Thursday, April 16, 2015

فیملی پلاننگ ! مگر کیوں ؟


آپ فیملی پلاننگ کرنا چاھتے ھیں تو کیوں کرنا چاھتے ھیں ؟
اگر تو یہ اس لئے ھے کہ اگلا بچہ ابھی چھوٹا ھے ،ماں کی صحت کمزور ھے ، وہ آپریشن برداشت نہیں کر سکتی وغیرہ وغیرہ تو یہ جائز وجوھات ھیں جن کے لئے پرھیز کی تمام دستیاب صورتیں جائز ھیں ،،
اگر وجہ یہ ھے کہ پہلے ھی کافی سارے بچے ھیں مزید کی ضرورت نہیں !
تو یاد رکھئے آپ اپنی کل سے بھی بے خبر ھیں کجا یہ کہ بچوں کی پرسوں کے بارے میں فیصلہ کریں ،، انسان بننے میں تو نو ماہ درکار ھوتے ھیں مگر انسان کے مرنے میں نو منٹ بھی نہیں لگتے ،، چھ سات بچے پیدا ھونے میں تو دس سال لگ جاتے ھیں مگر چھ سات بچے مرنے میں دس منٹ بھی نہیں لگتے ،، کوئی ھوائی حادثہ یا بس حادثہ یا لڑائی جھگڑا یا زلزلہ یا سیلاب ،، دس منٹ میں سب کو چھین سکتا ھے ،،،،،،،،،،
یہ کافی سارے ھم نے بیک وقت ختم ھوتے دیکھے ھیں مشہورِ زمانہ گلف ائیر کے حادثے میں میرے ایک دوست کی بیوی اور تمام بچے جو چھٹیاں گزار کر کراچی سے ابوظہبی آ رھے تھے ختم ھو گئے تھے ،، خود اللہ پاک نے اس قسم کی سوچ کو ،بغیر علم کی پلاننگ قرار دیا ھے ،، اور جب بغیر علم کے کھانے کی دعوت کی پلاننگ بھی غلط ھو جاتی ھے کبھی سالن کم تو کبھی زیادہ ھو جاتا ھے ،، تو انسان کی زندگی کی پلاننگ تو مستقبل کا بہت سارا علم مانگتی ھے جو صرف رب کے پاس ھے !
بعض لوگوں نے پہلے بچے کافی سمجھ کر آپریشن کرا لیا ،اگلے تو کنیڈا میں حادثے کے سبب ایک ھی گاڑی میں مر گئے جبکہ پچھلے کی امید کا شجر وہ خود ھی کاٹ بیٹھے تھے ،نتیجہ یہ کہ دونوں میاں بیوی پاگل ھو کر رہ گئے ،،
2- اس سبب سے فیملی پلاننگ کرنا کہ زیادہ بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دلا سکوں گا ،،
یہ وجہ بھی ناجائز ھے ،، اگر سارے والدین ڈاکٹر ،انجینئرز ھی پیدا کرنا اپنا شعار بنا لیں گے تو معاشرے کی دوسری بنیادی ضرورتوں کے لئے انسان چائنا سے منگوائے جائیں گے یا گوگل سے ڈاؤن لؤڈ کیئے جائیں گے ؟ ھمیں یہ حق کس نے دیا ھے کہ ھم اگر کسی بچے کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتے تو اس کو پیدا ھونے یا جینے کے حق سے ھی محروم کر دیں ؟ یہ زندگی ھماری ھو یا ھمارے بچوں کی ھو اصل میں اللہ کی اسکیم کے تحت ایک امتحان ھے ، اور امتحان کا سامان بھی اللہ پاک نے مہیا کرنا ھے وہ بچے دیتا بھی ھے اور لے بھی لیتا ھے تا کہ ھمیں آزمائے کہ ھم ان کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے یا اللہ کی بخشش اور عطا ،، عجیب بات یہ ھے کہ بچے بنانے کی پلاننگ کا حق تو انسان اپنا استعمال کرنا چاھتا ھے اور ان کو ھاؤس ھولڈ کی طرح اپنی ضرورت اور پسند کی تعداد کے مطابق بنانا چاھتا ھے ، مگر جب وھی بچہ خدا لے لیتا ھے تو دھریئے بن جاتے ھیں ،، تم مارو تو جائز ،،خدا مارے تو ناجائز ،، گٹر میں چلا جاتا تو جائز ، قبر میں چلا گیا تو خدا پہ گلہ اور اس کے وجود سے انکار ،، حالانکہ ایسا بچہ جو بچپن میں فوت ھو جائے والدین کی آخرت کا ذخیرہ ھوتا ھے جو ان کی بخشش کا سامان کرتا ھے ،،
نبئ کریم ﷺ نے عزل کی اجازت دی ھے کہ انسان مادہ تخلیق ٹھیک جگہ نہ جانے دے مگر ساتھ یہ بھی فرمایا ھے کہ اللہ نے جسے پیدا کرنا ھو گا اسے پیدا کر کے رھے گا ،، مگر یہ مصنوعی طریقوں کے بارے میں کہا ھے جو کہ استعمال ھوتے ھوئے بھی بچے پیدا ھو جاتے ھیں ،، اور پھر انسان ان کے قتل پر تُل جاتا ھے ،جب تمہاری احتیاط نے جواب دے دیا اور اللہ نے تمہاری پلاننگ کو تہس نہس کر کے ایک انسان کو پیدا کر دیا تو اب تم یہ بہانہ بنا کر کہ دو ھفتے کا ھے یا سات ھفتے کا ھے اس میں ابھی روح نہیں ڈالی گئ ، اور اللہ کا حق اس بچے پر اور خود بچے کا حق اپنی ذات پر چوتھے ماہ میں شروع ھو گا ،، ایک واھی بات ھے ،، تم وہ برتن ھی توڑ دینے پہ تُل گئے ھو جس میں رب نے روح ڈالنی تھی یہ برتن بھی خدا کی ملکیت ھے اور اس میں ڈالی جانے والی روح بھی اس کی ملکیت ھے اور اس کے قتل پر جوابدھی لازم ھے ! تمہاری مرضی صرف عزل تک ھی شرعی تھی ، جب عزل ناکام ھو گیا اپنے مقصد میں تو اب اس بچے کو مکمل ھونے اور جینے کا حق دو یہ اللہ کی مرضی ھے ،،
چند دن پہلے ایک ڈاکٹر صاحب آئے خود اسپیشلسٹ ھیں اور بیوی بھی ڈاکٹر ھے ، چھ ماہ ھوئے تھے دونوں نے اتفاقِ رائے سے اپنا سات ھفتے کا بچہ ابارشن کرا دیا تھا ،، چھ فٹ کا گورا چٹا ڈاکٹر بہت مشہور ھے ان کو پوری ابوظہبی جانتی ھے ،،لوگ سمجھتے ھیں کہ اللہ نے ان کے ھاتھ میں شفا کوٹ کوٹ کر بھری ھے ،، دونوں میاں بیوی کے پاس برطانیہ کی نیشنلٹی ھے - بات شروع کی تو ان سے ٹھیک سے بات نہیں ھو رھی تھی ،، میرے دروازے پر ھی انہوں نے سسکنا شروع کر دیا ، ان کی حالت دیکھ کر میں انہیں اندر لے آیا ، ان کا بدن کانپ رھا تھا وہ زارو قطار رو رھے تھے ،، میں نے اپنا بچہ خود مار دیا ،، اس دن سے میں سو نہیں سکا ،، ٹھیک سے کھا نہیں سکا ، ٹھیک سے اپنا کام نہیں کر سکا ،، میں سوچ سوچ کر پریشان ھوں کہ میں حشر میں اس بچے کا سامنا کیسے کرونگا ،، جب وہ پوچھے گا " بابا اولاد تو اپنے تحفظ کے لئے والدین کی آغوش میں چھپپتی اپنے دفاع کے لئے ان سے فریاد کرتی ھے ،، جب والدین ھی اتفاقِ رائے سے بچے کو قتل کرنے پہ تُل جائیں تو بچہ کہاں جائے ، کس سے فریاد کرے ؟؟؟ میں نے نفسیاتی دوائیں لینا بھی شروع کر دیا ھے مگر مجھے پھر بھی کوئی سکون نہیں
میں نے ان سے کہا کہ اپنی بیوی کو بھی بلا لیں - وہ باھر گاڑی میں بیٹھی تھیں ،، وہ گائنی ڈاکٹر ھیں ،، وہ دونوں ھی مرے ھوئے تھے ،بیوی کو بچہ جانے کا غم تو تھا شوھر بھی ھاتھ سے نکلتا نظر آ رھا تھا ، میں نے ان سے کہا کہ اب جو ھو گیا سو ھو گیا - آپ دونوں کا غم اس کو واپس نہیں لا سکتا مگر شاید آپ کو یہ احساس دلا سکتا ھے کہ آپ نے شاید کتنے لوگوں کو ابارشن کا مشورہ دے کر اس اذیت سے دوچار کیا ھو گا ، جس شکار آپ خود ھیں اور شاید کہ خدا آپ کو اس اذیت سے گزار کر آئندہ کچھ جانیں بچانے کا سامان کرنا چاھتا ھے ، اگر کچھ جانیں آپ بچا لیں اور لوگوں کو اس قسم کا مشورہ نہ دیا کریں تو شاید آپ کے بچے کی جان جانے کا کفارہ ادا ھو جائے اور اللہ پاک آپ کو معاف فرما دے ،،
یہ ایک کیس نہیں ھر دوسرے تیسرے ھفتے کوئی پچھتاوے کا مارا آ جاتا ھے اور اکثریت کھاتے پیتے لوگوں کی ھوتی ھے جو دونوں میاں بیوی جاب کرتے ھیں گویا نیا بچہ افورڈ نہیں کر سکتے ،جاب کی خاطر اسے مار دیتے ھیں ،، میں دعوے سے کہتا ھوں کہ غریب کو غربت کا کوئی ڈر نہیں ھوتا وہ بچے نہیں مارتا - وہ مارے تو اس کے پاس عذر بھی ھو کہ اے اللہ میں جس عذاب سے گزر رھا تھا ، بچے کو اس عذاب سے نہیں گزار سکتا تھا ،، مگر امیر آدمی کے پاس یہ عذر بھی نہیں ھے ، اللہ پاک فرماتا ھے " نحن نرزقھم و ایاکم ،، ھم ان کو رزق دیں گے اور تم کو بھی ھم ھی دیتے ھیں ،، دوسری جگہ فرمایا " نحن نرزقکم و ایاھم ،،، ھم تم کو بھی رزق دیں گے اور اس کو بھی جسے تم قتل کرنے چلے ھو -
پھر جن بچوں کو تم زندہ چھوڑ رھے ھو ان کو بھی اپنے بھروسے پہ چھوڑ رھے ھو کہ تم ان کو پال پوس کر ڈاکٹر ، انجینئر بنا لو گے ،،،،،،، حالانکہ خود تمہارا اپنا بھروسہ کوئی نہیں کہ تم کل باھر ھو گے یا قبر کے اندر ،،، کوئی ایکسیڈنٹ کوئی Mishap تمہیں معذور بھی کر سکتا ھے ، ساری زندگی کے لئے فالج کا شکار بھی کر سکتا ھے اور موت کا شکار بھی کر سکتا ھے ،پھر تم کس بل بوتے پہ فرعون کی طرح کچھ کو زندہ رکھنے اور کچھ کو قتل کرنے کے فیصلے کر رھے ھو ؟ میرے بیٹے کے ساتھ ایک لڑکی میڈیکل میں پڑھتی تھی،، اخری سال میں باپ فوت ھو گیا اور ڈاکٹری راہ میں رہ گئ ،،
اب آیئے وسائل کی عدم موجودگی کے بہانے کی طرف !
وسائل کا خدا بھی اللہ پاک ھی ھے ، جو وسائل آپ کے پاس ھیں ان کے بارے میں آپ کیسے پر اعتماد ھیں کہ وہ آپ کے پاس رھیں گے ،، آپ کے تین بچوں کے وسائل گھٹ کر دو کے برابر رہ گئے تو کیا آپ ایک بچہ قتل کر دیں گے ؟ ھو سکتا ھے جو آ رھا ھے وہ نہ صرف اپنے وسائل خود ساتھ لا رھا ھے بلکہ آپ کے رزق میں اضافے کی فائل بھی پاس کرا کر ساتھ لا رھا ھو ؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے والدین کی غالباً چھٹی اولاد ھے اگر ان کے والد نے فیملی پلاننگ کی ھوتی تو زاکر نائیک کے لئے کوئی گنجائش نہیں نکلنی تھی ، پھر آج سوچ لیں کہ وہ اپنے والدین کے لئے کیسا صدقہ جاریہ بھی ھے اور مالی امداد کا ذریعہ بھی اور دوسرے بھائیوں سے بڑھ کر خدمت گار بھی ھے ،،
الحمد للہ میرے تین بچے ھیں دو بیٹے ایک بیٹی ،،مگر یہ تین بھی سولہ میں سے بچے ھیں تیرہ بچے معزوری کی موت کا شکار ھوئے ، اگر اللہ چاھتا تو میرا گھر معذوروں سے بھر دیتا ،مگر اس نے ایک امتحان سے گزار کر صرف تین صحتمند اور ذھین بچے زندہ رکھے ،، ان کے لئے اس طرح وسائل فراھم کیئے کہ کوئی یقین نہ کرے ،، جن دنوں دبئ کا ڈاؤن فال چل رھا تھا ،مشینوں کے مالک خودکشیاں کر رھے تھے ، مشینیں کھڑی کرنے کے لئے کہیں جگہ نہیں ملتی تھی ، اس دور میں بھی الحمد للہ میری مشینیں ڈبل شفٹ میں کام کرتی تھیں ،، صرف اللہ پاک پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ھے ، انسان خوش بھی رھتا ھے اور صحتمند بھی ، انسان تو اپنے کام بھی درست نہیں کر سکتا مگر جب وہ خدا کے کام بھی اپنے سر لے لیتا ھے تو پھر ذھنی ،جسمانی اور روحانی بیماریوں کا شکار ھو جاتا ھے ،،،،،،،،،،،

آنے والا کہاں سے کھائے گا ؟

, آنے والا ایک منہ اور دو ھاتھ لے کر آتا ھے
اس کے رزق کی اپنی فائل ھے ،
اللہ پاک اس کو وہ کچھ دے سکتا ھے جو اس کے باپ نے سوچا بھی نہیں ھو گا ،، خدا بننے کی کوشش مت کریں ،،
 آپ غربت کی بجائے غریب ختم کرنے کی بات کر رھے ھیں ،،
یہ لفظ ھی غلط ھے کہ
 وہ کہاں سے کھائے گا ،
 اور اس بات کا قرآن نے صاف اور دو ٹوک جواب دیا ھے ،
اس کو بھی جو غربت میں مبتلا ھے اور اس کو بھی جسے ابھی غربت کا ڈر ھے ،، دونوں جواب آپ کے گوش گزار کر دیتا ھوں ،،
{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ (151-
یہ وہ شخص ھے جو مفلس ھو چکا ھے ، اس لئے اس سے کہا گیا کہ
 اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل مت کرو
ھم تم کو رزق دے رھے ھیں ناں؟ تو اس کو بھی ھم ھی دیں گے ،،
ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق نحن نرزقهم وإياكم إن قتلهم كان خطئا كبيرا 31الاسراء،،
یہ وہ شخص ھے جو مفلس نہیں مگر اسے زیادہ اولاد کی وجہ سے مفلس ھونے کا خدشہ ھے ، اس کو جواب دیا گیا ھے کہ " مت قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ، ھم گارنٹی دیتے ھیں کہ ھم اس کو رزق دیں گے ،، اور اس کا ثبوت یہ ھے کہ ھم ھی تم کو بھی دے رھے ھیں ،، اصل نفسیاتی مسئلہ یہ ھے کہ جب انسان اپنے آپ کو اپنا رازق قرار دے دیتا ھے اور حقیقی رازق پر سے اس کا توکل ختم ھو جاتا ھے تو پھر وہ سوچتا ھے کہ وہ اولاد کو کہاں سے کھلائے گا ،، ساری خرابی سافٹ ویئر میں ھے ، ایمان کی تجدید یا ری انسٹالینشن کی ضرورت ھے

Tuesday, November 4, 2014

ان کے لیے فتوی کیوں نہیں

وہ شخص مفتی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا
 سلام کیا اور مفتی صاحب کے سامنے بیٹھہ گیا، مفتی صاحب میرے دو بچے ہیں بیوی ھے اور میں ہوں، یہ مختصر سا کنبہ ہے میرا، کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، حالات بہت خراب ہیں بہت تنگدستی ھے منہگائی نے کمر توڑ دی ھے آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں کسی طور بھی گھر کا خرچہ پورا نہیں ھوتا رہنمائی فرمائیے کیا کروں؟۔ مفتی صاحب نے روایتی لائن دوھرائی، عیاشیاں ختم کرو اخراجات پر کنٹرول کرو تقویٰ اختیار کرو اور اپنی آمدنی بڑھانے کے لئیے جدوجہد کرو معاملات بہتر ھوجائیں گے انشاءاللہ۔ مفتی صاحب یہاں جائز خواہشات دم توڑ چکی ہیں آپ عیاشی کی بات کر رہے ہیں، اخراجات صرف اتنے ہیں کے روح سے سانس کا رشتہ قائم رہے، میرے گھر میں بھوک ناچ رہی ھے آپ کہہ رہے ہیں کہ میں تقویٰ اختیار کروں، تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے پلے کچھہ ھونا ضروری ھوتا ھے کہ میرے پاس ہیں تو دنیا بھر کی نعمتیں مگر میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے انتہائی سادہ زندگی بسر کروں، میرے پاس تو تقویٰ اختیار کرنے کے لئیے بھی کچھہ نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہہ کا قول ہے کے مفلسی کفر تک لے جاتی ھے۔ بھوکے آدمی کا کوئی مذہب ہی نہیں ھوتا اور آپ مجھے تقوئے کا درس دے رہے ہیں. صبح منہ اندھیرئے گھر سے نکلتا ہوں اور رات اندھیرئے میں ہی گھر لوٹتا ہوں، سارے دن کی مشقت اس قابل نہیں چھوڑتی کہ کوئی اور کام کر سکوں اور نہ ہی وقت بچتا ھے کسی دوسرے کام کے لئیے، معاشرئے میں بیروزگاری اتنی پھیل چکی ھے کہ مالک سے تنخواہ بڑھانے کے لئیے کہتا ہوں تو وہ کہتا ھے زیادہ نخرئے نہ دکھاو تم سے بھی کم تنخواہ میں لوگ کام کرنے کے لئیے تیار ہیں۔ گورنمنٹ نے کم از کم تنخواہ سات ہزار روپے رکھی ھے مجھے تو پھر بھی دس ہزار روپے تنخواہ ملتی ھے میں سوچتا ہوں کے جب میرا دس ہزار میں گزارا ممکن نہیں تو سات ہزار روپے ماہوار کمانے والے شخص کے لئیے کیسے ممکن ھوسکتا ھے؟۔ ایک کچی بستی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، چار ہزار مکان کا کرایہ ھے، بجلی کا کم از کم بل دو ہزار روپے آتا ھے، گیس اور پانی کی مد میں پانچ سو روپے خرچ ھوجاتے ہیں، صرف انتہائی ضروری اشیاء خورد و نوش مہینے کے راشن میں شامل ہوتی ہیں جو کم از کم تین ہزار میں آتی ہیں، ناشتے میں مکھن ڈبل روٹی جیم وغیرہ کھائے ہوئے تو مدت ھوگئی بلکے مجھے اور میری بیوی کو تو اب ذائقہ بھی یاد نہیں کے مکھن اور جیم کا زائقہ کیسا ھوتا ھے، جبکہ مکھن جیم جیلی وغیرہ جیسی پر تعیش چیزیں تو میرئے بچوں نے صرف ٹی وی پر ہی دیکھی ہیں وہ بھی پڑوسی کے گھر میں کہ ٹی وی خریدنے کی میری حیثیت نہیں۔ رات کی باسی روٹی چائے میں ڈبو کر کھا لیتے ہیں دودھہ چینی چائے کی پتی اتنی مہنگی ھوچکی ہیں کے صرف چائے کا وجود ناشتے میں شامل کرنے کے لئیے پندرہ سو روپے ماہوار خرچ کرنا پڑتے ہیں، گھر سے فیکڑی تک جانے میں بس کے کرائے کی مد میں ہر روز پچاس روپے خرچ ھوتے ہیں جو کے تقریباَ پندرہ سو روپے ماہوار بنتے ہیں، پان سگریٹ یا کوئی اور نشہ میں نہیں کرتا۔ )حدیث کا مفہوم ہے کہ( کوئی تمہیں دعوت دے تو تم ضرور جاو، مگر میں تو اس سعادت سے بھی محروم رہتا ہوں کہ کہیں شادی بیاہ میں جاوں تو عزت کا بھرم رکھنے کے لئیے کچھہ نہ کچھہ تو دینا پڑتا ہے جبکہ میرے پاس دینے کے لئیے صرف دعائیں ہوتی ہیں جو کے آج کے دور میں عزت بچانے کے لئیے ناکافی ہیں۔ مشقت اور مالی پریشانیوں کے باعث ہر وقت ڈپریشن میں رہتا ہوں جس کی وجہ سے شوگر کا مرض ھوگیا ھے جسکا علاج کم از کم دو ہزار روپے مہینہ نگل جاتا ھے۔ حدیث ھے کہ علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، مگر میں تو بچوں کو گلی کے نکڑ والے اسکول میں پڑھاتا ھوں اسکی بھی فیس ماہوار پانچ سو روپے فی بچہ بنتی ھے دو بچوں کے ہزار روپے ماہوار، نصاب اور یونیفارم کا خرچہ الگ ہے، گونمنٹ کے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی نیت سے بھیجنا بلکل ایسا ہی ہے جیسے بیل سے دودھہ نکالنا، کے وہاں سے بچہ اور تو بہت کچھہ حاصل کرسکتا ھے مگر تعلیم نہیں۔ عید کے عید اپنے بیوی کے اور بچوں کے کپڑے بناتا ہوں کے ہر ماہ یا ہر دو تین ماہ بعد کپڑے خریدنا میری جیسی آمدنی والے کے لئیے عیاشی کے مترادف ھے، موبائل فون میرے پاس نہیں ھے کہ میری دسترس میں ہی نہیں ھے ویسے بھی مجھے اسکی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کیوں کے میرے جیسے حالات رکھنے والوں کی خیریت دریافت کرنا کوئی گوارہ نہیں کرتا نہ ہی کسی کو مجھہ سے کوئی کام پڑتا ھے۔ پھل صرف بازاروں میں ہی دیکھتے ہیں ہم، دودھہ جیسی اللہ کی نعمت صرف چائے کے لئیے ہی استعمال کرتے ہیں، گوشت ہمیں صرف بقراء عید کے دنوں میں ہی میسر آتا ھے، بکرے کو تو کبھی بغیر کھال کے دیکھا ہی نہیں میرے بچوں نے۔ دال اور سبزیاں بھی اتنی مہنگی ھوچکی ہیں کے اب تو وہ بھی عیاشی کے زمرے میں آچکی ہیں۔ روز مرہ کے اخراجات جیسے کے سبزی وغیرہ کے لئیے سو روپے روز خرچ ھوجاتے ہیں جو کے مہینے کے تین ہزار بنتے ہیں۔ مفتی صاحب اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کے میرے ان اخراجات میں اسراف کہاں ھے؟ عیاشی کہاں ھے؟ کہاں کا تقویٰ کیسی قناعت؟ ان سارے اخراجات میں ناجائز کیا ھے؟ مفتی صاحب، میری تنخواہ دس ہزار ھے اور یہ جو میں نے آپکو انتہائی جائز اخراجات گنوائے ہیں سالانہ اور ماہوار ملا کر اوسطاَ بیس ہزار روپے مہینہ بنتا ھے جبکہ میری آمدنی دس ہزار روپے مہینہ ھے یعنی ہر ماہ دس ہزار روپے کا فرق، بتائیے یہ فرق کیسے مٹایا جائے؟، آپ نائب رسول ہیں امت کی زمہ داری ہے آپ پر، میں آپ سے سوال کرتا ہوں کے ان حالات میں کیا حکم ھے اسلام کا میرے لئیے؟ اور ان حالات میں بہ حیثیت مذہبی رہنما کیا زمہ داری بنتی ھے آپکی؟۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اسلامی حدود کب اور کس معاشرے پر نافذ ھوتی ہیں؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جنکا معاشی نظام آج بیشتر کفار ممالک میں نافذ ہے وہ نظام جس میں انسان تو انسان درختوں تک کا وظیفہ مقرر تھا، وہ نطام تو ہمیں بتاتا ھے کہ حکومت کی زمہ داری ھے کہ اپنے شہری کی جان، مال، عزت، روٹی، روزی، تعلیم، صحت، یعنی تمام بنیادی ضرورتیں انشور کرئے، مگر مجھے گورنمنٹ سے ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نہیں مل رہی۔ قحط کے دوران حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ہاتھہ کاٹنے کی سزا معاف کر دی تھی فرمایا کہ جب میں لوگوں کو روٹی نہیں دے سکتا تو مجھے انہیں سزا دینے کا بھی حق نہیں ھے۔ تو اگر ایسے معاشرے میں، میں اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے یہ دس ہزار روپے ماہوار کا یہ فرق مٹانے کے لئیے کوئی ناجائز زریعہ استعمال کرتا ھوں تو آپ مجھے بتائیں کے اسلام کا کیا حکم ھے میرے لئیے؟ اور بہ حیثیت نائب رسول آپکی کیا زمہ داری ہےِ؟۔ آپ جیسے سارے مذہبی اکابرین پاکستان کے مختلف شہروں میں ہر سال لاکھوں لوگوں کا اجتماع کرتے ہیں جس میں آپ بعد از مرگ کی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بہت تفصیل سے بتاتے ہیں قبر کے عذاب کے بارے میں بتانے ہیں جہنم سے ڈراتے ہیں، مگر یہ جو اٹھارہ کروڑ میں سے سولہ کروڑ لوگ جیتے جی جہنم جھیل رہے ہیں انہیں آپ انکے جائز حقوق کے بارے میں آگہی کیوں نہیں دیتے؟ اسلام نے شہری کے لئیے کیا حقوق وضع کیئے ہیں یہ آپ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟ لوگ آپ کے منہ سے نکلی بات کو اہمیت دیتے ہیں اسے اپنے ایمان کا حصہ بناتے ہیں، )سلمان تاثیر کا قاتل ممتاز قادری اسکی زندہ مثال ہے( عوام کے اس اہم مسئلے پر جس مسئلے پر صحیح معنوں میں ایک عام آدمی کی جنت اور دوزخ کا دارومدار ہے، اس اہم مسئلے پر آخر آپ گورنمنٹ کو کوئی ڈیڈ لائن کیوں نہیں دیتے کہ یا تو عوام کو اسلام کے مطابق بنیادی حقوق دو ورنہ ہم ان لاکھوں لوگوں کو لے کر حکومتی اعوانوں میں گھس جائیں گے، میں نہیں مانتا کے آپ سے اتنی محبت کرنے والے لوگ آپکی اس آواز حق پر لبیک نہیں کہیں گے۔ میرا ایمان ہے کے ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کی مثال سب کے سامنے ہے کے عوام کی بغاوت کے خوف سے کیسے ان ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو اربوں ڈالر کے پیکج دئیے ہیں، مجھے پورا یقین ہے کے علماء برادری کا دیا ہوا فتویٰ اور الٹی میٹم ہی کافی ہونگے ان بزدل حکمرانوں کے لئیے۔ کیا آپکی ذمہ داری نہیں بنتی کے آپ حکومت وقت سے مطالبہ کریں کے اسلام کے مطابق کم از کم تنخواہ دس گرام سونے کے برابر ھونی چاہیے، چلیں دس گرام نہیں تو پانچ گرام سونے کے مساوی تنخواہ کا مطالبہ کردیں۔ کیا آپکی زمہ داری نہیں بنتی کہ آپ فتویٰ دیں کے پاکستان جیسے معاشرے میں حدود نافذ العمل نہیں ہیں۔ میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں مفتی صاحب یہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے سولہ کروڑ لوگوں کا مسئلہ ہے اس پر آپکی یہ مجرمانہ خاموشی آپ کی ذات پر اور آپ کے منصب پر سوالیہ نشان ھے، میں وہ مفلس ہوں جسکے لئیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ نے فرمایا ھے کہ مفلسی کفر تک لے جاتی ھے، آپ جیسے علماء کے پیچھے کروڑوں لوگ چلتے ہیں آپ کی بات سنتے ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لوگوں کا حق بنتا ھے آپ پر کہ آپ لوگوں کے اس بنیادی مسئلے پر لب کشائی کریں فتویٰ دیں اور ان حالات میں اگر کوئی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے کوئی ناجائز ذریعہ استعمال کرتا ھے تو بتائیں لوگوں کو کے اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ھے؟. یہ سب کہنے کے بعد وہ شخص خاموش ھوگیا اور مفتی صاحب کی طرف دیکھنے لگا، مفتی صاحب بولے تمہاری ہر بات ٹھیک ھے لیکن اب تم مجھ سے کیا چاہتے ھو؟ میں آپ سے فتویٰ چاہتا ہوں کہ ایسے معاشرے میں حدود نافذ نہیں ھوتیں۔ یا تو گورنمنٹ پہلے عام آدمی کو اسلام کے مطابق تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ کرے پھر اگر وہ روزی کمانے کا کوئی ناجائز ذریعہ استعمال کرتا ھے تو اسے سزا کا مرتکب ٹھرائے۔ اگر گورنمنٹ ایسا نہیں کرتی تو عام آدمی اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئیے آزاد ہے کہ وہ جو بھی ذریعہ چاہے استعمال کرے، مفتی صاحب بولے میں ایسا نہیں کرسکتا اسطرح تو معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا سارا نظام درہم برہم ھوجائے گا انارکی پھیل جائے گی۔ وہ شخص بولا مفتی صاحب سولہ کروڑ لوگوں کی زندگی تو اس وقت بھی انتشار کا شکار ہے، انکی زندگی میں انارکی تو اس وقت بھی پھیلی ہوئی ہے، آپ کے فتوے سے تو صرف دس پرسنٹ لوگوں کی زندگی میں انتشار پھیلے گا اور یہ وہ ہی دس پرسنٹ لوگ ہیں جو نوے پرسنٹ کا حق مار رہے ہیں تو اگر آپ کے فتوے سے دس پرسنٹ کی زندگی میں انارکی پھیلتی ہے تو اسکا فائدہ تو نوے پرسنٹ لوگوں کو ملے گا یہ تو گھاٹے کا سودا نہیں ہے، اور ویسے بھی آپکا کام نفع نقصان دیکھنا نہیں، آپکا کام حق اور صحیح کی حمایت کرنا ہے کیا آپکو نہیں لگتا کے آپ کے اور آپ جیسے تمام علماء اور مفتی حضرات کی خاموشی کا فائدہ لٹیروں کو مل رہا ہے؟۔ عام آدمی تو مسلسل تنزلی کا شکار ہورہا ہے وہ نہ دین کا رہا نہ دنیا کا، کبھی غور کیا آپ نے کہ ایک عام پاکستانی کی زندگی کا مقصد ہی صرف دو وقت کی روٹی کا حصول بن چکا ہے، زندگی جیسی قیمتی چیز کو لوگ موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، سوچیں اس ماں کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہوگی جو اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو موت کی نیند سلانے پر مجبور ہورہی ہے، عزت دار گھر کی لڑکیاں عصمت فروشی پر مجبور ہوگئی ہیں، جن ننھے ننھے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں ان ہاتھوں میں گاڑی کی ونڈ اسکرین صاف کرنے والا وائپر ہے، آپکا سینہ اس وقت غم سے کیوں نہیں پھٹتا جب سخت سرد رات میں دس سال کا معصوم بچہ ابلے ہوئے انڈے بیچ رہا ہوتا ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں موبائل فون کی سم فری اور روٹی سات روپے کی ہے، کیا یہ انتشار نہیں ہے؟ کیا یہ انارکی نہیں ہے؟ کیا یہ سب ننگے حقائق آپکا دل دھلانے کے لئیے کافی نہیں ہیں؟ کیا بہ روز حشر آپ اللہ تعالی سے بھی یہ ہی کہیں گے کہ میں نے حق بات اسلئیے نہیں کہی کہ دس پرسنٹ لٹیروں کا نظام زندگی درہم برہم ہوجاتا انکی عیاشیاں ختم ہوجاتیں، دے سکیں گے آپ اللہ کے حضور یہ دلیل؟. میں آپ کے آگے ہاتھہ جوڑ کے التجا کرتا ہوں کے آپ اور آپ جیسے تمام علماء اکرام مفتی حضرات جب سلمان تاثیر کے خلاف فتویٰ دے سکتے ہیں، جب سنی حضرات شیعہ حضرات کے خلاف اور شیعہ حضرات سنی حضرات کے خلاف کفر کا فتویٰ دے سکتے ہیں، جب فرقے اور مسلک کے نام پر فتویٰ دے سکتے ہیں، جب فون پر سلام کے بجائے ہیلو کہنے پر فتویٰ دے سکتے ہیں، جب کسی اداکار یا کسی اداکارہ کے خلاف فتویٰ دے سکتے ہیں، تو پھر سولہ کروڑ لوگوں کے جائز حقوق کے لئیے فتویٰ کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟۔ مفتی صاحب بت بنے اسکی باتیں سنتے رہے اس اثناء میں وہ شخص جانے کے لئیے کھڑا ہوگیا اور بولا میرے ہر سوال کا جواب آپکی مجرمانہ خاموشی میں پنہاں ہے۔ بس اب آپ سے اور آپکی علماء برادری سے آخری بات یہ ہی کہوں گا کہ اب بھی اگر آپ لوگوں نے سولہ کروڑ عوام کے اس مسئلے پر مسجد کے منبر سے آواز حق بلند نہ کی تو ثابت ہوجائے گا کے آپ اور آپکی پوری علماء برادری بھی سولہ کروڑ عوام کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں آپ بھی ان ہی دس پرسنٹ لٹیروں میں شامل ہیں، آپکو اور آپکی علماء برادری کو بھی سولہ کروڑ عوام کے اس اہم اور بنیادی مسلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے پر برابر کا حصہ مل رہا ہے۔ یاد رکھئیے گا میری بات جس دن بھی عوام کے اندر پکا ہوا یہ لاوا پھٹا اس روز ان دس پرسنٹ مراعت یافتہ لوگوں کے ساتھہ ساتھہ عوام آپکی بھی پگڑیاں نہیں، سر اچھالے گی۔ اس سے پہلے کہ مفتی صاحب مزید کچھہ کہتے وہ شخص کمرے سے جاچکا تھا۔ —

Thursday, August 14, 2014

سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار

  ہمارا ماننا ہے کہ آدمی کو خدا کے اعتماد پر جینا چاہئے  

نہ کہ سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار پر
سیاسی اور سماجی حالات خواه کچهہ هوں
           لیکن   
 جس آدمی کو خدا پر حقیقی اعتماد هو

وه ہر حال میں یکساں طور پر مثبت نفسیات کا مالک بنا رہے گا

Tuesday, August 5, 2014

تقدیر کے کھیل

              زنا کرنے والوں کے نام ایک پیغام                 
نازیہ کا باپ ایک کامیاب وکیل تھا ،، ایل ایل بی کے ساتھ اس نے اسلامیات میں ماسٹر بھی کیا تھا اور عملی
زندگی میں بھی ایک نیک اور اچھا انسان سمجھا جاتا تھا ، محلے کی مسجد میں امام صاحب جب بھی چھٹی پہ جاتے تو امامت اور خطابت کی ذمہ داریاں نازیہ کے والد ھی ادا کرتے تھے ،، نازیہ ان کی اکلوتی اولاد تھی ،نہایت نیک فطرت اور باحیا بچی تھی تربیت بھی اچھی تھی وہ ابھی میٹرک میں تھی کہ والد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ھو گئے ،، ان کی شہادت پہ سارے بڑے بڑے مذھبی علماء ،،،وکلاء تنظیموں اور مذھبی پارٹیوں کے سربراھان نے تعزیتی بیانات دیئے اور پھر بس ،،، کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس گھرانے کا گزارہ کیسے چلتا ھے !! زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چل رھی تھی ، نازیہ بی اے میں تھی اور روزانہ ویگن سے ھی یونیورسٹی جاتی تھی ،،
ایک دن ھڑتال کی کال تھی ، والدہ نازیہ کو روک رھی تھی کہ وہ یونیورسٹی نہ جائے اس کا دل ھول رھا تھا کہ وہ سارا دن اس ٹینشن میں کیسے گزارے گی ؟ مگر نازیہ کا اصرار تھا کہ آج بہت اھم پیریڈ ھے اور اسے ھر حال جانا ھے ،، ایسے میں شومئ قسمت کہ نازیہ کی امی کو نازیہ کے پھوپھی زاد ذوھیب کا خیال آ گیا ، ذوھیب کا آفس بھی یونیورسٹی کی طرف تھا ،، تعلقات میں سرد مہری کے باوجود اس نے ذوھیب کی ماں سے کہا کہ وہ ذوھیب سے کہے کہ جاتے ھوئے نازیہ کو لے جائے اور واپسی پہ ڈراپ کر دے ،، اگرچہ نازیہ نے ماں کو منع کیا کہ وہ ان لوگوں کا احسان نہ لے مگر قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ھے ،، ذوھیب نے نازیہ کو گھر سے اٹھایا اور پھر اسے اپنے آفس ھی لے گیا کہ کچھ پیپر وھاں سے لینے ھیں پھر لے کر چلتے ھیں ،،مگر ذوھیب اس دن پھوپھی زاد نہیں ایک شیطان کا روپ دھار چکا تھا ،،،،،،،،،،،،،،، لٹی پٹی نازیہ کو گھر کے پاس ڈراپ کر کے وہ بھاگ نکلا ،،، نازیہ جونہی گھر میں داخل ھوئی ماں کو دیکھتے ھی اس پر ھیسٹیریا کا شدید دورہ پڑا ،، وہ اپنی ماں کے بال کھینچ رھی تھی تو کبھی اپنا سر دیوار سے ٹکرا رھی تھی پھر وہ غشی میں چلی گئ ،، نازیہ کی ماں نے نند کے گھر فون کیا کہ کیا ذوھیب واپس آیا ھے ،اس نے جواب دیا کہ اس کا آفس تو شام 5 بجے بند ھوتا ھے ،، نازیہ کی ماں نے پڑوس سے ایک نرس کو بلایا جو آغا خان اسپتال میں سروس کرتی تھی ، اس نے نازیہ کا معائینہ کیا ، اور جتن کے ساتھ اسے ھوش میں لائی ، ساری صورتحال علم میں آنے کے بعد نازیہ کی ماں خود بھی ڈیپریشن کا شکار ھو گئ ،، نند کو فون کیا تو اس نے پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیا ،میرا بیٹا تو ایسا ھو ھی نہیں سکتا ،،ھم نے اسے حلال کا لقمہ کھلایا ھے ،تم لوگ رشتہ دینے کے لئے ھمیں بلیک میل کرنا چاھتے ھو وغیرہ وغیرہ !!
اس دن کے بعد نازیہ نے یونیورسٹی کا منہ تک نہ دیکھا اور گھر کی ھو کر رہ گئ ،،
دو ماہ کے بعد نازیہ میں زندگی کے آثار واضح ھو چکے تھے ، گویا یہ ایک اور قیامت تھی کہ جس سے ماں بیٹی کو دوبارہ گزرنا تھا ،، یا تو بچے کا ابارشن کرا دیا جائے یا پھر جھٹ سے نازیہ کی شادی کر کے اسے کسی کے سر منڈھ دیا جائے ،، اسی پہ رات دن ڈسکشن چلتی ،، آخر نازیہ کی والدہ نے اپنی بہن سے رابطہ کیا اور اس کو صورتحال بتائے بغیر اس سے نازیہ کے رشتے کی بات کی ،، نازیہ کا خالہ زاد ثاقب صدیقی نہایت شریف دیندار اور کامیاب بزنس مین تھا ، اگرچہ والد اس کے بھی فوت ھو چکے تھے اور وہ بھی اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا !
شادی طے ھو گئ ، ڈولی کیا اٹھی جنازہ تھا جو روتے دھوتے اٹھایا گیا اور ایک غیر یقینی مستقبل کے حوالے کر دیا گیا ،، رخصتی کے وقت تو ھر دلہن روتی ھے مگر سسرال جا کر بھی جو دھاڑیں نازیہ نے ماریں وہ عرش ھلا دینے والی تھیں،،ان میں کسی کے لئے بدعائیں تو کسی سے التجائیں تھیں ،، پہلے ھی دن نازیہ کی نظر جب ثاقب پہ پڑی تو اس نے طے کر لیا کہ وہ اس شریف انسان کو دھوکہ نہیں دے گی ، وہ کسی اور کے جرم کی سزا کسی معصوم کو دینے سے ڈرتی تھی ،، قتل کے مقابلے میں وہ دھوکہ دینا ایک چھوٹا گناہ سمجھتی تھی مگر جس کو دھوکہ دینا تھا وہ جب سامنے آیا تو اسے دھوکہ دینا اسے قتل سے بھی بڑا گناہ لگا ،، اس نے رو رو کر ساری داستان ثاقب کو سنا دی اور اپنی قسمت کا فیصلہ اس پہ چھوڑ دیا ،، ثاقب یہ سب کچھ سن کر ھکا بکا رہ گیا ،، اس دنیا میں ایسا بھی ھوتا ھے ! یہ تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،، وہ خاموشی کے ساتھ عجلہ عروسی سے باھر نکل آیا !! نازیہ کی امی بھی بہن کے پاس ھی ٹھہر گئ تھی ، رات بھر دونوں بہنیں آپس میں دکھ سکھ بانٹتی رھیں مگر نازیہ کی امی نے اپنی بہن کو معاملے کی کوئی خبر نہ لگنے دی ، ساری رات اس کا دھیان اور اس کے کان اوپر کی منزل کی طرف لگے رھے ،، اسے ھول اٹھ رھے تھے ،وہ دل میں اللہ سے دعا کرتی رھی کہ وہ اس کا پردہ رکھ لے - ثاقب نے ساری رات ڈرائنگ روم میں چکر کاٹتے گزار دی ،، بات اگر صرف ریپ کی ھوتی تو وہ نازیہ کو اپنا لیتا ، اسے معلوم تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ھوئی ھے ،مگر بچہ ؟ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن گیا تھا ،،کیا میں کسی کے بچے کو اپنا نام اور خاندان دونگا ، یہ شرعاً کیسا ھو گا یہ تو علماء سے پتہ چلے گا مگر میں اس زھر کو پل پل گھونٹ گھونٹ کیسے پیوں گا ،،صبح ثاقب کی امی عجلہ عروسی کی طرف رواں دواں تھی کہ پیچھے سے ڈرائنگ روم کے دروازے سے ثاقب نے آواز دی " امی !! ماں نے پلٹ کر دیکھا تو بیٹے کی سوجی ھوئی سرخ آنکھیں اور دھکتا چہرہ ھی سب کچھ کہہ رھا تھا !
امی آپ نے میرے ساتھ یہ کیا کر دیا ھے ؟ وہ سسک پڑا ،،
کیا ھوا بیٹا ؟ ماں نے اسے گلے لگاتے ھوئے کہا ،پہلے دن کھٹ بٹ ھو ھی جاتی ھے ،بچی مانوس نہیں ھے ،،،،،، ، بس بس امی پلیز بس کر دیں ،، 
ایسا نہیں ھے ، امی جان ،،،،،،،،،،، نازیہ ذوھیب کے بچے کی ماں بننے والی ھے ،، ثاقب نے گویا گولہ فائر کر دیا ،، اس کی ماں کو ایک دفعہ چکر آگئے ، دھوکہ اور بہن کے ساتھ ؟ یہ میری نمازی تہجدگزار بہن کا تحفہ ھے ،،، وہ بڑبڑا رھی تھی ،، پھر وہ ثاقب کو انتظار کا کہہ کر نیچے اپنی بڑی بہن کے پاس چلی گئ ! جونہی وہ واپس کمرے میں داخل ھوئی آگے بہن تیار کھڑی تھی اس نے اوپر کی کھسر پھسر کو سن لیا تھا ،، ثاقب کی امی نے ابھی بات شروع کی تھی کہ بہن نے دوپٹہ اتار کر اپنی چھوٹی بہن کے قدموں میں ڈال دیا ،، میں ، میرا مرحوم شوھر اور میری بیٹی ھم سب بدنام ھو جائیں گے ! ھماری عزت آپ کے ھاتھ میں ھے ،،آپ بچے کی پیدائش کے بعد بے شک میری بیٹی کو طلاق دے دیجئے گا اور نئی شادی کر لیجئے گا ، ھم بچے کو پال لیں گے ،،مگر بس ایک نام کا سوال ھے تا کہ بچہ معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے ! ثاقب کی ماں کو چپ لگ گئ ،یہ بڑی بہن تھی جس نے اسے ماں کا پیار دیا تھا ،اور اس نے اسے ماں ھی کی جگہ سمجھا تھا آج وہ سر ننگا کیئے اس کے سامنے کھڑی تھی ،، وہ بہن جو اس کا سر دھوتی ،ج‍ؤئیں نکالتی تھی ، اسے سختی کے ساتھ سر ڈھانپنے کو کہا کرتی تھی آج تقدیر نے اسی بہن کو سر ننگا کر کے اس کے سامنے کھڑا کر دیا تھا ،، اس نے دوپٹہ اٹھا کر بہن کے سر پہ رکھا اور اسے سینے سے لگا کر رونے لگ گئ !
اوپر جا کر اس نے ثاقب کے سامنے یہی تجویز رکھی کہ وہ فی الحال صبر کر لے اور بچے کی پیدائش کے بعد نازیہ کو فارغ کر دے ،، یوں پورے خاندان کا پردہ رہ جائے گا ! مگر ثاقب آج پہلی بار ماں کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا ،، ایسا کسی صورت نہیں ھو سکتا میں ایک حرام کے بچے کو اپنا نام ھر گز نہیں دے سکتا - وہ غصے سے پلٹا ،،میں اس کو ابھی فارغ کر کے ماں کے ساتھ بھیجتا ھوں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، مگر ثاقب کی امی نے اس کا رستہ روک لیا ،، اور کچھ کہے بغیر اپنا دوپٹہ اتار کر بیٹے کے قدموں پر ڈال دیا ،، لگتا تھا وہ دوپٹہ نہیں سانپ تھا ،، ثاقب تڑپ کر پیچھے ھٹا اور ماں کے دوپٹے کو اٹھا کر ماں کے سر پر رکھا ،،ماں کا سر چوما اور گھر سے باھر نکل گیا !!
ثاقب صدیقی گھر سے نکل کر ساتھ کی مسجد میں چلا گیا ، اس نے اشراق پڑھی اور دعا کے لئے ھاتھ اٹھا دیئے مگر کیا مانگے اسے کچھ سمجھ نہیں لگ رھی تھی ،، ھاتھ مہندی سے رنگے تھے مگر وہ رنگ اسے اب ارمانوں کا خون لگتا تھا ،، وہ سسکتا رھا ،، مگر کچھ بھی نہ مانگ سکا ،، صرف ھاتھوں کا کشکول پھیلا کر رہ گیا ،، اسے سسکتا دیکھ کر امام مسجد صاحب بچوں کو قرآن پڑھتا چھوڑ کر اس کے پاس چلے آئے ،، کیا ھوا بیٹا ؟ کل کے دولہے کو سسکتے دیکھ کر وہ بھی حیران رہ گئے تھے ،، وہ اسے اٹھا کر حجرے میں لائے ،، حجرے میں ثاقب نے ان سے ساری بات کھول کر بیان کر دی ،،،،، امام صاحب گہری سوچ میں ڈوب گئے ، دیکھ بیٹا اللہ پاک جب کسی کا امتحان لیتا ھے تو اس آدمی کی استطاعت دیکھ کر لیتا ھے ،، اللہ نے تجھے بہت بڑے کام کے لئے چنا ھے اور میرا ایمان کہتا ھے کہ اس کا انعام بھی بہت ھی بڑا ھو گا،، نبی کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ بچہ اس کا ھے جس کے بستر پر پیدا ھوا ھے اور زانی کے لئے پتھر ھیں ،، یہ شرعاً تیرا بچہ ھو گا ،بیٹی ھو یا بیٹا ، اس کو نام تیرا ھی ملے گا ،، جو اللہ جانتا ھے وہ تم نہیں جانتے شاید اللہ نے اس بچے میں ھی تیری خیر رکھی ھے ، دیکھ وہ بچی مظلوم ھے اور تم بھی مظلوم ھو اور وہ بچہ معصوم ھے اور اللہ تم لوگوں کے ساتھ ھے ،، امام صاحب اسے کافی دیر سمجھاتے رھے ، وہ واپس گھر کی طرف چلا تو اس کا دل کافی ھلکا ھو چکا تھا ،
سات ماہ لوگوں کے لئے تو پل جھپکتے گزرے ھونگے مگر نازیہ ، ثاقب اور گھر والوں کے لئے وہ سات سال کے برابر تھے ،، نازیہ نے اپنا آپ بھلا دیا تھا وہ مٹی کے ساتھ ھو کر رہ گئ تھی ،گھر والوں کی تو جو خدمت اس نے کی وہ ایک الگ کہانی ھے ، اس نے اس گھر کو بھی شیشہ بنا کر رکھ دیا ،، رات کو اپنی خالہ کے قدم دباتے دباتے وہ وھیں ان کے پاس سو جاتی ،کبھی کبھار گزرتے ثاقب کو کسی چیز کی ضرورت ھوتی تو پوچھ لیتا ، ورنہ میاں بیوی کا آپس میں کوئی خاص انٹر ایکشن نہیں تھا ! سات ماہ بعد اللہ پاک نے نازیہ کو بچے سے نوازا اور یہاں بھی نازیہ کا پردہ رہ گیا ،بچہ نازیہ کی کلرڈ کاپی تھا ، باپ کی کوئی جھلک اس میں نہیں پائی جاتی تھی ، نازیہ نے سکھ کا سانس لیا ، وہ یہی سوچ سوچ کر پاگل ھوئی جا رھی تھی کہ اگر بچی بچہ ذوھیب پہ چلا گیا تو کیا ھو گا !
بچے کی پیدائش کے دو چار ماہ بعد دونوں میاں بیوی کی ھیلو ھیلو شروع ھو گئ تھی جو آئستہ آئستہ قربت میں تبدیل ھوتی چلی گئ ،، ادھر بچہ سال کا ھو گیا تھا ،،وہ جب ثاقب کی گود میں آ کر بیٹھتا تو ثاقب کے چہرے پہ ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا ،، نازیہ جھٹ سے بچہ اس کی گود سے اٹھا لیتی مگر وہ روتا اور لپکتا تھا ثاقب کی طرف،، کھڑی ماں کے ھاتھوں سے وہ ثاقب کی طرف لٹکتا اور اس کی طرف فریادی نظروں سے دیکھتا کہ وہ اسے ماں سے لے لے ،، پھر اس نے اسے پاپا پاپا کہنا شروع کیا تو ثاقب کی اذیت مین مزید اضافہ ھو گیا ، بچہ جس کا نام احسان اللہ رکھا گیا تھا ،، رات کو ضد کرتا کہ وہ پاپا کے پاس سوئے گا ،،مگر ماں اس روتے دھوتے کو اٹھا کر اپنے پاس سلا لیتی ، بعض دفعہ بچے کی آنکھ کھلتی تو وہ ماں کے پاس سے اتر کر ثاقب کے بیڈ پہ چلا جاتا اور اس کے سینے پہ ھاتھ رکھ کر سو جاتا ،، ایک دن ثاقب پھر امام صاحب کے پاس چلا گیا اور ان سے اپنی اس اذیت کا ذکر کیا کہ بچہ جب مجھے پاپا کہتا ھے تو میرے سینے پہ چھری چل جاتی ھے ،، اس پہ امام صاحب نے اسے سمجھایا کہ شریعت جب اسے اس کا پاپا تسلیم کرتی ھے تو اسے اتنی زیادہ ٹینشن نہیں لینی چاھئے ،،
دو سال گزر گئے تھے مگر ثاقب کے گھر کوئی نئ امید نہیں لگی تھی ،، آخر اس نے ایک ڈاکٹر سے رجوع کیا ،جس نے اسے بتایا کہ نازیہ کے ٹیسٹ کی تو فی الحال ضرورت نہیں البتہ وہ اپنا ٹیسٹ کرا لے ،،، ٹیسٹ کے لئے سمپل دے کر ثاقب گھر آ گیا ،،تیسرے دن وہ فالو اپ کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر کے چہرے کی پر ضرورت سے زیادہ سنجیدگی دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ! صدیقی صاحب آپ نے اس سے قبل کبھی یہ ٹیسٹ کرایا تھا ؟ جی نہیں ثاقب نے روانی میں جواب دیا ،، ویسے انسان کو شادی سے پہلے یہ ٹیسٹ ضرور کر لینا چاھئے تا کہ کسی کی بچی برباد نہ ھو ،، صدیقی صاحب ابھی کبھی بھی باپ بننے کے قابل نہیں ھیں ،، ڈاکٹر صاحب بول رھے تھے اور ثاقب کا سر گھوم رھا تھا ،، بیٹا مستقبل کو اللہ جانتا ھے ھم نہیں جانتے ، اس کی تقدیر کے پیچھے اس کی بڑی حکمتیں چھپی ھوتی ھیں ، اس کے کانوں میں مولوی صاحب کے الفاظ گونج رھے تھے !
وہ ایک ھارے ھوئے جواری کی طرح واپس لوٹا تھا ،، اور پھر اس نے تقدیر کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ، اس نے احسان اللہ کو اللہ کا احسان سمجھ کر قبول کر لیا اور ٹوٹ کر اسے پیار کرنے لگا ،، نازیہ بڑی حیرت کے ساتھ اس تبدیلی کو دیکھ رھی تھی مگر اس نے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ھی ثاقب نے اسے وجہ بتانے کی زحمت کی ! احسان اللہ کو مسجد میں مولوی صاحب کے پاس حفظ مین بٹھا دیا گیا ،بچہ بہت ذھین تھا ،، گھر والدہ اس کو اسکول کی تیاری بھی کراتی تھی ،حفظ مکمل کر کے احسان اللہ کو براہ راست پانچویں کلاس میں ڈال دیا گیا تھا !!
دوسری جانب ذوھیب کی شادی بھی نازیہ کی شادی کے پندرہ دن بعد کر دی گئ تھی ، اور اللہ نے اسے بھی بیٹے سے نوازا تھا ، بیتا ذھین تو تھا مگر لاڈ پیار نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا تھا ،، وہ بچپن سے ھی ضدی تھا جوں جوں بڑا ھو رھا تھا اس کی ضد اور ھٹ دھرمی میں اضافہ ھو رھا تھا ،، احسان اللہ نے جس دن ایم بی بی ایس مکمل کیا تھا ،، نازیہ اور ثاقب کے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے ،، اللہ پاک نے آج ان کے صبر کا پھل دے دیا تھا ؛؛ اگلے دن پتہ چلا کہ ذوھیب نے بیٹے کو رات نشے میں لیٹ نائٹ واپس آنے پر ڈانٹا جس پر بیٹے نے اینٹ باپ کے سر میں مار کر اس کا سر کھول دیا ،، بیہوشی کی حالت میں ذوھیب کو اسپتال داخل کر دیا گیا ،مگر بقول ڈاکٹر ذوھیب کی یاد داشت اور نظر دونوں کو خطرہ تھا ،، ایک دو آپریشز کے بعد نظر کا مسئلہ تو تقریباً حل ھو گیا ۔۔،مگر ذوھیب کی یاد داشت جواب دے گئ تھی اور اب وہ ایک خالی الذھن پاگل تھا ! وہ گھر سے باھر نکل جاتا ،کاروبار تباہ ھو گیا ،ذوھیب کو کبھی کسی درگاہ سے واپس لایا جاتا تو کبھی کسی نشہ خانے سے ، وہ چرس اور ھیروئین کے نشے کی لت میں مبتلا ھو گیا تھا ،، ایک دن ثاقب ،نازیہ اور احسان اللہ شاپنگ کر کے گاڑی میں واپس آ رھے تھے کہ ایک جگہ ان کی گاڑی رش میں پھنس گئ ، اچانک ایک فقیر نے گاڑی کی ڈرائیور والی کھڑکی پر آ کر شیشہ بجایا ،، احسان اللہ نے جو کہ گاڑی چلا رھا تھا جونہی گا ڑی کا شیشہ بھیک دینے کے لئے کھولا ،،کسی بچے نے اچانک اس فقیر کو دور سے پتھر دے مارا ،، فقیر کے سر سے بھل بھل خون بہنے لگا جو سیدھا احسان اللہ کے ھاتھ پہ گرا ،، اس نے جھٹ سے گھبرا کر شیشہ بند کر دیا ،، گاڑی آگے چلی تو نازیہ نےآئستہ سے ثاقب سے پوچھا " آپ نے فقیر کو پہچانا ؟ نہیں ثاقب نے جواب دیا ،، یہ ذوھیب تھا ،نازیہ نے جھرجھری لے کر کہا ! ثاقب نے چونک کر نازیہ کی طرف دیکھا اور اس کے کانوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول گونجا جو اس کو امام صاحب نے بتایا تھا ،بچہ اس کا ھے جس کے بستر پر پیدا ھو اور زانی کے لئے پتھر ھیں "
احسان اللہ نے پریکٹس کرنے کی بجائے سی ایس پی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور ڈائریکٹ اے ایس پی بھرتی ھو گیا، ابھی ٹریننگ مکمل کی تھی کہ بوسنیا کی جنگ میں جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت کو تحقیقات کے لئے پاکستان سے 25 پولیس افسروں کی ضرورت پڑی سب سے پہلے احسان اللہ کا انتخاب ھوا ،، 6 فٹ دو انچ کا احسان اللہ اپنے گورے رنگ اور انگلش کی وجہ سے انگریز ھی لگتا تھا ،، سارے افسر ڈیپوٹیشن سے واپس آ گئے مگر احسان اللہ کو اقوام متحدہ نے ریلیز کرنے سے انکار کر دیا ،، بوسنیا کے بعد روانڈا کے جنگی جرائم کی تحقیق بھی احسان اللہ کے ذمے تھی ،، نازیہ اور ثاقب بھی نیویارک میں اپنی بہو کے پاس ھیں ، اس دوران ذوھیب کو مردہ حالت میں کہیں سے اٹھا کر ایدھی والوں نے دفنا دیا تھا ،گھر والوں کو بعد میں خبر ملی تھی وہ ایدھی سنٹر گئے تو انہیں ذوھیب کے خون آلود کپڑے ،، سگریٹ ،ماچس اور 50 روپے پکڑا دیئے گئے

پڑوس کی جنت دال برابر

     ایک عورت     
"میں جب بھی گزارش کرتا ھوں کہ عورت سراپا وفا ھے
تو 
مرد حضرات اعتراض کرتے ھیں ،،
 اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں استثناء بھی ھے جیسا کہ ھر معاملے میں ھوتا ھے مگر عموماً عورت جو قربانی دیتی ھے وہ مرد سوچ بھی نہیں سکتے یا شاید مرد کی جبلت ھی ایسی ھے
 کسی عورت کا شوھر بیمار ھو تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ اسے چھوڑ کر کہیں اگلے کے ساتھ جا شادی رچائے ،،
 بعض لڑکیاں نامرد کے ساتھ عمر بتا دیتی ھیں
مگر ساس کے طعنوں اور بیٹے کو نئ شادی کرانے کی دھمکیوں کے باوجود یہ نہیں بتاتی کہ اس نے بیٹا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ دی ھے !
یہ شارجہ کا واقعہ ھے ،،
 ایک خاتون کے یہاں 3 بچے تھے ،دو بیٹے اور ایک بیٹی ، بڑا بیٹا 11 سال کا تھا پھر بیٹا تھا پھر بیٹی تھی !
 شوھر کا رویہ بیوی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں تھا ،
 اولاد بڑی حساس ھوتی ھے ،
وہ والدین کے معاملات کو جانتی ھوتی ھے
 اور
ظالم و مظلوم کو بھی پہچانتی ھے !
بیٹا کہا کرتا امی ابو آپ کے ساتھ بہت ظلم کرتے ھیں ،
ھم اپنی بہن پہ ایسا ظلم نہیں ھونے دیں گے ،،
 ھم اسے دور نہیں بیاھیں گے،
 ھم تین منزلہ گھر بنائیں گے نیچے میں رھونگا اوپر بہن کو رکھیں گے
اور
 سب سے اوپر دوسرا بھائی ھو اس طرح بہن دو بھائیوں کے درمیان رھے گی تو کوئی ظلم نہیں کرے گا !
یہی 11 سالہ بیٹا شام کو فٹ بال کھیلنے گیا ،،
بال کنپٹی میں لگا ،،
 وہ رات تو جیسے تیسے درد درد کرتے گزری اگلے دن اسپتال لے کر گئے
تو
 چیک اپ کے دوران ھی بیٹے کی زبان بند ھو گئ
پھر اس کے پورے بدن کو فالج ھو گیا ، صرف اس کی آنکھیں کھلی تھیں ،، ماں روز صبح اس کے سامنے جا کر بیٹھ جاتی اسے ادھر ادھر کی باتیں سناتی مگر وہ صرف دیکھ سکتا تھا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا ،، ماں کے لئے اس سے بڑھ کر اذیت کیا ھو گی کہ اس کا اس قدر ھمدرد بیٹا بے حس و حرکت اس کے سامنے لیٹا تھا اور ماں کی بات کا جواب نہیں دیتا تھا ،، اس کی ساری خوشیاں اور سوشل زندگی راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئ،، شوھر کا مطالبہ تھا کہ وہ ھار سنگھار کرے ،،مگر وہ کہتی تھی جس ماں کا بیٹا اس حال میں سامنے پڑا ھو وہ کیسے ھار سنگھار کر سکتی ھے ؟ اسٹوری گلف نیوز میں آ گئ ،کچھ عرصہ لوگوں نے مدد بھی کی مگر کب تک ! آئستہ آئستہ لوگ بھول گئے ،، شوھر بھی ناراض ھو گیا اس نے پہلے کمرہ الگ کیا پھر نئ شادی کر لی ! یہ ایک دو دن یا ایک دو ماہ کی بات نہیں ،، یہ چھ سال کا طویل عرصہ ھے ،جس میں 11 سال کا بچہ مونچھوں اور داڑھی والا جوان بن گیا ،بیڈ پہ لیٹے لیٹے ماں کےسامنے ھی اس کی مسیں بھیگیں پھر گھنی داڑھی نکلی ،، اور 17 سال کا کڑیل جوان ایک دن ماں کی گود میں سر رکھ کر مر گیا ،، چند آنسو تھے جو اس کے مرنے کے ساتھ اس کی آنکھوں سے گرے ،، اور چھ سال مسلسل کھلی آنکھیں آخر کار بند ھو گئیں ،،مگر وہ عورت غم کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ھوئی ،شوھر نے اپنی دنیا بسا لی تھی،، چھوٹے بیٹے کو نویں کلاس سے اٹھا کر سفاری والوں کے ساتھ لگا دیا جو تھوڑے بہت پپسے ملتے ان سے نظام چل رھا تھا ،،بیٹی کو وہ پڑھاتی رھی جو اس وقت گیارھویں میں پڑھ رھی ھے ! شوھر پہلے دوستوں کے برا بھلا کہنے پہ مکان کا کرایہ دے دیا کرتا تھا ،جو کہ اب وہ بھی بند ھے ،،ایک بیٹے کے دو یا ڈھائی ھزار میں وہ بیٹی کو پڑھائے ،مکان کا کرایہ دے جو کہ 1800 درھم ھے یا گھر کا روٹی کا نظام چلائے ،، اس کے آگے بھی اندھیرا ھے اور پیچھے بھی اندھیرا ھے ! درد بانٹنے والا بھی کوئی نہیں اور یادیں شیئر کرنے والا اپنی دنیا بسائے بیٹھا ھے ،، بیٹے کی تیمار داری کے دوران خود گرنے سے اس کی اپنی ریڑھ کی ھڈی کے مہرے بھی فریکچر ھو چکے ھیں،، بیٹی اسکول سے آ کر کچھ پکا کر کھلا دے تو کھلا دے ،، !
لوگ جنت ڈھونڈنے پتہ نہیں کہاں کہاں جاتے ھیں
 اور
 جنت ان کے پڑوس میں لگی ھوتی ھے !

تقوی

    تقوی    
ھر تمنا دل سے رخصت ھو گئ     
                                    اب تو آ جا ، اب تو خلوت ھو گئ 
جب آپ کو کسی کا سامنا کرنا ھو تو آپ سب سے پہلے اپنا جائزہ لیتے ھیں کہ آپ اس شخصیت کے شایان شان حال میں ھیں جس کا سامنا کرنے جارھے ھیں یا نہیں !
آپ اسے انتظار کرواتے ھیں تب تک اپنا حال درست کرتے ھیں ! 
اپنے کپڑے ،حلیہ ،، جوتے الغرض ھر چیز کو ری وزٹ کرتے ھیں !
جب انسان کو اللہ سے محبت ھو جاتی ھے تو وہ چن چن کر اپنی ھستی سے گند نکالتا ھے ،، اس وقت اسے یہ ھوش نہیں ھوتا کہ دوسرے کیسے ھیں اور کیا کر رھے ھیں، وہ اپنے حال پہ نگاہ ٹکائے دل کے نہاں خانوں سے کوڑا کرکٹ نکال رھا ھوتا ھے ،، وہ نارمل پانی سے نہیں بلکہ آنسوؤں کے پانی سے اس دل کو مل مل کر دھوتا ھے ! جب وہ اس کام میں لگ جاتا ھے تو اللہ پاک بھی اس کی مدد کرتا ھے اور اسے پاک صاف کرتا ھے نیز پھر گند لگنے نہیں دیتا کہ ابھی تو میرے بندے نے میری خاطر یہ گند نکالا ھے اور یہ شیطان خانہ خراب پھر گند ڈالنے آ گیا ھے ،، فرشتوں کی ڈیوٹی لگ جاتی ھے کہ اس شیطان کو اس سے دور رکھو ،، یہاں تک کے موت کے وقت بھی " تتنزل علیھم الملائکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا و ابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون ،، نحن اولیائکم فی الحیوۃ الدنیا و فی الآخرہ ،، 
مسجد میں آنے کے لئے صرف باھر کی زینت کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اندر بھی سنوار کر لانے کو کہا گیا ھے !
باھر کی شلوار سے زیادہ اندر کے سانپ کی فکر کرنے کا کہا گیا ھے ،،
ھو مبارک تمہیں سر جھکانا ، پھر بھی اتنی گزارش کروں گا !
دل جھکانا بھی لازم ھے زاھد ، سر جھکانا ھی سجدہ نہیں ھے !
ایسی نماز بندے کو رب سے ھر وقت جوڑے رکھتی ھے ،وہ کوئی بھی رویہ اختیار کرنے سے پہلے سوچے گا ،، یار اللہ بھی کیا سوچے گا کہ یہ کیا چول مار رھا ھے ! 
یار کتنی شرم کی بات ھے ، اللہ بھی کیا سوچے گا کہ میرا دوست کیا کرنے جا رھا ھے ؟
اللہ بھی کیا سوچے گا کتنا شرمناک رویہ ھے میرا !
اللہ بھی کیا سوچے گا کہ اس کے خیالات کتنے گندے ھیں اور چلا ھے میرا دوست بننے !
جس دن " اللہ کیا سوچے گا " اللہ کیا کہے گا " ھماری سوچ بن گئ اس دن ھماری ھستی میں سے گناہ مٹنا اور نیکیاں بسنا شروع ھو جائیں گی !
مجھے جب کوئی بندہ فرینڈ شپ کی درخواست بھیجتا ھے اور ساتھ ننگے پیج بھی لائک کیئے ھوئے ھوتے ھیں تو میرا دل کرتا ھے کہ اگر وہ میرے پاس ھو تو اس کے منہ پر چپیڑ ماروں ،، حالانکہ میں ایک گنہگار انسان ھوں ،سر سے پاؤں تک گناھوں سے بھرا ھوا ھوں !
فرینڈ شپ کی درخواست اللہ جل جلالہ کو ارسال کرنا اور اندر باھر گند بھر کر کرنا ،، کیسا غضب بھڑکتا ھو گا !
حجرے شاہ مقیم تے اک جٹی عرض کرے !
پنج مرن سہیلیاں تے سَتاں تو تاپ چڑھے !
کتی مرے فقیر دی جہڑی کاؤں کاؤں نت کرے !
اس تکیے دار فقیر نوں شالا " لا " دا ناگ لڑے !
میں بکرا دیاں گی پیر جی میرے سر دا کونت مرے !
گلیاں ھونڑ سوانجھڑیاں ،وچ رانجھنڑ یار پھرے !
حضرت دوست محمد قریشی فرمایا کرتے تھے ،، سارا تصوف ان اشعار میں ھے !
پانچ سہیلیاں پانچ مجلسی برائیاں ھیں جن کا ذکر سورہ الحجرات میں ھے !
سات لطیفے جن کا جاری ھونا طلب کیا گیا ھے !
کُـتی سے مراد لالچ ھے 
تکیے دار فقیر سے مراد نفس ھے ھے جو اللہ کی چیز پہ قابض ھو بیٹھا ھے !
لا کا ناگ کلمے کی لا سے ھر چیز پر کسی کی ملکیت کی نفی ھے ، کلمے میں الا سے زیادہ اھمیت لا کی ھے ،کیونکہ لا کے بغیر الا کے لئے جگہ بھی دستیاب نہیں ھے !
لا کے دروازے سے نفس نکلتا ھے تو الا کے دروازے سے اللہ پاک داخل ھوتا ھے !
سر کا کونت ،، تکبر اور خناس ھے !
یہ تمام رکاوٹیں دور ھو جائیں ،،کوئی میرے رحمان کو تنگ نہ کرے ،، یہ دل اس کے لئے مخصوص ھو جائے ،،بادشاھوں کے محلات کی طرح میرے اللہ کے لئے سجا رھے ،جب چاھے ، میرا محبوب تجلی فرمائے !!
بس دل کو اس طرح صاف ستھرا رکھنے ،، اس کا جائزہ ھر وقت لیتے رھنے کا نام تقوی ھے