوں پیدا ھو گئ ھے ؟ پہلی بات یہ کہ میں تمہارے منہ سے سچ سننا چاھتا ھوں اور دوسری بات یہ کہ میں تمہارے اس دعوے کا امتحاں بھی چاھتا ھوں کہ تم نے اللہ کے سامنے سچ سچ بیان کر دیا تھا ! یار تمہیں بات کرتے ھوئے سمجھ نہیں لگتی ؟ ایک بات واضح طور پر تمہارے قرآن میں بار بار لکھی ھے کہ ابلیس نے یہ کہا کہ میں سجدہ نہیں کرتا،، میں اس سے بہتر ھوں،، مجھے تیری عزت کی قسم میں اسے گمراہ کرونگا، میں اس کے دائیں سے بھی آؤں گا ، بائیں سے بھی وار کروں گا،سامنے سے بھی آؤں گا اور پیچھے سے بھی وار کروں گا اور ان کی اکثریت تیری شکر گزار نہیں ھو گی،، میں دنیا کی چیزیں ان کے سامنے مزین کرونگا ،،پھر ان میں خواھشیں پیدا کروں گا،پھر میں جو حکم دوں گا وہ یہ پورا کریں گے،، یہ تمہاری طرف بھیجی گئ کتاب میں اللہ کا بیان ھے، اگر ترجمے سے قرآن پڑھا ھوتا تو تم میری بات پر شک نہ کرتے،،!! شیطان کو غصے میں دیکھ کر ھمیں اپنا انٹرویو رستے میں ھی ختم ھوتا نظر آ رھا تھا،،مگر میں نے بھی صحافیانہ چاپلوسی کا جال ڈالا،اچھا یار میں تمہارے منہ سے سننا چاھتا تھا کہ آسمان والے تو تم کو ھیرو سمجھتے تھے پھر تو ولن کیونکر نکل آیا ؟ 
دیکھو میاں جابر پہلی بات یہ کہ آسمانوں پر لاٹری کا کوئی قانون نہیں ھے ! جنوں میں سے ھوتے ھوئے فرشتوں تک رسائی آسمانوں میں جگہ بنانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ھے،،میں اللہ پاک کا مطیع اور فرمانبردار بندہ تھا ! میں نے زمین کے چپے چپے پہ سجدے کیئے ھیں جب زمین ختم ھوئی تو مجھے آسمان پر سجدوں کی اجازت ملی جہاں فرشتے سجدے کرتے تھے ! جتنا اللہ کو میں جانتا تھا ،جس طرح میں اسے بیان کر سکتا تھا فرشتے اس فن سے با آشنا تھے،میں جب رب کی عظمت اور جلال بیان کرتا تو فرشتے نہ صرف غش کھا جاتے بلکہ کئ کئ دن بیہوش رھتے ! سرکش جنات کے لئے میں فرشتوں کا لشکر لے کر آتا اور کچھ کو قتل کرتا کچھ فرار ھو جاتے کچھ دوبارہ مطیع ھو جاتے ! 
پھر تمہیں کس چیز نے بغاوت پر آمادہ کیا اور تو اللہ کی نافرمانی کر بیٹھا ؟
میاں جابر ،،،، اللہ کی بادشاھی میں کوئی کام اس کی اسکیم کے خلاف ھونا کیا ممکن ھے ؟ میں ابلیس کا منہ ھی دیکھتا رہ گیا !! یہ کیسے ممکن ھے کہ ابلیس کا کوئی رول نہ ھو اور ابلیس بن جائے ،، وہ بھی اس طرح کہ اللہ کو پتہ بھی نہ ھو اور وہ مجھ سے پوچھے کہ تمہیں کیا ھو گیا ھے کہ تو سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ھوا ؟ ابلیس اپنی بات جاری رکھے ھوئے تھا !
دیکھو جس طرح آدم کی تخلیق سے بھی پہلے لکھ دیا گیا تھا کہ آدم خطا کرے گا۔۔ اسی طرح ابلیس کی تقدیر بھی اس کی تخلیق سے پہلے لکھی جا چکی تھی ! مجھے وھاں نہیں جانا چاھئے تھا مگر میرا گزر اس تختی کے پاس سے ھوا جس میں لکھا ھوا تھا کہ اللہ کا کوئی بندہ صدیوں اسکی عبادت کرے گا اور پھر ایک نافرمانی کر کے راندہ درگاہ بن جائے گا ! بس بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ " کاش وہ میں ھوتا " جب آدم کو بنایا گیا تو سامنے نظر آرھا تھا کہ آدم کے ساتھ دوسرا دوڑنے والا چاھئے ،،جس سے جیت کر آدم پہلے نمبر پر آئے ! اکیلے دوڑ کر تو کوئی پہلے نمبر پر نہیں آتا؟ کیا کوئی کہانی بغیر ولن کے بھی ھوتی ھے؟ جتنا طاقتور ھیرو ھوتا ھے ویسا ھی شکتی مان ولن بھی چاھئے،، پھسپھسا سا ولن تو ھیرو کی انسلٹ ھوتی ھے ! خیر مجھے ساری اسکیم سمجھ لگ گئ،،فرشتوں میں سے کوئی نہ انکار کر سکتا تھا اور نہ ھی وہ اس اسکیم کو سمجھ کر قربانی دے سکتے تھے،، یہ کام مجھ جیسے ناھنجار سے ھی ھوا !
میرا جبریل سے مکالمہ اقبال نے لکھا ھے،،جس میں جبرائیل کو میں یہی سمجھا رھا ھوں کہ آدم کی کہانی بھی فرشتوں کی کہانی ھوتی ، جو تھرل اللہ چاھتا تھا کہ آدم کی کہانی میں ھو،، وہ سسپنس اور سنسنی میرے خون نے ھی پیدا کی !
گر کبھی خلوت میسر ھو تو پوچھ اللہ سے !
قصــہءِ آدم کــو رنگیں کــر گیا کــس کا لہو ؟
تم انسان سے گناہ کیوں کرواتے ھو ؟
یہ بھی ایک الزام ھے جس کی تردید کرنے کے لئے میں تمہارے پاس آیا ھوں !
دیکھو ثواب کے لئے نہیں تم صرف میری حقیقت جاننے کے لئے قرآن کو ترجمے سے پڑھ لو تو تم مسلمانوں کو احساس ھو جائے کہ تم کتنے بڑے خطرے سے دوچار ھو ! تم یہ سمجھتے ھو کہ قیامت کے دن سارا الزام مجھ پر رکھ کر تم سیدھے جنت میں چلے جاؤ گے؟ ایسا نہیں ھے قرآن میں میرا جتنا رول ھے میں بس وھی ادا کر رھا ھوں ،، جس چیز کا چیلنج دیا ھے اسی پر عمل کر رھا ھوں ،، میری کہانی اپنے رب کی زبانی سننی ھے اور اس میں انسان اور شیطان کے جرم کی نوعیت سمجھنی ھے تو سورہ ابراھیم کی ایک ھی آیت نمبر 22 کافی ھے،، میرا رول صرف دفعہ 109 کا ھے ،،کہ میں نے جرم کی دعوت دی،، جبکہ تم 302 کے مجرم ھو اور میں 302/109 کا مجرم ھوں ! اور تمہاری ھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 109 کو ثابت کرنا ناممکن ھے لہذا اس کے تحت اب سزا نہیں دی جاتی،، تمہیں میں نے بھی دعوت دی اور رسول ﷺ نے
 بھی دعوت دی،، زور نہ میرا تم پر چلتا تھا نہ نبی کا چلتا ھے اگر زور چلتا تو نوح اپنے بیٹے اور بیوی پر چلا لیتے،، تم نے نبیﷺ کی دعوت رد کر دی میری دعوت قبول کر لی ،رد و قبول کا اختیار تو تمہارے پاس تھا ؟ میری یہ بات اللہ نے تسلیم کر لی ھے اس کا رد نہین کیا،، میں ظلم میں مشورے کا ملزم ھوں اور تم ظلم کرنے والوں میں سے ھو ! آئی سمجھ جناب حضرتِ انسان ،، فرشتوں کے سجدے پہ ھی خوش ھوتے رھتے ھو،،اس ترک و اختیار اور رد و قبول کی امانت کا کوئی احساس ھے تمہیں کہ تم کیا بوجھ اٹھا بیٹھے ھو ؟
وہ بدبو جو مجھے ابلیس سے آ رھی تھی اور میں انٹرویو جلدی سے ختم کرنے کے چکر میں تھا،، اس سے زیادہ طاقتور بد بو کا بھبھکا میرے گریبان سے نکلا !! بات تو ابلیس کی سچ تھی ! کوئی کہے کہ کنوئیں میں چھلانگ لگا دو تو بندہ چھلانگ لگا لیتا ھے؟ کوئی کہے کہ زہر کھا لو تو بندہ زھر کھا لیتا ھے؟؟؟؟ پھر کوئی کہے کہ گناہ کر لو تو بندہ کیسے گناہ کر لیتا ھے ؟ اور ایسا بندہ معصوم کیسے بن جاتا ھے ؟
جب ھمیں کوئی جواب نہ سوجھا تو ھم نے پینترا بدلا اور اسے اس کے انجام کی طرف متوجہ کیا ! 
اچھا تمہیں اپنے انجام سے ڈر نہیں لگتا؟
جابر میاں تمہارا کیا خیال ھے اللہ کسی کی فیور میں بے انصافی بھی کرتا ھے ؟ ابلیس نے پلٹ کر سوال کر دیا !
نہیں یہ ناممکن ھے،میرا اللہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ بے انصافی کرتا ھے،،
تو پھر یقین رکھو وہ میرا بھی رب ھے وہ میرے ساتھ کبھی بھی بے انصافی نہیں کرے گا،، جتنا میرا جرم ھے اتنی ھی سزا دے گا ! اس نے آج تک ایک لفظ بھی میرے بارے میں کسی بھی آسمانی کتاب میں ایسا نہیں کہا جو مجھ پر میرے جرم سے زیادہ الزام لگاتا ھو ! ھر جگہ اس نے یہی فرمایا ھے کہ شیطان کے پاس تمہیں گناہ پر آمادہ کرنے کی نہ کوئی دلیل ھے اور نہ کوئی فزیکل طاقت ھے، ما کان لی علیکم من سلطانٍ الا ان دعوتکم فاستجبتم لی ،فلا تلومونی و لوموا انفسکم ،،
 ( ابراھیم 22 ) میری یہ میدانِ حشر کی دلیل دنیا ھی میں قبول کر لی گئ ھے ،، اللہ نے اس کا رد نہیں کیا،،مجھے جھوٹا نہیں کہا،، قرآن میرا بھی گواہ ھے ،، 
دوسرا مجھ پر حشر میں مقدمہ نہیں چلے گا،، میں تو تم لوگوں کے فیصلوں کے انتظار میں اس میدان میں کھڑا ھونگا تا کہ تمہیں ساتھ لے کر جاؤں ،،
میں سرک کر ابلیس سے دور ھو گیا !!
وہ لعنت کا کیا قصہ ھے ؟ ھم نے اپنا یکہ بھی پھینک دیا اور ساتھ طنزیہ مسکرائے بھی !
جی پہلی بات یہ کہ مجھ پر تو صرف اللہ کی لعنت ھے ! وان علیک لعنتی الی یوم الدین! اور تجھ پر میری لعنت ھے بدلے کے دن تک ! یہ اللہ کی لعنت تو تمہیں بخوبی یاد رھی اور تمہارا مولوی ھر جمعے کو منبر پر اچھل اچھل کر بیان کرتا ھے کہ شیطان پر اللہ نے لعنت کر دی ،،لعنت کر دی،،ملعون شیطان ،، شیطان ملعون ! مگر تمہیں پتہ ھے کہ حق بیان نہ کرنے والے مولوی پر اور اللہ کی طرف سے حق کو واضح کر دینے کے بعد صرف اپنی روٹی کی خاطر حق کو چھپا لینے والے مولوی پر ،اللہ کی بھی لعنت اور فرشتوں کی بھی لعنت اور جتنے انسان ھیں ان سب کی لعنت اور لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ھے ؟ اگر تمہارا مولوی حق بیان کرے اور حق کو تسلیم کر لے تو یہ جو تم گلی گلی مسجدیں بنا کر بیٹھے ھو یہ ایک مسجد میں تبدیل ھو جائیں ! وہ کتاب اللہ کی پکڑ کر بیٹھا ھوتا ھے مگر بات میری مانتا ھے ،، وہ حق کے نام پر حق سے روکتا ھے اور رستہ بتانے کے پیسے بھی لیتا ھے اور رستہ بھی غلط بتاتا ھے،، یقین نہیں آتا تو سورہ توبہ کی آیت 34 پڑھ لینا،،مگر کہیں توبہ کر ھی نہ لینا !! دوسری بات یہ کہ یہ لعنت قیامت کے دن تک ھے، کبھی غور فرما لینا،، وہ یوم الدین کو ایکسپائر ھو جائے گی ،،
اچھا دیکھو تم نے معافی کیوں نہیں مانگی ؟
معافی اللہ کی اسکیم میں ھی نہیں تھی ورنہ وہ مجھے معافی کی توفیق بھی دے دیتا،،میں نے جو چاھا وہ مانگا ،، اور جو مانگا اس نے وہ سب دیا،،پھر کیا معافی مانگتا تو وہ معافی نہ دیتا ؟ مگر میری معافی کے بعد پھر آدم نے اکیلے دوڑنا تھا اور اکیلے دوڑنے سے آدم کی ویلیو کچھ بھی نہ رھتی ،، اکیلے دوڑتے آدمی میں مسابقت کا جذبہ نہیں ھوتا،، ریس اور جوگنگ میں فرق ھوتا ھے،، آدم مسابقت اور ریس کے لیئے پیدا کیا گیا تھا،،جوگنگ کے لئے نہیں !! تم نے کبھی اللہ کا حکم پڑھا ،سابقوا الی مغفرۃ من ربکم و جنۃٍ عرضھا کعرض السماء والارض ( الحدید 21 ) بس یہ ھے وہ مسابقت اور ریس جس میں آدم کو میرے ساتھ دوڑایا گیا ھے،، میں نے مسابقت کر کے جہنم میں جانا ھے اور آدم نے دوڑتے دوڑتے جنت میں جانا ھے،،
تم تو جہنم کو یوں بیان کر رھے ھو جیسے وہ تمہارا مقصود و مطلوب ٹھکانہ ھے ؟ میں نے طنزیہ انداز میں کہا !!
وہ ابلیس تھا تھوڑا سا مسکرا کر بولا،، دیکھو رب کی اسکیم میں میرا ٹھکانہ وھی ھے اور میں نے اسے بہت سوچ سمجھ کر قبول کر لیا ھے، اللہ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ شیطان رو رو کر معافیاں مانگے گا،،کسی آسمانی کتاب میں میرے رونے گڑگڑانے کا کوئی ذکر نہ پاؤ گے،، کبھی غور کرنا کہ اس کی وجہ کیا ھے؟ البتہ کافروں کا ضرور ذکر ھے کہ وہ کہیں گے کہ اے اللہ ھمیں ایک بار اس میں سے نکال ھم دوبارہ اگر یہ کریں تو پھر ھم بہت ظالم ھونگے ! آگ کو آگ ھی سوٹ کرتی ھے،، آگ کا جنت میں کیا کام ؟ اللہ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ سزا نہیں دے گا،، ایمان والے گنہگار جب تک جہنم میں رھیں گے جہنم سامنے رھے گی،،جب آخری ایمان والا بھی نکال لیا جائے گا تو جہنم کا منہ لیپ کر اسے ھمیشہ کے لئے سب کی نظروں سے اوجھل کر دیا جائے گا،، فرشتوں کی نظر سے بھی ،، وہ صرف اللہ کے علم میں رھے گی،، اس گمشدہ جہنم میں کافروں پر میری حکمرانی ھو گی !! جس طرح جیل میں سب سے بڑا سزا یافتہ ان کا کھڑپینچ ھوتا ھے،میں نے جہنم کی کھڑپینچی منظور کر لی ھے ! کیا خیال ھے انٹرویو کا باقی حصہ وھیں نہ مکمل کر لیں ؟ شیطان نے جونہی یہ جملہ کہا میرا تراہ نکل گیا ! اور اس کے ساتھ ھی میری آنکھ بھی کھل گئ !

Wednesday, March 5, 2014

اسلامی نظام کے قیام کا آسان اور کم خرچ


اسلامی نظام کے قیام کا آسان اور کم خرچ مگر قابلِ عمل نسخہ ! بھائیو جو بات میں کہنے لگا ھوں، اجمالاً ایک جملے میں بیان کی جا سکتی ھے،، مگر تفصیلاً پوری کتاب یا تھیسس لکھا جا سکتا ھے ! وہ اجمالی جملہ یہ ھے کہ " جتنا زور ھم نے علماء کو کُرسی تک پہنچانے پر صرف کیا ھے،، اس کا صرف 05۔0 ٪ بھی کرسی والے کو فیصل مسجد کے مبنر پر لانے میں خرچ کرتے تو آج پاکستان میں اسلام کا بول بالا ھوتا "،،صرف ایک گھنٹے کی میٹنگ میں نواز شریف کو فیصل مسجد میں خطبہ دینے پر قائل کیا جا سکتا ھے ! اگلے دو ھفتے میں آئینی ترمیم کے ساتھ انہیں امیر المومنین قرار دیا جا سکتا ھے ! لو جی خلافت قائم ھو گئ ! اللہ پاک نے سورہ الحج کی آیت 41 میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صاحب اقتدار پر فرض کیا ھے اور یہ" منبر و محراب" اصلاً خلیفہ کا فرضِ منصبی ھے ! مساجد اس فریضے کی ادائیگی کے ٹولز ھیں ! اور ھمیشہ اسی طرح رھا ھے کہ دارالخلافے میں خلیفہ اور صوبوں میں گورنر خطبہ دیا کرتے تھے جہاں وہ نئے احکامات کا اعلان کیا کرتے تھے،، جن کو تبدیل کرنا ھوتا تھا وہ بھی جمعے میں بیان ھوتے تھے اور جن باتوں سے روکنا مقصود ھوتا تھا اس کی انفارمیشن میں خطابِ جمعہ میں دی جاتی تھی ! یوں اسلام کتابوں میں اور فتوؤں میں نہیں ملتا تھا،، احکامات کی صورت سوسائٹی کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا تھا ! یہی وجہ ھے کہ خلفاء سے احادیث کی روایت بہت کم ھے کیونکہ روایت وہ بیان کرتا ھے جو صرف پریس کانفرنس کر کے مطالبہ کر سکتا ھے،جس کے ھاتھ میں طاقت ھوتی ھے وہ روایت بیان نہیں کرتا روایت پر عمل کرتا ھے کیونکہ یہ اس کا فرض منصبی ھوتا تھا، اسی وجہ سے خلفاء کے آثار فقہاء کے نزدیک سنت کا درجہ رکھتے ھیں ! مساجد یونین کونسل ،تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کی طرح کا سرکاری ادارہ ھے،جسے سرکار ھی قائم کرتی،اور چلاتی تھی،، 100 سال تک کسی پرائیویٹ مسجد کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،،کہ جس کے پاس پیسہ ھوا ایک محلے میں تین تین مساجد بنا کر بیٹھ گئے ! آپ کبھی نہیں سنیں گے ،کہیں نہیں پڑھیں گے کہ امام ابوحنیفہؒ نے فلاں مسجد میں جمعے کا خطبہ دیا،،، البتہ یہ ضرور پڑھیں گے کہ حجاج بن یوسف نے جمعے کا خطبہ دیا ،،زیاد اور ابن زیاد نے جمعے کا خطبہ دیا اور لوگوں نے کنکریاں ماریں،، ابو موسی الاشعریؓ نے بحیثیت گورنر جمعے کا خطبہ دیا،،یہاں تک کہ عبداللہ ابن مسعودؓ جلیل القدر فقیہہ صحابی چونکہ گورنر نہیں بلکہ معلم اور مدرس بنا کر بھیجے گئے تھے ،انہوں نے کبھی جمعے کا خطبہ مرکزی مسجد میں نہیں دیا،،خطیب گورنر کی طرف سے مقرر ھوتے تھے اور اسی کے حکم سے معزول کیئے جاتے تھے،،نبی کریمﷺ کے زمانے سے لوگ خطیب نہیں چنا کرتے تھے بلکہ آپ ﷺ سرکاری حیثیت سے ان کا تعین فرمایا کرتے تھے،ان کا ٹیسٹ لیا جاتا تھا،،ایک دفعہ آپ ﷺ نے خطباء کے تعـین کے لئے کچھ لوگوں کو بلایا اور ان کا امتحان لینا شروع کیا،، ایک خطیب نے کہا ،، من یطع اللہ ورسولہ فقد ھدی و من یعصِھما فقد غوی ،، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ھی ضمیر میں اللہ اور رسول کو جمع کرنے پر اس سے سخت ناراض ھوئے اور اسے فرمایا بئس الخطیب انت ! تو برا خطیب ھے،بیٹھ جا ! اسی سنت کو خلفاء نے زندہ رکھا !علماء کا کردار ھمیشہ سے مشاورتی رھا ھے ! چاروں ائمہ اور ان کے شاگردوں نے کبھی نہ حکومت طلب کی، نہ لوگوں نے انہیں حاکم اور خلیفہ بنانے کی کوئی تحریک شروع کی ! ائمہ نے بھی اپنے مشاورتی کرادر پر ھی توجہ دی اور اسے دیانت کے ساتھ نبھایا،حالانکہ وہ کوئی آئیڈیل حکمران نہیں تھے،، کہ جن پر کوئی اعتراض وارد نہ کیا جا سکتا ھو، وہ قتل سمیت ھر جرم میں ماخوذ کیئے جا سکتے تھے، اس کے باوجود لوگوں نے ان کو ھٹا کر کبھی بھی ،،امام مالک ،امام ابوحںیفہ ،امام شافعی اور امام احمد کو حکمران بنانے کی کوئی تحریک یا مہم نہیں چلائی ! جب سے ھمارے علماء نے اپنی نگاھیں اقتدار پر جمائی ھیں اس دن سے مشاورتی کردار کو بھی متنازعہ اور مشکوک بنا لیا ھے،، خدا ھی ملا نہ وصالِ صنم ،،والی مثال اگر سو فیصد کسی پر لاگو ھوتی ھے تو وہ ھمارے مذھبی طبقے پر لاگو ھوتی ھے جونہی حکمرانوں نے مساجد کو ایزی لیا انہیں انڑ اسٹیمیٹ کیا اور ان کی اھمیت کا ادراک نہ کیا ،اسے دوسروں کو سونپ دیا اور خود الگ ھو کر بیٹھ گئے اسی دن سے اسلام اقتدار سے محروم ھو کر دین نہ رھا بلکہ مذاھب میں تبدیل ھو گیا !صرف فتوؤں کا مذھب رہ گیا اور فتوی چونکہ نافذ نہیں ھوتا،، نافذ کرنے والوں نے اسے علماء کو گفٹ کر دیا،، بس تب سے دین فتوؤں میں ملتا ھے اور دال جوتیوں مین بٹتی ھے ! مساجد کی بھرمار ھے اور مساجد ایک بیمار کے بدن میں پیدا ھونے والی گلٹیوں کی شکل اختیار کر گئ ھیں جو دین کی وحدت کی نہیں بلکہ مذاھب اور مسالک کے مورچے بن گئے جہاں اپنے اپنے مسالک کے سپاھی پیدا کیئے جاتے ھیں ! حاکم تو ایک ھے،دین بھی ایک ھے، وہ ایک ھی بات کرے گا جو کہے گا اس پر عمل کا اختیار بھی رکھتا ھے یوں دین اپنے اصل منبعے کی طرف پلٹے گا! الذین ان مکناھم فی الارض،، وہ جن کو ھم زمین پر تمکن عطا فرمائیں تو ظاھر ھے یہ تمکن نواز شریف کو بخشا گیا ھے،، اقامو الصلوۃ ، وہ نماز قائم کریں،، مرکزی مسجد کا امام نواز شریف ھے،، و اٰتوالزکوۃ ،، زکوۃ کی وصولی اور عوام تک اسے پہنچانے کا ذمہ دار بھی وھی ھے ،، و امروا بالمعروف،، منبر سے معروف کی تلقین اور اس کے لئے ضروری عملی اقدامات کا ذمہ دار وھی ھے، و نہوا عن المنکر ،، اور برائی سے خبردار کر کے اس کی راہ روکنے کے عملی اقدامات اٹھانا بھی اس کا مذھبی فریضہ ھے،، کیوںکہ تمکن اس کو ملا ھے،، مفتی حضرات صرف تقریر کر سکتے ھیں اور کرتے چلے آ رھے ھیں ! کیونکہ سورہ یوسف میں جو بار بار حضرت یوسف کو تمکن فی الارض کا احسان جتایا جا رھا ھے تو ساتھ یہ بھی بتایا جا رھا ھے کہ تمکن کا حقیقی مفہوم صاحب اختیار ھونا اور اس اختیار کو پھر خیر کے لئے استعمال کرنا ھے،،یوں امر بالمعروف حاکم کا فریضہ ھے،عوام بطور آلہ استعمال ھوتے ھیں،، ان پر اپنے اپنے دائرہ کار میں یہ کام فرضِ کفایہ ھے،، اصل ذمہ داری حاکم کی ھے،، جب اسے معلوم ھو گا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نمائندگی کر رھا ھے تو یقیناً اسے اس عہدے کے ساتھ ایک تقدس کا تعلق اور رشتہ محسوس ھو گا، وہ اس کی اھمیت کو سمجھے گا ،، نتیجے میں اس کے ذاتی کردار میں بھی بلندی پیدا ھو گی اور وہ ایک سیاست دان کے بازاری مقام سے اٹھ کر خلافت کے مقدس مقام پر فائز ھو جائے گا،، یوں ھِــز ھائی نیس اور ھــز ھولی نیس کا ایک ھی ھستی اور ایک ھی عہدے میں ادغام ھو جائے گی،، اور جس پرزے کی خرابی سے اسلام کی شکست وریخت  شروع ھوئی تھی وہ پرزہ ٹھیک کام کرنا شروع کر دے گا ،، اور اسلام دوبارہ وحدت کی طرف گامزن ھو گا،، خلفاء کی مساجد اور منابر سے گرفت کمزور ھونے کے زمانے سے ھی مختلف مذاھب کی مارا ماری شروع ھوئی ھے ! اب علماء کو چاھئے کہ وہ اپنی یہ ضد چھوڑ دیں کہ اسلام وھی ھو گا جو ان کے دستِ مبارک سے نافذ ھو گا،، بلکہ جسے اللہ نے اقتدار بخشا ھے اسے تسلیم کریں اور منبر جس کی امانت ھے اسے واپس کریں اور نیچے بیٹھ کر اس کا خطاب سنیں ،،

بدنام اللہ کو کر دیا کہ اللہ سے ڈر لگتا ھے


میں اللہ سے کیوں ڈروں ؟

1- کیا وہ ظالم ھے ؟ 

2- کیا وہ میری نیکیاں کسی اور کو دے دے گا ؟

3- کیا وہ کسی کے گناہ مجھ پر لاد دے گا ؟

4- کیا وہ کسی ایسے آدمی کی وجہ سے جو میری نسبت نفل زیادہ پڑھتا ھے اور میرے ساتھ اس کی ان بن ھو گئ ھے تو اللہ اس ادمی کی حمایت میں میری فائلوں میں وہ گناہ ڈال دے گا جو نہیں کیئے یا ان گناھوں کا ریٹ اور ویٹ بڑھا دے گا ؟

5- کیا وہ جج کی طرح کسی کے نفلوں کے آگے بِک جائے گا ؟ 

6- کیا وہ کسی کرپٹ وکیل کی طرح مخالف پارٹی سے مل جائے گا؟

7- کیا وہ پولیس کی طرح چرس کی پڑیا میرے نامہ اعمال میں گھسا کر حدود کا پرچہ بنا دے گا ؟

8- کیا وہ پٹواری کی طرح میری جنت کسی اور کے نام کر دے گا ؟

9- جس طرح ماں اپنی بیٹیوں کی خاطر بیٹوں سے اور بیٹوں کی خاطر بیٹیوں سے ناجائز ناراض ھو جاتی ھے ، اللہ بھی کسی سے ناجائز ناراض ھو جاتا ھے ؟

10- جس طرح ایک چاپلوس اور نکمہ بیٹا والدین کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے رام کر کے اور مسکہ پالش کر کے ایک مخلص اور خدمتگار بیٹے کے بارے میں بدظن کر نے میں کامیاب ھو جاتا ھے، اسی طرح کوئی میرے بارے میں میرے رب کو بھی ورغلا دے گا ؟؟

تلک عشرۃٓ کاملہ !! مجھے کوئی ایک وجہ بتائی جائے کہ میں کیوں اپنے اللہ سے ڈروں ؟

یہ سارا کیا دھرا ھماری زبان کا ھے !

اتقوا اللہ کا ترجمہ اللہ سے ڈرو،،کر دیا ھے،، حالانکہ اس کا مطلب ھے اللہ کا خیال رکھو ! جو بات کرو جو کام کرو، بس اللہ کی پسند ناپسند اور رضا کا خیال رکھو،، جہاں جس ماحول میں ھو اللہ کا خیال رکھو ،، بے خدا ھو کے مت جیو،کوئی لمحہ بے خدا مت گزارو ،، روزے اس لئے فرض کیئے کہ تم کو اللہ کا خیال رکھنا آ جائے !

جو دم غافل ، سو دم کافر ،مرشد اے فرمایا ھُــو !

ڈر اپنے کرتوتوں کا ھوتا ھے،، بدنام اللہ کو کر دیا کہ اللہ سے ڈر لگتا ھے !

آپ سڑک پر جا رھے ھیں ! ٹریفک پولیس کی گاڑیاں آپ کے دائیں بائیں سے گزر رھی ھیں ،آپ کو پولیس سے ذرا ڈر نہیں لگ رھا بلکہ آپ پولیس گاڑیوں کو اور ٹیک بھی کر رھے ھیں !!

اچانک آپ نو انٹری میں داخل ھو گئے یا سرخ اشارہ جمپ کر دیا ،، اب آپ کی نظریں بیک مرر پر جم گئیں،، پولیس کی گاڑی دیکھ کر آپ کی ٹانگیں کانپنا شروع ھو گئیں،، رنگ پیلا پڑ گیا، بلڈ پریشر لو ھو گیا،، آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا ،،پسینے کی تریلیاں آنے لگیں ،، اور آپ کہہ رھے ھیں کہ یہ سب کچھ پولیس کے ڈر سے ھوا؟ کیوں اشارہ جمپ کرنے کے بعد پولیس کی گاڑی کے سینگ نکل آئے تھے،، آپ اپنے کارنامے کے نتائج سے خوفزدہ تھے نہ کہ پولیس سے،،یہی معاملہ ھم اللہ کے ساتھ کرتے ھیں !

اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا



بھائی لوگو !

معاف کـــــرنا ! 

میں نے تو اپنی مقدور بھر کوشش کر دیکھی ھے،، پوری کوشش کی ھے، ھر طریقہ آزما دیکھا ھے !

مگر اللہ کی قسم مجھے اللہ سے ڈر نہیں لگتا !

مجھے اللہ سے ڈرا نہیں جاتا ! اللہ کی محبت نے سیلاب کے پانی کی طرح اندر سب کچھ جل تھل کر کے رکھ دیا ھے ھر جگہ پیار کا پانی بھرا پڑا ھے،خوف اور ڈر اندر گھستے ھوئے ڈرتے ھیں،، 

میں نے بہت چاھا کہ اس میں ڈراوے اور خوف کا کوئی عنصر تلاش کر لوں ! مگر ناکام رھا،، میں خوف اور ڈر نام کی کوئی چیز اپنے اندر نہیں پاتا ،میں نے اسے سراپا رحمت ھی رحمت، پیار ھی پیار پایا ھے ! معاف کرنے والا ،در گزر کرنے والا ،نہ صرف عذر قبول کرنے والا بلکہ خود عذر دماغ میں سجھانے والا،، اسی نے آدم علیہ السلام کو توبہ کا صیغہ اور طریقہ سجھایا تھا !

آپ جب کسی سے کوئی لوکیشن پوچھتے ھیں تو وہ خود جس رستے سے اس منزل تک گیا ھوتا ھے ،بالکل اسی رستے سے آپ کو سمجھاتا ھے،،وھی چوک ، وھی سگنل، وھی رائٹ سے لیفٹ اور لیفٹ کے بعد دوسرا کٹ !

اللہ کا رستہ سجھانے والے بھی قسم قسم کے لوگ ھیں،،مگر میں نے تو اسے پیار میں ھی پایا ھے،، پیار کے رستے سے ھی لوکیشن سمجھاتا ھوں ،اس میں کوئی رائٹ اور لیفٹ ھے ھی نہیں،، آپ سے اللہ تک درمیان میں کوئی ھے بھی نہیں !

میں جب بھی مصنوعی خوف طاری کرنے کی کوشش کرتا ھوں تو لگتا ھے جیسے وہ اللہ طنزیہ انداز میں دیکھتا ھے اور ایک لمبــــــــــــــــــی ھـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــوں کر کے فرماتا ھے '' تیری ساری زندگی تیرے چونچلے برداشت کرتے،، تجھے سنبھالتے، سنوارتے ،اٹھاتے بناتے گزر گئی،، اب جب ھم سے ملاقات کا وقت آیا تو جناب کو ھم سے ڈر لگنا شروع ھو گیا ؟ ذرا ھمیں بھی دکھاؤ جی وہ ڈر کدھر ھے ؟ تا کہ ھم اس کا علاج کریں ! تمہارے اندر تو کوئی نہیں ، ڈر بھی کوئی نہیں اور ڈر کی جگہ بھی کوئی نہیں ،ھمیں تو سارے سٹور پیار سے ھی بھرے ملے ھیں !

"لا خوفٓ علیھم ولا ھم یحزنون " سے ھی تو ھماری دوستی شروع ھوتی ھے ! اب یہ دوستی کی انتہا میں خوف کہاں سے آ گیا ؟ جب لوگ دوسروں سے ڈرتے ھیں تو اللہ انہیں فرماتا ھے کہ ' اگر ڈرنا ھے تو پھر میں زیادہ حقدار ھوں کہ مجھ سے ڈرو ،کیونکہ تمہارا نفع نقصان تو میں کر سکتا ھوں،،فلا تخافوھم و خافونِ " چنانچہ تم ان سے مت ڈرو ،مجھ سے ڈرو،، فلا تخشوھم واخشونِ'' ان سے سہمے سہمے مت رھا کرو ھم سے سہمے رھا کرو ! یہ تو خوف کے مریض کو دوا دی جا رھی ! خوف مرض ھے اور پیار صفت ھے،، محبت مطلوب ھے ! 

البتہ میں اس سے محبت کرتا ھوں ،دنیا کی ھر چیز مجھ سے محبت کرتی ھے کیونکہ وہ اللہ سے بھی محبت کرتی ھے اور اللہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرتی ھے،اللہ کی ساری کائنات مجھے اپنی اپنی لگتی ھے اور اللہ جب میرے ساتھ ھوتا ھے تو وہ سیلوٹ کرتی نظر آتی ھے، وہ مجھے رشک کی نگاہ سے دیکھتی ھے ،، جان دار اور بے جان کی کوئی تخصیص نہیں ھے! مجھے یہ احساس کہ اللہ میرے ساتھ ھے،، کسی سے ڈرنے نہیں دیتا،کسی سے دبنے نہیں دیتا ،، کسی سے مرعوب نہیں ھونے دیتا،، دشمنوں سے خوفزدہ نہیں ھونے دیتا،، میرے پیارے نبی ﷺ کی دعا ھے، اللھم بک ادرأ فی نحور الاعداءِ والجبابرہ ،، ائے اللہ میں تیرے بھروسے پر دشمنوں کی گردنوں پر ھاتھ ڈال دیتا ھوں اور جابروں سے ٹکــرا جاتا ھوں ! مجھ سے جب کوئی ایسی غلطی سر زد ھو جاتی ھے جس سے مجھے احساس ھوتا ھے کہ میرا اللہ مجھ سے ناراض ھو گیا ھو گا تو میں سہم جاتا ھوں اس شوخے بچے کی طرح جو باپ کی موجودگی تو بڑی ڈھینگیں مارتا ھے ،مگر جونہی ان سے بچھڑتا ھے تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ھے اور چہرے پر ھوائیاں اڑنے لگتی ھیں ! میرا بھی یہی حال ھوتا ھے،،مجھے اپنی پشت خالی لگتی ھے،میں اپنے کو لاوارث سمجھتا ھوں، اپنی گاڑی سے بھی ڈر لگتا ھے،، گاڑی کے ٹائر سے بھی ڈر لگتا ھے کہ یہ اچانک پھٹ سکتا ھے،، ھر چیز مجھے ڈراتی ھے جیسے انہیں پتہ چل جاتا ھے کہ میں لاوارث ھو گیا ھوں ! میں اللہ سے بچھڑ کر ھر چیز سے ڈرتا ھوں ،، میں رو رو کر اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتا ھوں،، جنت کے لئے نہیں ! اور نہ آگ کے ڈر کی وجہ سے ! بس مجھے اللہ کی ناراضی میں دنیا ھی جہنم لگنے لگتی ھے،، وہ جو رو رو کر چاھتے تھے کہ ان کو سنگسار کیا جائے وہ رب کو ناراض کر بیٹھے ھیں ،، ان سے پوچھئے انہیں کیا ھو جاتا ھے انہیں یہ زندگی عزیز کیوں نہیں رھتی ؟؟ نہ وہ جنت جانے کے لئے سنگسار ھونے آئے تھے اور نہ جہنم سے بچنے کے لئے !! محب کے لئے محبوب کی ناراضی سب سے بڑی سزا ھے ! اور محبوب کی خوشی سب سے بڑا انعام ھے،، اس لئے جنت کی ساری نعمتوں کا ذکر فرما کر آخر میں فرمایا کہ،، و رضوان من اللہ اکبر ! اللہ کی رضا سب سے بڑی نعمت ھے ! نبیﷺ نے ان کو سزا نہین دی تھی،، سزا سے نجات دی تھی،، ان پر مہربانی کی تھی ! اللہ سے ان کا راضی نامہ کرا دیا تھا،، نبی پاکﷺ کی یہ سنت رھی ھے کہ جس نے اپنے لئے جو سزا تجویز کر لی پھر آپﷺ نے اسے اس کے پیار کے حوالے کر دیا،، جس نے اپنے کو ستون سے باندھ لیا ،،فرمایا اب اسے رب ھی کھولے گا کیونکہ یہ محب اور محبوب کی بات آگئ ھے،، اسی طرح ان سگنسار والوں نے بار بار کے منع کرنے اور موقع دیئے جانے کے باوجود اپنے محبوب کو راضی کرنے کا ایک طریقہ پسند کر لیا تو نبیﷺ نے حسبِ دستور پھر مداخلت نہیں کی !
بات کا رخ تبدیل ھو گیا ھے،،تو عرض یہ ھے کہ مجھے میرے گناہ ڈراتے ھیں،، اور ڈر اللہ کی ناراضی کا ھوتا ھے کہ میرا خالق ،میرا مالک، میرا مصور،، میرا محسن،میرے دکھوں کا ساتھی ،میرے سکھوں اور خوشیوں کا منبع میرا پیارا رب ناراض نہ ھو جائے،، اس ڈر کے سوا مجھے کبھی اور کوئی ڈر نہیں لگا،،

یقین کریں میں اپنے آپ کو اپنے اللہ سے ڈرا نہیں پایا !! اس کا پیار مجھے ڈرنے نہیں دیتا،،اس نے میرے ساتھ ڈرنے ڈرانے والا کوئی معاملہ کیا ھی نہیں ! پھر جھوٹا ڈر بھی تو ایک قسم کا جھوٹ ھی ھوتا ھے اور مجھ سے یہ جھوٹ بولا نہیں جاتا !! اب لگا لیجئے جو فتوے لگانے ھیں !!

Saturday, March 1, 2014

الف اللہ چنبے دی بُوٹی


الف اللہ چنبے دی بُوٹی !!

ویگن اسٹاپ پر آدھی رات کے وقت ایک اک تارے والا گا رھا تھا "

ایمان سلامت ھر کوئی منگے ، عشق سلامت کوئی ھـُو !
ایمان منــگن شـــرماون عشقوں ، دل نوں غیرت ھوئی ھـُو !

جس منزل نوں عشق پہنچاوے،ایمانوں خبر نہ کوئی ھـُو !
میرا عشـــق سلامت رکھیں ،، ایمانـوں دیا دھــروئی ھـُو !

ایک صاحب نے پوچھا بابا عشق کیا ھوتا ھے ؟

اک تارے والے نے انہیں غور سے دیکھا ! اور دھیمے لہجے میں پوچھا !
بابو جی ! بھوک کیا ھوتی ھے ؟

بابو جی لاجواب ھو کر اس کا منہ دیکھنے لگے !!

بابا بولا ، بابو جی جسے کبھی بھوک لگی ھی نہ ھو ،اسے کوئی کیسے سمجھا سکتا ھے کہ بھوک کیا ھے ؟ اور جسے لگتی ھے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ھی نہیں رھتی کہ بھوک کیا ھے ! اس کا تو اندر بھوک بھوک کا ورد کرتا ھے ! اتنا کہہ کر اک تارے والا گہری سوچ میں ڈوب گیا ! 
پھر آئستہ سے بولا ! بابو جی بھوک نہ ھو تو کھانا بھی بوجھ بن جاتا ھے !
عشق نہ ھو تو ایمان بھی بوجھ بن جاتا ھے اور انسان پہلی فرصت میں اس سے جان چھڑا لیتا ھے !
واضح رھے یہ پوچھنے والا سابقہ جج اور فلسفوں کو کنگھال مارنے والا پڑھا لکھا شخص تھا مگر بقول اس کے اس ٹھٹھرتی رات میں اس اکتارے والے کے سامنے اس کے سارے فلسفے ٹھٹھر کر رہ گئے تھے !
اللہ اور اس کے حبیبﷺ سے محبت نہ ھو تو فرائض اور سنتیں ایک بوجھ بن جاتے ھیں ،، جن سے آگ کے ڈر کی وجہ سے ھی انسان عہدہ برآ ھوتا ھے !
وہ مسجد آ کر عزت نہیں پاتا بلکہ بستہ بے کے مجرموں کی طرح حاضری لگوانے آتا ھے ! اور تیرا دل تو ھے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں " کا مصداق ھوتا ھے !!

نہ تو توکل توکل لکھنے سے کوئی متوکل ھو جاتا ھے اور نہ ھی سکون سکون کا ورد کرنے سے کسی کو سکون قلب ملتا ھے،، جب کسی سے محبت ھو تو پھر اس کا نام سن کر جو راحت دل میں پیدا ھوتی ھے اس کا نام سکون قلب ھے،، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کا یہ مطلب ھے ،، اور لوگ اللہ اللہ اللہ کا ورد کر کے اس میں سے سکون نکالنا چاھتے ھیں،، وہ اللہ کہنا عاشق کا اللہ کہنا ھے،، نہ کہ کسی ھائپر ٹینشن کے مریض کا ! کیا مجازی محبت میں محبوب کے تذکرے سے آپ کو سکون نہیں ملتا ؟ وہ کہاں سے آتا ھے ؟ اسی کنوئیں سے اللہ والا سکون بھی ملتا ھے مگر شرط پیار کی ھے ! اور جب پیار ھو جائے اور وہ اصلی والا ھو تو محبوب کے رستے کی تکلیفیں بھی سکون دیتی ھیں ،، گِلے پیدا نہیں کرتیں !

عامر عثمانی کی طویل غزل کا شعر ھے !

عشق کے مراحل میں وہ بھی مقام آتا ھے !
آفـتیں برستــی ھیں، دل سکـــــون پاتا ھے !

مشکلیں اے دل! سخت ھی سہـــی لیـکن !
یہ نصیب کیا کم ھے کہ " کوئی " آزماتا ھے ! 

میں غالباً چار سال کا تھا ! سپارہ پڑھ کر مسجد سے نکلا تو ایک لڑکے نے لڑکی کا رستہ روکا ھوا تھا، دونوں ماموں اور پھوپھی سے کزن تھے ! لڑکی کے ھاتھ میں کپڑے ماپنے والا لوھے کا گز تھا ،جو وہ غالباً کسی کے گھر سے مانگ کر لے جا رھی تھی، اس نے لڑکے کو کہا کہ میرا دل چاھتا ھے کہ میں یہ گز تمہارے سر پہ دے ماروں ! اس پہ اس لڑکے نے اسے قسم دی اگر وہ اس کو نہ مارے ! لڑکی نے مسکراتے ھوئے ٹھاہ کر کے گز اس کے سر پہ دے مارا ! لڑکے نے سر پہ ھاتھ رکھ لیا،جب ھاتھ ھٹایا تو اس کا ھاتھ خون سے لتھڑا ھوا تھا ! اس نے خون کو چوما اور رستہ چھوڑ دیا،، رشتہ ھو گیا دونوں کی شادی ھو گئ ،اولاد ابھی تک نہیں ھوئی اور ظاھر ھے اب ھونے کے امکانات بھی نہیں رھے،، والدین کے اصرار کے باوجود اس لڑکے نے زندگی بھر شادی نہیں کی، مجھے اس سے محبت ھے اولاد سے نہیں،، جو اولاد اسے دکھ دے کر ملے وہ مجھے نہیں چاھئے ،،یہ عشقِ مجازی کی وارداتیں ھیں،، عشقِ حقیقی کی تو عین میں ھی جہان ڈوب جاتا ھے !

جو لوگ صحابہؓ کی دعاؤں پہ عقلی استدلال کرتے ھیں ،وہ بھی ابھی بغدادی قاعدہ پڑھتے ھیں،،میں ان سے درخواست کرتا ھوں کہ وہ عقلی طور پر ثابت کر دیں کہ انسان کی تخیلق ھی عقلاً ضروری تھی ! اللہ کی وہ کونسی ضرورت تھی یا مجبوری تھی جو انسان کی تخلیق کی محرک بنی ھے ! اور اگر انسان نہ ھوتا تو اللہ کی عظمت میں کیا فرق پڑ جانا تھا ؟

انسان عقل کی تخلیق نہیں عشق کی تخلیق ھے ! اللہ کو صاحب عشق مخلوق درکار تھی،، عشق ضرورت نہیں دیکھتا ، اس کے اپنے قواعد ھیں،، جنت والے بھی ھیں اور جہنم والے بھی ھیں،، دائیں والے بھی ھیں اور بائیں والے بھی ھیں ،،مگر آگے نکل جانے والے بھی ھیں،، و کنتم ازواجاً ثلاثہ،، اور تم تین گروھوں میں بٹ جاؤ گے،، اصحاب الیمین ،، و اصحاب الشمال ،،، والسابقون السابقون ،، یہ آگے نکل جانے والے ھی عشق والے ھیں،، جنت والوں کو نبی اپنی معیت میں جنت میں لے جائیں گے،، اور عشق والوں کو اللہ اپنے ساتھ لے کر جائے گا،، اللہ فرمائے گا،،جنہوں نے جنت کے لئے کیئے وہ جنت میں چلے گئے،، جنہوں نے جہنم والے کیئے وہ جہنم میں چلے گئے،، میرے لئے کرنے والو آؤ چلیں ،،یہ رب کی معیت میں چلیں گے،، 
یہ وہ مقام ھے جہاں کہنے والے کہتے ھیں کہ جہنم کے ڈر سے کرتی ھوں تو جہنم واجب کر دے ،، جنت کی لالچ میں کرتی ھوں تو جنت حرام کر دے،، ائے اللہ میں تو تجھے اس لئے سجدے کرتی ھوں کہ تو ھے ھی سجدوں کے قابل !
یا "جنت میں جو میرا حصہ ھے اے اللہ وہ اپنے دوستوں کو دے دے،،دنیا میں جو میرا حصہ ھے اے اللہ وہ اپنے دشمنوں کو دے دے،، میرے لئے تو تـُو اور تیری محبت ھے کافی ھے ! 

بس مجھے سمجھ نہیں لگتی میں اپنا دل کہاں کہاں رکھوں !