آپ فیملی پلاننگ کرنا چاھتے ھیں تو کیوں کرنا چاھتے ھیں ؟
اگر تو یہ اس لئے ھے کہ اگلا بچہ ابھی چھوٹا ھے ،ماں کی صحت کمزور ھے ، وہ آپریشن برداشت نہیں کر سکتی وغیرہ وغیرہ تو یہ جائز وجوھات ھیں جن کے لئے پرھیز کی تمام دستیاب صورتیں جائز ھیں ،،
اگر وجہ یہ ھے کہ پہلے ھی کافی سارے بچے ھیں مزید کی ضرورت نہیں !
تو یاد رکھئے آپ اپنی کل سے بھی بے خبر ھیں کجا یہ کہ بچوں کی پرسوں کے بارے میں فیصلہ کریں ،، انسان بننے میں تو نو ماہ درکار ھوتے ھیں مگر انسان کے مرنے میں نو منٹ بھی نہیں لگتے ،، چھ سات بچے پیدا ھونے میں تو دس سال لگ جاتے ھیں مگر چھ سات بچے مرنے میں دس منٹ بھی نہیں لگتے ،، کوئی ھوائی حادثہ یا بس حادثہ یا لڑائی جھگڑا یا زلزلہ یا سیلاب ،، دس منٹ میں سب کو چھین سکتا ھے ،،،،،،،،،،
یہ کافی سارے ھم نے بیک وقت ختم ھوتے دیکھے ھیں مشہورِ زمانہ گلف ائیر کے حادثے میں میرے ایک دوست کی بیوی اور تمام بچے جو چھٹیاں گزار کر کراچی سے ابوظہبی آ رھے تھے ختم ھو گئے تھے ،، خود اللہ پاک نے اس قسم کی سوچ کو ،بغیر علم کی پلاننگ قرار دیا ھے ،، اور جب بغیر علم کے کھانے کی دعوت کی پلاننگ بھی غلط ھو جاتی ھے کبھی سالن کم تو کبھی زیادہ ھو جاتا ھے ،، تو انسان کی زندگی کی پلاننگ تو مستقبل کا بہت سارا علم مانگتی ھے جو صرف رب کے پاس ھے !
بعض لوگوں نے پہلے بچے کافی سمجھ کر آپریشن کرا لیا ،اگلے تو کنیڈا میں حادثے کے سبب ایک ھی گاڑی میں مر گئے جبکہ پچھلے کی امید کا شجر وہ خود ھی کاٹ بیٹھے تھے ،نتیجہ یہ کہ دونوں میاں بیوی پاگل ھو کر رہ گئے ،،
2- اس سبب سے فیملی پلاننگ کرنا کہ زیادہ بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دلا سکوں گا ،،
یہ وجہ بھی ناجائز ھے ،، اگر سارے والدین ڈاکٹر ،انجینئرز ھی پیدا کرنا اپنا شعار بنا لیں گے تو معاشرے کی دوسری بنیادی ضرورتوں کے لئے انسان چائنا سے منگوائے جائیں گے یا گوگل سے ڈاؤن لؤڈ کیئے جائیں گے ؟ ھمیں یہ حق کس نے دیا ھے کہ ھم اگر کسی بچے کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتے تو اس کو پیدا ھونے یا جینے کے حق سے ھی محروم کر دیں ؟ یہ زندگی ھماری ھو یا ھمارے بچوں کی ھو اصل میں اللہ کی اسکیم کے تحت ایک امتحان ھے ، اور امتحان کا سامان بھی اللہ پاک نے مہیا کرنا ھے وہ بچے دیتا بھی ھے اور لے بھی لیتا ھے تا کہ ھمیں آزمائے کہ ھم ان کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے یا اللہ کی بخشش اور عطا ،، عجیب بات یہ ھے کہ بچے بنانے کی پلاننگ کا حق تو انسان اپنا استعمال کرنا چاھتا ھے اور ان کو ھاؤس ھولڈ کی طرح اپنی ضرورت اور پسند کی تعداد کے مطابق بنانا چاھتا ھے ، مگر جب وھی بچہ خدا لے لیتا ھے تو دھریئے بن جاتے ھیں ،، تم مارو تو جائز ،،خدا مارے تو ناجائز ،، گٹر میں چلا جاتا تو جائز ، قبر میں چلا گیا تو خدا پہ گلہ اور اس کے وجود سے انکار ،، حالانکہ ایسا بچہ جو بچپن میں فوت ھو جائے والدین کی آخرت کا ذخیرہ ھوتا ھے جو ان کی بخشش کا سامان کرتا ھے ،،
نبئ کریم ﷺ نے عزل کی اجازت دی ھے کہ انسان مادہ تخلیق ٹھیک جگہ نہ جانے دے مگر ساتھ یہ بھی فرمایا ھے کہ اللہ نے جسے پیدا کرنا ھو گا اسے پیدا کر کے رھے گا ،، مگر یہ مصنوعی طریقوں کے بارے میں کہا ھے جو کہ استعمال ھوتے ھوئے بھی بچے پیدا ھو جاتے ھیں ،، اور پھر انسان ان کے قتل پر تُل جاتا ھے ،جب تمہاری احتیاط نے جواب دے دیا اور اللہ نے تمہاری پلاننگ کو تہس نہس کر کے ایک انسان کو پیدا کر دیا تو اب تم یہ بہانہ بنا کر کہ دو ھفتے کا ھے یا سات ھفتے کا ھے اس میں ابھی روح نہیں ڈالی گئ ، اور اللہ کا حق اس بچے پر اور خود بچے کا حق اپنی ذات پر چوتھے ماہ میں شروع ھو گا ،، ایک واھی بات ھے ،، تم وہ برتن ھی توڑ دینے پہ تُل گئے ھو جس میں رب نے روح ڈالنی تھی یہ برتن بھی خدا کی ملکیت ھے اور اس میں ڈالی جانے والی روح بھی اس کی ملکیت ھے اور اس کے قتل پر جوابدھی لازم ھے ! تمہاری مرضی صرف عزل تک ھی شرعی تھی ، جب عزل ناکام ھو گیا اپنے مقصد میں تو اب اس بچے کو مکمل ھونے اور جینے کا حق دو یہ اللہ کی مرضی ھے ،،
چند دن پہلے ایک ڈاکٹر صاحب آئے خود اسپیشلسٹ ھیں اور بیوی بھی ڈاکٹر ھے ، چھ ماہ ھوئے تھے دونوں نے اتفاقِ رائے سے اپنا سات ھفتے کا بچہ ابارشن کرا دیا تھا ،، چھ فٹ کا گورا چٹا ڈاکٹر بہت مشہور ھے ان کو پوری ابوظہبی جانتی ھے ،،لوگ سمجھتے ھیں کہ اللہ نے ان کے ھاتھ میں شفا کوٹ کوٹ کر بھری ھے ،، دونوں میاں بیوی کے پاس برطانیہ کی نیشنلٹی ھے - بات شروع کی تو ان سے ٹھیک سے بات نہیں ھو رھی تھی ،، میرے دروازے پر ھی انہوں نے سسکنا شروع کر دیا ، ان کی حالت دیکھ کر میں انہیں اندر لے آیا ، ان کا بدن کانپ رھا تھا وہ زارو قطار رو رھے تھے ،، میں نے اپنا بچہ خود مار دیا ،، اس دن سے میں سو نہیں سکا ،، ٹھیک سے کھا نہیں سکا ، ٹھیک سے اپنا کام نہیں کر سکا ،، میں سوچ سوچ کر پریشان ھوں کہ میں حشر میں اس بچے کا سامنا کیسے کرونگا ،، جب وہ پوچھے گا " بابا اولاد تو اپنے تحفظ کے لئے والدین کی آغوش میں چھپپتی اپنے دفاع کے لئے ان سے فریاد کرتی ھے ،، جب والدین ھی اتفاقِ رائے سے بچے کو قتل کرنے پہ تُل جائیں تو بچہ کہاں جائے ، کس سے فریاد کرے ؟؟؟ میں نے نفسیاتی دوائیں لینا بھی شروع کر دیا ھے مگر مجھے پھر بھی کوئی سکون نہیں
میں نے ان سے کہا کہ اپنی بیوی کو بھی بلا لیں - وہ باھر گاڑی میں بیٹھی تھیں ،، وہ گائنی ڈاکٹر ھیں ،، وہ دونوں ھی مرے ھوئے تھے ،بیوی کو بچہ جانے کا غم تو تھا شوھر بھی ھاتھ سے نکلتا نظر آ رھا تھا ، میں نے ان سے کہا کہ اب جو ھو گیا سو ھو گیا - آپ دونوں کا غم اس کو واپس نہیں لا سکتا مگر شاید آپ کو یہ احساس دلا سکتا ھے کہ آپ نے شاید کتنے لوگوں کو ابارشن کا مشورہ دے کر اس اذیت سے دوچار کیا ھو گا ، جس شکار آپ خود ھیں اور شاید کہ خدا آپ کو اس اذیت سے گزار کر آئندہ کچھ جانیں بچانے کا سامان کرنا چاھتا ھے ، اگر کچھ جانیں آپ بچا لیں اور لوگوں کو اس قسم کا مشورہ نہ دیا کریں تو شاید آپ کے بچے کی جان جانے کا کفارہ ادا ھو جائے اور اللہ پاک آپ کو معاف فرما دے ،،
یہ ایک کیس نہیں ھر دوسرے تیسرے ھفتے کوئی پچھتاوے کا مارا آ جاتا ھے اور اکثریت کھاتے پیتے لوگوں کی ھوتی ھے جو دونوں میاں بیوی جاب کرتے ھیں گویا نیا بچہ افورڈ نہیں کر سکتے ،جاب کی خاطر اسے مار دیتے ھیں ،، میں دعوے سے کہتا ھوں کہ غریب کو غربت کا کوئی ڈر نہیں ھوتا وہ بچے نہیں مارتا - وہ مارے تو اس کے پاس عذر بھی ھو کہ اے اللہ میں جس عذاب سے گزر رھا تھا ، بچے کو اس عذاب سے نہیں گزار سکتا تھا ،، مگر امیر آدمی کے پاس یہ عذر بھی نہیں ھے ، اللہ پاک فرماتا ھے " نحن نرزقھم و ایاکم ،، ھم ان کو رزق دیں گے اور تم کو بھی ھم ھی دیتے ھیں ،، دوسری جگہ فرمایا " نحن نرزقکم و ایاھم ،،، ھم تم کو بھی رزق دیں گے اور اس کو بھی جسے تم قتل کرنے چلے ھو -
پھر جن بچوں کو تم زندہ چھوڑ رھے ھو ان کو بھی اپنے بھروسے پہ چھوڑ رھے ھو کہ تم ان کو پال پوس کر ڈاکٹر ، انجینئر بنا لو گے ،،،،،،، حالانکہ خود تمہارا اپنا بھروسہ کوئی نہیں کہ تم کل باھر ھو گے یا قبر کے اندر ،،، کوئی ایکسیڈنٹ کوئی Mishap تمہیں معذور بھی کر سکتا ھے ، ساری زندگی کے لئے فالج کا شکار بھی کر سکتا ھے اور موت کا شکار بھی کر سکتا ھے ،پھر تم کس بل بوتے پہ فرعون کی طرح کچھ کو زندہ رکھنے اور کچھ کو قتل کرنے کے فیصلے کر رھے ھو ؟ میرے بیٹے کے ساتھ ایک لڑکی میڈیکل میں پڑھتی تھی،، اخری سال میں باپ فوت ھو گیا اور ڈاکٹری راہ میں رہ گئ ،،
اب آیئے وسائل کی عدم موجودگی کے بہانے کی طرف !
وسائل کا خدا بھی اللہ پاک ھی ھے ، جو وسائل آپ کے پاس ھیں ان کے بارے میں آپ کیسے پر اعتماد ھیں کہ وہ آپ کے پاس رھیں گے ،، آپ کے تین بچوں کے وسائل گھٹ کر دو کے برابر رہ گئے تو کیا آپ ایک بچہ قتل کر دیں گے ؟ ھو سکتا ھے جو آ رھا ھے وہ نہ صرف اپنے وسائل خود ساتھ لا رھا ھے بلکہ آپ کے رزق میں اضافے کی فائل بھی پاس کرا کر ساتھ لا رھا ھو ؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے والدین کی غالباً چھٹی اولاد ھے اگر ان کے والد نے فیملی پلاننگ کی ھوتی تو زاکر نائیک کے لئے کوئی گنجائش نہیں نکلنی تھی ، پھر آج سوچ لیں کہ وہ اپنے والدین کے لئے کیسا صدقہ جاریہ بھی ھے اور مالی امداد کا ذریعہ بھی اور دوسرے بھائیوں سے بڑھ کر خدمت گار بھی ھے ،،
الحمد للہ میرے تین بچے ھیں دو بیٹے ایک بیٹی ،،مگر یہ تین بھی سولہ میں سے بچے ھیں تیرہ بچے معزوری کی موت کا شکار ھوئے ، اگر اللہ چاھتا تو میرا گھر معذوروں سے بھر دیتا ،مگر اس نے ایک امتحان سے گزار کر صرف تین صحتمند اور ذھین بچے زندہ رکھے ،، ان کے لئے اس طرح وسائل فراھم کیئے کہ کوئی یقین نہ کرے ،، جن دنوں دبئ کا ڈاؤن فال چل رھا تھا ،مشینوں کے مالک خودکشیاں کر رھے تھے ، مشینیں کھڑی کرنے کے لئے کہیں جگہ نہیں ملتی تھی ، اس دور میں بھی الحمد للہ میری مشینیں ڈبل شفٹ میں کام کرتی تھیں ،، صرف اللہ پاک پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ھے ، انسان خوش بھی رھتا ھے اور صحتمند بھی ، انسان تو اپنے کام بھی درست نہیں کر سکتا مگر جب وہ خدا کے کام بھی اپنے سر لے لیتا ھے تو پھر ذھنی ،جسمانی اور روحانی بیماریوں کا شکار ھو جاتا ھے ،،،،،،،،،،،