Tuesday, August 5, 2014

پڑوس کی جنت دال برابر

     ایک عورت     
"میں جب بھی گزارش کرتا ھوں کہ عورت سراپا وفا ھے
تو 
مرد حضرات اعتراض کرتے ھیں ،،
 اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں استثناء بھی ھے جیسا کہ ھر معاملے میں ھوتا ھے مگر عموماً عورت جو قربانی دیتی ھے وہ مرد سوچ بھی نہیں سکتے یا شاید مرد کی جبلت ھی ایسی ھے
 کسی عورت کا شوھر بیمار ھو تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ اسے چھوڑ کر کہیں اگلے کے ساتھ جا شادی رچائے ،،
 بعض لڑکیاں نامرد کے ساتھ عمر بتا دیتی ھیں
مگر ساس کے طعنوں اور بیٹے کو نئ شادی کرانے کی دھمکیوں کے باوجود یہ نہیں بتاتی کہ اس نے بیٹا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دی ھے !
یہ شارجہ کا واقعہ ھے ،،
 ایک خاتون کے یہاں 3 بچے تھے ،دو بیٹے اور ایک بیٹی ، بڑا بیٹا 11 سال کا تھا پھر بیٹا تھا پھر بیٹی تھی !
 شوھر کا رویہ بیوی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں تھا ،
 اولاد بڑی حساس ھوتی ھے ،
وہ والدین کے معاملات کو جانتی ھوتی ھے
 اور
ظالم و مظلوم کو بھی پہچانتی ھے !
بیٹا کہا کرتا امی ابو آپ کے ساتھ بہت ظلم کرتے ھیں ،
ھم اپنی بہن پہ ایسا ظلم نہیں ھونے دیں گے ،،
 ھم اسے دور نہیں بیاھیں گے،
 ھم تین منزلہ گھر بنائیں گے نیچے میں رھونگا اوپر بہن کو رکھیں گے
اور
 سب سے اوپر دوسرا بھائی ھو اس طرح بہن دو بھائیوں کے درمیان رھے گی تو کوئی ظلم نہیں کرے گا !
یہی 11 سالہ بیٹا شام کو فٹ بال کھیلنے گیا ،،
بال کنپٹی میں لگا ،،
 وہ رات تو جیسے تیسے درد درد کرتے گزری اگلے دن اسپتال لے کر گئے
تو
 چیک اپ کے دوران ھی بیٹے کی زبان بند ھو گئ
پھر اس کے پورے بدن کو فالج ھو گیا ، صرف اس کی آنکھیں کھلی تھیں ،، ماں روز صبح اس کے سامنے جا کر بیٹھ جاتی اسے ادھر ادھر کی باتیں سناتی مگر وہ صرف دیکھ سکتا تھا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا ،، ماں کے لئے اس سے بڑھ کر اذیت کیا ھو گی کہ اس کا اس قدر ھمدرد بیٹا بے حس و حرکت اس کے سامنے لیٹا تھا اور ماں کی بات کا جواب نہیں دیتا تھا ،، اس کی ساری خوشیاں اور سوشل زندگی راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئ،، شوھر کا مطالبہ تھا کہ وہ ھار سنگھار کرے ،،مگر وہ کہتی تھی جس ماں کا بیٹا اس حال میں سامنے پڑا ھو وہ کیسے ھار سنگھار کر سکتی ھے ؟ اسٹوری گلف نیوز میں آ گئ ،کچھ عرصہ لوگوں نے مدد بھی کی مگر کب تک ! آئستہ آئستہ لوگ بھول گئے ،، شوھر بھی ناراض ھو گیا اس نے پہلے کمرہ الگ کیا پھر نئ شادی کر لی ! یہ ایک دو دن یا ایک دو ماہ کی بات نہیں ،، یہ چھ سال کا طویل عرصہ ھے ،جس میں 11 سال کا بچہ مونچھوں اور داڑھی والا جوان بن گیا ،بیڈ پہ لیٹے لیٹے ماں کےسامنے ھی اس کی مسیں بھیگیں پھر گھنی داڑھی نکلی ،، اور 17 سال کا کڑیل جوان ایک دن ماں کی گود میں سر رکھ کر مر گیا ،، چند آنسو تھے جو اس کے مرنے کے ساتھ اس کی آنکھوں سے گرے ،، اور چھ سال مسلسل کھلی آنکھیں آخر کار بند ھو گئیں ،،مگر وہ عورت غم کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ھوئی ،شوھر نے اپنی دنیا بسا لی تھی،، چھوٹے بیٹے کو نویں کلاس سے اٹھا کر سفاری والوں کے ساتھ لگا دیا جو تھوڑے بہت پپسے ملتے ان سے نظام چل رھا تھا ،،بیٹی کو وہ پڑھاتی رھی جو اس وقت گیارھویں میں پڑھ رھی ھے ! شوھر پہلے دوستوں کے برا بھلا کہنے پہ مکان کا کرایہ دے دیا کرتا تھا ،جو کہ اب وہ بھی بند ھے ،،ایک بیٹے کے دو یا ڈھائی ھزار میں وہ بیٹی کو پڑھائے ،مکان کا کرایہ دے جو کہ 1800 درھم ھے یا گھر کا روٹی کا نظام چلائے ،، اس کے آگے بھی اندھیرا ھے اور پیچھے بھی اندھیرا ھے ! درد بانٹنے والا بھی کوئی نہیں اور یادیں شیئر کرنے والا اپنی دنیا بسائے بیٹھا ھے ،، بیٹے کی تیمار داری کے دوران خود گرنے سے اس کی اپنی ریڑھ کی ھڈی کے مہرے بھی فریکچر ھو چکے ھیں،، بیٹی اسکول سے آ کر کچھ پکا کر کھلا دے تو کھلا دے ،، !
لوگ جنت ڈھونڈنے پتہ نہیں کہاں کہاں جاتے ھیں
 اور
 جنت ان کے پڑوس میں لگی ھوتی ھے !

No comments:

Post a Comment